کوئٹہ بلوچستان کی شاعرہ
بند بوری شہر ِ ناپرساں کو یہ پیغام ہے
اب لفافہ کھولنا اپنا پتہ پہچان کر
’قلم قافلہ پاکستان کے زیر اہتمام، شاعری انتخاب کے لئے (میں گل بخشالوی) سخنوران جہاں سے رابطے میں رہتا ہوں، ادب دوست مجھے میری ادبی خدمات میں میری پہچان کے حوالے ادب دوست واٹس ایپ گروپس میں بھی شامل رکھتے ہیں، اس بڑی خوش بختی اور کیا ہوتی ہے، کہ گھر بیٹھ کر ا ن شعراءکے کلام سے لطف اندوز ہوتا ہوں، جو منظر عام پر نہیں ہوتے، کھاریاں کے ایک مشاعرے میں احمد فراز مرحوم نے فرمایا تھا کہ آج کے مشاعرے میں شہروں سے دور کھاریاں میں قابل تحسین شاعری کہنے والے شعراءکو سنا، تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اردو شاعری کا مستقبل تاریک نہیں۔
کسی ادبی گروپ میں، میں نے کوئٹہ بلوچستان کی شاعرہ کو پڑھا، تو ان کی قومی شاعری میرے دل میں اتر گئی میں نے محترمہ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ آپ قلم قافلہ کے زیر ِ اہتمام شائع ہونے والے شاعری انتخاب کے لئے بھی اپنا کلام ارسال کیا کریں، مجھے آپ کی شاعری میں وطن سے محبت کی خو ش بو محسوس ہوئی ہے۔ میری درخواست پر محترمہ قلم قافلہ کے ادبی سفر میں ہمارے ساتھ ہیں اور وہ ممتاز اور و طن دوست شاعرہ ہیں، تسنیم صنم !!
والدین کا دیا ہوا نام تسنیم شاہجہاں ہے دنیائے اردو ادب میں آپ تسنیم صنم ہیں۔ اردو لٹریچر میں ایم فل تسنیم صنم شاعری کے ساتھ نثر میں بھی اپنی پہچان رکھتی ہیں، ادبی گھرانے کی صاحبزادی کے شوہر عرفان الحق صائم اردو کے استاد شاعر دو شعری مجموعوں کے خالق تھے، تسنیم صنم کے صاحبزادے احمد وقاص کاشی، صاحب کتاب شاعر ہیں، آپ کی صاحبزادی مہ وش ردا بھی شاعرہ ہیں۔
تسنیم صنم کی تخلیقات میں تین شعری مجموعے ’کچھ خواب سر مژگاں‘ ’سرِ شام غزل‘ ’تراوش، شائع ہو چکے ہیں۔
افسانوی مجموعہ بند دریچے کی ہوا، بچوں کی کہانیاں جنگل میں منگل، قلقا ریاں، اور بچوں کی نظمیں شامل ہیں، سرکاری اور نیم سرکاری تمام ایوارڈز لینے والی کوئٹہ بلوچستان کی ممتاز شاعرہ کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن دور حاضر کے ادب دوستوں میں آپ کا تعارف مقصود تھا تسنیم صنم کی شاعر ی سے منتخب شاعری ملاحظہ کیجئے:
٭٭٭
میرے مالک، اب تو میرے درد کا درمان کر
کب تلک بیٹھی رہوں زخموں کی چادر تان کر
میں محبت میں بیان ِ مصلحت سنتی نہیں
یا مجھے تسلیم کر یا جنگ کا اعلان کر
٭٭٭
اے قوم ! سنائے تھے میں نے کل قصے تجھے تقدیروں کے
آج اک اک باغی کے سر پر ہیں تاج سجے تعزیروں کے
ہر ایک ایاز یہ کہتا ہے اب تو نے قول نبھانا ہے
وہ گیت ہیں تو نے گائے جن سے اترے رنگ ضمیروں کے
٭٭٭
ایک تو ہم کو رواداریاں کھا جاتی ہیں
دوسرے تیری فسوں کاریاں کھا جاتی ہیں
شاعری ہم بھی تو کرتے ہیں صحیفوں جیسی
ان صحیفوں کو پھر الماریاں کھا جاتی ہیں
تیرے آنے کی خبر عید کے آنے کی خبر
لیکن اس عید کی تیاریاں کھا جاتی ہیں
کیسے غربت ہو بھلا ختم لکڑہارے کی
پورے جنگل کو تو چنگاریاں کھا جاتی ہیں
اب تو ہر روز ہی لاشوں پہ صنم نوحہ گری
اپنی آنکھوں کو عزاداریاں کھا جاتی ہیں
٭٭٭
آئینہ ہاتھ میں تھا آنکھ میں حیرانی تھی
بس اسی بات کی دنیا کو پریشانی تھی
ہم ترے دل میں کہاں اپنا ٹھکانہ کرتے
شہر بے مہر تھا اور بے سروسامانی تھی
میں جو ڈوبی تو انا نے ہی ابھرنے نہ دیا
یعنی سوہنی بھی میری طرح کی دیوانی تھی
ترے آنے کی خبر مجھ کو چھٹی حس نے دی
ورنہ میں تو سبھی عالم سے ہی بیگانی تھی
جس نے تا عمر صنم چین سے جینے نہ دیا
ایک ٹوٹے ہوئے وعدے کی پشیمانی تھی
٭٭٭
خزاں کے آئینے کا ایک پیکر بھیج دیتے ہیں
چلو اس بار ہم تم کو دسمبر بھیج دیتے ہیں
وہ مٹھی میں ہمیں سرو و صنوبر بھیج دیتے ہیں
لفافے میں ہم اشکوں کے سمندر بھیج دیتے ہیں
تمہیں محفل، ہمیں تنہائیاں اب اچھی لگتی ہیں
کہو تو ہم تمناؤں کے لشکر بھیج دیتے ہیں
تمہیں آتا ہے پڑھنا اس لیے سوچا ہے یہ ہم نے
پرندوں کے پروں پہ نظم لکھ کر بھیج دیتے ہیں
گلہ پیغام الفت میں ہوا شا مل تو کیا غم ہے
گلوں کے ساتھ ہم کانٹے بھی اکثر بھیج دیتے ہیں
ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے بھیجنے لا ئق
مزار دل سے یادوں کے کبوتر بھیج دیتے ہیں
صنم احوال غم مل جائے گا ان کو خمو شی سے
انہیں آلودہ ء شبنم گل تر بھیج دیتے ہیں
٭٭٭
مبصر
گل بخشالوی
(سفیر ادب، گولڈ میڈلسٹ)
Cell: +92 302 589 2786
0 تبصرے