Ticker

6/recent/ticker-posts

اختر اورینوی کے افسانہ کوئلے والا کا تنقیدی تجزیہ | افسانہ کوئلے والا کا تنقیدی جائزہ

اختر اورینوی کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ

سوال : اختر اور بیوی کے افسانہ کوئلے والا کا تنقیدی جائزہ لیجئے ۔

جواب : اختر اور بیوی ایک بہترین صاحب فن افسانہ نگار ہیں ۔ اس افسانہ میں انھوں نے غربت اور افلاس کی زندگی کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ، انسانی نفسیات اور مسائل ِزندگی کے کئی گوشوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایمان اور اخلاق کا رشتہ پیٹ کے مسئلہ سے جوڑ نے کی بہترین کوشش کی ہے ۔

اس افسانوی خاکہ کا مرکزی کردار ’’رمضانی‘‘ نامی کوئلہ والا ہے، وہ ادھیڑ عمر کا ہے، ایک بیوہ کوئرن کے ٹوٹے ہوۓ گھر کوٹھٹھیروں سے گھیر کر اپنے اہل خاندان کے ساتھ رہتا ہے ۔ اس کے ساتھ ایک دمہ کی ستائی ہوئی بیوی اور چند صحت کے کمزور سو کھے سوکھے بچے ہیں۔ رمضانی پہلے لکڑی کی پھیری کرتا تھا اور اب کونکہ بیچتا ہے۔ وہ روزانہ صبح سویرے اپنے علاقہ میں آواز لگا کر ایک بوسید ہ ٹھیلہ پر کوئلہ بیچنےنکتا ہے ۔گا ہک کی حقارت آمیز جملے ،ڈانٹ پھٹکارسنتا ہوا اپنا کام کرتا جا تا ہے ۔ اس محنت کے باوجود وہ قرض کے بوجھ میں دبا ہوا ہے۔ بنیا، خوانچہ والے، کپڑے والے، مہاجن اور کوئلہ والے سیٹھ کی جھرکیاں اور تقاضے برابر سنتا ہے۔ اس کی بیوی مسلسل دمہ کی مریض ہے ، بچے نیم فاقہ رہتے ہیں اور وہ خود بھی اکثر بھو کے ٹھیلہ لے کر کل جاتا ہے۔ اس ستم زدہ زندگی میں وہ اکثر سوچتا ہے کہ حلال کی کمائی اور محنت سے روزی حاصل کر نا محال ہے لیکن وہ چوری، بے ایمانی اور حرام خوری سے اس لئے بچا ر ہتا ہے کہ اکثر وہ محفل میلا داور مجلس وعظ میں شرکت کرتا ہے۔ اخلاق و ایمان کی جو باتیں سنتا ہے اس کی پابندی کرتا ہے بلکہ اپنے ہمسایہ اور پڑوسیوں میں بھی اس کی تبلیغ فرماتا ہے ۔ اس کا احساس اس طرح زندہ رہتا ہے اور اس کی روح کی پاکیزگی حاصل ہوتی رہتی ہے ۔
اس افسانہ کا نقطہ عروج ( Climax ) بہت ہی دردناک ہے ۔

افسانہ کوئلے والا کا تنقیدی جائزہ

رمضانی دو( ۲ ) دن سے پیار تھا۔ بچے بھو کے تھے۔ بیوی پر دمہ کا اثر بڑھا ہوا تھا۔ آسمان سے مسلسل موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ سر چھپانے کی جگہ اس کی جھونپڑی میں میسر نہ تھی۔ باہر کے پانی کا ریلا تھا۔ اور ٹھٹھیر کی چھت جگہ جگہ سے ٹپک رہی تھی۔ اس کو اس حالت میں اپنے کوئلہ سے لدے ہوۓ ٹھیلہ کا خیال آتا ہے ، ووفوراً باہر نکلتا ہے ایک گیندڑا ڈال کر ٹھیلہ کو بڈھک دیتا ہے تا کہ کوئلہ بھیگنے سے بچ جائیں، جب صبح ہوتی ہے تو وہ پا تا ہے کہ گیندڑ ا اور کوئلہ دونوں بالکل بھیگ گئے تھے ۔بھیگے کوئلہ کو بیچنا ناممکن تھا۔ اس لئے کوئلہ بدلنے کی غرض سے ٹھیلہ لے کر سیٹھ کے گدام تک جا تا ہے ۔ان کی خوشامد کرتا ہے تا کہ سوکھے کوئلے دیکر اس پر رحم کیا جاۓ۔

اردو افسانہ کوئلے والا کا تنقیدی جائزہ

دو ( ۲ ) روز کا فاقہ ہےلیکن بے رحم سیٹھ سخت پتھر ثابت ہوا۔ اس نے منشی کو اشارہ کیا کہ کوئلہ ٹھیلہ سے اجھل ڈالے ، خالی ٹھلیہ رمضانی کو واپس کر دیا گیا۔ ایک امید تھی وہ بھی رخصت ہوئی خالی ٹھیلہ لے کر بے خیالی میں اپنی قسمت پرانسوس کرتا ہوا ’رمضانی‘ جانی پہچانی گلیوں سے گذرتا ہے۔ عادت کے مطابق شور کر تا ’’کوئلہ لو کوئلہ لے لو ‘‘ لیکن جب خالی ٹھیلہ کا خیال آتا ہے تو خاموش ہو جا تا ہے ،اچا نک اس کو یاد آ تا ہے کہ پیش کار صاحب کے یہاں ایک من کوئلہ کا دام باقی ہے۔ فوراً لپک کر دروازے پر دستک دیتا ہے۔ اندر سے آواز آتی ہے ٹھہرو! ایک لڑکا دومن کوئلہ کا دام ایک رو پیہ دو آنہ لے کر حاضر ہوتا ہے ۔ وہ چمکیلے سکہ لے کر فو راً پلٹ آتا ہے۔ لیکن نو (۹) آنے اس کے نہیں تھے۔ اس کا دوسرا پھیری دار پر شادی اسی گلی میں کوئکہ بیچتا تھا۔ ایک من کا دام اسی کا تھا ، لیکن اس وقت حلال اور حرام کی کشمکش میں مبتلا رمضانی دو روز کے فاقہ سے نڈھال تھا ۔بھوک کی فتح ہوتی ہے ایمان کی چنگاری بجھ جاتی ہے، پر شادی کا پیسہ بھی وہ لے کر چلا جا تا ہے ۔

اس افسانہ میں بہت خوبی کے ساتھ افسانہ نگار نے غربت کی بے بسی اور المنا کی کا ذکر فرمایا ہے۔ انسان کی داخلی اور خارجی زندگی کے اعمال کو معاشی خوشحالی یا بد حالی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔یہ کوشش بہت کامیاب ہے۔ مفلسی اور مجبوری کی ایک سچی تصویر ہمیں اس افسانہ میں ملتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے