Ticker

6/recent/ticker-posts

راجندر سنگھ بیدی کی تخلیق لمس کا جائزہ | راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری

راجندر سنگھ بیدی کی تخلیق لمس کا تنقیدی جائزہ

راجندر سنگھ بیدی کی تخلیق لمس کا جائزہ، راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری : راجندر سنگھ بیدی ایک مشہورا ور کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں ۔ ان کی افسانوی کہانیوں میں ہندوستانی معاشرہ کی ایک جھلک ملتی ہے۔ ہندوستان ایک عظیم زراعتی ملک ہے ۔ اس کی کثیر آبادی گاؤں کی باشندہ ہے ، جو علم و ادب سے نا آشنا ہوتی ہے ۔ قدرت کے حسن کی لذت ان کسانوں کو متاثر کرتی ہے ۔ تقریبات کی خوشیاں میں وہ میلے، تہواروں کی شکل میں حاصل کرتے ہیں ۔ ان کی نفسیات کی ایک تصویر اس افسانہ لمسی میں راجندرسنگھ بیدی نے پیش فرمائی ہے ۔ عام گنوار دیہاتی کے دل میں مشاہدہ و تجربات کی فطری خواہش ہوتی ہے جب تک کہ وہ کسی چیز کو چھوکر اچھی طرح دیکھ نہیں لیتا ہے۔ اس وقت تک اس کو تسکین نہیں ہوتی ہے ۔ اسی جذبہ کی ایک تصویر ہم لمس میں پڑھتے ہیں ۔ جیون رام جی کا ایک مجسمہ نصب ہو رہا تھا۔ اس کی نقاب کشائی کی تقریب کے موقع پر ایک جم غفیر امڈ آئی تھی لوگ محوحیرت تھے کہ یہ مجسمہ کیوں بنایا گیا ہے ؟ جیون رام جی میں کون سی ایسی خوبی تھی کہ مرنے کے بعد وہ دیوتا کی طرح قابل پرستش ہو گئے ہیں ۔

افسانہ لمسی میں راجندرسنگھ بیدی نے عام گنوار دیہاتی کے دل میں مشاہدہ و تجربات کی فطری خواہش پیش کی ہے

مجسمہ کی نقاب کشائی کی تقریب دیکھنے کے لئے وہ لوگ کئی گھنٹوں سے منتظر بیٹھے تھے ۔ بالاآخرایک انگریز افسراور راجہ مہندر سنگھ کا جلوس آپہنچا۔ نقاب کشائی کی تقریب ادا کی گئی ۔ لوگ محسوس کرنے لگے کہ نقاب کشا را جہ مہندر سنگھ بھی جلد ہی مجسمہ کی جگہ لینے والا ہے ۔ جیون رام سنگھ جی کے متعلق ہر ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ وہ کیوں آج دیوتا بن گئے ہیں ۔ سیواسمتی والوں نے بتایا کہ جیون رام جی بڑے ضحی اور سماج سیوک تھے۔ انہوں نے عورتوں کے لئے بہت اصلاہی کام کئے تھے۔ انہوں نے ودھوا آشرم بنوائی ہے۔ الغرض سیلوا سمیتی والوں کی زبانی مرحوم جیون رام کی کارگزاری کا انوکھا تذکرہ سن کر دیہاتی عوام اپنے طور پر تجربہ کرتی رہی ۔ اکثر اس خیر میں شر کے پہلو کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ اس زمانہ میں راجہ اور بڑے زمیندارقسم کے لوگوں کا مشغلہ ہی کچھ اس قسم کا تھا کہ اس ولایتی شراب اور ہندوستانی شباب کے شغل میں رہا کرتے تھے اور اسی کارگزاری کے سبب ان کو رائے بہادر اور خان بہادر کے خطاب دیئے جاتے تھے ۔

دیہی عوام کی نفسیات اور ذہنی پرواز کی اچھی جھلک افسانہ لمس میں ہے

جو شخص اندر سے جتنا سیاہ ہوتا تھا۔ اس کو اتنا ہی سفید بنا کر پیش کرنے کافن انگریزوں کے پاس تھا ۔ الغرض جیون رام جی کے مجسمہ کے متعلق اسی قسم کے خیالات دیہاتی عوام کے ذہن میں ابھر رہی تھے ۔ تقریب کے خاتمہ کے بعد بھی دیہاتی عوام مجسمہ کو ہاتھوں سے چھو کر دیر تک دیکھتی رہی ، یہاں تک کہ سفید سنگ مرمر کی مورت لمس کی وجہ سے سیاہ ہوگئی۔ اس دیہی عوام کی نفسیات اور ذہنی پرواز کی اچھی جھلک اس افسانہ میں پیش کی گئی ہے ۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے