Ticker

6/recent/ticker-posts

غزل کا فن، غزل کی تعریف، اردو غزل کا آغاز و ارتقاء، غزل کی خصوصیات

غزل کا فن، غزل کی تعریف، اردو غزل کا آغاز و ارتقاء، غزل کی خصوصیات

غزل کی تعریف

اردو شاعری میں غزل سب سے مقبول ترین صنفِ سخن ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی کا قول ہے کہ غزل اردو شاعری کی آبرو ہے ۔ اردو میں جب سے تنقید کا آغاز ہوا تب سے اب تک اُردو غزل مُختلف طرح کے اعتراضات کا نشانہ بنتی ہی رہی ہے۔ پھر بھی غزل کی مقبولیت کم نہیں ہوئی بلکہ وقت کے ساتھ غزل اور زیادہ مقبول ہوتی گئی اور اس کی خوصورتی بڑھتی ہی گئی۔ اور یہ بات واضح ہو گئی کہ غزل میں زمانے کے ساتھ رنگ بدلنے کے ساتھ ہر کسی کی ضرورت کو پورا کر نے اور ہر طرح کے مضامین کو ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ غزل کے متعلق اب یہ بات روزِ روشن کے مانند عیاں ہو گئی ہے کہ اس صنفِ سخن کو کھبی زوال نہ ہو گا۔

غزل کس زبان کا لفظ ہے؟ غزل کا لغوی معنی، غزل کیا ہے؟

اردو غزل کا آغاز و ارتقاء

غزل لفظ عربی زبان سے اُردو میں آیا ہے اور جس کے معنی میں عورتوں سے باتیں کر نا اورعورتوں کی باتیں کر نا ہے۔ اس صنفِ شاعری کو غزل کا نام اس لیے بھی دیا گیا ہے کہ حسن و عشق اس کا موضوع ہوتا ہے۔ مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ غزل کے موضوعات میں بھی بہت وسعت پیدا ہوتی چلی گئی اور آج کے موجودہ دور میں غزل میں تمام طرح کے مضمون اور خیلات کو پیش کرنے کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔

غزل کس زبان کا لفظ ہے

غزل پوری طرح سے عربی زبان کا لفظ ہے۔ اردو زبان کی مشہور لغات فیروز اللغات میں درج غزل کے لغوی معنی (Ghazal Meaning In Urdu) کے مطابق غزل کے معنی ٰ ’’عورتوں سے بات چیت کرنا ہے ‘‘ اور نول کشور پریس سے شائع شدہ ’’لغات کشوری‘‘ میں غزل کے دو معنیٰ بتائیے گئے ہیں۔جس میں غزل کا پہلا معنی ہے ’’ وہ شخص جو عورتوں کے عشق کی باتیں کرتا ہے ‘‘۔ اور دوسرے معنوں میں ’’کاتنا‘‘ ۔ ’’رسی بٹنا‘‘ یا ’’سوت ریشی‘‘ کے دیئے گئے ہیں ۔ اور یہ سبھی مفہوم ہو بہو عربی کے ٰہیں ۔ اگر غزل کے معنی ٰ عورتوں سے باتیں کرنا مراد لی جائے یہ پوری طرح مناسب نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہر عورت سے باتیں کرنا مطلب ماں سے باتیں کرنا ‘ معلمہ سے باتیں کرنا ، استانی یاٹیچر سے باتیں کرنا، بہن سے باتیں کرنا ، رشتہ دارخاتون و عزیز سے باتیں کرنا ۔ ان سب کو غزل کیسے کہی جائے گی ؟ حالانکہ نول کشور کے لغت کشوری میں دونوں طرح کے معنیٰ غزل کے معنوں میں درست ہیں۔غزل کے پہلے معنی کی مناسبت سے نوجواں لڑکے اور لڑکیوں کے درمیاں آپسی عشق و محبت کی باتیں ، راز ونیاز کی بات چیت‘ شکوے اور شکایتیں‘ روٹھنے منانے کی ادائیں ‘ وصل اور جدائی کی باتیں ‘ حسن و عشق کی جلوے اس طرح نوجوان لڑکے لڑکیوں کے بیچ میں ہونے والی عشقیہ باتوں کو غزل کے معنی میں لیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح غزل کا معنی صنف نازک سے لطف اندوز ہونا اور اس کے حسن و جمال کی تعریف کرنا ساتھ ہی اس سے عشق و محبت کا اظہار بھی کرنا ہے۔ اس طرح کے حسین جذباتی محبّت کی واردات کو غزل کہا جاتا ہے۔

Ghazal Ka Fun In Urdu | Ghazal Ki Tareef in Urdu

غزل اُردو شاعری میں بہترین صنفِ شاعری ہے جس میں ایک حسین و جمیل نازک سی دِلکش اور دل آویزی ہے ۔ یہاں تک کہ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ یہ عروسِ شاعری (Bride of Poetry) ہے جو ہمیشہ بام عروج پر رہی ہے اور ہمیشہ اہمیت کی حامل بھی رہی ہے ۔ غزل ہر دور میں ہر طبقہ میں، ہر تہذیب کے ساتھ ہر زمانہ میں خاص و عام کی نظر میں مقبول ترین صنف شاعری رہی ہے۔ غزل اپنے ماضی میں بھی تمام لوگوں کے دل کو لبھا تی رہی تھی اور آج دورِ حاضر میں بھی لوگ اس کے دیوانےہیں۔ اور یقیناً غزل کا جادو آئندہ بھی کم نہ ہوگا ۔ غزل کے متعلق یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ غزل اس صنف شاعری کو کہیں گے جس میں حسن وعشق سے متعلق مضامین کو شامل کیا جائے ۔ ہجر وصال کا تذکرہ ،سوز و غم کا ذکر ، وصل معشوق کی لذت اور اس طرح کی دوسری کیفیات واردات عشق و محبت شامل ہوں۔ آنکھوں سے آنکھیں چار ہونے کا اعلان اور ہوش و حواس گم ہونے کا ذِکراور ہمیشہ حسن یار میں مبتلا رہنا جیسےمضامین۔

Urdu Ghazal Ka Aghaz o Irtiqa

اُردو شاعری کی اس قدیم روایت کے مدنظر اردو ادب میں زیادہ تر کلاسیکل شاعری میں حسن و عشق کے مختلف کیفیات و واردات سے ہی متعلق مضامین ملتے ہیں ۔زیادہ تر پُرانی اُردو شاعری میں ان ہی کیفیات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح شاعری کی ابتدا میں یہ حسین صنف شاعری فقط حسن و جمال اورعشق و محبت کے رنگین وارداتوں کے ارد گرد گھومتی رہتی تھیں۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ اس وقت کی اردو شاعری فارسی شاعری کی مقلد تھی۔

Ghazal Ka Irtiqa In Urdu

اصنافِ سخن میں صنف غزل کی شروعات عربی ادب سے ہوئی ہے اور عرب صحرا پر مشتمل تھی۔ اس شاعری میں بہت کم یا نہیں کے برابر قدرتی مناظر کا فقدان مِلتا ہے۔عرب میں نہ ہی ہرے درخت ہیں اور نہ ہی خوشنما پھول پودے ہیں یہی خاص رہی کہ عربی ادب کی غزلوں میں زیادہ تر تمثیل اور راست بیانی ملتی ہے ۔


غزل کا فن، غزل کی تعریف، اردو غزل کا آغاز و ارتقاء، غزل کی خصوصیات

اس کے برعکس ایران کی فضاء عرب سےبالکل مختلف تھی یہاں میٹھے میٹھے پھل ، خوبصورت اور خوشبودارپھول ہرے بھرے درخت اور پہاڑ یعنی پوری طرح سے قدرتی حسین مناظر کی فراوانی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی فارسی شاعری اور خاص طور سے فارسی غزلوں میں بہترین میں علامتیں شامل ہوتی گئیں ۔ اسی طرح سے گلاب کا پودہ اور خوشبو، بلبل کا چہکنا ، سیپ اور موتی کی مثالیں ایران کی شاعری میں استعارے کی شکل میں شامل ہوتے گئے ۔ اردو شاعری خاص طور پر غزلوں میں بھی لوازمات کے طور پر شامل ہوتے گئے جو غزل کو اور زیادہ نکھارنے سنوانے اور اس کے حسین دامن میں چار چاند لگانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے گئے اس طرح عربی غزل کے برخلاف ایران کی فارسی و اردو غزل میں راست اظہارکی بہ جائے بالواسطہ اظہار کی مثال میں فارسی کا یہ شعر اکثر پڑھا جاتا ہے :

’’خوش تر آن باشد کہ سرد براں
گفتہ آید در حدیث گراں

اسی طرح اُردو غزل کے اشعار بھی دیکھئے ۔
’’سناتے ہیں انہیں افسانہ قیس
بہانے ہیں یہ عرض مدعا کے‘‘
غزل میں مُختلف طرح سے اظہار کے کئی طریقے موجود ہوتے ہیں جو غزل میں رائج بھی ہیں اور اس صنف سخن یعنی غزل کو ’’عروس سخن‘‘ کی طرح نکھار دیتے ہیں۔ جیسے تشبیہ، استعارہ ، کنایہ، مجاز مرسل ، تجسیم، تشخص، تلمیح اور دوسرے کئی صنائع و بدائیں معنوی اعتبار سے شامل ہیں۔ آئیے چند اشعار دیکھتے ہیں جو اظہار کے مختلف طریقے پر مشتمل ہیں :
تشبیہ :
’’ نازکی ان کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے‘‘
میر تقی میرؔ

غزل کی ابتداء اردو غزل کی مختصر تاریخ

غزل کی ابتداء سعودی عرب میں، عربوں کے ذیعے، عربی زبان میں ہوئی۔ عرب سے چل کر غزل ایران میں پہنچی اور فارسی زبان میں غزل نے بہت شہرت اور ترقی پائی۔ غزل فارسی ادب کے راستے سے اردوادب میں رفتہ رفتہ داخل ہوتی گئی اور ہر خاص و عام میں مقبول ہوتی چلی گئی۔

غزل کی خصوصیات | ردیف، قافیہ، مطلع، مقطع، شعر

غزل کے سبھی مصرعوں کا ایک ہی وزن اور ایک ہی بحر میں ہونا غزل کو اپنی الگ شناخت دیتا ہے۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے اور جس میں یہ خاص شرط ہے کہ اس شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ اور ہم ردیف بھی ہوتے ہیں۔ ردیف وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہوتاہے جو شعر کے آخر میں ہر بار دہرائی جائے۔ بعض غزلوں میں صرف قافیہ ہی ہوتا ہے۔ غزل کا وہ شعر یا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص (مختصر نام ) استعمال کرتا ہے اسے شاعری کی ااصطلاح میں مقطع کہا جاتا ہے ۔ جس کی مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

Ghazal Ka Akhri Sher Kya Kehlata Hai

ڈھونڈنے در بہ در گیا کوئی
دل کو لے کر کدھر گیا کوئی

آپ نفرت سے دیکھتے ہی رہیں
 پڑھ کے اُردو سنور گیا کوئی

میں بُرا اتنا تو نہیں بسملؔ
مجھ پہ الزام دھر گیا کوئی
( پریم ناتھ بسملؔ )

یہاں پر پہلا شعر مطلع ہے اور تیسرا مقطع۔ " گیا کوئی" ردیف ہے جو مطلع کے دونوں مصرعوں اور باقی اشعار کے دوسرے مصرعوں کے آخر میں دہرائی گئی ہے ۔ " در بہ در ، کدھر،سنور، دھر " یہ سب قافیہ ہیں۔

علاوہ ازیں غزل کی دوسری اہم خصوصیات یہ ہیں کہ غزل کا ہر شعر اپنا جداگانہ معانی دیتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ شعر آپس میں مل کر ایک معنی دیتے ہیں اس طرح کے اشعار کو " قطعہ بند " کہتے ہیں۔ عموماً غزل کے شاعر کو دو ہی مصرعوں میں مضمون کو مکمل ادا کر نا ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ غزل میں اختصار اور رمزیت و کنایہ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ غزل کی ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں قصیدے اور مثنوی کی طرح خار جی مضامین نہیں ہوتی بلکہ یہ داخلی صنفِ سخن ہے اور ہر شاعر اس میں وہی بیان کر تا ہے جو اس کے دل پر گزر رہی ہوتی ہے۔ غزل کے اہم موضوعات حسن و عشق ہوتے ہیں۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ غزل کا شاعر عموماً نرم مزاج، سبک لہجہ اور شرین زبان کا استعمال کرتا ہے ۔ حالا نکہ غزل کے متعلق اصل بات یہ بھی ہے کہ شاعر اس میں ہرطرح کے الفاظ استعمال کر سکتا ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ غزل کے شاعر کو لفظوں کے صحیح استعمال کا سلیقہ معلوم ہو۔ غزل بحر حال ایک غنائی صنفِ شاعری ہے ۔ غزل کو ترنم و موسیقی سے گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترنّم و موسیقی کی طاقت سے مشاعرے بہت مقبول ہو رہے ہیں اور اس میں غزلوں کی فرمائیش ہی کی جاتی رہی ہے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے