Ticker

6/recent/ticker-posts

شاعری کی تعریف – Shayari Ki Tareef

شاعری کی تعریف — Shayari Ki Tareef

شاعری ایک ادبی فن ہے جس میں شاعر اپنے خیالات، جذبات، احساسات، اور تجربات کو زبانی اور موسیقیت انداز میں اظہار کرتا ہے۔ اس فن کی تخلیق کا مقصد عموماً خوشی، غم، محبت، انسانی حالات، اور دنیا کی حیرت انگیزیوں کو شاعری کی زبان سے اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں معنوں کو متشابہ الاصطلاح اور تصوراتی زبان کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے، جس سے پڑھنے والوں کو شاعر کی فکری اور جذباتی حالات تک رسائی ہوتی ہے۔

اردو شاعری کے متعلق بحث پر لکھی گئی کتاب مقدمہ شعر و شاعری کو وہی مقام و مرتبہ حاصل ہے جو خود اصنافِ ادب میں شاعری کو حاصل ہے۔ یہ کتاب مولانا الطاف حسین حالی کی لکھی ہوئی ہے۔ شعر و شاعری سے دلچسپی رکھنے والے احباب کو اس کتاب کا مطالعہ لازمی طور پر کرنا چاہیے۔

مقدمہ شعر و شاعری میں شاعری کی اہمیت، تعریف، ضرورت، مدح و ذم، شاعری کے لیے ضروری استعداد، اشعار کی محاسن اور معائب اور شاعری کی بعض اصناف وغیرہ پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ مقدمہ شعر و شاعری اور اس قسم کی دوسری تمام کتابوں کے مطالعہ کے دوران میں نے ان مباحث کو جن کا جاننا کسی بھی شاعر کے لیے ضروری ہے، اپنے الفاظ میں اختصار کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔

شاعری کی تعریف

شاعری مندرجہ ذیل دو چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے:
۱)

تخیل و محاکات

معلومات کے ذخیرہ سے کوئی خیال اخذ کرنا تخیل اور پھر اسے الفاظ کے دلکش اور موثر پیرایہ میں پیش کرنا محاکات کہلاتا ہے۔

شاعر کی قوت متخیلہ جس قدر اعلی درجے کی ہوگی اسی قدر شاعری بھی اعلی درجے کی ہو گی۔ یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے۔ اور ماضی و استقبال کو اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔ وہ آدم علیہ السلام اور جنت کی سرگزشت اور حشر و نشر کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ گویا اس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں۔ اور ہر شخص اس سے ایسا ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے۔ اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری، عنقا اور آب حیات جیسی چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کر سکتا ہے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔

تخیل و محاکات کی مثال

جیسے درج ذیل معلومات سے شاعر نے ایک خیال اخذ کیا اور پھر اسے کلام کی صورت میں پیش کیا۔

جام سفال (مٹی کا کوزہ) ایک نہایت کم قیمت چیز ہے جو بازار میں ہر وقت مل سکتا ہے۔

جام جم (جمشید بادشاہ کا جام) ایک نہایت قیمتی اور انمول چیز ہے جو بازار میں دستیاب نہیں۔

جام جم کے آگے جام سفال کی کوئی حیثیت نہیں۔

ان تینوں کی واقفیت سے شاعر کی قوت متخیلہ نے ان تمام معلومات کو ترتیب دے کر یہ خیال پیش کیا کہ جام سفال جام جم سے بہتر ہے۔اور پھر اس خیال کو بیان کا ایک دلفریب پیرایہ دے کر اس قابل کر دیا کہ زبان اس کو پڑھ کر لذت حاصل کرتی ہے اور دل اس کو سمجھ کر متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ غالب کہتے ہیں:

اور لے آئینگے بازار سے گر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے


آسان و مختصر الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ذہن میں کسی خیال کو لانا تخییل ہے اور پھر اسے دلکش انداز میں پیش کرنا محاکات ہے۔

۲

کلام کا موزون ہونا

جان لینا چاہئے کہ کسی کلام میں اگرچہ کتنے ہی بلند مضامین کو خوب سے خوب تر انداز میں بیان کیا گیا ہو، لیکن اگر وہ کسی وزن و آہنگ میں نہیں ہو تو اسے شاعری نہیں کہی جائے گی بلکہ اس پر نثر کا اطلاق ہو گا۔

شاعری کی اصطلاح میں وزن، دو کلموں کی حرکات و سکنات کے برابر ہونے کو کہتے ہیں۔

جیسے افضل اور اشرف، کتاب اور شباب وغیرہ ان مثالوں میں افضل اور اشرف ہم وزن ہیں دونوں میں پہلا حرف متحرک، دوسرا ساکن، تیسرا متحرک اور چوتھا ساکن ہے۔

اسی طرح کتاب اور شباب ہم وزن ہیں دونوں میں پہلا حرف متحرک دوسرا بھی متحرک تیسرا ساکن اور چوتھا بھی ساکن ہے۔ اوزان شعریہ پر بحث علم عروض میں کی جاتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے