Ticker

6/recent/ticker-posts

ناول بیوہ کا خلاصہ | منشی پریم چند کے ناول بیوہ کا سوال و جواب

ناول بیوہ کا خلاصہ | منشی پریم چند کے ناول بیوہ کا سوال و جواب


Novel Bewah Ka Khulasa in Urdu Bewa Novel Ke Sawal O Jawab

Novel Bewah Ka Khulasa in Urdu - Bewa Novel Ke Sawal O Jawab

ناول بیوہ کے مصنف کا نام منشی پریم چند ہے۔ پریم چند نے جب جب اپنی قلم اٹھائی تب تب انسان کے دکھتی رگوں پر ہمدردی کے مرحم لگائے ہیں۔ منشی پریم چند ایسے ناول نگار ہیں جنہوں نے اپنی زیادہ تر تخلیقات میں معاشرے کی اصلاح پر مبنی مسائل کو پیش کیا ہے۔ پریم چند نے اپنی تخلیقات میں شہروں کی طرف کم اور گاؤں کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔

بیوہ منشی پریم چند کا ایک مختصر ناول ہے۔ پریم چند نے اس ناول کو 182 صفحات میں لکھا ہے۔ اس ناول کی شروعات میں نو ابواب ہیں‌۔ اس ناول میں منشی پریم چند نے عورتوں کے بیوہ ہونے پر گھر والوں اور سماج کے لوگوں کی طرف سے جس طرح کے ظلم و ستم کئے جاتے ہیں، اور جس طرح سے عورتوں کو سبز باغ دکھا کر ان کی عصمت دری کی جاتی ہے، ان کا بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

پریم چند نے بیوگی کے اس گندی روایت اور سماج کے اس ظلم ستم سے لبریز مسئلے کو ختم کرنے اور اس کا حل نکالنے کی ترغیب دینے کے لیے خود ایک بیوہ عورت سے شادی کیا۔ اور معاشرے کے سامنے یہ واضح کیا کہ جس طرح بیوی کے مرنے پر شوہر دوسری شادی کر لیتے ہیں، ٹھیک اسی طرح شوہر کے مرنے پر عورت بھی دوسری شادی کر سکتی ہے، اور ایسا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔

پریم چند نے ناول بیوہ میں بڑے گھرانوں میں، جہاں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے وہاں کیسی کیسی گندی حرکتیں ہوتی ہیں، یہ سب کچھ بھی ظاہر کیا ہے۔

ناول بیوہ کے اہم کردار


بیوہ ناول کے مندرزہ زیل اہم کردار ہیں
(١) امرت رائے
(٢) دان ناتھ
(٣) پریما
(٤) لالہ بدری پرشاد
(٥) دیوکی
(٦) کملا پرشاد
(٧) سمترا
(٨) پورنا



ناول بیوہ کا خلاصہ

ایک بار کی بات ہے کہ شہر کاشی کے ایک آریہ مندر میں پنجاب کے رہنے والے پنڈت امرناتھ جی نے بیوہ عورتوں کے بارے میں دلچسپ تقریر کی۔ اس تقریر کو ہزاروں لوگوں کی بھیڑ نے سنا اور تعریف بھی کی لیکن پنڈت جی کی تقریر پر عمل صرف لالہ امرت رائے نے کیا۔ لالا امرت رائے کی بیوی یعنی کہ ان کی شریک حیات داغ مفارقت دے گئی تھی۔ مطلب لالا امرت رائے کی بیوی مر چکی تھی۔ اس لیے لالا نے ایک بیوہ عورت سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ تقریر تو ان کے دوست دان ناتھ نے بھی سنی تھی، لیکن ان پر تقریر کا کوئی خاص اثر نہیں ہو سکا۔ دان ناتھ سہل پسند، سست اور کاہل) آدمی تھے، انہوں نے کسی اصول کے لیے تکلیف اٹھانا سیکھا ہی نہیں تھا۔ دان ناتھ کالج میں پروفیسر تھے اور انہیں آزادانہ زندگی گزارنا پسند تھا۔

لیکن لالہ امرت رائے اصول کے بڑے پکے آدمی تھے۔ وہ ایک بار جو جس بات کو بول دیتے پھر اس بات سے کسی حال میں نہیں پھرتے تھے۔ اس بات کی مثال یہ ہے کہ لالہ امرت رائے کے گھر والے ان کی بیوی کی موت کے بعد ان کی شادی ان کی بیوی کی چھوٹی بہن پریما سے کرنا چاہتے تھے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ امرت رائے بھی پریما کو بہت پسند کیا کرتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے کاشی کے مندر میں پنڈت امرناتھ کی تقریر کو سنا کہ جن لوگوں کی بیویاں مر چکی ہیں، انہیں دوبارہ کنواری عورتوں سے شادی کرنے کا کوئی حق نہیں، اگر وہ شادی ہی کرنا چاہتے ہیں تو کسی بیوہ سے ہی شادی کریں۔ تاکہ سماج کی بیواؤں کو انصاف اور پناہ مل سکے اور ان کی زندگی سنور سکے۔ اس تقریر سے متاثر ہو کر امرت رائے پریما سے شادی کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ان کے سسر لالہ بدری پرشاد اور ان کے گھر والوں کے بہت سمجھانے بجھانے کے بعد بھی وہ پریما سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور آخر میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر میں شادی کروں گا تو کسی بیوہ عورت سے ہی کروں گا۔ جب گھر والے نہیں مانتے تو وہ ایک ودھوا آشرم میں رہ کر ودھوا عورتوں کی مدد کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اور آخر میں امرت رائے ایک بال بیوہ شیرانی دیوی سے شادی بھی کر لیتے ہیں۔

ناول بیوہ کی کردار نگاری

پریما کا کردار

منشی پریم چند کے ناول بیوہ میں پریما ایک اہم کردار ہے۔ پریما کے والد لالہ بدری پرشاد کو جب یہ معلوم ہوا کہ امرت رائے نے پریما سے شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے۔ اور لالہ بدری پرشاد کی بیوی کملا نے امرت رائے سے بات کرنے کو کہا۔ لیکن پریما نے اپنی ماں کملا سے کہا نہیں اماں! آپ کے پیر پڑتی ہوں ان سے کچھ مت کہنا۔ میں ان کے کار خیر اور نیک کام میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتی۔ میں ان کے اس نیک ارادے میں حائل نہیں ہوں گی۔

آخرکار پریما مجبور ہوکر دان ناتھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے، وہ جب یہ جان لیتی ہے کہ امرت رائے کی بھی یہی مرضی ہے۔ اور پھر شادی کے بعد پریما ایک فرماں بردار بیوی کی شکل میں اپنے خاوند دان ناتھ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے۔ اور ساتھ ہی امرت رائے کے تمام اصلاحی معاملات کی دل سے حمایت بھی کرتی ہے۔

کملا پرشاد کا کردار

کملا پرشاد پریما کا بھائی ہے جو کہ ایک نالائق اور بد مزاج اور نہایت کنجوس آدمی ہے۔ کملا پرشاد کی بیوی سمترا جب کملا پرشاد سے کہتی ہے کہ امرت رائے سے بات کریں۔ تو کملا پرشاد یہ کہہ کر انکار کر دیتا ہے کہ یہ سبھا والے جو کچھ نہ کر گزرے وہ تھوڑا ہے۔

پورنا کا کردار

پورنا ناول بیوہ کا اہم کردار کا ہے۔ یہی اس ناول کا مرکزی کردار بھی ہے۔ اسی کے ارد گرد بیوہ ناول کی پوری کہانی گھومتی رہتی ہے۔ پورنا کی پرورش اس کے چاچا نے کی اور پھر اس کی شادی پنڈت بسنت کمار سے کر دی۔ پورنا ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ اور پنڈت بسنت کمار اپنی بیوی پورنا سے بہت پیار کرتا ہے۔ ہولی کے دن پنڈت بسنت کمار گنگا ندی میں نہانے جاتے ہیں کہ اچانک ان کو ایک کمل کا پھول دکھائی دیتا ہے اور یہ سوچ کر کہ وہ پھول میں پورنا کو پہناؤں گا۔ وہ اس پھول کو لینے کے لیے منجھدار میں چلے جاتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں۔ اس طرح پورنا بیوہ ہو جاتی ہے۔ ابھی پورنا کی شادی کو تین ہی برس ہوئے تھے کہ پورنا ودھوا ہو گئی۔

ناول بیوہ کا مرکزی کردار کون ہے؟

ناول بیوہ کا مرکزی کردار پورنا ایک خوددار عورت ہے اور اس کے ساتھ بےحد خوبصورت بھی۔جب لالہ بدری پرشاد پورنا کو ایک برہمنی پڑوسن ہونے کے ساتھ اپنی لڑکی پریما کی سہیلی ہونے کی وجہ سے تیرھویں کے بعد اپنے گھر میں رہنے کے لئے بلا لیتے ہیں تو پہلے تو پورنا انکار کر دیتی ہے لیکن اپنی سہیلی پریما کے کہنے پر راضی ہو جاتی ہے۔ اور اب پورنا لالہ بدری پرشاد کے گھر رہنے لگتی ہے۔ اور پھر پورنا کو دیکھ کر پریما کا بھائی کملا پرشاد کا دل پورنا کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔

کملا پرشاد کی بیوی سمترا کو پورنا کے گھر آ جانے سے گویا آنکھیں مل گئی ہوں۔ اب سمترا کا زیادہ تر وقت پورنا کے ساتھ ہی گزرنے لگتا ہے اور کملا پرشاد کو ذرا بھی موقع نہیں ملتا کہ وہ پورنا سے اپنے دل کی بات کہہ سکے۔کئی دنوں کے بعد کملا پرشاد دو ریشمی ساڑیاں لاتا ہے اور اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ ایک ساڑی تم لے لو اور ایک پورنا کو بھی دے دو۔

سمترا کو کملا پرشاد کا اس طرح ریشم کی ساڑی لانا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ اور دونوں میں تکرار بھی ہونے لگتی ہے۔ آخرکار سمترا غصے میں آکر دونوں ساڑیوں کو باہر پھینک دیتی ہے۔ پھر کملا پرشاد پورنا سے ایک ساڑی لینے کے لیے اصرار کرتا ہے۔ مگر پورنا خوبصورتی سے یہ کہہ کر کملا پرشاد کی بات کو ٹال دیتی ہے کہ بابوجی! یہ ریشمی ساڑیاں پہننے کی مجھے مناہی ہے۔ تو یہ ریشمی ساڑیاں لیکر میں کیا کروں گی۔ اگر ایسا ہی ہے تو آپ مجھے کوئی سوتی مہین دھوتی ہی لا دیجیے گا۔ کملا پرشاد نے پورنا کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور چپکے سے دونوں ریشمی ساڑیاں اٹھائی اور پیر پٹکتے ہوئے تیزی سے باہر چلا گیا۔

بیوہ ناول کے سوالات و جوابات

سوال

پریم چند کی مختصر حالات زندگی بیان کیجئے اور ان کی ناول نگاری کا جائزہ پیش کیجئے؟

جواب:
منشی پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے ہے اور کہیں کہیں نواب رائے بھی لکھا ملتا ہے۔ انہوں نے اپنا قلمی نام پریم چند سے ادب کی دنیا میں قدم رکھا۔ پریم چند کی پیدائش 1880ء میں بنارس یوپی کے لمہی گاؤں میں ہوئی اور وفات 1935ء میں بنارس یوپی میں پائی۔ ان کے والد عجائب لال ڈاک خانے میں منشی تھے اور ان کی والدہ کا نام آنندی دیوی ہے۔ پریم چند کی شریک حیات شورانی دیوی ہے۔

پریم چند کی ابتدائی تعلیم

پریم چند کی ابتدائی تعلیم گاؤں لمہی کے مدرسے میں ہوئی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ 1899ء میں بنارس کے قریب چنار گڑھ کے ایک مشن اسکول میں اسسٹنٹ ماسٹر کی حیثیت سے ملازم ہو گئے۔ جولائی 1900ء میں اسکول میں ماسٹر کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ 1902ء میں تدریس کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے بعد آلہ آباد کے ٹریننگ کالج میں داخلہ لے لیا اور اول درجہ سے امتحان پاس کیا۔ اور 1904ء میں الہ آباد کے ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔ اور 1920 ء میں سرکاری نوکری چھوڑ کر تصنیف و تالیف کو ہی معاش کا ذریعہ بنایا۔

پریم چند کو مضامین لکھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ پریم چند نے اردو ادب میں ناول نگار، افسانہ نگار، انشائیہ نگار کی حیثیت سے نام کمایا۔ پریم چند کی پہلی تصنیف ایک ڈراما تھا جو انہوں نے صرف 13 سال کی کمسنی میں لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا ”ایک ماموں کا رومان“ 1910ء تک یہ تصانیف نواب رائے کے نام سے چھپتی رہی۔ ہندی اور اردو ادب کے اس بے تاج بادشاہ نے 1936ء میں وفات پائی۔ بازار حسن، میدان عمل، بیوا، گودان ان کے مشہور ناول ہیں۔

منشی پریم چند کی ناول نگاری

ویسے تو اردو ادب میں ناول نگاری کی سنگ بنیاد مولوی نذیر احمد کے مبارک ہاتھوں سے اسی دن رکھ دی گئی تھی جب انہوں نے 1869ء میں اپنی یادگار تصنیف مراۃ العروس مکمل کی تھی۔ لیکن اس عمارت کو اٹھانے اور بلندیوں تک پہنچانے کے لیے پریم چند جیسے عظیم فنکار کی ضرورت تھی جو اس صنف میں جان ڈال دے۔ آخر کار پریم چند نے یہ کارنامہ بھی انجام دے ہی دیا۔

پریم چند اردو اور ہندی کے ایسے ناول نگار ہیں جنہوں نے خواب و خیال کی دنیا سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کو اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔پریم چند نے خاص طور پر دیہاتی زندگی کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ پریم چند کے ناولوں کا ماحول حقیقی ہوتا ہے۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں کسانوں،مزدوروں، محنت کش لوگوں اور سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں کے دکھ درد کی ترجمانی کی ہے۔ پریم چند نے برطانوی سامراج کے مظالم، عورتوں اور دلتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

پریم چند نے ایک درجن سے زیادہ ناول لکھے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ”اسرار معابد“ تھا۔ اس کے بعد پریم چند نے ”ہم خرما وہم ثواب“ ، ”بیوہ“ ، ”بازار حسن“ ، ”نرملا“ ، ”غبن“ ، ”میدان عمل“ اور ”گؤدان“ کے عنوان سے ناول لکھے۔

گؤدان پریم چند کا آخری اور سب سے اہمیت کا حامل ناول ہے۔ یہ ناول دیہات کی جیتی جاگتی زندگی اور کسانوں کے مسائل کا آئینہ ہے۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں جو کردار پیش کیے ہیں، وہ کردار نگاری کی بہترین مثالیں ہیں۔ پریم چند کی زبان بہت آسان ہے۔ پریم چند کے ناول ہمارے ادب کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔

سوال

پریم چند کی ناول نگاری کی خوبیاں بیان کیجئے؟

جواب
اردو ادب میں پریم چند سے قبل ڈپٹی نزیر احمد، پنڈت رتن ناتھ شرشار، عبدالحلیم شرر، مرزا محمد ہادی رسوا وغیرہ اردو ناول لکھ چکے تھے۔ لیکن اردو میں ناول نگاری کے فن کو اور بلندیوں تک پہنچانے کے لیے ایک ایسے عظیم فنکار کی ضرورت تھی جو اس صنف میں جان ڈال دے۔ آخرکار منشی پریم چند نے یہ کارنامہ انجام دے ہی دیا اور پلاٹ،‌ کردار، مکالمہ، حقیقت نگاری عرض اردو ناول کے ہر اجزائے ترکیبی کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

پریم چند اپنے ناولوں میں پلاٹ کی تیاری پر خاص توجہ دیتے تھے۔ وہ پلاٹ کو ناول کی ریڑھ کی ہڈی تصور کرتے تھے۔ پلاٹ نہ ہو تو ناول کی عمارت آٹھ ہی نہیں سکتی۔ اس لیے پریم چند ناول کے پلاٹ کو بڑے غور و فکر کے ساتھ تیار کرتے تھے۔

پریم چند نے اپنے ناولوں کے کردار جیتے جاگتے لوگوں کو بنایا۔ مثال کے طور ہوری، گوبر، سکینہ، امرت کانت یہ سب ایسے زندہ و پائندہ کردار ہیں جو رہ رہ کر ہمیں یاد آتے رہتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ان کے بارے میں صرف پڑھا ہی نہیں بلکہ ان سے ملے بھی ہیں۔ اور ان کے ساتھ رہے بھی ہیں۔

پریم چند نے جس مسلہ کو پیش کرنا چاہا اس کو کردار نگاری سے نہیں بلکہ مکالمہ نگاری سے ہی پیش کر دیا۔ اور نصاب میں شامل سبق بیوہ کے مکالمے اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔

پریم چند ایسے ناول نگار ہیں جنہوں نے خواب و خیال کی دنیا سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کو اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔

پریم چند نے خاص طور پر دیہاتی زندگی کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ پریم چند کے ناولوں کا ماحول حقیقی ہوتا ہے۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں کسانوں، مزدوروں، محنت کش لوگوں اور سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں کے دکھ درد کی ترجمانی کی ہے۔

اس طرح کی ناول نگاری سے پریم چند کا مقام و مرتبہ اردو ادب میں بلند بالا ہوا ہے۔ اور ان کا ناول بیوہ ایک شہکار ناول ہے۔

سوال‌

ناول بیوہ کے اہم کردار کون سے ہیں، اور پریم چند ان کی عکاسی میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں؟

جواب : بیوہ ناول میں امرت رائے، دان ناتھ، پریما، لالہ بدری پرشاد، دیوکی، کملا پرشاد، سومترا اور پورنا یہ اہم کردار ہیں۔ اور ان کرداروں کی الگ الگ خصوصیات ہیں۔

مردانہ کرداروں میں امرت رائے کا کردار شمع کی طرح روشن ہے۔ اس کی گفتگو میں تاثیر اور عمل میں اخلاق ہے۔ شروع سے ہی یہ کردار قاری کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔

امرت رائے ایک کامیاب وکیل اور روشن خیال انسان ہے۔ پیشے سے وکیل ہونے کے باوجود سچائی کا دامن نہیں چھوڑتے اور اصول کی خاطر اپنی محبت کو بھی قربان کر دیتے ہیں۔

امرت رائے کی شادی لالہ بدری پرشاد کی چھوٹی بیٹی پریما سے ہونے والی تھی۔ لیکن پنجاب کے ایک پنڈت امرناتھ کی تقریر سے امرت رائے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے پریما سے شادی کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ پنڈت امرناتھ جی نے کہا کہ جن کی بیویاں مر چکی ہیں ان کو کنواری لڑکی سے شادی کرنے کا کوئی حق نہی۔ اگر شادی کرنا ہے تو بیوہ سے ہی شادی کرے۔ اس بات کو سن کر امرت رائے نے پریما سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ امرت رائے کی پہلی شادی لالہ بدری پرشاد کی بڑی بیٹی سے ہو چکی تھی، لیکن وہ وقت سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔

امرت رائے اپنے دوست دان ناتھ سے پریما کی شادی کروا دیتا ہے۔ اور پریما بھی یہ سوچ کر دان ناتھ سے شادی کر لیتی ہے کہ امرت رائے کی بھی یہی مرضی ہے۔ اور امرت رائے ایک ودھوا آشرم میں رہ کر بیوہ عورتوں کی خدمت کا کام کرنے لگتے ہیں۔

پورنا کا کردار بھی مرکزی کردار ہے۔ پورنا اس ناول میں ہیروئن یا بیوہ کا ایک بہترین کردار ہے۔ پورنا ایک خوبصورت لڑکی تھی اس کی شادی پنڈت بسنت کمار سے ہوئی تھی۔ پنڈت بسنت کمار اپنی بیوی سے بہت پیار کرتے تھے۔ ابھی شادی کو تین برس ہی ہوئے تھے کہ پنڈت بسنت کمار ہولی کے دن گنگا ندی میں نہانے جاتے ہیں کہ اچانک پنڈت بسنت کمار کو گنگا ندی میں کمل کا پھول دکھائی دیتا ہے، اور یہ سوچ کر کہ یہ پھول میں پورنا کو پہناؤں گا۔ اور پھر پنڈت بسنت کمار پھول لینے کے لیے منجھدار میں چلے جاتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں۔ اس طرح پورنا بیوہ ہو جاتی ہے۔ بیوگی کے عالم میں اسے کئی مشکل گھڑیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔اور پھر آخر میں اپنی عصمت کو بچا کر ایک بیوہ آشرم میں اپنی باقی زندگی بسر کرتی ہے۔ لیکن اپنی عصمت کو داغ لگنے سے بچا لیتی ہے۔

دان ناتھ سہل پسند آدمی تھے۔ کسی اصول کے لئے تکلیف اٹھانا انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ ایک کالج میں پروفیسر تھے۔ کالج سے آکر زیادہ تر وقت کتب بینی، مطالعہ اور سیر و تفریح میں گزارتے تھے۔ دان ناتھ امرتا رائے کے کہنے پر پریما سے شادی کر لیتا ہے۔ لیکن کملا پرشاد کی سازش کا شکار ہو کر پریما اور امرت رائے پر شک کرنے لگتا ہے۔ لیکن آخر میں دان ناتھ کے سامنے حقیقت آ جاتی ہے اور امرت رائے سے اپنی غلطی کی معافی مانگ لیتا ہے۔

کملا پرشاد ایک خود غرض، کنجوس آدمی ہے۔اور لالہ بدری پرشاد کا بیٹا ہے۔

پریما کا کردار اس لئے اہم ہیں کہ وہ امرت رائے کے نیک کام میں ہاتھ بٹاتی ہے۔ یہاں تک کی امرت رائے کے کہنے پر پریما دان ناتھ سے شادی کر لیتی ہے۔ اور شادی کے بعد بھی پریما امرت رائے کا ساتھ دیتی ہے۔

پریم چند نے سارے کرداروں کی گفتگو سے کرداروں کی ذہنی کیفیت اور ان کی نفسیات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔اور اس میں پریم چند کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

ناول بیوہ کے ذریعے پریم چند ہمیں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ وضاحت کیجئے۔

جواب : بیوہ ناول میں بتایا گیا ہے کہ عورتوں پر بیوگی کے عالم میں گھر اور سماج کی جانب سے بہت ظلم و ستم کیے جاتے ہیں اور ساتھ ہی بیوہ عورتوں کو سبز باغ دکھا کر ان کی عصمت پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ اس کا خوبصورتی سے اظہار کیا گیا ہے۔

عورتوں کے بیوہ ہونے پر سماج میں کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ بلکہ انہیں حریص نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے بیوہ عورتوں کو اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے طرح طرح کی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس ناول میں پریم چند نے سماج کی ایک خطرناک برائی کو پیش کیا ہے۔

اور آخر میں اس کا حل بیوہ عورت سے شادی کرنے کی شکل میں پیش کیا ہے۔

اس ناول میں پریم چند نے سماج کے لوگوں سے بیوہ کی دوسری شادی کرنے پر بھی اصرار کیا ہے۔ اور کہا کہ سماج کے وہ لوگ جن کی عورت مر چکی ہے وہ بیوہ عورتوں سے شادی کرلیں تو سماج کی یہ برائی خود بہ خود ختم ہو جائے گی۔ اور بیوہ عورتوں کو ان کا حق مل جائے گا۔

یہاں تک کی پریم چند نے اپنی دوسری شادی ایک بال بیوہ سے کی تھی۔ پریم چند ہندو سماج کو خرابیوں سے پاک کرنے کے خواہشمند تھے۔


اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے