مثنوی کی تعریف، مثنوی کا فن، آغاز و ارتقا، اجزائے ترکیبی، اردو کے اہم مثنوی نگار
مثنوی کا فن، لغوی و اصطلاحی تعریف، اجزائے ترکیبی اور عہد بہ عہد ارتقا کا جائزہ لیجیے؟
مثنوی کی تعریف، مثنوی کیا ہے
مثنوی عربی لفظ مثنی سے مشتق/ ماخوذ ہے۔ جس کا مادہ " ث ن ی" ہے۔ مثنوی کے لغوی معنی دو دو والا / دو دو کیا گیا کے آتے ہیں۔ اصطلاح شعر میں مثنوی اس نظم کو کہا جاتا ہے جس کا ہر شعر ہم قافیہ ہوتا ہے یا ہم قافیہ و ہم رولیف ہوتا ہے۔ دو ہم قافیہ الفاظ کے التزام کی وجہ سے اس کا نام مثنوی قرار پایا۔ یعنی کہ اس کا ہر شعر مطلع کی طرح قافیہ و ردیف یا دونوں میں سے کسی ایک کا حامل ہوتا ہے۔ اس کا ہر شعر ایک دوسرے سے باہم مربوط و منسلک ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلسل نظم ہوتی ہے ، جس کا بنیادی وصف تسلسل ہوتا ہے۔ مثنوی میں قصیدے یا غزل کی طرح ابتدا سے آخر تک ردیف و قافیہ کی پابندی اور قید نہیں ہوتی۔ ہر شعر کے دونوں مصرعوں میں قوافی کا التزام کیا جاتا ہے۔ اس کے اشعار کی تعداد متعین نہیں ہوتی ہے۔ مثنوی کے لیے سات بحر یں متعین ہیں۔ پوری مثنوی ایک ہی بحر اور وزن میں ہوتی ہے۔
مثنوی کے موضوعات، مثنوی کے مضامین
مثنوی میں اکثر کوئی تاریخی واقعہ، قصه، عشق و محبت، رنج و مسرت، غیض و غضب، کینه و انتقام، مناظر قدرت بہار و خزاں، گرمی و سردی، صبح و شام، کوہ و صحرا، اخلاق و فلسفہ اور تصوف کے مسائل تفصیل سے بیان کیے جاتے ہیں۔
مثنوی میں مضامین کے اعتبار سے وسعت پائی جاتی ہے۔ اس میں ہر طرح کے داخلی و خارجی مضامین کو بیان کرنے کی پوری گنجائش ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ صنف ادب کے لیے مثنوی کی صنف واقعہ نگاری کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے۔ مثنوی کا انداز بیانیہ ہوتا ہے ۔ اردو کی شعری اصناف نظم میں سب سے زیادہ تنوع اور وسعت مثنوی میں ہوتی ہے ۔ اس لیے اس میں ہر قسم کے مضامین، واقعہ نگاری، مناظر قدرت، تصوف، فلسفه و حکمت، پند و نصائح، واردات قلبی، حسن و عشق، رزم و بزم، معاشرتی رسم و رواج انسانی جذبات و احساسات ، اخلاقیات اور کردار نگاری کے لیے بے حد مقبول ہیں۔
مثنوی کے اجزاۓ ترکیبی :
حمد، نعت، منقبت، ساقی نامہ، بادشاہ کی تعریف و توصیف، تریفِ سخن، سبب تالیف یا وجہ تصنیف، اصل قصہ یا داستان کا بیان، کردار نگاری، مافوق الفطرت عناصر ، جذبات نگاری، واقعہ نگاری، مناظر قدرت، ہم عصر تہذیب کی تصویر کشی ، حسن تعمیر اور زبان و بیان۔
نوٹ : مذکورہ اجزائے ترکیبی کا اطلاق قدیم مثنویوں پر ہوتا ہے۔ جدید مثنویوں ( حال و مابعد ) میں ان اجزا کی کوئی پابندی نہیں کی گئی ہے ۔ جد ید مثنویوں میں نئے نئے معاشرتی، تہذ یبی، سماجی و سیاسی مسائل کی ترجمانی کی گئی ہے۔ جیسے جیسے ملکی حالات تبدیل ہوتے گئے اس کے مضامین اور اجزائے ترکیبی میں تبدیلی رونما ہوتی گئی ۔
مثنوی کے لیے چند اہم خصوصیات
ایک اعلی مثنوی کے لیے چند اہم خصوصیات : مثنوی کے تمام اشعار اس طرح باہم مربوط اور منسلک ہونے چاہئے جس طرح زنجیر کی کڑیاں آپس میں ملی ہوتی ہیں۔ واقعات ، جزئیات ، احساسات، جذ بات اور خارجی مناظر کے درمیان حسن ترتیب قائم رکھنا ضروری ہے۔ مختلف چیزوں کے اوصاف اور خوبیاں بیان کرنے میں کوئی ابہام نہ ہو۔ ہر شے کی خوبیاں اس کی حیثیت کے مطابق ہونی چاہئے۔ کسی چیز کے اوصاف ایک ماہر فن کی طرح وضاحت سے بیان کرنا مثنوی کے لیے ضروری ہیں۔ ہر واقعہ اور منظر اس کی جزئیات سمیت بیان کرنا بھی بہترین مثنوی کی دلیل ہے۔ مثنوی میں ہر طرح کے کرداروں کا ذکر ہوتا ہے۔ مثلا بادشاہ و فقیر، مالک و نوکر، عالم و جاہل ، امیر و غریب، جوان و بوڑھا، مرد و عورت، سپاہی و تاجر وغیرہ۔ ایک اچھی مثنوی میں ہر کردار کی انفرادی خصوصیات بر قرار رکھنا لازمی ہے۔
مثنوی کی تین قسم
اردو میں عموما تین قسم کی مثنویاں لکھی گئی ہیں : رزمیہ مثنوی۔ بزمیہ مثنوی اور مذہبی مثنوی۔ رزمیہ مثنوی میں عام طور پر جنگ و جدال کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ بالخصوص بادشاہوں کی جنگی مہمات ۔ بزمیہ مثنوی میں عشقیہ قصے یا داستان رقم کی جاتی ہے۔ مثنوی مثنویاں کثرت سے لکھی گئی ہیں۔ اس میں صوفیاء کرام کے ارشادات اور پند و نصائح کا بیان ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی مثنویاں، ہندوستانی معاشرت پر لکھی گئی مثنویاں، ہندوستانی قصوں سے ماخوذ مثنویاں، ہندوستان کے فطری مظاہر یا موسموں کے تعلق سے لکھی گئیں مثنویاں اور حب الوطنی پر ہمارے ابتدائی ادب کا بیشتر حصہ مذ ہبی نوعیت کا ہے ۔ ہمارے صوفیا اور بزرگان دین کی زبان فارسی تھی لیکن اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے انھیں عام بول چال کی زبان کا استعمال ضروری معلوم ہوا اور بزرگوں نے اس عوامی بولی کا سہارا لیا جو ترقی کر کے اردو زبان کہلائی۔ انہوں نے پند و نصائح اور متصوفانہ خیالات کو مثنویوں کی شکل میں پیش کیا۔ دکن میں اردو شاعری کی ابتدا باضابطہ دکن سے ہوئی۔ اور یہیں سب پہلے مثنوی لکھی گئی۔
اردو کا پہلا مثنوی نگار، دکن کی پہلی مثنوی فخر دین نظامی کی کدم راؤ پدم راؤ
اردواور دکن کی پہلی مثنوی فخر دین نظامی کی کدم راؤ پدم راؤ ہے۔ دکن میں اردو مثنوی کی ایک طویل روایت رہی ہے۔
Urdu Ki Pehli Masnavi Ka Naam Kya Hai
بہمنی دور ( گلبرگہ اور بیدر) : 350 سے 25 5 تک۔ قطب شاہی دور ( گولکنڈہ) : 58 سے 687 تک عادل شاہی دور بیجاپور ) 490 سے 886 تک۔ مغلیہ دور 686 سے 750 تک دکن کے نمائندہ مثنوی نگار : فخر دین نظامی ، اشرف بیابانی ، بر ہان الدین جانم، عبدل، مقیمی، امین، شوقی، صنعتی، رستمی، ملک خوشنود، نصرتی، ملا وجہی، غواصی، ابن نشاطی، ذوقی، بحری، ولی دکنی اور سراج دکنی، وغیرہ۔
دکن کی مشہور مثنویاں | اردو کی مشہور مثنویاں
دکن کی مشہور مثنویاں : قطب مشتری ملا وجہی۔ علی نامہ نصرتی۔ طوطی نامہ اور سیف الجمال و بدیع الملک غواسی۔پھول بن /ابن نشاطی و غیره۔
شمالی ہند کے نمائندہ مثنوی نگار
شمالی ہند کے نمائندہ مثنوی نگار : افضل، فائز دہلوی، آبرو، شاہ حاتم، مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر، رائخ عظیم آبادی، میر اثر، میر غلام حسن، مصحفی، جرأت، پنڈت دیا شنکر نسیم، شوق لکھنوی و غیرہ۔
شمال ہند کی نمائندہ مثنویاں
شمال ہند کی نمائندہ مثنویاں : بکٹ کہانی رافضل جھنجھانوی۔ مناجات۔ در مدح شاہ ولایت ۔ تعریف ہولی/ فائز دہلوی۔ مثنوی سراپا۔ ساقی نامہ اشاہ حاتم۔ قصہ پسر شیشہ گروزر گر پسر ۔ہجوامیر بخیل۔ سبیل ہدایت۔ موسم گرمار مرز محمد رفیع سودا۔ خواب و خیال۔ معاملات عشق ۔ مور نامہ۔ اعجاز عشق میر تقی میر ۔ کشش عشق۔ جذب عشق مثنوی در بیان انقلاب زمانہ/ راسخ عظیم آبادی۔ خواب و خیال میر اثر۔ گلزار ارم ، سحر البیان میر حسن۔ بحر المحبت میر غلام ہمدانی مصحفی۔ مثنوی گلزار نسیم پنڈت دیا شنکر نسیم۔ زہر عشق۔ بہار عشق۔ فریب عشق مرزا شوق لکھنوی۔ عادل شاہی دور کے اہم مثنوی نگار۔
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے