Ticker

6/recent/ticker-posts

خواجہ حسن نظامی کی انشائیہ نگاری انشائیہ کم آن مائی ڈئیر کا تنقیدی جائزہ

خواجہ حسن نظامی کی انشائیہ نگاری انشائیہ کم آن مائی ڈئیر کا تنقیدی جائزہ 

خواجہ حسن نظامی کی انشائیہ نگاری : خواجہ حسن نظامی مصور فطرت کے لقب سے اردو ادب میں مشہور ہیں۔ ان کی انشاء پردازی میں شہد کی طرح مٹھاس، دلکشی، سادگی اور بے تکلفی ہوتی ہے ۔ خواجہ صاحب کی خصوصیت یی تھی کہ وہ معمولی مضمون کو نہایت دلکش اور موثر بناکر پیش کرتے تھے ۔ ان کی زبان دلی کی ٹکسالی ،سادہ ، شگفتہ اور شیریں ہونے کی وجہ سے قبول عام حاصل کر چکی ہے ۔ عام طور پران کی تخلیقات میں دہلی کی پرانی تہذیب و معاشرت اور مغلیہ شہزادیوں کے واقعات نہایت دردانگیز پیرائے میں ہمیں ملتے ہیں۔

فن انشائیہ نثری صنف ادب میں بہت ہی لطیف اور پر لطف ہوتی ہے

فن انشائیہ نثری صنف ادب میں بہت ہی لطیف اور پر لطف ہوتی ہے۔ اس فن کے ذریعہ ادیب تفریح کا سامان بھی فراہم کرتا ہے اور ذہنوں کو متاثر کرنے والے جذبات بھی جگاتا ہے۔ بات سے بات پیدا کرنے کی خوبی انشاء میں موجود ہوتی ہے ۔ اس انشاء میں جنگ عظیم اول کی تباہ کاری کا تذکرہ ملتا ہے ، جنگ کی وجہ سے صرف انسانی جان ہی ضائع نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ کرہ ارض پر مفلسی، بیماری، غریبی، بھوک، بے اطمینانی پھیل جاتی ہے ۔ میدان جنگ میں صرف سپاہی ہی نہیں مرتے ہیں بلکہ انسانی موت ہوتی ہے ۔ ایک سپاہی سے متعلق لوگ براہ راست متاثر ہوتے تو دوسری طرف لاکھوں مسائل ابھر آتے ہیں ۔ ۱۹۱۶ کی جنگ عظیم اول مسلسل کئی برسوں تک لڑی گئی ۔ جنگ کی تباہ کاری کے بعد انسانیت مشکل آزمائش سے دوچار تھی ۔ پہلی جنوری ۱۹۱۷ کا استقبال کرتے ہوۓ خواجہ حسن نظامی نے ’’کم آن مائی دئیر‘‘ کے عنوان سے کئی گوشے تیار کر کے پیش کئے ہیں ۔ پہلی بات یہ بتائی ہے کہ مشرقی اقوام کے لئے جنوری کی خوشیاں منانا ایک غلامی اور محکومی کی نشانی ہے ۔ بالخصوص مسلمانوں کا نیا سال ہجری سنہ کے مطابق ماہ محرم سے شروع ہوتا ہے۔ جنوری کا استقبال کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ آج دنیا مغربی تہذیب کے غلبہ کو سال نور کی شکل میں مناتی ہے ۔

دوسری بات یہ بیان کی ہے کہ تقریبات میں رونق اور خوشیوں کا اختصار ہے۔ امن اور خوشحالی سے منسلک ہوتا ہے۔ جنگ کی تباہ کاری کی وجہ کر بنیادی ضروریات انتہائی گراں ہوگئی تھیں ۔ اس لئے روایتی طور طریقوں کے مطابق میٹھائی اور سامان ضیافت مہیا کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ جو چیزیں رسمی طور پر فراہم کی گئی ہیں۔ اس کو مہمان کے سامنے پیش کرنے والا میزبان خود اپنے کو زیادہ مستحق سمجھ کر دہان کے سامنے سے واپس لے لینا چاہتا ہے۔ لیکن مشرقی آداب کا لحاظ دامن گیر ہوتی ہے مشرقی لوگ بے حدا یثار ا ور قربانی سے کام لیتے ہیں خود بھو کے رہتے ہیں ۔ مہمان نوازی کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں ۔ اس انشائیہ میں خواجہ حسن نظامی نے وقت کی فطرت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے وہ کسی کی دعوت اور مہمان نوازی کو کبھی خاطر میں نہیں لاتا ہے ۔ وہ بغیر دعوت ہی آجا تا ہے ۔ اس انشائیہ میں خواجہ صاحب نے بڑی خوبی سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جنوری میں عموما موسم بہت سرد اور کہرآلود ہوتا ہے کمبل اور لحاف کے اندر ہی شب وروز گذرتے ہیں ۔ غربت اور تنگ دستی اس موسم میں ہلاکت خیزی کا سامان فراہم کرتی ہے ۔ اس لئے خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ سوئی دھاگے ، رنگ اور دوسری روزمرہ کی چیزیں سستی ہونی چاہیئے تاکہ لوگ اپنی زندگی بچاسکیں ۔

کل کی جنوری اگر پیغام امن لے کر آئی ہے تو قابل استقبال ہے

آخر میں بڑی دردمندی کے ساتھ موصوف نے التجا کیا ہے کہ کل کی جنوری اگر پیغام امن لے کر آئی ہے تو قابل استقبال ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے بعد لوگوں کو راحت حاصل ہو گی ۔ سامان ضرورت ارزان ہونے سے لوگوں کی تکلیف دور ہوگی ۔ عام طور پر انشائیہ کے اندر کسی ایک موضوع سے متعلق تمام گوشے تو بیان نہیں ہوتے ہیں ۔ لیکن ادیب کی یہ کوشش ضرور ہوتی ہے کہ مرکزی موضوعات سے متعلق مختلف گوشے لازمی طور پر بیان ہوں ۔ فن انشائیہ کے جملہ لوازمات کی روشنی میں خواجہ حسن نظامی ایک کامیاب انشائیہ نگار کی شکل میں ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے