بڑے گھر کی بیٹی کا خلاصہ | بڑے گھر کی بیٹی کا تجزیہ | بڑے گھر کی بیٹی کے اہم کردار اور سوالات
بڑے گھر کی بیٹی، افسانہ، پریم چند
بڑے گھر کی بیٹی ایک مثالی حقیقت پسندانہ افسانہ ہے جسے پریم چند نے لکھا ہے۔ یہ افسانہ پہلی بار 1910ء میں زمانہ نامی رسالے میں شائع ہوئی۔ لیکن آج اس افسانہ کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ جوائنٹ فیملی کا ٹوٹنا دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کہانی میں پریم چند نے اعلیٰ طبقے کے خاندانی، سماجی اور معاشی حالات اور اقدار کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کی ہے۔
آنندی کے کردار کو پیش کرتے ہوئے مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بڑے گھر کی بیٹیاں اسی وقت بڑے گھر کی بیٹیاں کہلانے کی مستحق ہوتی ہیں جب ان میں مشترکہ خاندان سے محبت، برداشت اور لگاؤ ہو۔ یہاں ہم نے بڑے گھر کی بیٹی کہانی کا خلاصہ، کہانی کا مقصد، مرکزی کرداروں کی خصوصیات، عنوان کی اہمیت اور اہم سوالات کے جوابات پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے قارئین اور اور طلبہ و طالبات کو کہانی کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
بڑے گھر کی بیٹی افسانہ کے مصنف پریم چند کی سوانح عمری
منشی پریم چند کی پیدائش (1880) اتر پردیش کے لمہی نامی گاؤں میں ہوئی۔ گھر کی خراب حالت کی وجہ سے بی۔ اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد پریم چند مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن گھریلو حالات خراب ہونے کی وجہ سے انہیں ایک سرکاری اسکول میں ملازمت کرنی پڑی۔ ان کا انتقال 1936 میں ہوا۔
پریم چند کی اہم تخلیقات
سیوا سدن، پریماشرم، رنگ بھومی، نرملا، کیا کلپ، گاون، گودان۔ انہوں نے تقریباً تین ہزار کہانیاں لکھی ہیں جو مانسروور کے نام سے آٹھ حصوں میں جمع ہیں۔ دو بیلوں کی کہانی، کفن، نمک حرام، پُس کی رات، پنچ پرمیشور، بڑے گھر کی بیٹی وغیرہ ان کی نمائندہ کہانیاں ہیں۔
پریم چند کی سوتیلی ماں نے ان کی شادی ان سے بڑی امر کی لڑکی سے کرادی۔وہ فطرت میں بہت ظالم تھی۔ وہ پریم چند کے ساتھ نہیں ملتی تھی۔ بعد میں انہوں نے نے شیورانی نام کی ایک چائلڈ بیوہ سے شادی کی۔
پریم چند کی کہانیوں میں دیہی ثقافت اور روایت کی خوب صورت بیان ملتا ہے۔ ان کی زبان کا انداز جذباتی اور ماحول دوست ہے۔ پریم چند کو ہندی اُردو کہانی کی دنیا کا شہنشاہ سمجھا جاتا ہے۔
بڑے گھر کی بیٹی کہانی کا خلاصہ
بینی مادھو سنگھ گوری پور گاؤں کا زمیندار اور نمبر دار تھا۔ ایک زمانے میں ان کے دادا بہت امیر آدمی تھے۔ لیکن بدلتے وقت کے ساتھ اس کی تقریباً تمام دولت ختم ہو چکی تھی۔ فی الحال سالانہ آمدنی روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔
ٹھاکر بینی مادھو سنگھ کے دو بیٹے تھے - بڑے کا نام شریکانت سنگھ اور چھوٹے کا نام لال بہاری سنگھ تھا۔
شریکانت سنگھ بی۔ اے پاس کرنے کے بعد نوکری کرتے تھے۔ اس کا جسمانی قد بالکل نارمل تھا، اس کے برعکس چھوٹا بھائی لال بہاری سنگھ دوہرے جسم کا خوبصورت آدمی تھا۔ پورا چہرہ، چوڑا سینہ۔ اس کے پاس صرف دو اہم کام تھے - صبح سویرے دو سیر بھینس کا دودھ پینا اور کشتی۔
شریکانت سنگھ نے انگریزی پڑھی تھی، لیکن وہ انگریزی سے بالکل مختلف تھا۔ مغربی روایات سے بالکل مختلف۔ مشترکہ خاندان کے سخت حامی اور ایسی خواتین کے کٹر مخالف تھے جو مشترکہ خاندان کے خلاف کچھ بولتی تھیں۔ بعض اوقات اس کی بیوی سے اس موضوع پر اختلاف بھی ہو جاتا تھا۔ وہ قدیم ہندوستانی روایات کے زبردست حامی تھے۔ وہ گاؤں میں منعقد ہونے والے ثقافتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
آنندی اونچی ذات کی لڑکی تھی۔ ان کے سسر بھوپ سنگھ کا تعلق ایک چھوٹی ریاست سے تھا۔ بڑی بڑی عمارتیں، ہاتھی، گھوڑے، نوکر، باز، فانوس وہ سب کچھ تھا جو ایک تالق دار کے پاس ہونا چاہیے۔ آنندی چار بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ وہ تمام بہنوں میں سب سے حسین اور نیک تھیں۔ وہ ماں باپ کی لاڈلی اولاد تھی۔ ایک دن شریکانت سنگھ اس کے گھر کسی تقریب کے لیے چندہ مانگنے آیا تھا، بھوپ سنگھ اس کی طبیعت سے خوش ہوا اور شان و شوکت سے آنندی کی شادی شریکانت سنگھ سے ہوئی۔
آنندی جب اپنے سسرال آئی تو اسے یہاں ایک الگ ہی رنگ نظر آیا۔ بچپن سے جس ٹم ٹام کی عادت تھی وہ یہاں بالکل نہیں تھی۔ ہاتھی اور گھوڑے کی بات تو بھول جاو، وہاں ایک سجی ہوئی باہلی بھی نہیں تھی۔ زمین پر قالین نہیں، دیواروں پر کوئی تصویر نہیں۔ لیکن چند ہی دنوں میں آنندی نے خود کو ان حالات کے مطابق ڈھال لیا۔ جیسے عیش و آرام کی چیزیں بھی نہ دیکھیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے. دوپہر کو لال بہاری سنگھ دو پرندے لے کر آئے۔ اس نے آنندی سے کہا- جلدی سے پکا لو، مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ کھانا پہلے ہی تیار تھا۔ خیر آنندی جب پھرسے کھانا بنانے کے لئے بیٹھی تو دیکھا کہ ہانڈی میں گھی ایک روٹی سے زیادہ نہیں تھا۔ بڑے گھر کی بیٹی کو کیا پتہ۔ اس نے سارا گھی گوشت میں ڈال دیا۔ لال بہاری کھانے بیٹھا تو دال میں گھی نہ دیکھ کر بگڑ گیا۔ اس نے کہا دال میں گھی کیوں نہیں ہے؟
آنندی نے سادہ انداز میں کہا، گھی کم تھا، سب گوشت میں ڈال دیا تھا۔ لال بہاری نے کہا کہ وہ ابھی پرسوں ہی تو آئے ہیں، سب کچھ ختم ہو گیا ؟۔ آنندی نے کہا، آج صرف ایک پاؤں رہ جائے گا۔ بھابھی کی یہ باتیں لال بہاری کو پسند نہ آئیں، اس نے ڈھٹائی سے کہا، جیسے ماموں کے گھر میں گھی کی ندی بہتی ہو!
عورت سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن میکے کی مذمت برداشت نہیں کر سکتی۔ آنندی نے منہ موڑ کر کہا، اگر ہاتھی مر بھی جائے تو اس کی قیمت نو لاکھ ہے۔ وہاں اتنا گھی تو روزانہ حجام اور قہار کھا جاتے ہیں۔
لال بہاری جل گیا، تھا لی اٹھا کر پھینک دیا ی اور بولا جی چاہتا ہے، زبان کھینچ لوں۔ آنندی کو بھی غصہ آیا، بولی، اگر وہ ہوتے تو آج مزہ چکھا دیتے۔ ناخواندہ، بے وقوف گوار رک نہ سکا، اس نے کھڑاؤ اٹھا کر آنندی کی طرف پھینکا اور کہا، جس کے گمان پر پھول رہی ہو، میں اسے بھی دیکھوں گا اور تمہیں بھی۔ آنندی نے ہاتھ سے کھڑاؤ روکا، سر تو بچ گیا لیکن انگلی میں چوٹ آگئی۔ وہ خون کا گھونٹ پی کر اپنے کمرے میں آئی، کیونکہ اس کا شوہر گھر میں نہیں تھا۔
آنندی دو دن تک کوپ بھون میں رہیں۔ کچھ کھایا نہ پیا۔ بس شریکانت سنگھ کا انتظار کرتی رہی۔ آخر کار شریکانت ہفتہ کو گھر آیا تو گھر کا ماحول کچھ بدل چکا تھا۔ دروازے پر ہمیشہ کی طرح چوپال جمی ہوئی تھی۔ کھانے کا وقت ہوا تو پنچایت اٹھ گئی۔ تنہائی دیکھ کر لال بہاری نے اپنے بھائی سے کہا بھائی! تم اپنی بھابھی کو سمجھاؤ گے، منہ سنبھال کر بات کرے، ورنہ ایک دن تباہی ہو گی۔ میکے کے سامنے تو ہم لوگوں کو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔
شریکانت سنگھ جب کھانا کھانے کے بعد آنندی کے پاس گیا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس نے آنندی سے کہا ان دنوں گھر میں کیا بگاڑ ہے؟
آنندی نے کہا، میری قسمت ہی خراب ہے، ورنہ ایک گوار لڑکا جس میں چپراسی بننے کی بھی قابلیت نہیں، وہ مجھے مارے گا۔
اس طرح اس نے ساری صورتحال اپنے شوہر شریکانت سنگھ کو سنائی۔ عورت کا ناقابل یقین ہتھیار وہ آنسو ہے جو اس کی پلکوں پر مسلسل جما رہتا ہے۔ آنندی نے بھی ایسا ہی کیا۔ اپنی بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر شری کانت سنگھ جیسے سمجھدار آدمی بھی بے چین ہو گئے۔ جیسے تیسے رات گزار کر صبح اٹھ کر باپ کے پاس گیا اور کہا دادا ! اب اس گھر میں میرا گزرا نہیں ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب تمہارے گھر میں ناانصافی اور ضد کا قہر بڑھ گیا ہے۔ میں باہر رہتا ہوں اور میری پیٹھ کے پیچھے میری عورت کو جوتے کے thong سے مارا گیا ہے۔ اب چاہے وہ گھر میں رہے یا میں رہوں۔ بینی مادھو سنگھ نے بیٹے کو بہت سمجھایا لیکن وہ اپنی بات پر ڈٹا رہا۔ اسی دوران گاؤں کے کچھ لوگ بھی بن بلائے مہمان بن کر تماشا دیکھنے آئے۔
شری کانت سنگھ نے آخری فیصلہ سنا دیا، اگر آپ مجھے یہیں رکھنا چاہتے ہیں تو اس سے کہیں کہ وہ جہاں چاہے جائیں۔
دروازے کی چوکھٹ پر لال بہاری خاموشی سے بڑا بھائی کی باتیں سن رہے تھے۔ وہ اپنے بڑے بھائی کا بہت احترام کرتے تھے۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ اس حد تک پہنچ جائے گا۔ شریکانت سنگھ بھی ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ الہ آباد سے آتا تو اس کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتا۔ لیکن آج اس کے بالکل برعکس تھا۔
اپنے بھائی کے منہ سے اس طرح کے دل دہلا دینے والے الفاظ سن کر لال بہاری سنگھ کو بہت شرمندگی محسوس ہوئی۔ اسے لگا کہ بھائی مجھے ڈانٹیں گے، دو چار تھپڑ ماریں گے، لیکن یہ کہنا کہ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا، لال بہاری برداشت نہ کر سکے۔ وہ روتا ہوا گھر آیا، کپڑے پہن کر آنندی کے دروازے پر آیا اور بولا، بھابھی، بھائی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب وہ اس گھر میں میرے ساتھ نہیں رہے گا۔ اب وہ میرا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے اس لیے میں جاتا ہوں۔ میں دوبارہ ان کو منہ نہیں دکھاؤں گا۔ میں نے جو بھی جرم کیا ہے مجھے معاف کر دیں۔ یہ کہتے ہوئے لال بہاری کا حلق آنسوؤں سے بھر گیا۔
آنندی نے لال بہاری سے شکایت کی لیکن اب وہ دل ہی دل میں پچھتا رہی تھی۔ وہ طبیعت سے بہت رحم دل تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ اس حد تک پہنچ جائے گا۔ وہ اپنے شوہر سے ناراض تھی کہ وہ اتنا گرم کیوں ہو جاتا ہے۔ لال بہاری کی شفقت بھری باتیں سن کر ان کا غصہ بھی پانی میں بدل گیا۔
آنندی نے شریکانت سنگھ سے کہا، لال باہر کھڑا رو رہا ہے۔ شریکانت بولا، کیا کروں؟ آنندی نے کہا میری زبان میں آگ لگ گئی جس سے میں نے یہ جھگڑا بڑھا دیا۔ لال کو کہیں نہ جانے دو۔ میں نہیں جاوں گا شریکانت سنگھ نے کہا۔ اب کیا ہو گا لال بہاری گھر سے نکلنے ہی والے تھے کہ آنندی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کہا، میں آپ کو قسم دیتی ہوں، جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا۔
اب تک شریکانت سنگھ کا دماغ بھی پگھل چکا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر لال بہاری کو گلے لگایا۔ بینی مادھو سنگھ نے دونوں بھائیوں کو گلے لگتے دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ ان کے منہ سے نکلا، بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں جو بگڑے کام بنا دیتی ہیں۔ چاروں طرف آنندی کی تعریف ہو رہی تھی۔
بڑے گھر کی بیٹی کہانی کا مقصد، بڑی گھر کی بیٹی کا مرکزی خیال
بڑے گھر کی بیٹی کہانی ایک مثالی حقیقت پسندانہ کہانی ہے جسے پریم چند نے ترتیب دیا ہے۔ اس کہانی میں پریم چند نے ایک اعلیٰ متوسط طبقے کے خاندان کے معاشی، سماجی اور خاندانی حالات کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کہانی کے ذریعے مصنف نے ایک مشترکہ خاندان کی اہمیت اور افادیت کو ثابت کیا ہے، اس کے ساتھ ایک بڑے گھر کی بیٹی کا فرض بھی آنندی کے کردار سے نبھایا ہے۔ اس کہانی کا مقصد یہ ہے کہ خاندان میں ہم آہنگی قائم کرنا خواتین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ چاہے تو گھر کی بگڑتی ہوئی حالت کو سنبھال سکتی ہے۔ بھٹکتے انسان کو راہ راست پر لا سکتی ہے۔
بڑے گھر کی بیٹی افسانہ کے مرکزی کردار آنندی کا کردار
آنندی بڑے گھر کی بیٹی افسانہ کا مرکزی کردار ہے۔ یہ اس کہانی کے عنوان سے واضح ہے۔ وہ ایک امیر طلقدار کی خوبصورت، حسین اور پڑھی لکھی سمجھدار بیٹی ہے۔ اپنی دانشمندی سے وہ ٹوٹے ہوئے خاندانی رشتوں کو سنبھالتی ہے۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ ان کی شادی ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں ان سہولیات کا مکمل فقدان ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ میکے میں اس کے پاس نوکروں سے لے کر ہاتھی، گھوڑے تک سب کچھ تھا، لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ پھر بھی وہ ان حالات کے مطابق خود کو تیزی سے ڈھال لیتی ہے۔ گھر کے تمام کام وہ خود کرتی ہے۔ کھانا بنانے سے لے کر سب کو اپنے ہاتھ سے کھلاتی تھی۔
آنندی نے بھی جوائنٹ فیملی کی اہمیت کو بخوبی سمجھا۔ لیکن وہ اپنی اور اپنے میکے کی تذلیل برداشت نہ کر سکی۔ یہ عورت کی خاص صفت ہے، جو اس میں بھی تھی۔
آنندی جتنی خوبصورت تھی اتنی ہی ذہین بھی تھی ۔ جب اس کا شوہر خاندان سے الگ ہونے پر اصرار کرتا ہے تو وہ ناراض ہو جاتی ہے۔ جب معاملات غلط ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے آپ سے بھی ناراض ہو جاتی ہے۔ وہ مشترکہ خاندان کے حق میں ہے۔ جب اس کا دیور لال بہاری گھر سے نکلنے لگتا ہے تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور اسے لال بہاری سنگھ پر ترس آتا ہے۔ وہ آگے بڑھ کر اسے جانے سے روکتی ہے اور دونوں بھائیوں میں صلح کرواتی ہے۔ اس طرح وہ بکھرتے خاندان کو ٹوٹنے سے بچانے میں مدد کرتی ہے۔ آنندی کے کردار میں شرافت کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ آنندی ایک بہترین گھریلو خاتون ہیں۔
لال بہاری سنگھ کا کردار
لال بہاری سنگھ ٹھاکر بینی ماگھو سنگھ کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ وہ جسم میں مضبوط اور جوان ہے۔ اس کا کام بھینس کا دودھ پینا اور ریسلنگ کرنا ہے۔ وہ خود کو عورتوں سے برتر سمجھتا ہے، اس لیے وہ اپنی بھابھی آنندی کے ساتھ نہیں ملتا۔ وہ دلیر، موٹے عقل کا آدمی ہے، اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی بھابھی پر بھی کھڈّا سے حملہ کرتا ہے۔
وہ آنندی سے اپنے دیوتا نما بڑے بھائی سے بھی اپنے جھوٹے غرور کی شکایت کرنے میں نہیں ہچکچاتا۔ لیکن جب چیزیں غلط ہو جاتی ہیں تو وہ بہت زیادہ پچھتاوا بھی محسوس کرتا ہے۔
لال بہاری سنگھ اپنے بڑے بھائی شری کانتھ سنگھ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ وہ ان کے سامنے چارپائی پر بیٹھنا بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ جب اس کا بڑا بھائی اس کا چہرہ دیکھنے سے بھی انکار کر دیتا ہے، تو اسے اپنے کیے پر پچھتاوا ہوتا ہے اور وہ اپنی بھابھی آنندی سے معافی مانگنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ وہ بڑے بھائی شریکانت سنگھ کی محبت اور پیار حاصل کرنے کے لیے جو بھی کرنا پڑے کرنے کو تیار ہے۔ اس طرح لال بہاری سنگھ کا کردار ایک مثالی اور متحرک کردار ہے۔
بڑے گھر کی بیٹی کا مسئلہ اور مشترکہ خاندان کی کہانی
کہانی بڑے گھر کی بیٹی میں کہانی لکھنے والے منشی پریم چند جی نے مشترکہ خاندان کے مسئلے کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے۔ مشترکہ خاندان کی عزت اور وقار کو برقرار رکھنا آج ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر کچھ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو مشترکہ خاندان ایک مثالی خاندانی نظام سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت مشترکہ خاندان ٹوٹتا جا رہا ہے۔ بڑے گھر کی بیٹی کہانی میں پریم چند نے اس مسئلے کو سماج کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ گھر کی خواتین مشترکہ خاندان کو سنبھالنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ گھر کی عورتیں اپنے صبر، تحمل اور سمجھ بوجھ سے ٹوٹتے خاندان کو سنبھال سکتی ہیں اور اپنی شرافت کی مثال پیش کر سکتی ہیں۔
بڑے گھر کی بیٹی کے سوالات کے جوابات
بینی مادھو سنگھ کون تھا؟
جواب : بینی مادھو سنگھ گوری پور گاؤں کا زمیندار اور نمبر دار تھا۔
ٹھاکر بینی مادھو سنگھ کے دونوں بیٹوں کا مختصر تعارف کروائیں۔
جواب - ٹھاکر بینی مادھو سنگھ کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے کا نام شریکانت سنگھ اور چھوٹے بیٹے کا نام لال بہاری سنگھ تھا۔ شری کانت سنگھ بی اے پاس کرنے کے بعد نوکری کرتے تھے۔ وہ ہندوستانی روایات سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ وہ مشترکہ خاندان کے زبردست حامی تھے۔ ان کی بیوی کا نام آنندی تھا۔
لال بہاری سنگھ ایک مضبوط نوجوان تھا۔ ان کا کام بھینس کا دودھ پینا اور کشتی کرنا تھا۔ وہ عورتوں کو احساس کمتری کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ اپنے بڑے بھائی کا بہت احترام کرتے تھے۔
B A' - ان دو حرفوں نے اس کے جسم کو کمزور اور چہرے کو چمکدار بنا دیا تھا۔ اس قول سے تعلیم کا کونسا عیب معلوم ہوتا ہے؟
جواب: اس بیان سے معلوم ہوا کہ بچے پڑھائی تو کرتے ہیں لیکن صحت اور جسم پر توجہ نہیں دیتے۔ پڑھائی میں صرف ذہنی طاقت فراہم کرنے کے چکر میں جسمانی طاقت پیچھے رہ جاتی ہے۔
تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود شریکانت گاؤں میں کیوں مقبول تھا؟
جواب- پڑھے لکھے ہونے کے باوجود، شری کانت گاؤں کے تہواروں میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیتے تھے۔ وہ خود رام لیلا کے تہوار میں ایک کردار کے طور پر کام کرتے۔ لوگوں کی طرح اس لیے وہ گاؤں میں مقبول تھا۔
گاؤں والوں نے شریکانت پر تنقید کیوں کی؟
جواب - شری کانت سنگھ مشترکہ خاندان کے زبردست حامی تھے۔ جو عورتیں خاندان کے ساتھ اکٹھے رہنا نہیں چاہتی تھیں، وہ انہیں ملک اور معاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھتی تھیں۔ اس لیے گاؤں والے اس کی مذمت کرتے۔
آنندی کون تھی؟ وہ خاندان کس خاندان سے آئی؟
آنندی شریکانت سنگھ کی بیوی تھی۔ وہ ایک بڑے خاندان سے آئی تھی۔ وہ ایک بڑے تالقدار بھوپ سنگھ کی چہیتی بیٹی تھی، جس کے میکے میں تمام سہولتیں تھیں۔
آنندی اور لال بہاری کے درمیان کیا جھگڑا تھا؟
جواب - ایک دن لال بہاری سنگھ کو دال میں گھی نہیں ملا۔ جب اس نے آنندی سے پوچھا کہ دال میں گھی کیوں نہیں ہے تو آنندی نے کہا کہ تھوڑا سا گھی بچا ہے جسے ہم نے گوشت میں ڈال دیا ہے۔ اب گھی نہیں ہے۔ اس پر لال بہاری سنگھ نے کہا کہ گھی ایک دن پہلے ہی آیا تھا، اس لیے ختم کیسے ہو گیا۔ جیسے ماموں کے گھر میں گھی کا دریا بہتا ہے۔ یہ سن کر آنندی نے منہ پھیر لیا اور کہا، ’’اتنا گھی ہے جو حجام کھاتا ہے۔ اس بات پر دونوں میں جھگڑا ہوا۔ لال بہاری سنگھ نے تھالی پر ہاتھ مارا اور کھڑا پھینک کر وہ آنندی کو مارا۔
لال بہاری سنگھ اور بینیمادھو سنگھ نے شری کانتھ سنگھ سے کیا شکایت کی؟
جواب : لال بہاری سنگھ اور بینیمادھو سنگھ نے شری کانتھ سنگھ سے آنندی کے بارے میں شکایت کی اور کہا کہ بہوئیں مردوں کا سامنا کرنا پسند نہیں کرتیں۔ کوئی بدقسمتی ہو سکتی ہے۔
"دوسروں کو تبلیغ کرنا کتنا آسان ہے" - مصنف نے یہ سطر کس تناظر میں لکھی ہے؟
جواب: شری کانتھ سنگھ جب بغاوت پر اتر آئے اور گھر چھوڑنے کی بات کرنے لگے تو مصنف نے یہ بات اسی تناظر میں کہی ہے۔ دراصل شری کانتھ سنگھ دوسروں کے ایسے معاملات میں بہت زیادہ ملوث ہیں لمبی لمبی تقریریں کرتے تھے۔
بوڑھا ٹھاکر بے زبان تھا، کیوں؟
جواب : شری کانتھ سنگھ اپنے والد بینیمادھو سنگھ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ آج وہ شری کانتھ سنگھ کا باغیانہ رویہ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
شری کانتھ سنگھ نے اپنے والد اور بھائی سے علیحدگی کا فیصلہ کیوں کیا؟
جواب : شری کانتھ سنگھ کی بیوی آنندی محفوظ نہیں تھیں۔ اس کے بعد لال بہاری نے اپنی بھابھی پر تشدد کیا تھا اس لیے وہ اپنے والد اور بھائی سے الگ ہونا چاہتا تھا۔
لال بہاری کو اپنے بھائی کے بارے میں کس چیز نے زیادہ اداس کیا؟
جواب : شری کانتھ سنگھ اپنے بھائی لال بہاری سنگھ کی بہت عزت کرتے تھے۔ کبھی کبھی لال بہاری کو تحفے بھی دیتے تھے۔ آج وہ کہتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ نہیں رہوں گا۔ یہ سن کر لال بہاری سنگھ کا دل بھر گیا۔
آنندی نے کب اور کیوں اپنے اعمال سے توبہ کی؟
جواب - آنندی کو امید نہیں تھی کہ معاملہ اتنا بگڑ جائے گا۔ اس کا خیال تھا کہ شری کانتھ سنگھ اپنے پیارے بھائی کو تھوڑا ڈانٹیں گے۔ بات یہیں ختم ہو جائے گی۔ لیکن یہاں معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ لال بہاری گھر چھوڑنے لگے۔ خاندان ٹوٹنے کو تھا۔ پھر آنندی نے توبہ کی۔
سارے گاؤں نے کہا- بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہوتی ہیں، کیوں؟
جواب: آنندی کے کہنے پر شری کانتھ سنگھ اس قدر بگڑ گئے کہ حالات بہت خراب ہو گئے۔ لال بہاری سنگھ گھر سے نکلنے لگے۔ آنندی کو لگا کہ اب خاندان ہی بکھر جائے گا۔ یہ صورت حال بہت خراب ہو جائے گی۔ چنانچہ اس نے آگے بڑھ کر لال بہاری کو جانے سے روک دیا۔ اس نے بگڑتی ہوئی صورتحال کو اس طرح سنبھالا۔ اس بات پر گاؤں والوں نے کہا- بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے