روٹی نامہ کی تشریح روٹی نامہ کا خلاصہ روٹی کی فلاسفی کی تشریح
نظیر اکبر آبادی، میر و سودا کے ہم عصر تھے اور جن معاشی و سماجی مسائل سے میر و سودا دوچار رہے، ان سے قدرے ملتے جلتے حالات میں نظیر اکبر آبادی بھی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ میر وسودا نے دہلی کی غارت گری سے اثر لیا جبکہ نظیر آگرہ میں موجود ہونے کی وجہ سے براہ راست غارت گری سے محفوظ رہے، البتہ دہلی کے حملوں کے سیاسی و سماجی اور معاشی اثرات سے بالواسطہ متاثر ہوتے رہے۔ شہر آشوب کے جعفر زٹلی سے سودا تک کے معاصر شعرا نے معاشی بدحالی کا ذکر اپنی شاعری کےذریعےکیا ہے۔
نظم روٹیاں، روٹی نامہ : روٹی کی فلاسفی کی تشریح
نظیر اکبر آبادی نے عام نظموں میں بھی روپے، پیسے اور مادی وسائل کے انسانی زندگی اور سماج میں انسانی مقام و مرتبہ پر اثرات کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی مختلف نظمیں مثلاً ’’ کوڑی کی فلاسفی‘‘، ’’پیسے کی فلاسفی‘‘، ’’مفلسی کی فلاسفی‘‘، ’’ آٹے دال کی فلاسفی‘‘، ’’ روٹی کی فلاسفی‘‘ اور ’’پیٹ کی فلاسفی‘‘ براِہ راست معاشی نظمیں ہیں۔ اس طرز کی نظموں میں معاشی نظریات جزوی طور پر بیان ہوئے ہیں۔ نظیر پیشے کے اعتبار سے مدرس تھے، میلوں ٹھیلوں کے شوقین تھے اور قلندرانہ وضع کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، غریبوں، مفلسوں، بیکسوں اور مصیبت زدوں کی زندگیوں کا مشاہدہ عمیق کرتے تھے۔ ان کی طبیعت میں بے پناہ استغناتھا۔
نظم روٹی نامہ : روٹیاں - نظیر اکبرآبادی
روٹیاں
نظیر اکبرآبادی
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے اپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
Roti Nama Poem In Urdu
روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا
کرتا پرے ہے کیا وہ اچھل کود جا بہ جا
دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اچھل گیا
ٹھٹھا ہنسی شراب صنم ساقی اس سوا
سو سو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں
جس جا پہ ہانڈی چولہا توا اور تنور ہے
خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے
چولھے کے آگے آنچ جو چلتی حضور ہے
جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے
اس نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں
آوے توے تنور کا جس جا زباں پہ نام
یا چکی چولھے کے جہاں گل زار ہوں تمام
واں سر جھکا کے کیجے ڈنڈوت اور سلام
اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام
پہلے انہیں مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں
Nazeer Akbarabadi shayari in Urdu
ان روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں بور بور
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور
پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چور
ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور
اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
پھر پوچھا اس نے کہیے یہ ہے دل کا طور کیا
اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی جب آئی پیٹ میں سو قند گھل گئے
گلزار پھولے آنکھوں میں اور عیش تل گئے
دو تر نوالے پیٹ میں جب آ کے ڈھل گئے
چودہ طبق کے جتنے تھے سب بھید کھل گئے
یہ کشف یہ کمال دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو
بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں
اب آگے جس کے مال پوے بھر کے تھال ہیں
پورے بھگت انہیں کہو صاحب کے لال ہیں
اور جن کے آگے روغنی اور شیرمال ہیں
عارف وہی ہیں اور وہی صاحب کمال ہیں
پکی پکائی اب جنہیں آتی ہیں روٹیاں
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی سے ناچے پیادہ قواعد دکھا دکھا
اسوار ناچے گھوڑے کو کاوہ لگا لگا
گھنگھرو کو باندھے پیک بھی پھرتا ہے ناچتا
اور اس سوا جو غور سے دیکھا تو جا بہ جا
سو سو طرح کے ناچ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی کے ناچ تو ہیں سبھی خلق میں پڑے
کچھ بھانڈ بھیگتے یہ نہیں پھرتے ناچتے
یہ رنڈیاں جو ناچے ہیں گھونگھٹ کو منہ پہ لے
گھونگھٹ نہ جانو دوستو تم زینہار اسے
اس پردے میں یہ اپنے کماتی ہیں روٹیاں
اشرافوں نے جو اپنی یہ ذاتیں چھپائی ہیں
سچ پوچھئے تو اپنی یہ شانیں بڑھائی ہیں
کہئے انہوں کی روٹیاں کس کس نے کھائی ہیں
اشراف سب میں کہئے تو اب نان بائی ہیں
جن کی دکاں سے ہر کہیں جاتی ہیں روٹیاں
دنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے
یا دشمنی و دوستی یا تند خوئی ہے
کوئی کسی کا اور کسی کا نہ کوئی ہے
سب کوئی ہے اسی کا کہ جس ہاتھ ڈوئی ہے
نوکر نفر غلام بناتی ہیں روٹیاں
روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر
روکھی ہی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر
یا پتلی ہووے موٹی خمیری ہو یا فطیر
گیہوں جوار باجرے کی جیسی ہو نظیرؔ
ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں
نظم روٹیاں کی تشریح
روٹیاں نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظموں میں سے ایک ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم روٹیاں کو کہیں کہیں روٹی نامہ کے عنوان سے بھی بھی پیش کیا جاتا رہا ہے ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ اس نظم کا دوسرا عنوان روٹی نامہ ہے۔اس طرح سے یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ روٹیاں اور روٹی نامہ دونوں ہی نظیر اکبر آبادی کی نظم کا عنوان ہے۔ اس نظم کا مرکزی خیال بھی مفلسی سے کافی کچھ ملتا جلتا ہے جس طرح مفلسی انسان کو ذلیل وخواربنا دیتی ہے اُسی طرح سے پیٹ بھر روٹی کھا کر انسان دیوانہ اور بے خود بھی ہوجاتا ہے۔ روٹی کھا کر انسان تھوڑی دیر کے لئے اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔پیٹ بڑے ہونے پر وہ ہنستا ہے اور زور زور سے قہقہے لگاتا ہے۔ایک فقیر کو یہی روٹیاں چاند سورج کی طرح گول دکھائی دیتی ہیں۔ان کی آنکھیوں میں عیش کی عجیب و غریب سرمتی آجاتی ہے۔
Roti Nama | Nazeer Akbarabadi
اگر کسی آدمی کے پیٹ میں روٹی نہیں ہو اور وہ بھوک سے تڑپ رہا ہو تو کسی بھی چیز میں اس کا دل نہیں لگتا ہے۔ خواہ وہ روکھی سوکھی ہوئی روٹی ہی کیوں نہ ہو اسی سے اس کی زندگی میں بہار ہے۔
Nazeer Akbarabadi Ki Nazm in Urdu
روٹی وہ چیز ہے جو ہر انسان کو ہر حال میں مست رکھتی ہے۔ روٹی کمانے کے لئے کوئی کوئی آدمی اپنے کپڑے لال کیے ہوے رہتا ہے اور کسی کسی کے بال بڑھے ہوے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے طرح طرح کے کمال صرف اس روٹی کو حاصل کرنے کے لئے دکھاے جاتے ہیں۔ روٹی کے لئے آدمی کا جدو جہد ازل سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔
روٹی نامہ کے شاعر اور نظم روٹیاں کا حوالہ
یہ بند نظیر اکبرآبادی کی نظم روٹیاں سے ماخوذ ہے۔ اس نظم روٹی نامہ میں شاعر نے روٹی کی اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اشعار قلمبند کئے ہیں۔
روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا،
کرتا پرے ہے کیا وہ اچھل کود جا بہ جا،
دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اچھل گیا،
ٹھٹھا ہنسی شراب صنم ساقی اس سوا،
سو سو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں،
روٹی نامہ کے اس بند میں نظیر اکبر آبادی کہتے ہیں کہ جب انسان کا پیٹ روٹیوں سے خوب بھرا ہو تو اس کو کسی بات کی فکر نہیں رہتی وہ خوشی کے مارے اچھلتا کودتا پھرتا ہے۔ آدمی کا پیٹ بھرا ہونے پر ہی اسے ہنسی مزاق سوجھتا ہے اور اسی وقت محبوب، شراب، ساقی بھی یاد آتی ہیں۔ اور یہ روٹیاں ہیں جو ہم انسانوں کی زندگی میں سو سو طرح سے دھوم مچاتی ہے۔ مطلب آدمی خوشی کے عالم میں طرح طرح کے کام کرتا رہتا ہے۔
جس جا پہ ہانڈی چولہا توا اور تنور ہے،
خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے،
چولھے کے آگے آنچ جو چلتی حضور ہے،
جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے،
اس نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں!
نظیر فرماتے ہیں کہ بھولے انسان کے سامنے جب ہانڈی، چولہا، توا، ہو تو اسے وہاں خالق کی قدرت نظر آنے لگتی ہے۔ اور جب چولہے میں آگ جلتی ہے تو بھوکے آدمی کو وہ آگ میں نور ہی نور نظر آتی ہے کیونکہ اس آگ پر روٹی پکائی جاۓ گی اور بھوک میں آدمی کو روٹی کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا اس کو تو ہر چیز میں روٹی نظر آنے لگتی ہے۔
آوے توے تنور کا جس جا زباں پہ نام،
یا چکی چولھے کے جہاں گل زار ہوں تمام،
واں سر جھکا کے کیجے ڈنڈوت اور سلام،
اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام،
پہلے انہیں مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں!
بھوکے انسان کے سامنے جب توے تنور کا ذکر آتا ہے یا چکی چولہا جہاں ہو بس اس پر وہ سب خوشیاں قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس جگہ جھک کر سلام کرتا ہے کیونکہ یہی وہ خاص مقامات ہوتے ہیں۔ جہاں روٹیاں پکائی جاتی ہیں اور روٹی ہی تو سب کچھ ہے۔
مطلب روٹی کے آگے انسان سب خوشیاں قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اور بڑے سے بڑے کام کو بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
ان روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں بور بور،
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور،
پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چور،
ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور،
اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں!
نظیر کہتے ہیں کہ ان روٹیوں کے نور سے سب دل خوش ہیں۔ جب چھلنی میں آٹا چھانا جاتا ہے تو بھوکے آدمی کو وہ آٹا چھنتا ہوا نور نظر آتا ہے۔ اور جب روٹی پکانے کے لیے پیڑا بنایا جاتا ہے تو وہ اسے برفی اور لڈّو نظر آتا ہے۔ پیٹ کی آگ کو صرف روٹی ہی بجھا سکتی ہے کوئی اور چیز نہیں۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے،
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے،
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے،
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے،
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں!
نظیر کہتے ہیں کہ جب کسی نے ایک کامل فقیر (بزرگ) سے یہ پوچھا کہ خدا نے یہ چاند اور سورج کس لیے بناۓ ہیں۔ یہ سُن کر بزرگ نے کہا خدا تجھے سلامت رکھے ہم تو نہ چاند سمجھتے ہیں نہ سورج، ہمیں تو یہ سب روٹیاں ہی نظر آتی ہیں۔ یعنی بھوکے انسان کو ہر چیز روٹی ہی لگتی ہے۔
پھر پوچھا اس نے کہیے یہ ہے دل کا طور کیا،
اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا،
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا،
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا،
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں!
نظیر کہتے ہیں کہ اس شخص نے کامل فقیر سے پوچھا کہ یہ بتاؤ! دل کا نور کیا ہے اور جب اسکو دیکھا جاتا ہے تو کیا ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بات سُن کر بزرگ نے جواب دیا کہ تمہاری عقل کو کیا ہوا، دل پر کسی بات کا ظاہر ہونا، قبر میں مردے پر کیا گزر رہی ہے یہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اصل کشف/غیب کی بات کا ظاہر ہونا ہے۔
روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو،
میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو،
بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو،
سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو،
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں!
اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ اگر انسان کے پیٹ میں روٹی نہ ہو یعنی بھوکا ہو تو پھر اس سے کوئی کام نہیں ہوتا اور نہ کہیں گھومنے کا من کرتا ہے اور نہ ہی خدا کی عبادت کرنے کا من کرتا ہے اور کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ "بھوکے پیٹ بھجن” نہیں ہوتے یعنی عبادت نہیں ہوتی۔ روٹیاں ہی اللّٰہ کی یاد دلاتی ہیں کیونکہ بھوکا انسان اللّٰہ کو زیادہ یاد کرتا ہے۔
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے،
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے،
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے،
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے،
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں!
نظیر روٹی کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان روٹی کے واسطے طرح طرح کے جتن کرتے ہیں۔ کوئی روٹی حاصل کرنے کے لیے لال کپڑے پہنے ہوئے تو کسی نے بال لمبے کیے ہوئے ہیں۔ کوئی سر پر رومال باندھے ہوے ہے یعنی روٹی پانے کے لیے انسان طرح طرح کے روپ اختیار کر لیتا ہے۔
دنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے،
یا دشمنی و دوستی یا تند خوئی ہے،
کوئی کسی کا اور کسی کا نہ کوئی ہے،
سب کوئی ہے اسی کا کہ جس ہاتھ ڈوئی ہے،
نوکر نفر غلام بناتی ہیں روٹیاں!
نظیر کہتے ہیں کہ دنیا میں اب نہ برائی ہے نہ دشمنی ہے، یہاں کوئی کسی کا نہیں، سب لوگ اس کے ارد گرد گھومتے ہیں جس کے ہاتھ میں روٹی ہو۔ یہ ایک کہاوت ہے کہ جس کے ہاتھ روٹی اس کا سب کوئی، مطلب یہ کہ لوگ اسی کی باتیں مانتے ہیں جس سے ضرورت پوری ہو۔ نظیر کا کہنا ہے کہ دوستی، دشمنی، اچھائی، برائی، تلخی اور تیزی جو بھی ہے سب روٹی کی وجہ سے ہے۔
روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر،
روکھی ہی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر،
یا پتلی ہووے موٹی خمیری ہو یا فطیر،
گیہوں جوار باجرے کی جیسی ہو نظیرؔ،
ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں!
نظم کے آخری بند میں نظیر اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ روٹی کا انسان سے ازل (شروع) سے تعلق رہا ہے۔ بھوکے انسان کو سوکھی روٹی بھی دودھ اور شہد کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ چاہے وہ روٹی موٹی ہو یا پتلی، خمیری ہو یا چپاتی، گیہوں کی ہو یا جوار کی، کسی سے بھی بنی ہو، ہمیں تو ہر طرح کی روٹی اچھی لگتی ہے کیونکہ پیٹ بھرنے کے لیے روٹی چاہیے پھر وہ کسی کی بھی بنی ہو۔ بھوک میں انسان کو ہر طرح کی روٹی اچھی لگتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ تازہ ہے یا باسی۔ ہمیں تو بس روٹی چاہیے۔
سوال (۱) روٹی کے تعلق سے نظم کا پہلا بند تمام بندوں سے مختلف ہے کیسے؟
جواب: نظم کا پہلا بند دوسرے بندوں سے اس طرح مختلف ہے کہ اس بند میں روٹی ہونے کے فائدے بتاۓ ہیں کہ جب انسان کو بھر پیٹ روٹی مل جاتی ہے تو اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔ جبکہ نظم کے باقی بندوں میں یہ سچائی بیان کی گئی ہے کہ روٹی نہ ہو تو آدمی کو روٹی کے لیے سو سو جتن کرنے پڑتے ہیں اس کے علاوہ دوسرے بندوں میں انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی مجبوری کا بھی احساس کرایا ہے۔
سوال (۲) نظیر کو کس لقب سے یاد کیا جاتا ہے؟
جواب : عوامی شاعر کے لقب سے۔
سوال(۳) اردو نظم کا شیکسپئر کسے کہا جاتا ہے؟
جواب: نظیر اکبر آبادی کو۔
سوال (۴) نظیر کا اصل نام کیا ہے؟
جواب: شیخ ولی محمد
سوال (۵) نظم روٹیاں کا مرکزی خیال لکھئے۔
جواب: نظم روٹیاں نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ہے۔ اس نظم میں نظیر نے روٹی کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ روٹی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو کئی طرح کے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ روٹی نہ ملے تو انسان بھوکا مر جاتا ہے۔ روٹی کے لیے انسان طرح طرح کے پیشے اختیار کرتا ہے۔ روٹی کے لیے چوری چکاری اور غنڈہ گردی جیسا کام بھی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہیں اور جب روٹی پیٹ میں جاتی ہے تو وہ خوشی سے ناچنے لگتا ہے۔
0 تبصرے