Ticker

6/recent/ticker-posts

مثنوی سحرالبیان کا تنقیدی جائزہ | مثنوی سحر البیان کی تشریح

مثنوی سحرالبیان کا تنقیدی جائزہ | مثنوی سحر البیان کی تشریح

مثنوی سحرالبیان کے مصنف میر حسن ہیں۔ مثنوی سحرالبیان کی شاعری اُردو ادب میں ایک لافانی کار نامہ ہے۔ جو 1784ء یہ آصف الدولہ کے عہد میں وجود میں آئی۔ میر حسن کا زمانہ اور موجودہ زمانے میں بہت سی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ مگر یہ مثنوی آج بھی اُتنی ہی دِلکش اور دلچسپ بھی ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے فرمایا ہے کہ ’’زمانے نے اس کی سحر بیانی پر تمام شعراء اور تذکرہ نویسوں سے محضر شہادت لکھوایا ‘‘

میر حسن کی لکھی گئی 12 مثنویوںمیں سے سب سے زیادہ مشہورمثنوی سحرالبیان ہوئی ۔یہ مثنوی قصہ بدرمنیر و شہزادہ بے نظیر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس مثنوی کی بحر بحر متقارب مثمن مقصور یا محزوف یعنی فعولن فعولن فعول فعول ہے۔ رشید حسن خان نے سب سے پہلے اس کو مرتب کیا اور گلکرسٹ صاحب کی فرمائش کرنے کی وجہ سے میر شیر علی افسوس نے اسے اپنے مقدمے کے ساتھ 1805ء میں ہندوستانی پر لیس کلکتہ سے شائع کروائی۔

مثنوی سحرالبیان کا قصہ

سحر البیان کا قصہ میں کوئی خاص جدت نہیں ہے مگر میر حسن نے اس عہد کی بہترین تصویر کشی اور معاشرت کی بھر پور عکاسی اس کے ذیعے کی ہے۔ سحر البیان کی کردار نگاری میں میر حسن نے سمجھداری سےكاملیاہے۔ اس مثنوی میں کردار بھی بہت ہیں مگر ان میں سے کچھ بہت اہم بھی ہیں اور ان کی پیشکش قابل تعریف نظر آتی ہے ۔ ہر کردار جیتا جاگتا اور مکمل مجسمہ نظر آتا ہے۔ نجم النساء کا کر دار تمام کرداروں سب میں زیادہ
جاندار، متحرک اور دلکش بھی ہے۔

مثنوی سحرالبیان میں جذبات نگاری

مثنوی سحرالبیان میں جذبات نگاری میں میر حسن نے اپنی خاص مہارت دکھلائی ہے ۔ اِس کے مکالمے ایسی فطری زبان میں پیش ہوۓ ہیں کہ ان سے کرداروں میں جان سی پڑ گئی ہے۔

مثنوی سحرالبیان میں مافوق الفطرت عناصر

مثنوی سحرالبیان میں بہت سے جن، دیو اور پریوں کے کردار بھی ہیں۔ اس غیرفطری عنصر پر الطاف حسین حالی نےاعتراض بھی کیا ہے مگر اس دور کا یہی چلن تھا۔ اس مثنوی میں انسانی زندگی کی جتنی تصویر پیش کی گئی ہیں وہ سبھی فطری معلوم ہوتے ہیں۔ مثنوی میں اس دور کی تہذیب و معاشرت کی بھرپور عکاسی بھی ہے۔ زمانے کا رہن سہن ، رسم و رواج اصل کے مطابق پیش کی گئی ہے ۔ اس کی منظر کشی ہر لحاظ سے مکمل ہے۔

مثنوی سحرالبیان میں متروک الفاظ کا استعمال

میر حسن نے کہیں کہیں متروک الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے جِس کی وجہ سے مثنوی کی زبان سادہ سلیس اور رواں ہو گئی ہے۔

مثنوی سحرالبیان کا تنقیدی جائزہ | مثنوی سحر البیان کی تشریح

مثنوی سحر البیان
میر غلام حسن نام اور تخلص حسن تھا۔ ان کے والد کا نام میر غلام حسین ضاحک تھا جو اپنے دور کے معروف ہجو گو شاعر تھے۔

میر غلام حسن کا تعارف

میر غلام حسن کی پیدائش 1736-37 میں محلہ سید واڑہ ، دہلی میں پیدا ہوئے۔ اور انتقال 1786 محلہ مفتی گنج ، لکھنو میں۔انہوں نے کل 12 مثنویاں لکھی ہیں ۔ان میں مثنوی گلزار ارم کو بھی شہرت نہیں ملی اور مثنوی سحرالبیان ادب کی شاہکار کہلائی۔

مثنوی سحرالبیان میں اشعار کی کل تعداد 279 ہے

اس مثنوی میں اشعار کی کل تعداد 279 ہے۔ گلزار ارم ایک خود سوانحی مثنوی ہے۔ اس میں دلی سے اجڑنے کا غم ، فیض آباد سے لکھنو پہنچنے اور ان پر گزرے ایام کا ذکر ہے۔ یہ مثنوی نواب آصف الدولہ کی توجہ سے وجود میں آئی۔ انھوں نے ایک " شعراۓ اردو کے تند کرے‘‘ تحریر کیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کا ایک دیوان بھی ہے۔ مثنوی سحر البیان کو مثنوی میر حسن، مثنوی بدر منیر اور قصہ ، بدر منیر و شاہ زادہ بے نظیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اس کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا ر از میر حسن کی فن کاری اور شاعرانہ کمال ہے۔

مثنوی سحرالبیان اردو کی ان زندہ جاوید اور شہرہ آفاق مثنوی

مثنوی سحرالبیان اردو کی ان زندہ جاوید اور شہرہ آفاق مثنویوں میں سے ایک ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یہاں طور پر مقبول رہی ہیں۔

اس مثنوی میں روایتی ہیئت کو مکمل طور پر برتا گیا ہے۔ قصہ پن، ترتیب و رابط ، شاعرانه صفات، توازن، اختصار ، تہذیب و معاشرت بڑی فن کارے کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ میر حسن نے اس مثنوی میں کردار نگاری ، پلاٹ ، جذ بات نگاری، مکالمہ نگاری ، مرقع نگاری ، منظر نگاری اور سراپا نگاری کے علاوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب انداز سے کھینچی ہے۔ اس مثنوی سے مذہبی افکار، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کا علم ہوتا ہے اور اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس سماج و معاشرت اور تہذیب و ثقافت کے روائتی طرز فکر اور تصور زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ میر حسن نے اس مثنوی کی تعریف اور اس کی خوبیوں سے متعلق کہتے ہیں :

’’نہیں مثنوی ہے یہ ایک پھلجھڑی
مسلسل ہے موتی کی گو یا لری‘‘

’’نئی طرز ہے اور نئی ہے زبان
نہیں مثنوی ہے یہ سحر البیان‘‘

مثنوی سحر البیان کا خلاصہ | مثنوی سحر البیان کی تشریح

اس مثنوی کے پلاٹ میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزا مختلف منشور و منظوم قصوں اور قدیم داستانوں میں بھرے پڑے ہیں۔ اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی رعایا میں ہر دلعزیز اور مقبول تھا۔ سوائے اولاد کے ،انھیں تمام نعمتیں میسر تھیں ۔ شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ لیکن اس کی سلامتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوۓ اسے احتیاط کرنے کو کہا جاتا ہے کہ بارہ سال کی عمر تک اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات میں کھلے آسمان کے نیچے سونے نہ دیا جاۓ ۔ کچھ عرصے بعد شہزادہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کا نام بے نظیر رکھا جاتا ہے۔ ۱۴ سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی عمر بارہ سال مکمل ہونے کو تھی تو وہ رات کو ضد کر کے چھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر ہوتا ہے اور اسے پرستان میں لے جاتی ہے۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پر پا ہو جاتا ہے۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھرتا شہزادہ بدر منیر شہرادی کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہو جاتے ہیں۔ اس کی اطلاع ماہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوادیتی ہے ۔ بدر منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار سہیلی وزیر زادی نجم النساء بے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے جنوں کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دلاتی ہے۔ دونوں کی شادی ہو جاتی ہے اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے۔ اس مثنوی میں ایک ایسے معاشرے کی تصویر کشی کی گئی ہے جہاں لوگوں کو پوری فراغت حاصل تھی، قصے کے تمام افراد آسودہ حالی کے مظہر ہیں۔ یہ ایک عشقیہ مثنوی ہے۔ اس میں شہزادہ بے نظیر اور شہزادی بدر منیر کے عشق کی داستان بیان کی گئی ہے۔اس کے قصے میں جدت و ندرت لانے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے۔ سحر البیان کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاس ہے۔ میر حسن کردار نگاری میں ید طولی رکھتے ہیں۔ مثنوی میں بہت سے کردار ہیں مگر ان میں سے کچھ بہت اہم ہیں اور ان کی پیشکش قابل تعریف ہے۔ ہر کردار جیتا جاگتا اور مشکل نظر آتا ہے۔ نجم النساء کا کردار ان سب میں زیادہ جاندار اور دلکش ہے۔ انھوں نے جس معاشرت کی تصویر کھینچی ہے وہ نوا ب اودھ و لکھنو سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں مناظر کی جزئیات کی تفصیل اتنی گہری اور وسیع ہے کہ پورا منظر متحرک ہو کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔

مثنوی سحر البیان میں اس عہد کی تہذیب و معاشرت کی عکاسی

مثنوی سحر البیان میں اس عہد کی تہذیب و معاشرت کی عکاسی بھی بھر پور ہے۔ اس زمانے کا رہن سہن، رسم و رواج ہر چیز اصل کے مطابق دکھائی گئی ہے۔ اسی طرح منظر کشی بھی ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ انھوں نے ان کی فضا بناتے وقت پھل اور پھول کی قسمیں درخت خوشیں روشنی ہوا کا بہتر ین نقشہ پیش کیا ہے۔

شہزادے کی تعلیم ، علم نجوم ، علم موسیقی، فن خطاطی اور مختلف مواقع کی رسومات کا ایسا حسین مرقع پیش کیا گیا ہے کہ اپنی مکمل جزئیات کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ انھوں نے جذبات نگاری میں بھی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ مکالمے ایسی فطری زبان میں ادا ہوئے ہیں، ان سے کرداروں میں جان پڑ گئی ہیں۔ مثنوی میں مافوق الفطرت عناصر جن ، دیو اور پریاں بھی نظر آتی ہیں لیکن انسانی زندگی کی جتنی تصویر میں پیش کی گئی ہے وہ سب فطری ہیں۔

مثنوی سحر البیان میں انسان دوستی اور انسانی ہمدردی

سحر البیان میں انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کا ایک گہرا شعور ملتا ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے دبستان دہلی کی سادگی، روانی اور سلاست اس مثنوی کا امتیاز ہے۔ اصطلاحات، محاورات، کہاوتیں، تشبیہات، استعارات اور شعری سنعتوں کا استعمال فن کارانہ طریقے سے کیا گیا ہے۔ اس مثنوی کی بحر بحر متقارب مثمن محذوف الآخر مقصور الآخر ہے۔ اس کا وزن : فعولن فعولن فعولن فعل فعول
ہے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے