Ticker

6/recent/ticker-posts

طاہر سعود کرتپوری کی غزلیں | اردو شاعری غزل

غزل : خرامِ ناز سے شاخِ گلاب محوِ عمل : طاہر سعود کرتپوری


غزل

خرامِ ناز سے شاخِ گلاب محوِ عمل
شرابی محوِ نظارہ شراب محوِ عمل

سفید و سرخ کنول خوئے چشمِ دام لئے
کھڑے ہیں راہ میں لیکن شباب محوِعمل

اسیرِ زلف گرہ گیر اسیرِ رقص و سرور
تو مطمئن ہے مگر کامیاب محوِ عمل

مقامِ ہو کے مکیں اہلِ تمکنت نہ ہوئے
سو آپ جائیے رہئے جناب محوِ عمل

ہمارےدل کی یہ کیا کیفیت ہےحضرتِ عشق
نشاط محوِ عمل، اضطراب محوِ عمل

ہدف کو بھول گئے صاحبانِ مشکِ ختن
پہ آب و تاب سے ہیں سب خراب محوِ عمل

غزالِ فکر‌ و‌ فراست بھٹک گئے ہیں سعود
حقیقتیں نہیں گویا ہیں خواب محوِ عمل

طاہر سعود کرتپوری

غزل: رشتوں کا قرض، ایسے چکانا پڑا مجھے


غزل

رشتوں کا قرض، ایسے چکانا پڑا مجھے
خوابوں کا روز خون بہانا پڑا مجھے

میں روح چاہتا تھا سدا، اور وہ بدن
سو اپنا ہاتھ اس سے چھڑانا پڑا مجھے

سب کچھ گنواکےجس کو کمایاتھا، ہائےوقت!
وہ بھی انا کی بھینٹ چڑھانا پڑا مجھے

گھر میں بھی رہ کے روح عرب میں پڑی رہی
مہنگا کچھ اتنا ملک میں, دانہ پڑا مجھے

وہ چھن نہ جائے اس لئے کرتا ہوں اسکی قدر
بےمول ہی بھلے وہ خزانہ پڑا مجھے

غربت پہ اپنی پھوٹ کے رویا میں بےشمار
جب پنچھیوں کو چھت سے اڑانا پڑا مجھے

جب ظلم آسمان کی حد سے بھی بڑھ گیا
آخر کہ سر, زمیں سے اٹھانا پڑا مجھے

طاہر سعود کرتپوری


غزل: حسن مغرور پرندے کی طرح ہوتا ہے


غزل


حسن مغرور پرندے کی طرح ہوتا ہے
یہ مگر جھوٹ ہے طوطے کی طرح ہوتا ہے

آج درویش کی وہ بات بہت یاد آئی
جرم انسان کے سائے کی طرح ہوتا ہے

طفلِ مکتب بھی ترے شہر کا اردو زادی !!!
خاک پرور کے صحیفے کی طرح ہوتا ہے

تجھ کو کیا علم مرے دوست کہ اک سچا دوست
غم کے دریا میں کنارے کی طرح ہوتا ہے

آجکل عشق سمجھ دار کیا کرتے ہیں
عشق اب کھیل تماشے کی طرح ہوتا ہے

ماں کی الفت ہے کسی صدقہءترغیب کےمثل
حبِ والد چھپے سجدے کی طرح ہوتا ہے

اس پری زاد کا اندازِ محبت طاہر!
بالغ العمر سے بچّے کی طرح ہوتا ہے

طاہرسعود کرتپوری


غزل : سب یہیں چھوڑ کے جاتے ہیں اتارے ہوئے دکھ


غزل

سب یہیں چھوڑ کے جاتے ہیں اتارے ہوئے دکھ
جاؤ پھر اب سے تمہارے بھی ہمارے ہوئے دکھ

خون پیتے ہیں مرا پیاس میں پیاسے پنچھی
دل چباتے ہیں مرا بھوک کے مارے ہوئے دکھ

مدتوں بعد کہیں درد شکر میں بدلا
مدتوں بعد کہیں مجھ سے کنارے ہوئے دکھ

ہم نے جس روز سے آنکھوں کو کیا ہے پتھر
تب سے پھرتے ہیں کئی مارے بڈارے ہوئے دکھ

مجھ جنوں زاد کی آنکھوں میں ہیں ابتک تحریر
شبِ ہجراں میں ترے ساتھ گزارے ہوئے دکھ

معذرت ہم نے بہت کام لیا بے مقصد
یعنی اک پل نہ رہے پاؤں پسارے ہوئے دکھ

اب میں اس منزلِ ادراک پہ آپہنچا ہوں
جہاں خوشیوں کے بھی اے یار !! اشارے ہوئے دکھ

طاہر سعود کرتپوری


میں اک عجیب و غریب منزل کی جستجو میں لگا ہوا ہوں


غزل

میں اک عجیب و غریب منزل کی جستجو میں لگا ہوا ہوں
اسی لئے سب تماشبینوں کا اک تماشہ بنا ہوا ہوں

قدم قدم پر جو میری غیرت سے کھیلتے ہو کہ اِس کامطلب
چلو اسیرِ وفا سہی میں, تو کیا تمہارا دبا ہوا ہوں

بڑے جتن سے لکھا گیا تھا پھر اس پہ برسوں پڑھا گیا تھا
مگر میں خوش بخت خط نہ ٹھہرا جو یوں سڑک پر پڑا ہوا ہوں

تمہای زلفوں کے پیچ و خم سب نکال سکتا ہوں دوگھڑی میں
پڑھا لکھا کم سہی, مگر میں خیال رکھنا گُنا ہوا ہوں

میں اُس کا غم یوں منا رہا ہوں, اسے خدارا بتائے کوئی
کہ غم لطیفے سنا رہے ہیں میں منہ بنائے کھڑا ہوا ہوں

اسےکوئی کیا شکست لکھےاور اس کو کیاکوئی جیت لکھے
کسی کے آگے جھکا ہوا ہوں کسی کے آگے تنا ہوا ہوں

جہانِ فانی کے مالدارو !!! تمہاری دنیا تمہیں مبارک
مجھے نہیں تم خرید سکتے مجھے نہ چھیڑو بِکا ہوا ہوں

طاہر سعود کرتپوری


چشم در چشم نمی حضرتِ والا دے دوں

غزل


چشم در چشم نمی حضرتِ والا دے دوں
میں اگر شہر کو دشمن کا حوالہ دے دوں

اور نااہل کی کس درجہ کروں میں تعظیم
کیا اسے رتبہ ء اللہ تعالیٰ دے دوں

میں ترے حسن کی توہین نہیں کرسکتا
سو, بھلا کیسے تجھے نامِ غزالہ دے دوں

اُس کی پازیب کے گھنگرو کو سلامی دینا
اے سخن !!!! تجھ کو اگر کوئی نوالہ دے دوں

سوچتا ہوں کہ اسے بھیج دوں اک سرخ گلاب
کہئے نفرت بھری دوکان کو تالا دے دوں

اپنے احباب کو ناراض نہیں کرسکتا
آستینوں سے تو دینے کو نکالا دے دوں

آخری وقت میں کافر کو پڑھا کر کلمہ
"ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں"

اتنی برکت ہو مرے مال میں اے کاش کہ میں
روز دو چار غریبوں کو مسالہ دے دوں

یونہی بیکار پڑی رہتی ہے, چپ چاپ اداس
کیوں نہ تنہائی کو طاہر کا مقالہ دے دوں

طاہر سعود کرتپوری


کہاں کچھ جانکاری.......... چاہئے تھی


غزل

کہاں کچھ جانکاری.......... چاہئے تھی
انہیں پگڑی ہماری............ چاہئےتھی

اگر سچ مچ انہیں کچھ سیکھنا تھا
ذراسی انکساری................. چاہئے تھی

میں جھوٹی چائے تک پیتا نہیں ہوں
مجھےوہ شاخ ساری.......... چاہئےتھی

میں کیسے اس کو ناخوش...دیکھ پاتا
اسے مہنگی سواری............ چاہئےتھی

کوئی چھپر میں میرےساتھ خوش ہے
کسی کو تاج داری....... چاہئے تھی

اسے میں کس طرح ...... مایوس کرتا
اسی کو ہوشیاری............ چاہئے تھی

تمہارے ساتھ مرنا ہے........ سو,پہلے
مجھے رائے تمہاری............. چاہئےتھی

طاہر سعود کرتپوری


دبائے بیٹھا ہوں دانتوں میں جِیب, ہائےنصیب

غزل

دبائے بیٹھا ہوں دانتوں میں جِیب, ہائےنصیب
قریب ہو کے نہیں تھا قریب ہائے نصیب

کسی کے درد سے محروم ہے دلی صندوق
زمیں پہ کون ہے مجھ سا غریب ہائے نصیب

ادب سے جن سے ادب سیکھتا تھا فنِّ شعور
ہمیں ملے ہی نہیں وہ ادیب ہائےنصیب

مجھے گلاب سے ملتے ہیں خار اور بس خار
ترے لئے ہیں دعا میں رقیب ہائے نصیب

کسی سے خیر کی امید کیا کرے کوئی
شریف ہوگئے سارے عجیب ہائے نصیب

ہمارےسارےہی دشمن تھےکیوں تھے کیا معلوم
سو خار ہی سے چنے کچھ حبیب ہائے نصیب

مرے جنوں کی بلندی کو دیکھ کر طاہر!!!
خرد کے لب پہ ہے ہائے نصیب ہائے نصیب

طاہر سعود کرتپوری


بس اُن سےاس لئے ہم لوگ دب کر بیٹھ جاتے ہیں

غزل

بس اُن سےاس لئے ہم لوگ دب کر بیٹھ جاتے ہیں
جو وہ بیٹھیں تو پھر دفتر کے دفتر بیٹھ جاتے ہیں

خدا کا شکر، میرے گھر اگر مہماں نہیں ہوتے
کہیں سے آکے چھت پر کچھ کبوتر بیٹھ جاتے ہیں

مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میرا ایسا دشمن ہے
ادب سے جس کی آمد پر سمندر بیٹھ جاتے ہیں

میں اُن کا "چائے پانی"روز کرتا ہوں کھلے دل سے
منافق روز میرے گھر پہ آکر بیٹھ جاتے ہیں

مہذب آدمی ہونے پہ اُن کے شک کیا جائے
نششتوں سےجو لوگوں کو اٹھا کر بیٹھ جاتے ہیں

اداکاری کا سکّہ تیز چلتا ہے.............زمانے میں
یہاں فنکار اکثر اس لئے گھر ... بیٹھ جاتے ہیں

انوکھے پھول کھلتے ہیں وہاں کے ریگزارں میں
کہ جن صحراؤں میں اصلی قلندر بیٹھ جاتے ہیں

طاہر سعود کرتپوری


سب کو لے ڈوبا تھوڑی دیر کے بعد


غزل

سب کو لے ڈوبا تھوڑی دیر کے بعد
اسکا کچھ کہنا تھوڑی دیر کے بعد

چیخنے والے سہمے بیٹھے تھے
جیسے میں بولا تھوڑی دیر کےبعد

اُس کے ہونٹوں کو سانپ نے چوما
زہر اَمرت تھا تھوڑی دیر کے بعد

پہلے جو گُل نے خوں رُلایا تھا
طفلِ گُل رویا تھوڑی دیر کے بعد

وہ جو بادل گرج رہا تھا بہت
ٹوٹ کر برسا تھوڑی دیر کے بعد

ابھی سوئے ہیں تھک تھکا کر خواب
آنکھو !!! اب ملنا تھوڑی دیر کےبعد

کیسے رکھنا ہے دشمنوں کو دوست
اس کو ہوش آیا تھوڑی دیر کے بعد

خود ہی قصہ بنےگا قصہ گو
کب تھا اندازہ تھوڑی دیر کے بعد

جوش میں جاں سے ہاتھ دھو بیٹھا
سرخ انگارہ تھوڑی دیر کے بعد

طاہر سعود کرتپوری


ہر دفعہ صاف ملتے ہیں سب اولین لفظ


غزل

ہر دفعہ صاف ملتے ہیں سب اولین لفظ
آنکھوں میں اسکی ہوتے ہیں تازہ ترین لفظ

تعریف میری جب بھی وہ کرتا ہےسبز چشم
لاتا ہے کس جہاں سے نہ جانے حسین لفظ

چاندی کے تار آگئے زلفِ حسین میں
ابتک بھی حوصلہ نہیں کہہ پائیں تین لفظ

قد کو ترے لگا دئے جائیں گے چار چاند
میری غزل میں آ تو سہی اے ذہین لفظ

جملوں کو بولتے ہوئے یوں تولتا ہوں میں
رسوائی کے بنیں نہ کہیں باعثین لفظ

اب کشمکش ہےکس کوبنائیں سخن کاچاند
سجدےمیں رکھ کےبیٹھ گئےہیں جبین لفظ

کیسے ہرن کی آنکھ میں پروانہ آگرا 
جائز ہوا ہے کیسے غزل میں کمین لفظ

اے آستیں کے سانپو ! سنو کان کھول کر
میری لغت میں ہے ہی نہیں آستین لفظ

پر لگ گئے ہیں جیسے مرے ان دنوں سعود
لکھے ہیں دل پہ عشق نے اتنے حسین لفظ

طاہر سعود کرتپوری


سورج کی ہتھیلی پہ سفر کون کرے گا


غزل

سورج کی ہتھیلی پہ سفر کون کرے گا
میدانِ جنوں ہوش میں سر کون کرےگا

جب عشق کی سرحد پہ کوئی روک نہ ہوگی
پھر عشق کی دیوار میں در کون کرےگا

ہرشخص کی آنکھوں میں غرض رقص کناں ہے
اب شہرِ دلِ ماہ میں گھر کون کرےگا

وہ پانی میں دیوار اٹھانے کے ہیں ماہر
اس شوق کو اب روز ہنر کون کرےگا

رپیے میں چلا کرتی ہے عاشق کی چَوَّنی
اس رخ پہ رخِ ناز نظر کون کرےگا

اس نے جو جفا کی تو ملی پہلی محبت
محسن کو کرامت کی خبر کون کرےگا?

اف چمڑے کے ہاتھوں کو لکھا تونے گلِ سرخ
یوں ترش کو جز تیرے شکر کون کرےگا

بس اس لئے اس شخص سے اپنائی ہے دوری
اک زیر کو ہر بار زبر کون کرےگا

اپنے سے بڑا مان لے اپنے سے بڑے کو
اس درجہ بڑا قلب و جگر کون کرےگا

طاہر سعود کرتپوری


حد سے سوا جو ہوتی ہے معصوم٠٠٠٠٠٠٠گفتگو


غزل

حد سے سوا جو ہوتی ہے معصوم٠٠٠٠٠٠٠گفتگو
ہوتی ہے وہ خلوص سے محروم٠٠٠٠٠٠٠گفتگو

انگلش کی مے میں بادہ ء اردو کے رنگ گھول
پھر دیکھ کیسی ہوتی ہے معلوم٠٠٠٠٠٠٠گفتگو

جوشِ جنوں کے باغ میں جس سے بہار تھی
شاید وہ ہم میں ہوگئی مرحوم٠٠٠٠٠٠ گفتگو

پھر چھو کنول کےکیف سے بھرپورلب کی خاک
از خود ادب سے پہلے ذرا جھوم گفتگو !!!

آنکھوں کے کان جھوم اٹھے سن کےحرف حرف
جاری تھی اُس نظر سے وہ منظوم٠٠گفتگو

وہ غم زدہ ہیں جن سے کبھی واسطہ تھاکچھ
رہنے لگی ہے اسلئے٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠مغموم گفتگو

اک اجنبی مہک سے شناسائی کیا ہوئی
کرتا نہیں ہے مجھ سے مرا روم٠٠٠٠٠٠٠٠ گفتگو

اُس پر نہ اپنے وقت کو برباد کیجئے
رکھتی نہ ہو جو کوئی بھی مفہوم٠٠ گفتگو

جسمِ صدائے عشق جو چھونے کا شوق ہے؟
طاہر سعود !!! بن کے ہَوا٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠چوم گفتگو

طاہر سعود کرتپوری


نور میں رہ کے بھی شب ذہن منور نہ ہوئے


غزل

نور میں رہ کے بھی شب ذہن منور نہ ہوئے
زاغ ہر طور رہے زاغ، کبوتر نہ ہوئے

ہم سے نادان غزالوں پہ بہت روئے غزال
عطر ہوتے ہوئے ہم لوگ معطر نہ ہوئے

وہ جو بھٹکے‌ہوئےراہی تھے وہ رہبر ٹھہرے
وہ قلندر جو قلندر تھے قلندر نہ ہوئے

دفن ہوجاتے سبھی لوگ تہِ آبِ الم
یہ تو اچھا ہے مرے اشک سمندرنہ ہوئے

جتنے کمزور تعلق ہیں انہیں ٹھیک کرو
اوررہے دھیان کہ وہ، جو ابھی خنجرنہ ہوئے

میرےاشعار پہ مت دیجئےمجھےداد و دہش
کسی قابل اگر اے شیخِ سخن ور نہ ہوئے

میں نے پیروں کو کئی بار سمیٹا لیکن
وہ جو بنتے تھے قدآور وہ قدآور نہ ہوئے

طاہر سعود کرتپوری


اس کی خوشیوں کی خاطر میں کتنی محنت کرتا ہوں


غزل

اس کی خوشیوں کی خاطر میں کتنی محنت کرتا ہوں
خوابوں کو دیواریں اور تعبیروں کو چھت کرتا ہوں

ہجر کے دکھ کو سکھ کرنا مشکل ہی کیا ناممکن ہے
لیکن میں اس زہر کو آسانی سے شربت کرتا ہوں

پہلے تو میں سب سے زیادہ خود سے محبت کرتا تھا
لیکن اب میں سب سے زیادہ خود سے نفرت کرتا ہوں

میری ‌ مجبوری پر شاید مجبوری بھی چیخ پڑے
میں بد قسمت ‌‌ دست تنہائی پر بیعت کرتا ہوں

کتنی سنجیدہ نظری سے دیکھ رہے ہیں خار و گل
میں کمرے کے آئینوں کی یوں بھی عزت کرتا ہوں

دنیا کی فطرت ہے جوتے کھا کر عزت کرتی ہے
میں ٹھہرا پھر خادم بندہ ڈٹ کر خدمت کرتا ہوں

کیسے کسی عہدے پر پہنچوں کیسےگگن کا چاند بنوں
نامیں ‌سیاست سہ پاتا ہوں نامیں سیاست کرتا ہوں

طاہر سعود کرتپوری


محوِ مضموں تھا پاک بازِ شب

طاہر سعود کرتپوری

غزل

محوِ مضموں تھا پاک بازِ شب
مصرعوں نے پڑھی نمازِ شب

راغبِ ارتداد ہیں جگنو
بڑھ گیا اس قدر فرازِ شب

ڈوبنا ہی ترا مقدر ہے
اتنا اترا نہ اے ‌جہازِ شب

شب پرستو! ذراسا ہوش کرو
موت سے کم نہیں نیازِ شب

اک طرف آنکھ میں تھا رقصِ جنوں
اک طرف آنکھ میں تھا سازِ شب

مدتوں روشنی رہی ناراض
مدتوں کیوں اٹھائے نازِ شب

خود کو طاہر سعود سر کیجئے
ایسے کُھلتے نہیں ہیں رازِ شب

طاہر سعود کرتپوری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے