Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ کفن کا تنقیدی جائزہ | کفن کا فنی جائزہ | کفن خلاصہ Afsana Kafan Ka Tanqeedi Jaiza

افسانہ کفن کا تنقیدی جائزہ | کفن کا فنی جائزہ | کفن کا خلاصہ

کفن پریم چند کا شاہکار افسانہ ہے۔ کفن میں پریم چند نے نہایت خوبصورت انداز سے ایک دبے کچلے غریب خاندان کی غربت و افلاس اور اس سے پیدا ہونے والے حالاتِ زندگی کو فنکارانہ شعور اور اندازکے ساتھ پیش کیا ہے۔

کفن کی کہانی کو پریم چند کے عہد کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ افسانہ در حقیقت کسی ایک خاندان یا پریوار کی روداد نہیں ہے بلکہ اس میں سبھی طبقے کے ہر اس خاندان کی تصویر ہے جو جاگیردارانہ نظام کے استحصال کا شکار ہوا ہے۔

کفن کا پلاٹ

کفن کا پلاٹ غُربت اور افلاس کے مارے ہوئے غریب مزدور گھیسو اور مادھو کے ارد گرد گھومتا رہتاہے ۔ افسانہکفن میں اندونوں کا کردار باپ بیٹے کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ افسانہ کفن میں جاندار اور متحرک ایک تیسرا کردار بھی ہے جس کا نام بدھیا ہے۔ بدھیا مادھو کی بیوی ہے جو گھر کے اندر دردِ زہ سےتڑپ رہی تھی اور گھیسو اور مادھو باہر بیٹھکر آلو بھون کر کھانے میں مصروف تھے۔

اس وقت گھیسو اپنے بیٹے مادھو کو یہ کہتا ہے کہ مادھو اندر جا کر اپنی بیوی کو دیکھ آئے۔ مگر مادھو نہیں جاتا ہے۔ مادھو کو یہ اندیشہ رہتاہے کہ اس کے اندر جانے کے بعد اس کا باپ بھنے ہوئے آلو کا میرا حصہ بھی کھا جائے گا۔ اُدھر بدھیا دردِ زہ کی تکلیف کو برداشت کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے اور وہ تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتی ہے۔ صبح ہونے کے بعد جب مادھو اور گھیسو کی نیند کھلی تو گھر کے اندر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مادھو جھوپرے کے اندر جا کر دیکھتا ہے تو اس کی بدھیا مری پڑی تھی۔

کفن کی کہانی میں گھیسو اور مادھو کے لئے اصل پریشانی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ بدھیا کو جلانے اورکریا کرم کے لئے لکڑیاں اور کفن کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ان غریب کسانوں کے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ ہوتی ہے۔ اس لئے گھیسو اور مادھو روتے ہوئے زمیندار کے پاس جاتے ہیں۔ زمیندار ان دونوں کو ان کی کاہلی کی وجہ سے ذرا بھی پسند نہیں کرتا ہے۔ پھربھی ان دونوں کی بے بسی اور لاچاری کو دیکھتے ہوئے دو روپیے دے دیتا ہے گاؤں کے دوسرے لوگ بھی ان دونوں کی مدد کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کے پاس ساڑھے پانچ روپے کی رقم جمع ہو جاتی ہے۔

دونوں کفن خریدنے کے لیے بازار چلے جاتے ہیں اور گھوم پھر کر وقت برباد کرتے ہیں۔ اس طرح سے شام ہو جاتی ہے۔ دونوں باپ بیٹا شراب خانے میں جاتے ہیں اور شراب پینے میں لگ جاتے ہیں۔ انہیں بار بار اس بات کا بھی خیال آتا ہے کہ بدھیا کا کریا کرم کیسے ممکن ہوگا پھر بھی اپنے خیال کو گھیسو اور مادھو یہ کہہ کر بھلاتے رہتے ہیں کہ زندگی میں لوگوں کو تو کپڑے ملتے نہیں اور مردہ کو نئے کفن کیوں دئیے جاتے ہیں۔ بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے۔ کفن کے لیے جمع سارے پیسے کو دونوں مل کر شراب پینے میں ختم کر دیتے ہیں۔

مادھو کو اس بات کا ڈر ہے کہ پیسے تو بچے نہیں ہیں ایسی حالت میں بدھیا کا کریا کرم کس طرح ہوگا۔ مادھو گھیسو سے پوچھتا ہے جب گاؤں کے لوگ سوال کریں گے کہ بدھیا کے لئے ہم نے جو پیسے دئیے تھے وہ کیا ہوئے تو کیا جواب دیا جائےگا۔ گھیسو یہ سن کر کہتا ہے کی ہم کہہ دیں گے کہ پیسے کھو گئے ہیں ۔ اور پھر دونوں چھک کر شراب پیتے ہیں۔ بھنے ہوئے گوست بھی کھاتے ہیں اور مستی میں ناچنے گانے لگتے ہیں ۔ پھر وہیں بیہوشی میں گر پڑتے ہیں۔

کفن کا پورا پلاٹ پریم چند نے انہیں واقعات پر تیار کیا ہے۔موضوع کے اعتبار سے کفن کی معنویت اس قدر ہے کہ پریم چند کے دور میں جاگیردارانہ نظام ہونے کی وجہ سے کسانوں اور مزدوروں کی حالت بہت خراب ہوتی تھی ۔ کسان مزدور بےبسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے کو مجبور تھے۔ ان کی بے بسی کو پیش کرنے کے لئے منشی پریم چند نے گھیسو اور مادھو کی غیرت کو غربت اور افلاس کی وجہ سے بے غیرت کردار کے بنا کر پیش کیا ہے تا کہ جاگیردارانہ نظام کی برائیوںپر سے پردہ اٹھایا جائے۔


 کفن کی کردار نگاری

کفن کے ذریعے دو کردار گھیسو اور مادھو کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ پوری طرح سے رسم و رواج کے مخالف ہیں۔ کریا کرم کے پیسے کو شراب پینے میں ختم کر دینا بھی ان کو فطری عمل لگتا ہے۔

پریم چند سے پہلے اردو افسانے کے نقوش انتہائی دھندلے اور گمشدہ دکھائی دیتےہیں۔ اُردو میں افسانہ نگاری کا فن بحیثت صنفِ ادب پریم چند کے افسانوں کی دین ہے۔ پریم چند نے سب سے پہلے اردو افسانه کا رشتہ حقیقت سے جوڑا تھا۔ پریم چند نے اپنے افسانوں کے موضوعات ہندوستان کی دیہی زندگی کے مسائل کو بنایا۔ پریم چند سے قبل اُردو کے افسانوی ادب صرف بادشاہوں، شہزادوں و مافوق الفطرت عناصر اور جادوگروں کے کھیل تماشوں کے فرضی بیانات تک ہی محدود ہوتا تھا۔پریم چند نے ہی اُردو افسانہ میں پہلی دفعہ گاؤں اورکسانوں کے حالاتِ زندگی اور ان کے مسائل اور پریشانیوں، عام انسانوں کے دکھ، درد، تکلیف، غم اور خوشی کی تصویر بھی شامل کئے۔ پوس کی رات ہو یا بوڑھی کاکی پنچایت ہو یا عیدگاہ نمک کا داروغہ ہو یا بڑے گھر کی بیٹی پریم چند نے اپنے ان تمام افسانوں میں کسی نہ کسی سماجی مسئلے کو سچائی کے ساتھ اپنے افسانوں کا موضوع بنا کرپیش کیا ہے۔ پریم چند نے اردو کے افسانوی ادب کو حقیقی معنوں میں کمال حاصل کیا ہے اور اپنے افسانوں کو اعلیٰ قدروں تک پہنچا دیا ہے۔

افسانہ کفن کا تنقیدی جائزہ | کفن کا فنی جائزہ

افسانہ کفن منشی پریم چند کی زندگی کے آخری دور کے افسانوں میں سب سے مشہور ہے۔ اس افسانے میں پریم چند نے زندگی بھر کا علم و تجربا ت اور شعور کی بیداری سےکام لیا ہے۔ پریم چند کی مختصر سی زندگی میں بےشمار حادثات وہ تجربات پیش آئے تھے۔ ان حادثات و تجربات کی وجہ سے ہی ان کے افسانوں میں فکر و نظر کے حوالے سے بھی کئی اہم موڑ اور پڑاؤ آئے ہیں۔ افسانہ کفن میں صاف صاف انسانی زندگی کا یہ جذبہ اور فلسفہ روح کی باطنی سطح پرجھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔علاوہ اس کے ان افسانوں میں فنی سطح پر بھی پوری پختگی دکھائی دیتی ہے اسطرح کی پختگی ان کے دوسرے افسانوں میں بھی ہیں مگر اس سے کم نظر آتی ہے۔ یہی خاص وجہ ہے کہ کفن محض اردو ادب کا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے تمام افسانوی ادب کے بڑے افسانوں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ اردو کے کچھ نقاد تو اسے دنیا کے بڑے افسانوں میں بھی شمار کرتے ہیں۔

کفن منشی پریم چند کا شاہکار افسانہ ہے۔ مسلسل بھوک کی شدت، استحصال اور سماجی ظُلم و جبر انسان کو طرح حیوان بننے پر مجبور کر دیتا ہے اور انسان سے اُس کی بنیادی انسانی اوصاف بھی چھین لیتا ہے۔ اس حقیقت کی عکاشی پریم چند کے افسانے میں سچائی کے ساتھ کی گئی ہے۔


کفن کے کردار | گھیسو اور مادھو کے درمیان کیا رشتہ تھا؟

کفن کے کردار مادھو اور گھیسو محض اس لیے دم توڑتی ہوئی بدھیا کے پاس نہیں جا سکتے کہ اگر ہم دونوں میں سے ایک درد سے میں مبتلا بدھیا کے پاس گیا تو دوسرا ان سبھی آلوؤں کو کھا جائے گا۔ یہ وہ آلو تھے جن کو وہ دونوں کسی کھیت سے چوری چھپے کھود لائے تھے۔ بدھیا کی موت کے بعد ہاتھ آئے ہوئے کفن کے پیسوں سے بھی وہ دونوں شراب و کباب پر خرچ کر دیتے ہیں اور پھر طرح طرح کے تاویلوں سے اپنے ضمیر کی بلند آوازوں کو دبانے کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں۔ وہ دونوں باپ بیٹےاپنے مکارانہ طرز عمل سے خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ ان کسانوں سے تو کہیں بہتر ہیں جو دن رات جی تور محنت کرتے ہیں پھر بھی بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور دوسرے آرام سےاس کی محنت کا مفت فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ یے غریب کسان بیچارے اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے ہمیشہ ہی نقصان میں رہتے ہیں۔ پریم چند کا یہ افسانہ کفن اپنےپلاٹ، بہترین کردار نگاری، فطری و حقیقی مکالموں اور دوسری اہم فنی خوبیوں کی وجہ سے اردو کے اہم ترین افسانے کا مقام حاصل کر چکا ہے۔

افسانہ کفن کا مرکزی کردار

كفن کا پہلا اور سب سے بڑا کمال یہ رہا کہ افسانہ کفن ایسے دو کرداروں کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے جن دونوں میں سے کسی کی بھی سماج میں کوئی حیثیت اور مقام نہیں ہے۔وہ دونوں پوری طرح نااہل ہیں اور کام چور بھی ہیں اور بے حس بھی ہو چُکے ہیں۔ دونوں کا پیٹ نہیں بڑھتا اور چوری چماری کرکے کسی طرح پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں ۔ ان دونوں کرداروں کا تعارف افسانہ کفن میں منشی پریم چند یوں کراتے ہیں۔

’’چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام۔ گھیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام۔ مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹہ بھر چلم پیتا۔ اس لئے انہیں کوئی رکھتا ہی نہیں تھا۔ گھر میں مٹھی بھر اناج ہو تو ان کے لئے کام کرنے کی قسم تھی… گھر میں مٹی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی ڈھانکے ہوئے دنیا کے مکروں سے آزاد قرض سے لدے ہوئےگالیاں بھی کھاتے تھےمگر کوئی غم نہیں…

مٹر یا آلوکی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑلاتے اور بھون بھون کر کھاتے- ” 

کفن کی کہانی کی شروعات بھی آلو کھانے سے ہی ہوتی ہے کہ دونوں باپ اور بیٹے جھونپڑے کے باہر الاؤ جلائے ہوئے دوسرے کے کھیت سے چوری کر کے لائے ہوئے آلو بھون کر کھا رہے ہیں اور ادھر جھونپڑے کے اندر گھیسو کی بہو اورمادھو کی بیوی بدھیا دردِ زہ مبتلا درد سے تڑپ رہی ہے اس کی چیخ سن کر گھیسو نے مادھو سے کہا۔
’’جا دیکھ تو آ ‘‘
لیکن مادھو جھنجھلا کر کہتا ہے
مرنا ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا آؤں‘‘

افسانہ کفن کا مرکزی خیال | کفن کا خلاصہ

مادھو اس لیے بدھیا کو دیکھنے اندر نہیں جاتا ہے کہ اسے اس بات کا اندیشہ ہوتاہے کہ وہ اگر اندر گیا تو اس کے حصے کا آلو بھی اس کا باپ گھیسو کھا جائے گا۔انسانی احساس کی یہ ستم ظریفی اور بے حسی ان انسانی و اخلاقی اقدار کی پامالی کی طرف بھرپور اشارہ کرتی ہے۔ جہاں غربت و افلاس اپنی انتہا اور بلندی پر پہنچ کر سارے انسانی اقتدار کو تہس نہس کر کے انسان کو حیوان صفت بنا دیتی ہے۔ ایسی صورت میں احساس ، شرافت، اخلاق، حمیت، کا کوئی وجود باقی نہیں رہ جاتا ہے۔

یہاں پر غور کرنے والی خاص بات یہ ہے کہ منشی پریم چند نے بدھیا کے کردار کو زیادہ اہمیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ باوجود اس کے بدھیا پورے افسانے میں پس پردہ رہنے والی ایک غیر فعال کردار کی صورت میں ہے۔ محض بدھیا کے وجود کا احساس ہوتا ہے پھر بھی افسانے کی پورا قصّہ اسی کردار پر منحصر رہتاہے۔ بدھیا کا کردار ایک ایسی مظلوم عورت کا کردار ہے جومادھو کی بیوی ہے اور مادھو کے بچے کی ماں بھی بننے والی ہے۔ وہ ایک ایسےغریب گھر میں بیاہ کر آئی ہے جہاں غربت کے سِوا کچھ بھی نہیں۔ مگراس کے باوجود بدھیا نے ایک خستہ حالی اور بے حسی کی دنیا میں ہلکی سی جان ڈال رہی ہے۔بدھیا بے چاری دوسروں کے گھروں میں جا کر پسائی کر کے اور گھاس چھیل کر دونوں کاہل باپ بیٹے کا پیٹ بھرتی رہتی ہے۔

ذرا ان جملوں کو غور سے دیکھیں:

منشی پریم چند کے افسانوں کا موضوع کیا ہے

’’جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے خاندان میں تمدن کی بنیاد ڈالی تھی۔ پسائی کر کے، گھاس چھیل کر وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کرلیتی اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔‘‘

کفن کے اس اقتباس کے پہلے جملے کو ذرا غور سے دیکھنے پر اندازہ ہو جاتاہے کہ ہمارے گھر اور سماج کی تمدن اور تہذیب کی بانی عورت ہی ہوتی ہے۔ عورت کے دم سے ہی ہماری زندگی میں زینت ہے اور انتظام ہے۔ کفن کے پہلے اُردو افسانوی میں عورت کا اتنا احترام اردو کے افسانوی ادب میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ کفن سے پہلے زیادہ تر عورت محبوب و معشوق کے کردار میں ہی دکھائی دیتی ہے اور اس کے حسن کے ہی چرچے ہوتے رہے ہیں۔

آج صبح ہی سے بدھیا درِدزہ میں تڑپ تڑپ کر پچھاڑیں کھا رہی اور چیخ رہی ہے پھر بھی بدھیا کے چیخ پکار کا دونوں باپ بیٹے پر کوئی خاص اثر نہیں دکھائی پڑتا ہے۔ وہ تو بس چوری کے آلوؤں کو بھون کر کھانے میں دلچسپی کے ساتھ مصروف ہیں۔ جب صبح ہونے کے بعد مادھوبدھیا کو دیکھنے کے لئے کوٹھری میں داخل ہوتا ہے تو بدھیا مری ہوئی پڑی ہوتی ہے۔ اس منظر کو پریم چندنے اس طرح بیان کیا ہے:

’’صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جاکر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت ہو رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں بچہ مر گیا تھا۔‘‘

اب کیا ہوگا دونوں باپ بیٹوں کو بدھیا کے کفن دفن کی فکر ستانے لگتی ہے۔ لہذا دونوں باپ بیٹے کچھ اس طرح ڈرامائی انداز میں آہ و زاری کرنے لگتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ گاؤں والے دونوں کو کام چور اور نااہل سمجھتے ہوئے بھی کچھ لوگ رسمِ قدیم کے مطابق ان کی تشفی ضروری سمجھتے ہیں اور مدد کرنے کو تیار بھی ہو جاتے ہیں۔ مدد اور پیسوں کی کمی کو دیکھتے ہوئے دونوں باپ بیٹے زمیندار کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن زمیندار بھی ان نااہلوں سے نفرت کرنے لگاتھا اس کے باوجود ان کی مدد کرنے سے منع نہیں کرتاہے اور ایک ہی گھنٹے میں جب پانچ روپئے کی موٹی رقم جمع ہو جاتی ہے تو یہ دونوں باپ بیٹے کفن خریدنے کے لیے بازار جاتے ہیں۔

ہمارےسماج میں یہ کیسا برا اور زہالت بھرا روا ج ہے کہ جس کو جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نصیب نہیں ہوتا اسے مرنے کے بعد نیا کفن چاہئے۔

یہ تلخ الفاظ اپنے اندر بہت سی تکلیفوں کا احساس لئے ہوئے ہیں۔جس کے سہارے سسکتے ہوئے عوام کی تصویر کشی ہوتی ہے اور ہمارے سماج کے کٹھور پن کی ظالمانہ تصویر کو دکھاتے ہیں یہ الفاظ اور جملے ساتھ مل کر ہمیں غیر شعوری طور پر یہ احساس بھی دلاتے ہیں کہ ہم سبھی رسم و رواج کے کتنے سخت بندھنوں میں جکڑ چکے ہیں۔ جس وقت مادھو اپنے باپ سے کہتا ہے کہ:

٫٫کپھن لاس کے ساتھ جل ہی تو جا تا ہے-‘‘

تب گھیسو جواب دیتا ہے:

”اور کیا رکھا ہے یہی پانچ روپے پہلے ملتے تو کچھ دوا دارو کے کام آتے۔‘‘

اسی طرح بات کرتے ہوئے دونوں باپ بیٹے شراب کی دکان تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں جا کر جی بھر کے پوریاں اور گوشت کھا لیتے ہیں۔ پھر شراب بھی پیتے ہیں۔ مرنے والی کو خوب دعائیں دیتے ہیں کہ اُسی کے مرنے کی وجہ سے یہ عیش مل سکا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ان دونوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش آج پوری ہوگئی ہو۔ نشے کی حالت میں گھیسو کہنے لگتا ہے:

”کفن لگانے سے کیا ملتا ہے۔ آکھر جل ہی تو جاتا ہے۔ کچھ بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔‘‘

اور اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی تشفی نہیں ہوتی تواپنی خوداطمنانی کا سامان یہ کہہ کر فراہم کرتا ہے کہ:

”بڑے آدمیوں کے پاس دھن ہے، پھونکیں۔ ہمارے پاس پھونکنے کو کیا ہے؟،،

کفن دفن کی تمام فرسودہ اخلاقی، مذہبی، ذہنی،اور انسانی رسم و رواج کو پشت ڈال کر دونوں باپ بیٹے نے کھانا کھانے اور شراب پینے کے بعد نشے میں بد مست ہو کر شراب خانے کے سامنے سڑک کنارے بے ہوش ہو جاتے ہیں - وہاں بدھیا کی بے کفن لاش کفن کی منتظر کوٹھری مے پڑی رہتی ہے ۔ مگر مادھو چونکہ جو ان ہے اور بہت نادان بھی۔ شراب کے نشے میں بھی اس کے ذہن میں یہ سوال کوندھتاہے کہ جو وہاں پر ہم لوگوں سے بدھیا پوچھے گی کہ تم دونوں نے مجھے کفن کیوں نہیں دیا تو کیا کیا جواب دوگے؟
تو گھیسو بڑے ہی اعتماد سے اس طرح جواب دیتا ہے کہ تو یہ بات کس طرح جانتا ہےکہ اسے کفن نہیں ملے گا۔ تو کیا مجھے گدھا سمجھتا ہے۔ میں نے ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھود کر بتایا ہے۔ اس کو کفن ضرور ملے گا اور اِس سے بہت اچھا ملے گا جو ہم دیتے ہیں۔ وہی لوگ دیں گے بدھیا کو کفن جنہوں نے اب کی دیا ہے۔

معاشرہ ، مذہب اور اخلاقی اقدار کے متعلق گھیسو کا اس طرح غیر معمولی معمولی اعتماد رحم دل لوگوں اور خوف رکھنے والوں پر بہت بڑاطنز کرتا ہے۔ دونوں باپ بیٹےکفن نہ خرید کر پورے سماج اور معاشرے پر گہری چوٹ کرتے ہیں۔ انہیں سماج اور خاص طور سےامیر طبقے کی کمزوریوں کا احساس ہی نہیں بلکہ عرفان بھی ہے۔ اسی لیے تمام پریشانیوں کے باوجود ان دونوں کو ہر طرح کا اعتماد اور اطمینان رہتاہے۔ ی انھی چیزوں کی مدد سے دونوں کرداروں میں خاص طور پر بڑاتجربہ کار گھیسوہ کا یہ جملہ ایک خاص طرح کے معاشرتی طنز میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

کفن، اس افسانے کا بنیادی استعارہ بھوک ہے۔ بھوک کی شدت کو پریم چند نے اس طرح پیش کیا ہے کہ معاشرتی روایات اور خون کے رشتے اور مذہبی رسوم کی اہمیت پوری طرح ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ سماجی رسم ورواج کے مطابق کفن ہر مردے کے لئے ضروری ہوتا ہے مگر افسانہ کفن میں اس کی ضرورت اور اہمیت کو بھی گہرےطنز کا نشانہ منشی پریم چند نے بنایا ہے ۔ جس کو جیتے جی ایک معمولی چیتھڑا بھی میسّر نہ ہوا ہو اس کے لیے کفن کی کیا ضرورت ہے؟ اس طرح کا بیان گھیسو اور مادھو کے کے ذریعے افسانے میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ بھوک اور افلاس کی شدت اور اس کی وجہ سے غیر انسانی صورتحال پیش کر کے پریم چند نے افسانہ کفن میں سطحی اور وضاحتی اظہار سے صاف صاف احتجاج کیا ہے۔ دوسرے اس کے علاوہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ منشی پریم چند نے گھیسو ، مادھو کے مردہ بدھیا کے لیے کفن نہ خرید کر انہیں ان پیسوں سے پوریاں کھا تے ہوئے اور شراب نوشی کر حیوانوں کی طرح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ مفلسی کی انتہائی اور شدید بھوک کی حالت میں انسان کی انسانیت کس طرح مر جاتی اس منظر کو پیش کیا جا سکے ۔

افسانہ کفن کا مرکزی خیال

افسانہ کفن کا مرکزی خیال حقیقی معنوں میں سماج کے لوگ اور معاشرتی نظام ہیں جہاں تمام چیزیں بے ترتیب اور بے مقصد نظر آتی ہیں ۔ ان وجوہات سے ایک بڑے اور کمزور طبقے کا سماج میں ہرگھڑی مسلسل استحصال ہوتا رہتا ہے اور اس استحصال کے نتیجے میں یہ طبقہ اور بڑا اور شدّت کے ساتھ مخالف بھی ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ غریب اور پسماندہ طبقات نہ صرف بے بس اور کمزور ہیں بلکہ جس کا کوئی یار و مددگار بھی نہیں ہوتا ہے۔

افسانہ کفن میں پریم چند نے دیہات کی اس زندگی کا حقیقی خاکا پیش کیا ہے جس میں افلاس ہے، غربت ہے اور بدحالی ہے۔ اِس میں ہر قدم پر زمیندارانہ ماحول اور استحصال کے سِوا کچھ بھی نہیں۔ غریب کسان اور مزدور محنت کرنے کے باوجود بھی تنگ دستی اور فاقہ کشی کے شکار نظر آتےہیں۔ آپ ہی سوچئے کہ ایسے معاشرے اور ایسی سیاسی نظام میں اس بدحال ماحول میں پرورش پانے والے غریب چماروں کے کنبے کی کیا حیثیت ہو سکتی تھی؟ جی توڑ محنت اور کام کاج کے باوجود انہیں ان کی محنت کا نتیجہ اور صلہ نہیں ملتا تھا۔ یہی وجہ رہی کہ گھیسو اور مادھو اس قدر سست، لاپرواہ، کا ہل اور کام چور ہو کر رہ گئے تھے۔ پریم چند نے افسانہ کفن کے تناظر میں سماج کے طبقاتی کشمکش کی طرف نہایت واضح اور معنی خیز اشارے بھی کیے ہیں۔ گھیسو اور مادھو کی حالت زار کا موازنہ کرتے ہوئے پریم چند اس طرح لکھتےہیں:

جس سماج میں رات دن جی توڑ محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت بہتر نہ تھی، اور کسانوں کے مقابلے میں کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے والے کہیں زیادہ فارغ البال تھے۔ ایسے معاشرے میں اس قسم کی ذہنیت کا پیداہو جانا کوئی بہت تعجب کی بات تو نہیں تھی۔ ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ گھسو کسانوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی باریک بین تھا۔ اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کی بجاۓ شاطروں کی فتنہ پرداز جماعتو ں میں شامل ہو گیا تھا۔ لیکن اس میں یہ صلاحیت ذرا بھی نہیں تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کر سکتا۔ اسی لئے جہاں اس کی جماعتوں کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے پھرتے تھےاس پر پورا ا گاؤں انگشت نمائی کر تا نظر آتا تھا۔ پھر بھی اسے یہ ٹھوڑی سی تسکین تو تھی ہی کہ بھلے وہ خستہ حال ہے تو ہےکم سے کم اسے کسانوں کی طرح جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی ہے اور اس کی اس سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بےجا فائدہ بھی تو نہیں اٹھاتے ہیں۔

افسانہ کفن میں پریم چند کے دیہاتی کردار پوری طرح سے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب، تمدن، اخلاقی اقدار اور قومی یکجہتی کے امین اور علمبردار نظر آتےہیں۔ بےشک اردو ادب کی افسانوی تاریخ میں منشی پریم چند کے کردار ایک اہم اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اردو افسانوی ادب کے خزینے میں گوہر ِ نیاب کے برابر ہیں۔

افسانہ کفن کے ذریعے پریم چند کے یہاں دیہاتی زندگی کی صحیح اور ہوبہو مرقع کشی سب سے زیادہ نمایاں حیثیت رکھتی ہے ۔ پریم چند کے افسانوں کا مطالعہ کرتے وقت یہ تعجب ہوتا ہے کہ ہم سب انہی لوگوں کی زندگی کے حرکات و سکنات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں جو ہمارے اپنے معاشرےمیں سے ہیں۔ ان کی اور ہماری ہر قدم پر سامنا ہواکرتاہے۔ لیکن جس زندگی میں اب تک ہمارے لئے دلچسپی یا دلکشی والی کوئی چیز نہیں تھی وہی زندگی پریم چند کی فنکاری کی بدولت اس قدر پُرلطف اور پر کیف بن گئی ہے کہ ہم اس میں ایک عجیب سی لذت محسوس کرنے لگےہیں ۔ اس طرح سےاس میں اپنے پن کی شدید لذت پیدا کرتی ہے۔ ان غریب کسانوں کی بدحالی اور زمینداروں کے ظُلموستم، پولیس والوں اور سرمایہ داروں کی زبردستی کا یہ حال پڑھ کر ہماری آنکھیں ہمدردی کے آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہیں۔

شہری زندگی کی تصویریں تو بہتوں نے پیش کی ہے لیکن کھیت میں سونے والے غریب کسانوں پر بہتکمہی لکھا گیاہے۔ گاؤں دیہات کی چوپالوں،جھونپڑیوں اور مچانوں میں کم ہی کسی کے قدم گئے ہونگے۔ منشی پریم چند کی افسانہ نگاری کا اصل جوہر یہی تو ہے ۔اُردو ادب میں آج تک پریم چند کے جوڑ کا ایک بھی افسانہ نگار نظر نہیں آتا۔ دیہات اور گاؤں کے جس جس منظر کی تصاویر پریم چند دکھلاتے ہیں اس میں پوری کائنات کا رنگ بھر دیتے ہیں

پریم چند کے افسانہ کفن کے کردار انسانی زندگی کی تلخ حقیقت اور خاص دیہاتی زندگی کے مسائل، دکھ، درد اور ہندوستانی دہی معاشرت کا جیتا جاگتا مرقع ہے۔ اردو افسانوی ادب کی پوری تاریخ میں پریم چند کا یہ کردار حق گوئی اور حق بیانی اور صداقت بیانی کے زندہ مجسمہ سازی ہے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے