منفی سوچ، مثبت اثرات
منفی سوچ کے وجود سے انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے صرف مثبت (Positive Charge) چارج والی بجلی کی کرنٹ سے بلب جلانا۔ Positive اور Negative چارج کے ملنے بغیر بلب نہیں جل سکتا ہے۔اسی طرح مثبت دماغ کے ساتھ منفی پہلو بھی سامنے رکھا جائے تو صحیح نتیجے پر پہنچنا آسان ہوتا ہے۔ دنیا میں ایک آدمی بھی صرف مثبت سوچ کا پاسدار نہیں ہو سکتا ہے۔" امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کی حدیث میں جہاں نیکی کا حکم مثبت ہے وہاں برائی سے روکنا بظاہر منفی عمل بھی شامل ہے۔ ایک آدمی کسی کی بدکلامی پر اسے ٹوکتا ہے تو یہ ٹوکنا اس کی منفی سوچ کی پہچان نہیں ہے بلکہ اس سچائی کو پہچان کر بتانا ہے کہ وہ آدمی بدکلامی کرتا ہے اور اس پر نکیر کرنا پہلے آدمی کی ذمہ داری ہے۔
تقریباً دو دہائیوں سے یہ جملہ عام چلن میں ہے Be Happy, Be Positive, یعنی مثبت سوچ رکھئیے اور خوش ہو جائیے۔ جب سے یہ امت معاشی طور پر زیادہ خوشحال ہوئی ہے تب سے یہ سوچ ہر خاص و عام کے دماغ پر چھا چکی ہے۔ ایسے لوگ سب کو یہ بتاتے پھرتے ہیں کہ "مثبت سوچو، ہر طرح سے خوشحال ہو جاؤ گے"۔ گویا اب زندگی میں کوئی آزمائش ہرگز نہیں آئے گی ۔ ٹھیک اسی طرح جیسے سیاست دانوں کی نقل میں ہمارے علمائے کرام بغیر علم کو ( بیشتر لوگ کتابوں کی جانکاری کو علم سمجھ بیٹھتے ہیں) سمجھائے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں تعلیم آجائے گی تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی قومیں گمراہی کے راستے پر نہ ہوتیں۔
زبان زد ہے منفی سوچ والے لوگ ناکام ہوتے ہیں لہٰذا منفی سوچ سے کنارہ کش رہنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ منفی سوچ کا سرے سے انکار دراصل نظام فطرت سے انکار ہے۔منفی سوچ اگر برائے احتساب ہو تو ایک بڑی نعمت ہے۔ تنقید اگر تنقیص کے لئے نہ ہو تو یہ منفی سوچ نہیں ہو سکتی ہے۔ آج کل بیشتر لوگ کسی بھی شئے کے منفی پہلو کو سننا نہیں چاہتے ہیں۔موت ایک حقیقت ہے لیکن موت کا تذکرہ اکثر لوگ نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جسم و دماغ پر منفی اثرات پیدا کرتا ہے۔ صرف مثبت سوچنے والے رات میں بھی سورج تلاش کرتے ہیں۔ " امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" میں جہاں بھلائی کا حکم دینا مثبت ہے تو برائی سے روکنا منفی پہلو ہے۔ برائی کو روکنے کے لئے پہلے برائی کی پہچان کرکے اس کی نشاندہی کی جائے گی تب اس کی اصلاح کے لئے معروف کا حکم دیا جائے گا۔ تو کیا یہ کام بھی منفی سوچ کے زمرے میں آئے گا ؟ ہرگز نہیں، یہ حقیقت شناسی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ"
ترجمہ: " تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے (منع کرے)، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے (برا سمجھے)، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔"
( صحیح مسلم )
اس حدیث میں برائی کو دیکھ کر روکنے یہاں تک کہ دل سے برا جاننے کی تنبیہ کی جارہی ہے، تو کیا اس کو منفی سوچ کہیں گے یا عین فطری ذمہ داری مانیں گے؟
اللہ تعالیٰ یکتا اور تنہا ہے بقیہ کائنات کی تمام چیزوں کو اللہ نے جوڑا جوڑا بنایا ہے۔حق کے ساتھ باطل بھی ہے، فجور کے ساتھ تقویٰ بھی رکھا، رات کے ساتھ دن اور اچھائی کے ساتھ برائی وغیرہ بھی رکھا۔ اگر نمک نہ ہو تو میٹھا کا نہ کوئی وجود نہ کوئی مزہ۔ شر نہ ہو تو خیر کا تصور ہی بیکار۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کو میٹھا کے مقابلے میں نمکین زیادہ پسند ہوتا ہے۔ کوئی خیر کے مقابلے میں شر کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔اسی طرح کسی کے ذہن میں مثبت کے مقابلے میں منفی خیالات زیادہ آتے ہیں۔دونوں اصناف کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ انسان دونوں طرح کی جبلتوں کا پتلا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دونوں کا صحیح تقابل کیا جائے تو مثبت سوچ زیادہ سودمند پایا جائے گا لیکن منفی کے بغیر مثبت کی تلاش بھی اکثر محال ہوتا ہے۔
ان دنوں اکثر لوگ مثبت سوچ یعنی POSITIVE MIND/THOUGHT کی رٹ زیادہ لگاتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی میں ہمیشہ اچھا چاہتے ہیں جو ایک غیر فطری سوچ ہے۔ محاسبہ یا احتساب کامیاب زندگی کے لئے بہت ضروری ہے جس کا سوتا منفی سوچ سے ہی پھوٹتا ہے۔ محاسبہ کسی کی شخصیت کو جانچنے کی سب سے اہم کسوٹی ہے۔اگر منفی کے معنی محاسبہ لیا جائے تو قرآن و احادیث بھی منفی تبصرے سے خالی نہیں ہے۔ تنبیہ اور وعید کی آیات کو کیا منفی آیات کہہ سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی نہیں کرتا ہے تو اسے پہلے منفی انداز سے ہی تنبیہ کیا جائے گا۔ منفی سوچ دراصل تنقید اور احتساب ہے نہ کہ تنقیص۔ احتساب کے بعد ہی اصلاح ممکن ہے اور اصلاح تبھی ہو سکتا ہے جب اپنی کوتاہیوں کا حساب لگایا جائے۔ اپنی کمیوں کا حساب تبھی کیا جا سکتا ہے جب اپنے اعمال کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ کچھ لوگ تنقید کو اکثر تنقیص سمجھ لیتے ہیں جس کے معنی کسی کی تحقیر کرنا یا حقارت کی نظروں سے دیکھنا ہے۔جبکہ تنقید کا مطلب حساب کرنا یا تجزیہ کرنا ہے جس کے لئے منفی نظریہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ رہا سوال کسی کے بارے میں اچھا یا برا سوچنا تو یہ شخص اور حالات پر منحصر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر قاتل اگر کسی کو قتل کردے تو اس کے بارے میں مثبت سوچ نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک شخص امت کی گمراہی کا سبب بن رہا ہے تو اس کے بارے میں منفی تاثرات ہی پیدا ہوتے ہیں بھلے ہی اسلامیات کے مطابق اس کی موت کے بعد اس کے خیر کا ذکر ہی کیا جائے گا۔
محاسبہ کی پہلی سیڑھی اپنے عیوب کا حساب کرکے اسے دفعہ کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ محاسبہ میں خاص طور سے اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ انہیں سدھارا جا سکے۔ بیشک منفی سوچ کا حصہ انسان کے دماغ پر پہلے ابھرتا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ انسان اپنے عقل کا صحیح استعمال کرکے منفی اثرات کو مثبت سوچ سے دفعہ کرتا رہے لیکن منفی سوچ سے کلی فرار ممکن ہی نہیں ہے۔ سارے انسان ایک ہی جبلت و فطرت کے نہیں ہو سکتے ہیں۔مصلح اور مفکر سماج میں گھر کر گئی کوتاہیوں اور برائیوں کو منفی سوچ کے سہارے ہی سمجھ کر اصلاح کرتا ہے۔ لہٰذا سماج میں اکثر منفی سوچ کے ہی افراد پائے جاتے ہیں۔
جیسے جیسے دنیا قیامت سے قریب تر ہوتی جائے گی لوگوں کی منفی سوچ میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ایسا اس لئے کہ آج کی دنیا میں منفی واقعات ہی نمایاں ہیں۔ ان دنوں ہمارے ذہنوں میں Negative Approach اس لئے زیادہ بڑھ رہے ہیں کہ ہمارے آس پاس گزشتہ دنوں کے مقابلے میں زیادہ بگاڑ آیا ہے۔ایسے ماحول میں مثبت سوچ کے ساتھ زندگی گزارنا ایک مشکل کام ہے۔ایسے حالات میں مضبوط مصلحین کی ضرورت پڑتی ہے جس کی مسلسل کمی کا احساس ہوتا ہے۔
جو لوگ منفی سوچ کے وجود سے انکار کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ منفی سوچ کے اسیر ہوسکتے ہیں۔اگر منفی چیزوں کا علم نہ ہو تو مثبت سوچ بے اثر، بدمزہ اور بیکار ہو جاتی ہے۔ دنیا میں شاید کوئی بھی شخص ایسا نہ گزرا ہوگا جس کے ذہن ودماغ سے ہوکر منفی سوچ نہ گزری ہو اور اس کی زندگی میں منفی حالات نہ پیدا ہوئے ہوں۔ ہزار ناکامیوں کے بعد کامیابی ملتی ہے منفی جاننے کے بعد مثبت پر کمر بستہ ہونا ہی دراصل اس دنیا کا امتحان ہے۔صرف مثبت سوچ رکھنے والے لوگ کبھی بھی حقیقت شناس نہیں ہو سکتے ہیں اس لئے کہ کسی بھی چیز کی حقیقت سمجھنے کے لئے اس کی دونوں ماہیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایسے لوگ بھی مثبت تعصب کے شکار ہوتے ہیں جنہیں بری چیزوں میں بھی اچھائی ہی نظر آتی ہے،الا ماشاءاللہ۔
فرانس کا مشہور فلسفی ڈیکارٹ (Rene Descarte 1596-1650 AD) کو عموما فلسفہ جدید کے بانی کی حیثیت دی جاتی ہے۔ اس نے اپنی مشہور کتاب Discourse on Method 1637 میں شائع کرائی جس میں فلسفی کے لئے اصول مرتب کئے۔ ڈیکارٹ کا طریقہ کار کا نقطہ آغاز تشکیک ہے۔ وہ ہر شے، ہر احساس، ہر اصول، حتیٰ کہ ریاضیاتی مسائل کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ڈیکارٹ تشکیک پسند (Sceptic) نہیں بلکہ یہ تشکیک وہ اپنے طریقہ کار کو وضع کرنے کے لیے ابتدائی مرحلہ کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ لہٰذا یہ تشکیک برائے تشکیک نہیں بلکہ ایک مثبت نظریہ تک پہنچنے کی پہلی منزل ہے۔ " شک کرنا " کسی " شک کرنے والے کو مستلزم" ہے اور " شک کرنا" دراصل سوچنے کا عمل ہے۔
منفی سوچ کے مثبت اثرات بھی ہو سکتے ہیں، لیکن یہ اثرات عموماً غیر متوقع یا غیر معمولی ہوتے ہیں۔ چند ممکنہ مثبت اثرات درج ذیل ہیں:
1۔ احتیاط اور تیاری : منفی سوچ کبھی کبھار لوگوں کو زیادہ محتاط اور تیار رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص کسی منفی نتیجے کے بارے میں سوچتا ہے، تو وہ اس سے بچنے کے لیے بہتر منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔
2۔ مسائل کی نشاندہی : منفی سوچ کبھی کبھی مسائل کو پہلے سے پہچاننے میں مدد دیتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی منفی امکان کے بارے میں سوچتا ہے، تو وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلے ہی اقدامات کر سکتا ہے۔
3۔ حوصلہ افزائی : کچھ لوگوں کے لیے منفی سوچ انہیں زیادہ محنت کرنے پر اکساتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص ناکامی کے خوف سے دوچار ہو، تو وہ اس سے بچنے کے لیے زیادہ محنت کر سکتا ہے۔
4۔ حقیقت پسندی : منفی سوچ کبھی کبھی حقیقت پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص ہر چیز کو مثبت نظر سے دیکھتا ہے، تو وہ بعض اوقات حقیقت سے دور ہو سکتا ہے۔ منفی سوچ اس شخص کو حقیقت کے قریب رکھتی ہے۔
5۔ ذہنی مضبوطی : منفی سوچ کا سامنا کرنے سے لوگوں کی ذہنی مضبوطی بڑھ سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص منفی خیالات سے نمٹنے کا طریقہ سیکھ لے، تو وہ مستقبل میں زیادہ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔
حالانکہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ منفی سوچ کے مثبت اثرات صرف اسی صورت میں ممکن ہیں جب اسے صحیح طریقے سے سنبھالا جائے۔ اگر منفی سوچ کو قابو میں نہ رکھا جائے، تو یہ ذہنی دباؤ، اضطراب اور دیگر منفی اثرات کا سبب بن سکتی ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمیشہ شر کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے جو کہ ایک منفی بنام محاسبہ کی کیفیت بتاتی ہے۔
ترجمہ : حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شر کے متعلق ، اس اندیشے کے پیش نظر پوچھا کرتا تھا کہ وہ کہیں مجھے اپنی گرفت میں نہ لے لے ، وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم جاہلیت اور شر میں مبتلا تھے ، اللہ نے ہمیں اس خیر سے نواز دیا ، تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر بھی آئے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ میں نے عرض کیا اس شر کے بعد کوئی خیر بھی آئے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہاں ! لیکن اس میں کمزوری ہو گی ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اس کی کمزوری کیا ہو گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کچھ لوگ میری سنت اور میرے طریق کے خلاف چلیں گے ، ان کی بعض باتوں کو تم اچھا سمجھو گے اور بعض کو برا ۔‘‘ میں نے عرض کیا : کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہاں ، ابواب جہنم پر دعوت دینے والے ہوں گے ، جس نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا تو وہ اس کو اس میں پھینک دیں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان کا تعارف کرا دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ ہمارے ہی قبیلے سے ہوں گے اور وہ ہماری زبان میں کلام کریں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگر اس (زمانے) نے مجھے پا لیا تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امیر کے ساتھ لگ جانا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگر ان کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا امام (تو پھر کیا کروں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ان تمام فرقوں سے الگ ہو جانا خواہ تمہیں درخت کی جڑیں چبانی پڑیں حتیٰ کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے ۔‘‘
( یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے)۔
مکمل حوالہ درج ذیل ہے:
صحیح بخاری: کتاب الفتن، باب الالتزام بالسنة عند ظهور الفتن، حدیث نمبر 7084
صحیح مسلم: کتاب الامارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن، حدیث نمبر 1847
اور اب دوسری حدیث میں منفی سوالات برائے مثبت جوابات کی بات اس طرح کی گئی ہے۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ میرے بعد حکمران ہوں گے جو نہ تو میری ہدایت و طریق سے راہنمائی لیں گے اور نہ میری سنت کے مطابق عمل کریں گے اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے ، جن کے ڈھانچے انسانی اور دل شیطان ہوں گے ۔‘‘ حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اگر میں یہ صورت حال دیکھوں تو میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ، اگرچہ تجھے مارا جائے اور تمہارا مال لے لیا جائے ، تم سنو اور اطاعت کرو ۔‘‘
( متفق علیہ)
ان دنوں مثبت سوچ کی یلغار ہے۔ پتہ نہیں منفی سوچ کو سرے سے انکار کرنے کی شروعات کس نے کی؟ کوئی شخص بھی منفی بات یا سوچ کو سننا ہی نہیں چاہتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے موت حقیقت ہے پھر بھی موت کا تذکرہ کوئی پسند نہیں کرتا ہے۔
اب آئیے صرف مثبت سوچ کی کثرت کے نقصانات کا جائزہ لیں۔
1۔ مسائل کا انکار : اگر مثبت سوچ کو انتہا پر لے جایا جائے، تو یہ ایک "زہریلی مثبتیت" (Toxic Positivity) میں بدل سکتی ہے۔ لوگ منفی جذبات (غم، غصہ، مایوسی) کو دبانے لگیں گے، انہیں غیر ضروری یا برا سمجھیں گے۔ یہ جذباتی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
2۔ حقیقت پسندی کا فقدان: ہر مسئلہ صرف مثبت سوچ سے حل نہیں ہوتا۔ بعض اوقات مسائل کی سنگینی کو سمجھنا، ان کا تجزیہ کرنا اور ان پر غم وغصہ محسوس کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ مثبت سوچ کی انتہا ہمیں حقیقت سے دور کر سکتی ہے۔
3۔ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا: اگر ہر کوئی ہر حال میں "اچھا" ہی سوچے گا، تو معاشرے میں ہونے والے ظلم، ناانصافی اور برائی کے خلاف احتجاج کرنے والے کم ہو جائیں گے۔ غصہ اور ناراضی کا اظہار کبھی کبھار انصاف کے حصول کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
4. جذباتی یکسانیت: دنیا جذبات کے تنوع سے محروم ہو سکتی ہے۔ غم، المیہ اور جدائی کے جذبات انسانی تجربے کا ایک اہم حصہ ہیں جو ہمیں گہرائی اور ہمدردی عطا کرتے ہیں۔
آخر میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ انسانی احساسات کا حسن اس کے مثبت اور منفی جذبات اور خیالات کے تنوع (balance) میں ہے۔ ایک مثبت دنیا کا مطلب بے حس یا جذبات سے عاری دنیا نہیں، بلکہ ایک ایسی دنیا چاہئے جہاں لوگ مشکلات کا مقابلہ مضبوطی، ہمت اور امید سے کرتے ہوں، اور ایک دوسرے کے جذبات کا احترام بھی کرتے ہوں۔ بغیر تنقیص کے منفی سوالات و مسائل کو حل کرکے مثبت ماحول کو فروغ دیتے ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں منتشر مثبت اور منفی خیالات کے درمیان خوبصورت ربط پیدا کرکے کسی کی تنقیص و تحقیر سے بچائے، آمین
واللہ اعلم بالصواب
سرفراز عالم
عالم گنج پٹنہ
رابطہ 8825189373

0 تبصرے