Ticker

6/recent/ticker-posts

میں تمہاری مدد کیوں کروں ..؟ | Main Tumhari Madad Kyon Karun

میں تمہاری مدد کیوں کروں ..؟


سرفراز عالم


اللہ تعالیٰ اگر آج آسمان سے ندا کرکے پوری امت مسلمہ سے پوچھے کہ اے مسلمانو..! تم مجھے اپنی کوئی ایک خوبی بتاؤ جس کی وجہ کر میں تمہاری مدد کروں، تو شاید ہم اپنی ایک خوبی بھی ایسی نہ بتا سکے گیں جس سے اللہ راضی ہوا ہو۔ کوئی اپنی عبادات کا حوالہ دے گا تو کوئی معاملات کا، کوئی تسبیحات کا حوالہ دے گا تو کوئی اپنی ریاضت کا۔ غرض ہر انسان اپنے دلوں کی تسکین کے لئے طرح طرح کی خوبیوں کی بات کرے گا۔

اللہ، علیم وخبیر کہے گا کہ تم نے ٹھیک کہا۔ لیکن تمہارے ہر عمل کا محور تو نام و نمود اور دنیا پرستی ہی ہے، نہ کہ میری رضامندی۔ میں نے تو تمہیں اپنے قانون کو زندگی میں نافذ کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا تھا لیکن تم نے تو اپنے نفس کواپنا الہ بنا لیا ہے..! ہمارا جواب ہوگا ہرگز نہیں اللہ، ہم نے تو تیرے نام سے ہی تمام نیک اعمال کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اگر یہ سچ ہے تو تم خود اپنا احتساب کرکے دیکھ لو۔


بیشک اللہ کا کہا سچ ہے۔ اگر ہم خود اپنا احتساب کریں کہ کیا واقعی ہم قوانین اسلام کے تحت اپنی زندگی گزار رہے ہیں؟ تو شاید ہمیں مایوسی ہوگی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آج ہم اس کرہ ارض پر سب سے زیادہ ذلیل و خوار قوم کیوں بن گئے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن میں مومنین کو کھلی خوشخبری ہے۔

ترجمہ: " پست ہمت نہ بنو اور غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو"۔ ( آل عمران 139)

اس آیت میں" وَلَا تَهِنُوا "، وہن سے ہے۔ وہن کے معنی
” کمزوری اور ضعف “ کے ہے۔ جس کا مطلب ” دنیا سے محبت اور موت کا ڈر“ ہے۔


اس آیت میں جنگ احد کے بعد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دلاتے ہوئے کہتا ہے کہ اس جنگ میں تمہاری شکست تمہاری کمزوریوں کے سبب ہوئی ہے پھر بھی تم دل شکستہ مت ہو۔ تمہیں غالب رہو گے اگر تم اپنی کمزوریوں( کچھ لوگ رسول اللہ کے حکم کی پروا نہ کرکے مال غنیمت جمع کرنے لگے ) کو دور کرلو۔ آج بھی امت مسلمہ اسی مال کی کمزوری کی شکار ہے اور شاید دنیا میں اسی لئے ذلیل خوار ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم کچھ بھی ہو ہمیں تو زیادہ سے زیادہ مال چاہیے۔ واللہ اعلم۔

اسی موقع کی ایک حدیث اس طرح ہے

ثوبان بن بجدد بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف (لڑنے کے لیے) دوسری قوموں کو بلائیں جس طرح کھانے والے کھانے کے برتن کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔ ‘‘ کسی نے عرض کیا: اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟ آپ نے فرمایا:’’ نہیں، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔ ‘‘ کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول وہن کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔ ‘‘
( ابوداؤد 4297 )


سیرت ابن ہشام میں ہے...

خداوند عالم نے ان آیات میں مسلمانوں کو شکست کے راز کی طرف متنبہ کیاہے اور ان کو خبردار کیا ہے کہ اگر ''فوجی شکست'' کھائے ہیں تو وہ ناامید نہ ہوں کہ ''نفسیاتی شکست'' بھی کھائیں اور نیز ان کو متوجہ کیا کہ ان کے ''شکست کا راز''، ''فوجی قوانین کی عدم پابندی'' اور مال دنیا کی طرف توجہ تھی اگر بدر میں خدا کی مدد سے کامیاب ہوئے تو اس بنا پر تھا کہ صرف خدا کے لئے لڑ رہے تھے لیکن اس جنگ میں مال غنیمت کے چکر میں پڑ گئے اور شکست کھاگئے۔
( ابن ہشام، جلد 3، ص 112)


مشہور انعام یافتہ سیرت رسول اللہ کی کتاب

" الرحیق المختوم “ میں درج ہے....
رسول اللہﷺ نے تیر اندازوں کو فتح وشکست ہر حال میں اپنے پہاڑی مورچے پر ڈٹے رہنے کی کتنی سخت تاکید فرمائی تھی۔ لیکن ان سارے تاکیدی احکامات کے باوجود جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان مال ِ غنیمت لوٹ رہے ہیں تو ان پر حُبّ ِ دنیا کا کچھ اثر غالب آگیا، چنانچہ بعض نے بعض سے کہا: غنیمت ......! غنیمت ...... ! تمہارے ساتھی جیت گئے ......! اب کاہے کا انتظار ہے ؟

اس آواز کے اٹھتے ہی ان کے کمانڈر حضرت عبد اللہؓ بن جبیر نے انہیں رسول اللہ کے احکامات یاد دلائے اور فرمایا : کیا تم لوگ بھول گئے کہ رسول اللہ نے تمہیں کیا حکم دیا تھا ؟ لیکن ان کی غالب اکثریت نے اس یاد دہانی پر کان نہ دھرا اور کہنے لگے : ''اللہ کی قسم! ہم بھی لوگوں کے پاس ضرور جائیں گے اور کچھ مالِ غنیمت ضرور حاصل کریں گے۔ اس کے بعدچالیس تیر اندازوں نے اپنے مورچے چھوڑ دیے اور مالِ غنیمت سمیٹنے کے لیے عام لشکر میں جا شامل ہوئے۔ اس طرح مسلمانوں کی پشت خالی ہوگئی اور وہاں صرف عبد اللہؓ بن جبیر اور ان کے نو ساتھی باقی رہ گئے جو اس عزم کے ساتھ اپنے مورچوں میں ڈٹے رہے کہ یا تو انہیں اجازت دی جائے گی یاوہ اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردیں گے۔

( یہ بات صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے۔ بحوالہ الرحیق المختوم، دیکھئے ۱/۴۲۶)


دنیا بھر میں بڑے بڑے علماء و مفکرین، عبادت گزار، تہجد گزار، پرہیزگار، قاری وحافظ قرآن وغیرہ چھپے کھلے اللہ سے رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی ہمیشہ گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے پھر بھی اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر رحم نہیں کر رہا ہے۔ ہر روز ہم ذلت آمیز حالت سے گزر رہے ہیں اور ہم دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی کچھ تو وجہ ہوگی۔ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہیں؟


اس سلسلے میں ہر زمانے میں مختلف جوابات دیئے جاتے رہے ہیں۔ اسلام کے واضح احکامات کے باوجود لوگ متفق نہیں ہو پا رہے ہیں اور کئی گروہ میں بٹ چکے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ مت کرو۔

پہلا گروہ کہتا ہے کہ ہماری ذلت ورسوائی کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم تارک قرآن ہوگئے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی کہا کہ " ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر"۔

دوسرا گروہ کہتا ہے کہ تمام انفرادی، اجتماعی اور ملی خرابیوں کے باوجود ہمیں اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھنا چاہیے اور اپنا کام کرتے رہنا چاہئے، اس لیے کہ ناامیدی کفر ہے، وغیرہ۔

تیسرا گروہ کہتا ہے کہ الحمدللہ، اللہ کے بندے نیک کام میں لگے ہوئے ہیں اور ہماری حالت پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔ ہم پہلے سے زیادہ تعلیم یافتہ اور خوشحال ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہے۔ وغیرہ


چوتھا گروہ کہتا ہے ہمیں اپنا کام ایمانداری سے کرتے رہنا چاہئے، ہم اسی کے مکلف ہیں۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نماز، قرآن اور دیگر عبادات کی طرف لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دنیا میں کچھ رکھا نہیں ہے۔ گھروں کی حفاظت اللہ کرے گا ہمیں اللہ کے راستے میں مسلسل نکلتے رہنا چاہیے۔

پانچواں گروہ کہتا ہے کہ ہمیں خوب تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ جب تک ہم تعلیم یافتہ نہیں ہونگے اسی طرح ذلت و رسوائی ہمارا پیچھا کرتی رہے گی۔ ڈاکٹر اور انجینئر بنیں، خوب قرآن پڑھیں، ترجمہ و تفاسیر پڑھیں (سمجھ اور عمل کے بغیر ) اللہ راضی ہو جائے گا۔


چھٹا گروہ کہتا ہے کہ ہمیں دنیا کو ترک کرکے نفس کشی کرتے رہنا چاہئے تاکہ دنیا ہمارے اندر سے نکل جائے، اسی میں ہماری کامیابی ہے۔ دنیا ہمارے لئے بنائی گئی ہے مگر ہم آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔

ساتواں گروہ کہتا ہے کہ اب قیامت بہت قریب ہے اور لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے۔ اس لئے اب جتنی بھی کوشش کر لیں، کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔

آٹھواں گروہ کہتا ہے کہ دجال کی آمد ہو چکی ہے۔ اب ہمیں امام مہدی اور عیسٰی علیہ السلام کا انتظار چھوڑ کر ان کی تلاش میں لگ جانا چاہئے اور اللہ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ ہمیں حق یعنی مہدی و عیسٰی علیہ السلام کے گروہ میں شامل کر لے۔


نواں گروہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا زیادہ سے زیادہ کمانے اور آرام سے زندگی گزارنے کی پوری اجازت دی ہے۔ "ربنا آتنا فی الدنیا حسنہ" کے تحت جب تک زندگی ہے، نماز، روزہ، حج وغیرہ کے ساتھ آرام سے گزارا جائے۔ بیشک ہم دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی کامیاب ہونگے۔

دسواں گروہ کہتا ہے کہ جناب صرف اپنی ذات سے مطلب رکھئیے، اس لئے کہ اب امت کی اجتماعی سطح پر اصلاح ممکن ہی نہیں ہے۔

گیارہواں گروہ کہتا ہے کہ میرے مسلک میں شامل ہو جاؤ، کامیاب ہو جاؤ گے۔ اس لئے کہ حدیث کے مطابق قرب قیامت ایک ہی یعنی میرا گروہ ہی جنت میں جائے گا، وغیرہ۔


آخری گروہ بڑے فخر سے کہتا ہے کہ علماء حضرات ہم روشن خیال لوگوں کی سوچ پر اپنی دقیانوسی فکر تھوپ کر ہمیں ترقی کی راہ سے روکنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اسی لئے ہم کامیاب نہیں ہو رہے ہیں۔

ان کے علاوہ بھی کئی خیالات ہو سکتے ہیں جن کے ذریعہ راہ فرار اختیار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام گروہی جوابات کے باوجود کیا کچھ اور بھی باقی رہ جاتا ہے؟ اگر ہاں تو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس دور میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے آخر کیوں راضی نہیں ہے؟ کیوں دنیا ذلت اٹھانی پڑرہی ہے؟

قرآن کے طرف رخ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں رسوائی کی پہلی وجہ یہود و نصاریٰ جیسی سوچ ہے جس کی وجہ سے ہم اسلامی ہونے کے ساتھ غیر اسلامی نظام کو بھی گلے لگا چکے ہیں۔ جبکہ قرآن کہتا ہے پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔

ذرا سنجیدگی سے سوچئے کہ آخر بنی اسرائیل

( یہود) کا کیا قصور تھا جن پر قرآن مجید میں کئی جگہوں پر لعنت کی گئی ہے اور انہیں کافروں اور مشرکوں سے بھی زیادہ سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہیں دنیامیں ہی بندر اور سور بنا دیا گیا۔ قیامت تک کیلئے ان پر ذلت و رسوائی مسلط کی گئی اور آخرت میں بھی ان کیلئے ذلت کے درد ناک عذاب کی وعید ہے۔ حالانکہ وہ لوگ بھی ہماری طرح اللہ تعالیٰ کو ماننے والے تھے لیکن اللہ کا کہا پوری طرح نہیں مانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و حاکمیت پر پختہ یقین رکھتے تھے، حکم خداوندی کے مطابق عبادت بھی کرتے تھے، نماز، روزہ کے پابند تھے مگر ان کا قصور صرف یہی تھا کہ انہوں نے دین کی کچھ باتوں کو چھوڑ دیا تھا اور اہل باطل کی چند باتوں کو اپنے دین میں شامل کر لیا تھا۔ اس پر اللہ رب العزت نے انہیں سخت تنبیہ دی اور ڈانٹ پلاتے ہوئے قرآن پاک میں فرمایا :

ترجمہ: ’’کیا تم کتاب الٰہی کی کچھ باتوں پر تو عمل کرتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو ؟ یاد رکھو! اللہ کے دین کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کرنے والوں کیلئے دنیا میں ذلت ورسوائی اورآخرت میں بد ترین عذاب کے سوا اورکچھ نہیں۔ ‘‘ (البقرۃ آیت 85)۔


دوسری وجہ کے طور پر اللہ رب العزت نے تو سورہ نساء آیت 116 میں پوری انسانیت کو یہ دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا ہے۔

ترجمہ : ’’ اللہ تعالیٰ اس بات کو ہرگز پسند نہیں فرمائے گا کہ کسی دوسرے کو کسی بھی حیثیت سے اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس گناہ کے مرتکب کے سوا وہ جسے چاہے گا معاف فرما دے گا اور جس نے کسی دوسرے کو کسی بھی حیثیت سے اس کا شریک ٹھہرایا تو وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا"۔

جس طرح یہ درست ہے کہ فی زمانہ دنیا بھر میں مسلمان آبادی اور وسائل کے لحاظ سے کافی مضبوط ہیں وہیں یہ بھی سچ ہے کہ پسماندگی و زبوں حالی کی علامت بھی بنے ہوئے ہیں۔ امیر مسلم ممالک میں دولت کا استعمال زندگی کی عیاشیوں میں خرچ ہو رہا ہے وہیں غریب مسلم ممالک میں لوگ رات کو اکثر بھوکے سوتے ہیں۔ غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کی حیثیت بندر اور سور سے کم نہیں ہے۔ ہر دن زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ کہیں ہم یہودیوں کی پیروی تو نہیں کر رہیں ہیں....!

تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمانوں کے پاس افراد کم تھے مگر خالص تھے تو دنیا ان کے قدموں میں تھی۔ آج عربوں کی آبادی ہے مگر سمندر کی جھاگ کی طرح پانی جدھر چاہے اڑا دے۔ کچھ تو وجہ ہے کہ ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دنیا بھر میں ذلیل خوار ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہنود اور یہود و نصاریٰ کے طریقے سے زندگی گزارنا چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر لبیک کہیں ورنہ دوسری قومیں ہم پر اسی طرح مسلط کی جاتی رہیں گی اور ہم دنیا میں محکوم و ذلیل ہوتے رہیں گے۔ ہر دن اپنا محاسبہ کریں کہ ہم نے کتنے کام اسلام کے مطابق کئے اور کتنے یہودیوں کی طرح۔ دولت کی ہوس اور آرام کے نام پر عیاشیاں چھوڑ دیں ورنہ دنیا میں ہم یہودیوں کی طرح ذلیل اور آخرت میں بھی ہمیشگی کا خسارہ اٹھائیں گے۔ فضول خرچی کرکے شیطان کے بھائی نہ بنیں۔ دنیا کی ہوس نہیں بلکہ دنیا بیزاری میں ہی اللہ کی رضا ہے۔ ہم اس طرح زندگی گزاریں کہ اللہ ہماری ہمیشہ مدد کرتا رہے۔ اللہ ہم مسلمانوں کو اسلامی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین !
سرفراز عالم
عالم گنج پٹنہ
موبائل 8825189373

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے