Ticker

6/recent/ticker-posts

راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ لاجونتی کا تنقیدی جائزہ | لاجونتی افسانہ کا خلاصہ

راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ لاجونتی تجزیاتی مطالعہ

راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ لاجونتی : لاجونتی راجندر سنگھ بیدی کا بہترین افسانہ ہے۔ اردو نثر کی سب سب سے مقبول ترین صنف کا نام افسانہ ہے۔ افسانہ کو انگریزی زبان میں SHORT STORY بھی کہا جاتا ہے۔افسانہ ایک طرح کی ایسی نثری کہانی ہوتی ہےجس میں کسی بھی شخص کی زندگی کا ایک خاص اور دلچسپ پہلو کو کہانی کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں شرط یہ ہے کہ اس کہانی میں ابتداء،ارتقاء او ر خاتمہ بھی ہو۔لیکن افسانے کا فن اتنا آسان بھی نہیں ہوتا ہے۔ اس کے لئے کچھ معیارات بھی ہیں جو افسانے کی کامیابی کی راہ کو مجید ہموار کرتے ہیں ۔ اس کام کے لئے یہ بےحد ضروری ہے کہ افسانہ مختصر ہو لیکن جامع اور مربوط پلاٹ کے تحت تخلیق کیا جا نا بہت ضروری ہے۔

راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ لاجونتی : سے بہت پہلے ہی اردو افسانہ نگاری کا آغاز نصف انیسوی صدی میں ہو چکا تھا پھر بھی اس کی باقاعدہ اور معیاری بنیاد منشی پریم چند کی افسانہ نگاری نے ہی رکھی۔ منشی پریم چند نے اردو افسانے کو مستحکم بنیاد فراہم کئے۔ منشی پریم چند کے بعد اردو میں افسانہ نگاری کی تاریخ میں کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی ،سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ چاروں بڑے اور معتبر افسانہ نگار قرار دئے جاتے ہیں انہوں نے فنِ افسانہ نگاری کو عروج پر پہنچایا ہے۔ یہ ایسے باکمال افسانہ نگار تھے جنہوں نےاردو افسانہ نگاری میں موضوع کی وسعتیں اور گہرائی پیدا کیں۔ ان میں راجندر سنگھ بیدی ؔ کی شخصیت امتیازی اور نمایاں ہیں ۔ راجندر سنگھ بیدی خارجی احوال سے زیادہ انسان کے باطن کی واردات پر خاص توجہ دیتے ہیں ۔راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں کردار زندگی کی پیچیدگیوں اور محرومیوں کی جیتی جاگتی تصویر بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔

راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ لاجونتی : راجندر سنگھ بیدیؔ : ۱۹۱۵۔۱۹۸۴

اردو افسانے کی تاریخ میں راجندر سنگھ بیدی ؔ کا نام ایک نمایاں فنکار کی حیثیترکھتاہے۔بیدیؔ کی پیدائیش ۱۹۱۵ ء کو سیالکوٹ پاکستان میں ہوئی۔راجندر سنگھ بیدی کی والدہ سیوا دیوی ہندو برہمن تھیں اور والد ہیرا سنگھ ذات کے کھتری تھے۔راجندر سنگھ بیدی کے خاندان کے لوگ مقدس وید کو اپنا گرنتھ ماننے کے باعث بیدی کہلاتےہیں۔راجندر سنگھ بیدی ؔ کی ادبی زندگی کی شروعات۱۹۳۲ میں ہوئی۔ ابتداء میں راجندر سنگھ بیدی نے محسن لاہوری کے نام سے افسانے لکھنے کی شروعات کی جو اس وقت کے مقامی اخبارات اور کالج میگزین میں شائع ہوئے۔ان کے افسانوی مجموعوں میں کل باسٹھ افسانے۔سات مضامین اور خاکے بھی شامل ہیں۔سات مضامین اور سات خاکے ایسے ہیں جو کسی کتاب میں شامل نہیں ہو سکے ہیں ۔راجندر سنگھ بیدی کا پہلا افسانوی مجموعہ دانہ و دام ۱۹۴۰ میں منظر عام پر آیا تھا۔اس مجموعہ کے بعد گرہن ۱۹۴۳،کوکھ جلی ۱۹۴۹،اپنے دکھ مجھے دے دو،ہاتھ ہمارے قلم ہوئے اور مکتی بودھ جیسے افسانوی مجموعے بھی منظر عام پر آتے گئے ۔ ان تمام افسانوں میں بیدی کا انفرادی رنگ صاف طور پر نمایاں ہے ۔ ان کے فن پاروں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں کے ساتھ ان کے رنگارنگ ماحول اور زندگی کے اتار چڑھاؤ سے ایک جہان معنی خلق کیا گیا ہے۔۱۹۸۴ کو راجندر سنگھ بیدی ؔ ممبئی ، ہندوستان میں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔

راجندر سنگھ بیدی ؔ نے زندگی کی محرومیوں، مجبوریوں، بصیب کے اتارچڑھاؤ ،پنجاب کے بدحال ماحول میں لوگوں کی بپتا ،نیم تعلیم یافتہ خاندانوں کی رسم و رواجوں،رواداریاں ،پرانی دنیا اور نئے خیالات کی آمیزش ،معاشرے میں رائج روایات کے بندھنوں کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہ ان کے تمام نتائج سے بھی بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔اسی لئے بیدی کے افسانوں میں انسانی زندگی کی تلخیوں اور کرب کو دور سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔بیدی ؔ کے افسانوں میں متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت کے کردار اور مزاج کی جو دلکش تصویر کشی ملتی ہے اس کو بیدی کے افسانہ نگاری کا نقطہ عروج کہا جاتا چاہئے۔راجندر سنگھ بیدیؔ نے زندگی کے اہم تجربات کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا اورانسانی جزبات و احساسات، نفسیات کی گرہیں بہت چابکدستی سے کھولنے کی بھرپور کوشش کی ہیں۔
بیدی کے افسانوں کا محور جنس و غم ہے لیکن بیدی ؔ کے یہاں غم کے اظہار کی صرف ایک ہی صورت نظر نہیں آتی بلکہ ہر کہانی میں نئے نئے چہرے اور کردار ابھر کر سامنے آتےہیں۔

لاجونتی افسانہ کا خلاصہ

راجندر سنگھ بیدیؔ کا افسانہ لاجونتی ایک تجزیاتی مطالعہ

’’ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی د ے بوٹے‘‘
راجندر سنگھ بیدی ؔ کا افسانہ لاجونتی ان کے بہترین افسانوی مجموعے اپنے دکھ مجھے دے دو میں شامل پہلا افسانہ ہے۔لاجونتی کا پس منظر ملک کے تقسیم کے بعد کے حالات ہیں۔ بیدی ؔ نے اس افسانے میں ہند و پاک کے تقسیم کے بعد انسانی زندگی میں آنے والے مشکلات کو افسانے کے ذریعے پیش کیا ہے ۔کس طرح ملک کے بٹوارے کے بعد بڑے پیمانے پر ہجرت کا عمل شروع ہو گیا تھا۔جس کے وجوحات سے دونوں ملکوں کے ناشندوں کو طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔افسانہ لاجونتی ان عورتوں کے درد و غم اور تکلیف سے بھرا ہوا ہے یہ افسانہ لاجونتی انہیں عورتوں کی روداد بیان کرتا ہے جو تقسیم کے بعد اپنے شوہر وخاندان سے بچھڑکر سرحد کے اس پار پہنچ چلی گئی تھیں۔ان تمام مغویہ عورتوں میں سندرلال کی بیوی لاجونتی بھی شامل تھی جو سندر سے دور سرحد کے اس پار چلی گئی تھی۔سندرلال اور لاجونتی کی جدائی کے بعد سندر کو لاجو پر ہوئے ظلم یاد آنے لگتے ہیں اور اس کو اپنی غلطیوں کا زبردست احساس ہوتا ہے۔اس کا دل لاجونتی کے بارے میں سوچ کر مضطرب اور بیچین ہو جاتا ہے کہ لاجونتی اس کا ہر ستم خنداں پیشانی کے ساتھ سہتی تھی، اب میری لاجو کہاں اور کس حال میں ہوگی،جانے س مصیبت میں ہوگی ‘ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی؟‘ کیا وہ کبھی واپس آئے گی بھی کہ نہیں۔ اب توسندرلال کی لاجونتی کے واپس آنے کی امید بھی ختم ہونے لگی تھی سندر لال نے تو رفتہ رفتہ لاجونتی کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا تھا۔سندرلال کا غم اب صرف تنہا اس کا نہیں تھا بلکہ یہ غم اب ہر کسی کا یا یوں کہئے کہ ساری دنیا کا غم بھی بن چکا تھا۔اس نے اپنے دکھ سے بچنے کہ لئے خود کو لو ک سیوا میں لگا دیا تھا اور مغویہ عورتوں کے سلسلے میں چلائے جا رہے پروگرام ’’دل مین بساؤ‘‘ کا سکرٹیری بھی منتخب کر لیا گیا تھا۔اس پروگرام کے تحت ہند اور پاکستان کے درمیان اغواشدہ عورتوں کا تبادلہ کیا جاتا اور اجڑے ہوئے گھروں کو پھر سے بسانے کی مہم بھی چلائی جا رہی تھی۔

آخرکارایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ایک روز دفعتہ لال چند نے سندرلال کو بدھائی دی اور یہ خبر دی سنائی کہ اس نے لاجو بھابھی ( لاجونتی) کو دیکھا ہے۔ یہ خوشخبری سن کر سندرلال کے ہاتھوں سے خوشی کے مارے چلم گر گئی۔سندرلال نے بہت حیران ہوتے ہوئے پوچھا کہاں دیکھا ہے؟لال چند نے بتایا کہ ’’واگہ کی سرحد پر‘‘۔ اتنا سنتے ہی سندرلال کا دل بےقرار ہو اٹھا اور وہ جلدی جلدی سر حد کی طرف جانے کی تیاری کرنے لگاکہ اسے لاجونتی کے آنے کی خبر ملی،وہ وہاں گیا اور لاجو کو اپنے ساتھ گھر لے آیا لیکن اب پہلے جیسا کچھ بھی نہیں رہا سب کچھ بدل چکا تھا۔ جس دن سے لاجونتی ا غوا ہونے کے بعد واپس آئی تھی تبھی سے سندرلال کا لاجونتی کے ساتھ سلوک پہلے کے جیسا بالکل نہ رہا بلکہ وہ لاجونتی کو بہت زیادہ پیار کرنے لگا تھا اور اچھائی سے پیش آنے لگا تھا اور اب لاجونتی کو دیوی کے نام سے بلانے لگا تھا۔لاجونتی اپنے شوہر کے اس بدلے ہوئے رویےّ کو دیکھ کر بہت حیران و پریشان رہنے لگی۔لاجونتی اپنی ساری کہانی بیان کرکے اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کر لینا چاہتی تھی مگر سندرلال کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھا وہ ہمیشہ ہی لاجو کو ٹال دیا کرتا تھا اور ہر بار یہی کہتا رہا کہ ’’چھوڑ ویتی باتوں میں کیا رکھا ہے۔‘‘سندرلال اب اپنی بیوی لاجو کو مارنا پیٹنا بالکل چھوڑ چکا تھا۔ مگر لاجونتی کو ابھی بھی اپنا پہلے جیسا شوہر ہی چاہئے تھا۔ وہ دنیا کی نظروں میں تو خوش تھی لیکن اس کی آتما اندر سے بہت دکھی رہتی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا سندرلال اور لاجونتی کے درمیان فاصلے بھی بڑھنے لگے اور دونوں ہی شک میں مبتلا ہونے لگے۔لاجونتی دل ہی دل میں یہ سوچ کر گھٹنے لگی کہ اب وہ اپنے شوہر کے لئے لاجو نہیں بن سکتی ہے۔ اغوا کے بعد واپس آکر وہ دیوی بن چکی ہے۔راجندر سنگھ بیدی ؔ نے افسانہ لاجونتی میں تقسیم ہند کے بعد پیش آنے والے مسائل کو سامنے لانے کے ساتھ انسانی نفسیات کی گرہیں بھی کھولنے کی بھرپور کوشش کی ہیں۔

راجندر سنگھ بیدی کا یادگار افسانہ لاجونتی میں انسانی زندگی سچی جھلک دکھائی دیتی ہے۔اس افسانے میں لاجونتی کا کردار ایک زندہ اور متحرک کردار ہے جو انسانی زندگی کے پیچیدہ پہلوؤں کو ایک نئے انداز میں پیش کرتا ہے ۔راجندر سنکھ بیدی نے اس افسانہ میں بھی اشارے و کنایے سے بھرپور کام لیا ہے ۔ ملک کی تقسیم کے بعد پیش آنے والے مسائل کو انفرادیت کے ساتھ اپنے دلچسپ اسلوب میں بیان کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم سے بھی پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔افسانہ لاجونتی ان تمام عورتوں کے درد وغم اور الم، کسک ،خلش کو ہمارے سامنے لا کر رکھ دیتا ہے۔جن عورتوں کی اغوا سے واپسی کے بعد سماج میں اور ان کے گھروں میں ان کو پھر سے اپنا تو لیا گیا پھر بھی وہ دوبارہ بس کر بھی اجڑ سی گئیں ہیں ۔بیدیؔ کا افسانہ لاجونتی کا آخری اقتباس ہمیں اس قدر متاثر کرتاہے کہ لاجونتی ہمارے دماغ ہر ایک گوشے میں بس جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا وجود اتنا کمزور ہے کہ جیسے ایک چھوئی موئی کا نازک پودا کسی کے ہاتھ لگانے سے کمہلاجاتا ہے ٹھیک ویسے ہی کسی دوسرے مرد کے ہاتھ لگانے کے تصور بھرسے عورت دوبارہ کبھی اپنے شوہر کی بیوی نہیں بن پاتی۔ سماج میں یہی ایک عورت کا وجود ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے