Ticker

6/recent/ticker-posts

حضرتوں کا بے بنیاد ’بھرم‘

حضرتوں کا بے بنیاد ’بھرم‘





تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450



اللہ کے نبی صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم اس شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جس پر قرض ہوتا تھا۔ ہمارے یہاں ان حضرتوں کے جنازوں میں تل رکھنے کی جگہ نہیں ملتی جو پوری قوم اور نسلوں کے قرض دار ہیں، جنہوں نے ملی اداروں کو قوم کے چندے سے بنے مدرسوں اور تنظیموں کو اپنے خاندان کی اور اپنے بچوں کی جاگیر بنالیا، اپنی آئندہ کئی نسلوں کی حرام روزی روٹی کا بھروسہ مند انتظام کرکے جب مرتے ہیں تو چاروں طرف”حضرت رحمۃ اللہ علیه “ کی ایسی صدا گونجتی ہے کہ کسی میں حضرت کا غیر جانبدارانہ احتساب کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مشکوک کھانے کو اپنے حلق میں انگلی ڈال کر قے کردیا تھا مگر گزشتہ پچاس سال کے حضرتوں کے ریکارڈ اور ان کی زندگی آل و اولاد اور ورثے میں گدی نشینی کے چلن کو جہاں تک میں نے دیکھا ہے اور غور کیا ہے تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ حضرات ”قے“ تو دور کی بات، سب کچھ ڈکارنے کے بعد پوری طاقت سے کہتے ہیں الحمدللہ۔ غضب یہ ہے کہ ہر حضرت کے اردگرد خواب و منامات، کشف و کرامات، قوم کے درد سے بھری ہوئی کہانیاں، متقیانہ کردار ایسا چھا جاتا ہے کہ شیطان بھی مارے افسوس کے یوں کہتا ہے کہ میں نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرکے اور حکم خداوندی سے بغاوت کرکے غلط کیا تھا مجھے تو کوئی ”حضرت“ ہی بن جانا چاہیے تھا، کم از کم دنیا میں تو سادہ لوح عوام مجھے ”حضرت رحمۃ اللہ علیه “کہتی، آخرت میں جو ہوگا سو ہوگا ( العیاذ بااللہ)

پھر ان حضرتوں کے ناموں کے ساتھ کسی کے ”بزرگ دادا“ کسی کے ”بزرگ نانا“ کسی کے بین الاقوامی”مشہور شیخ“ اور کسی کی چھتیسویں پشت میں موجود کسی صحابی کا حوالہ دیکر جھوٹا بھرم پیدا کیا جاتا ہے اور عوام تو عوام علماء پر بھی رعب چڑھایا جاتا ہے جبکہ یہ رویہ صاف طور پر قرآن کی

آیت ولَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَىْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰٓ ترجمہ :

اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی گراں بارکسی دوسرے کابوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بوجھ سے کچھ نہ ہٹایاجائے گا خواہ وہ پکارنے والا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو — کے خلاف ہے۔

میں نے ایک صاحب سے معلوم کیا کہ آج کل بھارتی ”حضرات“ پاکستان کے پیر ذوالفقار صاحب نقشبندی سے بڑے رابطے میں ہیں ہر ایک اپنے آپ کو ان ہی کا مرید بتلاتا ہے ؟ کیا بھارت کے 30/ کروڑ مسلمانوں میں کوئی ایسا ”نباض بزرگ“ نہیں ہے جو بھارتی حضرتوں کا تزکیہ نفس کرسکے ؟ کہنے لگے اس کی دو وجہ ہیں ایک تو یہ کہ ہمارے ”حضرات“ بھارت میں اپنے آپ سے بڑا متقی کسی کو سمجھتے ہی نہیں، دوسرے اگر بھارت ہی میں اپنے شیخ و مرشد بنانے شروع کردیے تو ساری قیادت و سیادت دولت و شہرت اس طرف چلی جائے گی، پاکستان کے پیر کا انتخاب کرنے میں فائدہ یہ ہے کہ سرحد بہت ساری چیزوں کے لئے رکاوٹ بن جاتی ہے، یعنی نکاح کا نکاح اور پابندی کوئی نہیں۔ بیچاری عوام نے کبھی اس سوال پر غور نہیں کیا کہ جب ”مرحوم حضرت“ پوری زندگی قوم کے لیے کڑھتے رہے، رات دن قوم کی خدمات انجام دی، راتوں میں دعائیں کرتے رہے تو آل و اولاد کے علاوہ پوری قوم کیوں دلتوں سے بدتر ہوئی ؟

حضرت کے آل و اولاد کو خراش تک نہیں تو مسلم نوجوانوں کی لنچنگ کیوں ہو رہی ہے ؟ جب حضرت کی دعاؤں میں آسمان وزمین کو ہلا ڈالنے کا اثر ہے تو حفاظ و علماء کرام خودکشیاں کیوں کررہے ہیں ؟ مسلم بچیاں جہیز کی وجہ سے کیوں مررہی ہیں ؟ جب ”مرحوم حضرت“ نے پوری زندگی دین کے لیے وقف کردی تھی تو مسلم بچیوں میں ارتداد کیوں پھیل رہاہے؟ جب یہ حضرات خدائی نظام کے تحت مرتے ہیں تو ”حادثہ فاجعہ “ ”ایک اور چراغ بجھا“ ایک اور ”ولی کامل“ داغ مفارقت دے گیے، ”موت العالم موت العالم“ حضرت اکابر کی ”آخری نشانی“ تھے، اس قسم کے سینکڑوں جملوں سے بھرپور سوانحی خاکے اور مضامیں آنے لگتے ہیں، کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ مرحوم حضرت کو ملی نفع و نقصان کی ترازو میں تولے ؟ حضرت کے اڑیل رویے کی وجہ سے ملی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے اس کی جائز تاریخ لکھے۔

7/ اکتوبر 2023

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے