Ticker

6/recent/ticker-posts

رجب علی بیگ سرور کی نثری خصوصیات | فسانۂ عجائب کا تنقیدی جائزہ

رجب علی بیگ سرور حیات اور کارنامے | فسانہ عجائب کا تنقیدی مطالعہ

رجب علی بیگ سرور کی نثری خصوصیات | فسانۂ عجائب کا تنقیدی جائزہ : اردو میں نثری داستانیں لکھنے کا آغاز دکن میں ہوا بعد میں شمال میں متعدد داستا نیں لکھی گئیں ۔ اس سلسلے میں فورٹ ولیم کالج کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ رجب علی بیگ سرور کی فسانۂ عجائب میر امن دہلوی کی باغ و بہار لکھےجانےکے بعد 1824 میں لکھی گئی ۔ یہ داستان باغ و بہار کے جواب میں لکھی گئی تھی ۔ سرور کی دوسری نثری تصانیف میں سرور سلطانی اور گلزار سرور یادگار ہیں ۔ اول الذکر شاہنامہ فردوسی کے خلاصے‘‘’ شمشیر خانی‘‘ کی اردو شکل ہے اور سرور ہی کو الف لیلی کا مختصر روپ کہا جا سکتا ہے۔ ’’فسانۂ عجائب میں لکھنو کی زندگی کے گوناگوں پہلوؤں کی بڑی صحیح عکاسی کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے وہ مقبول و معروف ہے۔ اس داستان کی ہردلعر یزی کی دوسری وجہ اس کا اسلوب ہے جس میں مقفیٰ اور مسجع نثر کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔

رجب علی بیگ سرور فسانۂ عجائب پر تبصرہ

رجب علی بیگ سرور نے فسانۂ عجائب کو دلچسپ بنانے میں مختلف داستانوں کے افر اد اخذ کیے ہیں ۔ محمد نخش مہجور کی ، ’’ گلشنِ نوبہار ‘‘ گلشن اور میر حسن کی’’ سحرالبیان ‘‘ کے علاوہ بہار دانش اور پدماوت میں بکھرے ہوئے داستانی اجزا سے استفادہ کرتے ہوئے سرور نے فسانۂ عجائب کو داستانی ادب کا ایک شاہکار قصّہ بنا دیا ہے۔ فسانۂ عجائب داستان ہے اس کے قصہ در قصہ کی تکنیک ، طلسمانی دنیا کے مہمات اور مافوق الفطرت عناصر اس کی خصوصیات میں شامل ہیں۔ اس کا پلاٹ خالص تقریحی نوعیت کا حامل ہے لیکن قصے کے در میان مصنف نے بصیرت افروز نکات بیان کر کے زندگی کی مزاج شناسی کا ثبوت دیا ہے۔ فسانۂ عجائب کے مطالعےسے رجب علی بیگ سرور کی ادبی ذکاوت اور ذہانت کا ثبوت ملتا ہے۔

رجب علی بیگ سرور حیات اور کارنامے | اردو کا والٹر اسکاٹ

رجب علی بیگ سرور کی تاریخ پیدائش

رجب علی بیگ سرور کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف بیانات ملتے ہیں ۔ خود سرور نے فسانۂ عجائب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر چالیس سال ہو گئی ہے۔ فسانہ فسانۂ عجائب 1824 میں شائع ہوئی اس لیے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ان کی تاریخ پیدائش 1805 ہوگی ۔

رجب علی بیگ سرور کے والد مرزا اصغر علی بیگ

سرور کے والد مرزا اصغر علی بیگ کو عبد الغفور نساخ نے تذکرہ سخن شعرا میں لکھنو کا باشند ہ تحریر کیا ہے۔


رجب علی بیگ سرور کا وطن

سرور نے بھی فسانہ عجائب کے دیباچہ میں لکھنؤ کا ذکر اپنے وطن کی حیثیت سے کیا ہے ۔ وہ اردو کے علاوہ عربی و فارسی کے بھی عالم تھے ۔ خوش نویسی، نجوم اور موسیقی کے ساتھ ساتھ انہیں داستان گوئی سے بھی شغف تھا۔ سپہ گری کے فن سے واقف تھے۔ سرور نے آصف الدولہ کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔ نوجوانی میں شاعری کا آغاز کیا۔ ان کے استاد آغا نوازش حسین خان میں میر سوز کے شاگرد تھے۔ جوانی کا زمانہ عیش و آرام اور سیر و تفریح میں گزرا۔ 1813 میں ایک متمول گھرانے کی لڑکی سے شادی ہوئی۔ ایک قتل کے کیس میں انہیں مورد الزام قرار دیا گیا اور 1824 میں لکھنؤ کو چھوڑ کر انہیں کانپور جانا پڑا۔

رجب علی بیگ سرور کا انتقال | موت

نصیر الدین کے تخت نشیں ہونے پر وہ پھر لکھنو واپس لوٹ آئے اور سرکار کے ملازم ہو ئے واجد علی شاہ کے زوال کے ساتھ سرور پھر پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے ۔ 1858 میں بنارس پہنچے اور مہاراجہ کی طرف سے سو روپے ماہوار مقرر ہوا۔ بنارس ہی میں 1869 میں داعی اجل کو لبیک کہا اور وہیں دفن ہوئے۔ ان کی تاریخِ وفات کے متعلق ایک جگہ لکھا ہوا ہے کہ:نظم و نثر میں سرور کی گلزار سرور، شبستان سرور، شرر عشق اور شکوفه محبت‘‘ نامی کتابیں اہمیت کی حامل ہیں۔ انشاء سرور سے ان کی زندگی کے بعض اہم حالات معلوم ہوتے ہیں 1863ء آنکھوں کے علاج کے لیے کلکتہ گئے مگر علاج نہ ہو سکا۔ وہ واپس آئے اور 1867 میں ان کا انتقال ہو گیا ۔

رجب علی بیگ سرور نے فسانہ عجائب کیوں لکھی

رجب علی بیگ سرور صاحبِ دیوان شاعر بھی تھے۔ غزلوں کے علاوہ قصیدے، ربائی، مثنوی، قطعات اور اس وقت کی تمام اصنافِ شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن ان کی شناخت بحیشیت نثر نگار قائم ہوئی۔ وہ بہت خوش مزاج ، خوش گفتار اور ملنسار انسان تھے۔ لکھنؤ کے شرفا کے ساتھ ان کا میل ملاپ تو تھا ہی، دہلی میں مرزا غالب سے بھی ان کے تعلقات تھے۔ غالب نے ان کی کتاب گازار سرور پر تبصرہ بھی کیا ہے ۔ فسانہ عجائب انہوں نے اپنے ناپسندیدہ شہر کانپور میں 1824 میں اپنے ایک دوست کی فرمائش پر لکھی۔

فسانۂ عجائب کا تعارف

فسانۂ عجائب : اردو نثر کے ابتدائی زمانے میں جو کتابیں تصنیف ہوئی ان کی زبان فارسی نثر کے اثر سے مقفیٰ اور مسجع نثر تھی ۔ اس کی ابتدائی مثال دکن میں ملاّ وجہی کی داستان سب رس کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ شمالی ہند میں فضلی کی کربل کتھا جس پر برج اور دوسری علاقائی بولیوں کے اثرات ہیں، اس قسم کی نثر کی دوسری اہم مثال ہے۔ کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد 1800 اور اس کے بعد چند برسوں میں اردو نثر کی جو کتابیں کالج کے لیے لکھی گئیں، ان کی زبان عام بول چال اور روز مرہ کے استعمال کا نمونہ ہے ۔ مثلاً میر امن دہلوی کی باغ و بہار اور حیدر بخش حیدری کی آرائش محفل وغیرہ لیکن اسی زمانے میں کالج سے باہر ماحول میں جو نثر وجود میں آرہی تھی اس پر روایتی لسانی اثرات اب بھی خاصے نمایاں تھے۔ یہ نثر نہ صرف قافیوں اور ذومعنی الفلوں سے مرصع تھی بلکہ اس کے جملوں کی بناوٹ میں تصنع اور پیچیدگی نے اسے مشکل اور بے رس بھی بنا دیا تھا۔ اس کے باوجود یہی طرز پڑھنے لکھنے والے افراد میں رائج اور مقبول تھا۔ اس زمانے میں قاری نثر کے ہونے کی وجہ سے سادہ اردو نثر کی طرف توجہ کم رہی۔ اس ضمن میں لکھنو میں تخلیق کی گئی ایک مختصر داستان اردو کی ایک نہایت مشہور و معروف کتاب ہے جس کے مصنف مرزا رجب علی بیگ سرور ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب آورد اور تصنع سے بھر پور نثر کا نمونہ پیش کرتی ہے اور جس کا موضوع بھی کچھ خاص دلکش اور دلچسپ نہیں مگر اس کتاب کی تاریخی اور تدریسی اہمیت آج تک برقرار ہے۔

فسانۂ عجائب اپنے عہد کا مرفع ہے

فسانۂ عجائب کے متعلق اردو ادب کی تنقیدی تاریخ میں سید احتشام حسین لکھتے ہیں:
’’ یہ کہانی 1824 میں لکھی گئی اور جیسا کہ اس زمانے کی کہانیوں میں ہوتا ہے، یہ بھی داستانی رنگ میں غیر فطری باتوں سے پر ہے۔ اس پر پد ماوت‘‘ اور ’’ الف لیلہ کا اثر صاف طور پر دکھائی دیتا ہے ۔ پرانے افسانوں کی طرح اس میں بھی کچھ اخلاقی فضائل کی تبلیغ اور مختلف اقسام کے ناممکن واقعات کے خیالی بیان سے تفریح پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا اسلوب بڑا رنگین اور پیچیدہ اور اکثر عبارت مقیٰ ہے۔ اس میں میر امن کی سہل زبان کی ہنسی اڑائی گئی ہے۔ کیوں کہ مصنف کے نظر میں سیدھی سادی نثر نگاری کوئی ہنر نہیں۔ اسے صنائع سے پر ہونا چاہیے ۔ سرور کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر واقعے کے مطابق الفاظ ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ اس کتاب سے لکھنؤ کی تہذیب کے متعلق بڑی وقفیت ہوتی ہے ۔‘‘

رجب علی بیگ سرور کی داستان کی زبان اور اسلوب

رجب علی بیگ سرور کی زبان اگر چہ پیچیدہ اور مشکل سے مگر اس طرز میں بھی انہوں نے فصاحت سے خوب کام لیا ہے اور بعض ایسی خوبیوں کتاب میں پیدا کر دی ہیں کہ اس کی استادی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ داستان میں مصنف کے بیان کی خاصیت یہ ہے کہ نثری بیان کے ساتھ جگہ جگہ اشعار مصرے، قطعات بلکہ طویل مخمس وغیرہ بھی شامل کردیے ہیں جو کہیں تو برمحل ہیں لیکن طویل ہوجانے پر اکثر موضوع سے غیر متعلق بھی ہوگئے ہیں۔


فسانۂ عجائب کا آغاز

داستان اور مثنوی کی روایت کے مطابق فسانۂ عجائب نثر میں حمد ونعت بادشاہ غازی الدین حید رکے قصیدے اور لکھنؤ کی معاشرتی صورت حال کے بیان سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کہانی کی زبان کا اندازہ ذیل کے عنوان سے کیا جاسکتا ہے۔ ’’ آغاز داستان نادر بیان صاحب سریر سلطانی، مالک اور نگ کامرانی، زینت تاج و تخت شاہنشاہ گردوں بارگاه شاه فیروز بخت اور پیدا ہونا شاہزادو جان عالم کا اور شادی ماہ طلعت سے‘‘

فسانۂ عجائب سے اقتباس

ذیل کے اقتباس سے سرور کے زمانے کے لکھنو اور کانپور کے مناظر آنکھوں میں پھر جاتے ہیں، یہ مثال کلاسک اردو کا نمونہ ہے۔
’’ بیان مؤلف در بارهء لکھنؤ ذکرِ صنعت مردمان خجسته رو و تذکرۂ صاحب علم و کمال على قدر حال و نمونه مکانات شہر یہ پنبہ دہاں، میچمداں محررِ داستان، مقلّدِ گذشتگان، سراپا قصور رجب علی بیگ تخلص سرورؔ، کانو و ذکر صنعت ، متووطن حال خطه، بینظیر دلپزیر رشک گلشن جنان مسکن حور و غلمان جائے مردم خیز باشندے یہاں کے ذ کی فہیم عقل کے تیز گردیده انصاف و نظر ِغور سے اس شہر کو دیکھیے تو جہان کی دید کی حسرت نہ ر ہے آنکھ بند کر لے‘‘

شعر:
سنا رضواں بھی جس کا خوشہ چیں ہے
وہ بےشک لکھنو کی سرزمیں ہے

’’سبحان اللہ و بحمدِ عجب شہر گلزار ہے ہر گلی کو چہ دلچسپ باغ و بہار ہے ہر شخص اپنے طور پر با وضع قطعدار ہے ۔ دورد یہ بازار کس انداز کا ہے۔‘‘ ہر دوکان میں سرمایہ ناز و نیاز کا ہے ہر چند ہر محلے میں جہان کا ساز و سامان مہیا ہے پر اکبری دروازے سے جلوہ خانے اور پکے پل تک کہ صراط مستقیم ہے کیا جلسہ ہے نان بائی خوش سلیقہ شیرمال، کباب، نان، نہاری، جہان کی نعمت اس کی آبداری کی جس کی بوباس سے دل طاقت پائے دماغ معطر ہو جاۓ۔ فراشتہ گذرے تو سو نگھے کیسا ہی سیر ہو ذرا نہ دیر ہو دیکھے سے بھوک لگ آئے وہ سرخ سرخ پیاز سے نہاری کا بگھار، سر یلی کی جھنکار شیر مال شنگرفی کے رنگ کی خستہ بھربھری، ایک بار کھاۓ نان نعت کا مزہ پاۓ تمام عمر ہونٹ چاٹتا رہ جاۓ کباب اس آب و تاب کے کہ مرغ ماہی کا دل سیخِ آہ پر حسرت محرومی سے کباب ادرک کا لجھا میاں خیر اللہ کی دوکان کا بال سے باریک کترا، ہاضم، نایاب حسینی کے حلوا سوہن پرعجیب جوبن، اس کی شیر یی کی گفتگو میں لب بند جہان کو پسند پیڑی دبیز بسی بسائی لذیذ ہونٹ سے کھائے، دانت کا اس پر تمام عمر دانت رہے۔‘‘

دانت لگانے کی نوبت نہ آۓ، جوزی خوب حبشی اہل ہند کو مرغوب، دودھیا شیر خوارہ نوش کر جاۓ ۔ ہر کجڑن کی وہ تیکھی چتون آدی صورت دیکھتا رہے رعب حسن سے بات نہ کر سکے۔ نین پریزاد، سر و قامت رشک شمشاد دو کانوں میں انواع و اقسام کے میوے قرینے سے سجے روز مرے محاور سے ان کے دیکھے نہ سنے، کبھی کوئی پکار اٹھی، میاں ٹکے کو ڈھیر لگا دیا ہے، کوئی موزوں طبیعت یہ فقرہ سناتی مزا خوشگوار کا ہے رنگتروں میں، کسی طرف سے یہ صدا آتی ہے گنڈیریاں ہیں لونڈے کی ایک طرف تنبولی سرخ روئی سے یہ رمز و کنایہ کرتے بولی ٹھولی میں چبا چبا کر ہر دم مگھئی کا منہ کالا ، مہو با گرو ڈالا، عبیرے ہے نہ گلال ہے کتے چونے سے آدھی میں مکھڑا لال ہے۔ گلیوں میں گجر دم یہ آواز آتی ہے، شیر مال ہے گھی اور دودھ کی مفلس کا دل اچاٹ ہے ٹکوں کی چاٹ ہے، کدھر لینے والے ہیں بخش کی قفلیاں اور کھیر کے پیالے ہیں ۔

کیا خوب بھونے بھربھرے ہیں۔ چنے پرمل اور مر مر ے ہیں، جیٹھ بیسا کھ کی وہ گرمی جس میں چیل انڈا چھوڑتی، دو پیسے کو برف کی قفلی جمی، دوکھاۓ بدن تھراۓ ، زیادہ ہوکا کرے، لقوے فالج میں مرے۔ سر چوک ہمیشہ شانے سے شانہ چھلا نسیم و صبا کو سیدھا رستہ نہ ملا شیخ کولی کی مٹھائی جس نے کھائی جہان کی شیر بینی سے دل کھٹا ہوا، بنارس کا کھجلا بھولا ، متھرا کے پیڑے کا ٹھٹھا ہوا، برنی کی نفاست بوباس درودرا پن، نقرئی ورق کا جو بن کسی اور شہر کا، رکا بدار اگر دیکھ پاۓ یا ذائقہ لب آۓ ، زندگی تلخ ہو، ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے۔ امرتی مسلسل کاہر پیچ ذائقہ کو پیچ تاب دیتا یاقوتی مفرح کا مزہ جب منھ میں رکھا اصل تو یہ ہے کہ عسل مصفے جنت کی نہر کا حلق سے اترا پرا چیوں کی گلی کی کھجور لذت ٹپکتی ذائقے میں چور، بہتر از انگور نہایت آب و تاب ہم خرما و ہم ثواب، بالائی نورا کی دوکان پر جب نظر آئی بے قند و شکر شکر کر ، نور علی نور کہہ کر چھری سے کاٹ کر کھائی۔ مداریے حقے وہ ایجاد ہوئے کسگر ایسے استاد ہوۓ کہ جب تڑا قا ان کا سنا، پیچوان کا دم بند ہوا، پٹھانا کا تمباکو کو مشک و عنبر کی خوشبو، جس نے ایک گھونٹ کھینچا اس کا دم بھرنے لگا علی الخصوص مرد تماش بین کے واسطے یہ شہر خراد ہے یہاں ہرفن کا استاد ہے سیکٹرون گھامر، بد عقل، ناتراش اطراف و جوانب سے آہفتے عشرے میں چھل چھلا وضعدار ہو گئے، جب ابو تراب خاں کے کڑے میں جامیان خیراتی سے کسی کی خیرات میں خط بنوایا، بارہ برس کے سن کا گالوں سے مزہ آیا، چار پہر کھونٹی ٹٹولی پتا نہ پایا، کاتب قدرت کا لکھا مٹاتا ہے، ایسا خط بناتا ہے، سید حسن خان کے دروازے پر عبد اللہ عطر فروش کی دوکان جاۓ نشست ہر وضعدار جوان ہے، دو پیسے میں پہلے چنبیلی کا تیل ، ریل پیل، فتنہ برپا کرنے والا ایسا ملا کہ سہاگ کا عطر گرد ہوا، جو نپور سے دل سرد ہوا۔ عطر کی روئی رکھی کان میں پھر جا بیٹھا کسی افیونی کی دوکان میں ۔ سفید سفید چینی کی پیالیاں خوبصورت لگتیں نرالیاں، افیون فیض آبادی، ؟ ا، لالے کی وہ رنگیں جس نے تریاک مصر کے نشے کرکرے کیے زیادہ پی جانے والوں کو جان کے لالے ہوئے ایسے متوالے ہوئے  جھگڑا بادہء ارغوانی و زعفرانی کا پیدا تبدیل ذائقہ کو فرنی کے خوانچے نقرئی ورق جمے پستے کی ہوائی چھٹر کی ہوئی مہیا۔ چسکی پی ایک دم کے بعد دم حقے کا کھینچا آنکھوں میں سرور موجود ہوا، وہاں سے بڑھا کان میں آواز آئی کہ بیلے کے ہار ہیں شوقین البیلے کو پہن لے، چلا فرنگی محل کے میلے کو جب یہ سج بنی بگڑا پنجوں کے بل چلا یہ پھولا کہ وطن کی چال ڈھال راہ و رسم بھولا، اکثر باہر سے آ یہ دھج بنا جو نپور کے قاضی ہونے کومفتی میں راضی ہو گئے ۔ برسات کا اگر موسم ہے شہر کا یہ عالم ہے ادھر مینھ برسا، پانی جابجا بہہ گیا۔ گلی کوچہ صاف رہ گیا ساون بھادوں میں زردوزی جوتا پہن کر پھرے۔

کیچڑ تو کیا مٹی نہ بھرے۔ فصل بہار کی صنعت پروردگار کی قدرت رضواں جن کا شائق دیکھنے کے لائق ، روز عیش باغ میں تماشے کا میلا ہر وقت چین کا جلسہ ہوتی جھیل کا پانی چشمۂ زندگانی کی آب و تاب دکھا تا پیاسوں کا دل پہرا تا سڑک کے درختوں کی فضا جدا کھجوا موجیں مارتا ہار سنگار کے جنگ میں لوگوں کا جمگھٹا رنگارنگ کی پوشاک، آپس کی جھانک تاک، تخته لاله و نافرمان جن پر قربان بند ہاۓ خاص کی سبک روی خرام ناز ہرقدم پر کبک دری چال بھول کر جبین نیاز رگڑتی شاخ سرو انکے رو برو نہ اکثرتی شائق ہزار در ہزار شمع پر پروانوں کا عالم غول کے غول باہم، آم کے درختوں میں پکا لگا، خاص جھولا وہیں پڑا، جھولنے والوں پر دل پ ٹپکا پڑتا محبت کے پنیگ بڑھتے ، دیکھنے والے درود پڑھتے ، باغ میں کوئل، پیپیہے، مور کا شور ، جھولے پر گھٹا رہی اور بھی گھنگھور ساون بھادوں کے جالے، وہ رنگین جھولنے والے دشت غربت میں یہ جلسہ جو یاد آ جاتا ہے، دل پاش پاش ہو جا تا ہے، کلیجہ منھ کو آتا ہے، نہ کہ کانپور کی برسات ہیہات ہیہات دخل کیا دروازے سے باہر قدم دھرے اور پھسل نہ پڑے۔ گلی میں پانوں رکھا۔ کیچڑ کا چھپکا سر پر پہونچا۔ دو اس فصل میں باہم نہ دیکھے مگر پہلے کے بچنے اور جنھیں سواری کا مقدورنہیں دخل کیا جو وہ جائیں کہیں ان کے حق میں برسات حوالات ۔ گھر جیل خانہ کہیں جانا نہ آنا، اگر خواب میں کہیں نکل گئے تو چونک پڑے کہ پھسل گئے اور جو بازاری کار باری ہیں، ان کا یہ نقشہ دیکھا، ہاتھ میں جوتیاں پانچا چڑھا۔ کیچڑ میں لت پت یہاں گرے وہاں گرے۔ خدا خدا کر جیتنے گھر پھرے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے