Ticker

6/recent/ticker-posts

تحریک اور تحریکیت

تحریک اور تحریکیت


سرفراز عالم

سرفراز عالم
عالم گنج، پٹنہ
رابطہ 8825189373

تحریک میں زندگی ہے اور جمود میں موت۔ انسان اگر جسمانی اور روحانی طور پر متحرک ہے تو اسے ایک زندہ انسان کہا جائے گا۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ جس چیز میں حرکت ہوتی ہے وہ زندہ ہے جو رک گئی اس کی موت ہو گئی۔ ہر موجود شئے تحریک کی محتاج ہے۔ ساتھ ہی ہر متحرک چیز کا ایک دوسرے سے مضبوط تعلق قائم رہتا ہے تاکہ ان کے بیچ توازن برقرار رہے۔ کامیاب انسانی زندگی بھی انسانی تحریک سے ہی متحرک ہوکر باقی رہ سکتی ہے۔


تحریک کے معنی

تحریک کے لغوی معنی حرکت دینے کے ہیں اور اصطلاح میں تحریک ایک بامقصد جد و جہد کا نام ہے۔ کسی بھی تحریک کےلیے پہلی لازمی اور بنیادی چیز نظریہ یا سوچ ہوتی ہے جس پر ایک تحریک کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ جو تحریک کے مختلف اجزاء کو سمجھ لیتا ہے اس کے اندر تحریکیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تحریک بغیر تحریکیت کے ممکن ہی نہیں ہے یعنی کسی تحریکی تنظیم میں حرکت نہ ہو تو وہ مردہ ہو جاتی ہے۔ جب تک ارکان کے دل میں مقصد کے لئے تڑپ اور عمل کی کیفیت موجود رہتی ہے تب تک تحریک میں جمود نہیں آ سکتا۔ اس کے افراد ہر پل اپنی صلاحیتوں کے مطابق حرکت میں ہونے چاہیے۔ کسی خاص دن یا خاص موقع پر کوئی تحریکی کام کرنا پھر خاموش اور لاتعلق ہوجانا تحریکیت کے مزاج کے خلاف ہے۔ اگر لگن و تڑپ میں کمی آجاتی ہے تب ’’دینی کام‘‘ محض ’’ دفتری کام‘‘ ہو کر رہ جاتا ہے۔


تحریک کے اقسام

تحریک تین طرح کی ہو سکتی ہے۔ انفرادی، اجتماعی اور گروہی۔ انفرادی تحریک سے ایک فرد کا تعلق ہوتا ہے جبکہ اجتماعی تحریک پوری امت کے لئے برپا کی جاتی ہے اور گروہی تحریک بیشتر گروہی تعصب کا شکار ہوتی ہے۔ انفرادی تحریک میں ایک شخص اپنے مزاج سے ہی متحرک ہوتا ہے اور یہی شخص جب دوسروں کو متحرک کرتا ہے تو اس کی شکل اجتماعی ہو جاتی ہے۔ اسلام انہیں دو تحریکوں کی تائید کرتا ہے۔ گروہی تحریک میں عام طور پر لوگ ایک خاص گروہ کو متحرک کرنے کا کام کرتے ہیں جو اسلام کا منشا نہیں ہے۔ ایسے گروہ عام طور پر دنیاوی مقاصد اور انا کی تسکین کی خاطر منظر عام پر لائے جاتے ہیں۔ اگر ان میں کوئی مخلص ہوا بھی تو جانے انجانے میں تخریب کاری کا شکار ہو جاتا ہے جس سے کسی بھی تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔


انفرادی تحریک

انفرادی سطح پر جب انسان متحرک ہوتا ہے تو عموماً خود یا خاندان کے لوگوں کی فلاح تک ہی محدود رہتا ہے۔ عام طور پر اس کا اپنا مزاج، رجحان اور سوچ اسے متحرک رکھنے میں معاون ہوتا ہے جو ہر انسان کے اندر الگ الگ کیفیت کے ساتھ موجود رہتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ سبھی کے اندر تحریکی کام کرنے کے لئے برابر تمازت پائی جائے۔ ممکن ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو تحریکی مفاد پر ترجیح دیتا ہو۔ فرداً فرداً ایمانی کیفیت کا بھی اس میں اہم رول ہوتا ہے۔ پھر بھی امید کیا جاتا ہے کہ تحریکِ اسلامی کے کارکنان کا کردار سماج کے دوسرے لوگوں سے اعلیٰ و ارفع ہو۔ اگر اللہ کی رضا مطلوب ہوگی تو ایک فرد انفرادی حیثیت کے ساتھ اجتماعی تحریک کے لئے بھی ایک اثاثہ بن جائے گا۔ حالانکہ اس طور پر ان دنوں بڑا کمزور تجربہ پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت میں ایسے ہی مختلف جبلت کے لوگوں کو اجتماعی زندگی گزارنے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ ایک دوسرے کو تقویت پہنچتی رہے۔ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی پائی جاتی ہے جو اچھی صلاحیتوں سے نوازے گئے ہیں پھر بھی میدان عمل میں نظر نہیں آتے ہیں۔ ایسے افراد کو ان کی کوتاہیوں اور علم چھپا کر رکھنے کے الزام میں میدان حشر میں کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے، واللہ اعلم۔


اجتماعی تحریک

ایسے ہی چند افراد جب کسی ہدف کے لئے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو اجتماعی تحریکوں کی بنیاد پڑتی ہے۔ اب اس کے کارکنان کی ترجیحات ذاتی نہ ہو کر اجتماعی ہو جانا چاہئے۔ یہاں امیر کی اطاعت لازمی طور پر کرنی ہوگی۔ چند بالکل ذاتی معاملات کے علاوہ امیر کے سامنے لگ بھگ ہر معاملے میں پردہ چاک کرنا ہوگا۔ اب وہ اپنی ذات پر دوسروں کی فلاح کو مقدم سمجھے گا۔ یہاں تک کہ اپنے تمام رشتہ داروں سے پہلے تحریک کے ساتھیوں کے تعاون کے لیے تیار رہے گا۔ ایک دوسرے سے باخبر رہے گا تاکہ ضرورت پڑنے پر ذہنی اور اخلاقی طور پر مددگار ثابت ہو۔ ایک دوسرے کے اچھے برے معاملات میں بغیر تاخیر تعاون کرنا ہوگا۔ تحریکی سطح پر ہونے والی تمام کارکردگی سے ایک دوسرے کو باخبر کرنا ہوگا۔ اب تحریک کے کارکنان ہاتھ کی ایک مٹھی کی طرح بن جائیں گے جن کی انگلیاں مل کر کوئی بھی بڑا کام کر لیتے ہیں۔ لیکن ان دنوں ایک فیشن یہ بھی بن گیا ہے کہ جب کوئی بڑا مسئلہ آئے تو کسی تحریک سے وقتی طور پر وابستہ ہوکر فائدہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایسے افراد خود بھی اپنی آخرت برباد کرتے ہیں اور تحریک بھی بدنام ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ضرور ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کا رشتہ کرنے یا کیریئر بنانے میں وقتی طور پر تحریکی جماعتوں کا استعمال کرکے الگ ہو جاتے ہیں۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے چند لوگ اپنی انا کی تسکین نہ ہونے پر تحریک سے دوری بنا لیتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں۔ ان دنوں اس بات سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ کہیں کوئی شخص تحریک کی جاسوسی تو نہیں کر رہا ہے۔ برادری، مسلکی اور گروہی عصبیت تو نہیں پھیلا رہا ہے، وغیرہ۔


تحریک کی خصوصیات

اجتماعی تحریک کو مشکل مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے لہٰذا اجتماعیت ہر قیمت پر برقرار رہنی چاہیے۔ تحریک کے لوگوں کے اندر دیوانگی ہونی چاہئے تاکہ ایک کو دوسرے سے حرارت ملتی رہے۔ دیوانگی اگر خالص ہوگی تو محض مقاصد کی خاطر جان و مال سب کچھ نچھاور کر دینے میں کوئی تامل نہ ہوگا، شرط ہے کہ قیادت صالح و مخلص ہو۔ تحریک کو بہت ساری تنظیمی اصولیت پسندی سے بھی گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح دن بدن تحریک کا بیشتر قیمتی سرمایہ فائلوں اور رپورٹوں کی نذر ہو جاتا ہے، تحریک بھاری بھرکم ہو جاتی ہے اور یہ جمود کی علامت ہے۔


تحریکی احتساب

افراد کے ساتھ تحریک کو بھی اپنا احتساب کرتے رہنا چاہئے اس لئے کہ تحریکیں قرآن اور سنت کو اپنی اساس مانتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایک نظام عدل کو زمین پر قائم کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ کم احتسابی یا عدم احتسابی تحریک سے تحریکیت ختم کردیتی ہے اور وہ ایک بڑے ادارے یا تنظیم کی شکل اختیار کرلیتی ہے جہاں ذاتی مفاد کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ احتساب سے مراد اپنی کارکردگی کے اعداد و شمار جمع کرنا نہیں بلکہ وقت سے ہم آہنگ ہوکر ہمیشہ کام کرنے کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ تحریک میں احتساب کا عمل نہ صرف کثرت سے بلکہ اوپر سے نیچے کی سطح تک اور بہت وسیع ہونا چاہیے۔ اتنا وسیع کہ اس کے فیصلے ابھرتے ہوئے مسائل کو حل کرنے میں فعال ہوں۔ یہاں تک کہ عالمی اور ملکی بحران کے وقت داخلی سطح پر بھی جائزہ لیتے ہوئے کارکنان کو متحرک رکھا جائے۔ تحریکات اسلامی میں صحت مند احتساب و تنقید کا ماحول بھی ہو تاکہ وہ اپنے کارکنوں کو کھل کر اپنی رائے رکھنے کا موقع فراہم کرے۔ اس کے نمائندہ شخصیات کو اہل بصیرت ہوناچاہیے۔ جب ہم سیرت رسول کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی تحریکی رفتار وقت کی رفتار سے تیزتر اور بصیرت و حکمت عملی کے مطابق تھی۔ دور جدید میں اسی کو Vision بھی کہا جاتا ہے۔ بصیرت فکری صلاحیت پر منحصر کرتی ہے جو وسیع، مسلسل اور غیر تعصب مطالعہ سے ہی ممکن ہے۔


تحریک کا مقصد

واضح رہے تحریکِ اسلامی میں فرد کی اخروی کامیابی اور تحریک کا اجتماعی مقصد پیش نظر ہو ورنہ تحریک کسی کام کی نہیں۔ اللہ کی رضا کی خاطر زندگی میں دین داخل ہو جائے اور زمین پر اللہ کا قانون نظر آئے، یہی مقصد عین ہونا چاہئے۔ تحریکِ اسلامی کی شناخت اس کے افراد سے نہیں بلکہ اس کے اصول و دائرہ کار سے کی جاتی ہے۔ رضا الٰہی مقصد خاص ہونا چاہئے۔ جدیدیت سے اسلامی ہم آہنگی بھی تحریک کو ہمیشہ تروتازہ رکھتی ہے۔ لہٰذا جدید نقطہ نظر پر بھی گہری نظر ہونی چاہئے تاکہ تحریک پر دقیانوسیت کا الزام نہ لگ سکے۔ عام طور پر اسی وجہ سے نوجوان نسل تحریکوں سے نہیں جڑ پاتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جدیدیت سے مرعوب ہوکر صحت مند روایات کو حقیر سمجھ کر ٹھکرایا نہ جائے۔ ہر کامیاب تحریک یا تنظیم کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے پروگراموں میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی آراء کا لحاظ رکھے۔ قوانین اور عہد و پیمان جیسی مومنانہ خصوصیات کی پابندی کرنا چاہیے تاکہ تحریکاتِ اسلامی کو جلا ملتی رہے۔


بہرحال انفرادی اور اجتماعی تحریک ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جن کو " امر بالمعروف ونہی عن المنکر" کے تحت نہیں پورا کرنے سے اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ خدائے تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کردے۔ اس وقت تم اس سے دعا کروگے لیکن تمہاری دعا سنی نہیں جائے گی۔“
( ترمذی: ابواب الفتن)


اس سلسلے میں قرآن اور زیادہ سخت انداز اپناتا ہے۔ سورہ مائدہ آیت 62 اور 63 میں یہود و نصاریٰ کے علماء، مشائخ اور صوفیائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے واضح طور پر فرمایا گیا ہے:

ترجمہ : ” تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اورظلم و زیادتی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام مال کھاتے ہیں بہت ہی بُری حرکات ہیں جو یہ کررہے ہیں کیوں کہ ان کے علماء، مشائخ انھیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے؟ یقینا بہت ہی بُرا کارنامہ زندگی ہے جو وہ کررہے ہیں“۔


اس طرح قرآن و احادیث کی روشنی میں ایک مسلمان کو ہمیشہ متحرک رہنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ شاید ان دنوں انہیں کوتاہیوں کی وجہ سے ہماری حالت یہود و نصاریٰ جیسی ہوگئی ہے۔ ہم صرف خود سے مطلب رکھنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہی دوسروں کو یاد کرتے ہیں، الا ماشاءاللہ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم مسلمانوں کو خاص طور پر تحریکی افراد کو زندگی کے ہر شعبے میں متحرک رہنے اور باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے