پوس کی رات کا تنقیدی جائزہ | افسانہ پوس کی رات کا تجزیاتی مطالعہ
پوس کی رات کا تجزیاتی مطالعہ
پوس کی رات منشی پریم چند کا افسانہ ہے۔پریم چند کے افسانوں میں گاؤں کی زندگی کی جیتی جاگتی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ پریم چند کا افسانہ پوس کی رات میں کسانوں ، مزدوروں اور دیہی معاشرے کو تعلیم یافتہ، دولتمند، طاقتور اورمہذب افراد کے ذیعے استحصالی اور ظلم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اور اس کے علاوہ ان غریب، مصیبت زدہ اور پریشانحال کسان اور مزدورو ں پر قدرت بھی کچھ ترس نہیں کھا رہی ہے اور ان مصیبت کے مارے لوگوں پر بے رحمی کا سلوک کرتی ہے۔ وہ قدرت جس کی بنائی ہوئی دنیا میں اور جس کے سایۂ رحمت میں یہ غریب عوام پل کر جوان ہو ئے ہیں اور زندگی کے کتنے ہی نشیب و فراز سے گزر کر اس عمر پہنچے ہیں ۔ یہ قدرت کبھی تو اس کے اوپر بہت مہربان ہوتی ہے لیکِن کبھی کبھی زبردست دشمن بن کر دشمنی نبھاتی ہے۔ ایسے وقت میں یہ قدرت اُنہیں آزمائش میں مبتلا کردیتی ہے۔ مثال کے طور پر آندھی و طوفان میں کمزور اور غریب لوگوں کے گھر اُڑ جاتے ہیں۔ لوگ تباہ و برباد ہو جاتے ہیں اور قدرت کے ایک ہی جھٹکے میں ان کی دنیا اجڑ جاتی ہے۔ ویسے ہی جب سیلاب آتا ہے تو کتنے ہی گائوں پانی میں بہہ جاتے ہیں اور ان کے نام و نشان تک باقی نہیں رہتے۔ یہی حال بارش کے موسم کا بھی ہے۔ بارش کا پانی کسانوں کے لیے راحت کا باعث ہے ۔مگرکبھی کبھار بارش قہر بھی بن کر برستی ہے۔
پوس کی رات افسانے میں پریم چند نے انسان اور قُدرت کے اس جابرانہ رشتے کو پیش کیا ہے۔ پریم چند نے یہ بتایا ہے کہ فطرت اور انسان کے یہ رشتے زندگی کو توانائی اور حوصلہ تو عطا کرتے ہی ہیں مگر کبھی کبھی ہمتوں اور حوصلوں کو پست بھی کردیتے ہیں ۔ فطرت کسانوں کو کس کس طرح سے اور کب کہاں متاثر کرتے ہیں ۔ اس کا ایک جیتی جاگتی تصویر پریم چند کے افسانے ’پوس کی رات‘ میں پیش کی گئی ہے۔
پوس کی رات میں یہ خاص بات پر زور دیا گیا ہے کہ کسانوں کے لیے موسمِ گرما اُتنا پریشان کرنے والا نہیں ہوتا جتنا کہ موسمِ سرما ہوتا ہے۔ موسمِ سرما اپنی ٹھنڈک سے مقابلہ کرنے کے لیے ان افلاس زدہ کسانوں سے ایسے سازوسامان کی چاہت رکھتی ہے جس کا فراہم ہونا ایک غریب کسان کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔ موسمِ سرما میں کچھچیزوں کی اہمیت بڑھجاتیہے جیسے کہ سرپر چھت، تن پر گرم لباس، رات کو سونے کے لیے گرم بستر اور جسم کی حرارت کو مناسب رکھنے کے لیے مناسب غذا کے ساتھ روشن الائو جو انسان کوسردی کے دنوں میں بھی راحت پہنچاتا رہے۔ مگر ان تمام ضرورات کی چیزوں کے بغیر ایک افلاس زدہ کسان اپنے کھیتوں کی رکھوالی کرنے کے لیے مجبورہوتاہے۔ وہ تن تنہا ایسی سرد رات میں قدرت کامقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس مقابلہ میں کبھی تو اس کی فتح ہوتی ہے اور کبھی وہ قدرت کے ستم کے شکار ہو جاتا ہے اور مات کھا جاتا ہے،۔ پھر بھی اس کی زندگی میں اس ہار جیت کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ اگر اہمیت ہے بھی تو بس اس بات کی کہ وہ قدرت سے کس طرح جد و جہد کر دیا ہے اور اس کام میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہے۔
پوس کی رات کا مرکزی خیال
پوس کی رات میں پریم چند نے فطرت سے انسان کی اس جنگ کو بڑی سچائی اور درستگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ہڈیوں کو جمع دینے والی سردی میں انسان اور حیوان کس طرح مجبور اور بے بس ہو جاتے ہیں ۔ انھی روح پرور مناظر اور خیالوں کا اظہار افسانہ کے مرکزی کردار ہلکو اور اس کا ساتھی کتّا جبرا کے ذریعہ ہوتا ہے۔ افسانہ میں یہ دونوں کردار ایک دوسرے سے قوت پاکر فطرت کے ظُلم و ستم کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ ہلکو کا کردار کسانوں کی صدیوں کی مظلومی، مجبوری اور افلاس کی پہچان بن جاتی ہے۔ دن رات ایکبکر کے کمر توڑ محنت کرنےکے باوجود اس کے آس پاس کوئی نہیں ہوتا جو اس کی زندگی کا سہارا بن سکے۔ ایسی تنہائی کے عذاب بھری راتوں میں اس کا وفادار دوست جبرا کتّا کے سوا کوئی اس کا شریکِ حال نہیں ہوتا ہے۔
پوس کی رات کا مرکزی کردار
پوس کی رات میں ہلکو اپنے کھیتوں کی رکھوالی کرنے کے لیے آیا ہے۔ وہ سردی کی رات گزارنے کے لیے کھیت پر آیاہے اِس لئےکہ کہیں اس کی کھڑی فصل کو کوئی انسان یاجانور نقصان نہ پہنچادے۔ اس خوفناک سردی کے موسم میں سردی سے حفاظت کے لیے اس کے پاس صرف ایک پھٹی پرانی گاڑھے کی چادر ہے۔ یہ چادر سرد ہواؤں کو ہلکو کے جسم کے اندر تک پہنچنے سے روکنے میں پوری طرح ناکام ہوتی ہے اس کے بانس کے بنے کھٹولے کے نیچے اس کا وفادار ساتھی جبرا اپنے پیٹ میں منہ سٹا کر سردی سے بچنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ اس وفادار جانور نے ایسی جانلیوا سردی میں بھی اپنے مالک کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے اور وہ بھی ہلکو کے ساتھ گھر سے آ گیا ہے۔ ہلکو سے سردی برداشت کرنی مشکل ہوگئی ہے تو اس نے اپنے کتےجبرا کو اٹھاکر اپنے پاس سلالیا ہے۔ اس وقت ہلکو کو کتے کے جسم سے اٹھنے والی بدبو بھی بری نہیں لگ رہی ہے۔ اِسلئے کہ اس سے لپٹ کر اسے سردی سے ٹھوڑی راحت ضرور محسوس ہوئی ہے۔ اسی طرح انسان اور جانور کی اس دوستی نے ان دونوں کے گرد ایک اٹوٹ بندھن بنادیا ہے یہی بندھن روح کو پاکیزہ بناکر انسان کو نڈر بنا دیتا ہے۔
یہ بندھن مخالف قوتوں سے مقابلہ کرنے کا زبردست حوصلہ پیدا کر دیتاہے۔ اس طرح انسان کی عقل نے فطرت کے ایک روپ کو دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کا ہنر جان لیا ہےاور قدرت سے مقابلہ کرنے کی راہ نکال لی ہے اور جب سردی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو تو ہلکو نے بہت سی پتیاں چُن چُن کر الاؤ جلا لیتا ہے۔ اس سے ہلکو اور جبرا کے سرد جسموں میں حرارت پیدا ہونے لگتی ہے اور سکون پاکر دونوں نیند میں سو جاتے ہیں۔ جن کھیتوں کی حفاظت کے لیے اس نے گھنٹوں سرد ہواؤں سے مقابلہ کیا تھا۔ آخر کار فطرت سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور ان کو ان کی غفلت اور نیند کی چاہ نے برباد کر دیا جانوروں نے ہلکو کا سارا کھیت صاف کردیا۔ جبرا نے بھونک بھونک کر ہلکو کو اٹھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت ہلکو کے لیے نیند سے بڑھ کر کسی بھی چیز کی اہمیت نہیں ۔
جب صبح ہوئی اور ہلکو کی نیند کھلی تو دیکھا کہ کھیت میں رکھوالی کرنے کے لئے کچھ بھی باقی نہ رہا اور ایک طرف جبرا بے جان پڑا تھا اور اس کی بیوی منی اس سے کہہ رہی تھی کہ کیا آج سوتے ہی رہوگے؟۔ منّی بہت فکر مند لہجے میں ہلکو سے کہتی ہے کہ اب تو مزدوری کرکے مالگزاری دینی پڑے گی۔ تو ہلکو کو رات کی دردناک سردی کی یاد آجاتی ہے اوروہ منّی سے کہتا ہے کہ اس ٹھنڈ راتوں میں سونا تو نہیں پڑے گا۔ مگر ایک غریب کسان جو بات منہ سے کہتا ہے اس پر عمل کرنا اس کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ناسازگار حالات کے ہاتھوں وہ مجبور اور لاچار ہوتا ہے۔ اسے اپنا اور اپنے کنبہ کا پیٹ بھی توط پالنا ہوتاہے اور زمیندار کو مالگزاری بھی ادا کرنی پڑتی ہے ۔ اس لئے وہ اس طرح کی سخت زندگی گزارنے پر ہر طرح مجبور ہوتا ہے اس لئے کہ اس کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔
پوس کی رات افسانہ میں پریم چند یہ بات ظاہر کیا ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی ضرورتوں سے اور حالات سے چشم پوشی کرکے نہیں بھاگ سکتا ہے ۔ ان نامساعد اور مشکل حالات سے ہر کسی کو نبرد آزما ہونا ہی پڑتا ہے۔ تمام پریشانیوں اور مسلسل جدوجہد، شکست و فتح اور سکھ دکھ سے دو چار ہونے کانام زندگی ہے۔ انسانی زندگی کی قیمت اور حقیقت پیہم جدوجہد اور قوتِ عمل میں پوشیدہ ہوتی ہے۔
افسانہ پوس کی رات میں پریم چند فنِ افسانہ نگاری کے عروج پر دکھائی دیتے ہیں ۔ اس افسانہ میں ان کی فنّی مہارت اور حقیقت نگاری ،نفسیاتی بصیرت اور تخیل نے ایک ساتھ مل کر افسانہ پوس کی رات کو پُراثر اور بلند مقام پر پہنچا دیا ہے۔ پریم چند نے اپنے بہت سے افسانوں میں اسی موضوع پر لکھا ہے ۔ پریم چند کے مطابق قدرت اور انسان کے بیچ صرف جبر اور تصادم کا رشتہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس میں حقیقی مفاہمتیں اور رفاقتیں بھی ملی رہتی ہیں مطلب یہ کہ آسمان، تارے، چاند، پہاڑ، جنگل، ندی، نالے اور رنگ بدلتے موسم سے انسان کا رشتہ ہمیشہ سے رہاہے اور یہ رشتہ دوستی کا رشتہ ہے جس کی مدد سے انسان کبھی نرم کبھی گرم تو کبھی سکھ کبھی دکھ میں کے مزے لیتے ہوئے زندگی گزارتا ہے۔ جب ساری دنیا اس کی دشمن ہوجاتی ہے تو قدرت ہی اسے اپنے آغوش میں پناہ بھی دیتی ہے۔
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے