Ticker

6/recent/ticker-posts

ناول گودان کا خلاصہ : منشی پریم چند Novel Godan Ka Khulasa In Urdu

ناول گودان کا خلاصہ : پریم چند Novel Godan Ka Khulasa In Urdu

گودان منشی پریم چند کا بہترین اور شاہکارناولوں میں سے ایک ہے۔ یہ ناول ۱۹۳۶ء میں شائع ہو کر منظرِ عام پر آیا تھا۔ ہندوستان کے بے کس اور ناچار غریب کسانوں کی تکلیف دہ زندگی کی پریشانیوں کو اس ناول میں بڑے خوبصور ت انداز میں دکھایا گیا ہے۔پریم چند نے دہقانوں پر ہونے والے ظلم و زبر کی بہترین طریقے سے تصویر کشی اس ناول میں کی ہے۔

پریم چند نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز پہلے پہل اردو زبان میں ہی کیا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ ہندی زبان کی طرف بھی تیزی سے قدم بڑھانے لگے۔ ناول گؤدان پہلے پہل دیوناگری رسم الخط میں ہی لکھا گیا تھا۔ گؤدان کو اقبال بہادر ورما ساحرؔ نے اردو میں تبدیل کیا تھا وقت گزرنے کے ساتھ یہ پوری طرح سے اردو ناول ہی قرار دیا جانے لگا۔

ناول گؤدان کا خلاصہ : منشی پریم چند

گؤدان ناول کے کردار صاف طور پر مختلف طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہوری اور دھنیا کسانوں کی نمائندگی کرتے ہیں، داتادین جھنگری سنگھ اور منگرو ساہ مزہبی پیشواؤں اور ساہکاروں کے نمائندہ کردار ہیں، رائے اگر پال سنگھ زمینداروں کی نمائندگی کرتے ہیں، کھنہ سرمایہ داروں کی نمائندگی کرتے ہیں، مہتا اور مرزا خورشید اور اونکار ناتھ متوسط طبقے کے دانشوروں اور قومی رہنماؤں کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ناول گودان کا مرکزی کردار ہوری ہے

ناول کا مرکزی کردار ہوری رام ہے جو کہ ایک غریب کسان ہے ہوری رام کی موت پر ناول کا خاتمہ کرکے پریم چند نے یہ صاف طور سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب انہیں سمجھوتے پر کوئی اعتقاد باقی نہیں رہا تھا۔ آئیے اب ناول گودان کا خلاصہ پڑھتے ہیں۔

ناول گؤدان کا خلاصہ : منشی پریم چند

ہوری رام جو کہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے بیلاری نام کے ایک چھوٹے گاؤں میں رہتا ہے۔ پیشے سے وہ ایک کسان ہے اس کے اور بھی دو بھائی ہیں۔ ایک ہیرا اور دوسرا سوبھا۔ ہوری رام پر زمیندار صاحب کا بہت زیادہ لگان اور قرض چڑھا ہوا ہے۔ یہ وہی قرض ہیں جنہیں ہوری نے اپنے بھائیوں کی شادی پر لیا تھا۔ ویسے تو یہ قرض کی رقم کچھ ہی تھے لیکن اب سود کی وجہ سے اصل رقم سے سو گنا زیادہ بڑھ چکا ہے۔ ہوری کی حالت ایسی ہے کہ وہ پہلے سے لیا گیا قرض چکا نہیں سکتا ہے لیکن پھر بھی دوسرا چھوٹا موٹا قرض لینا ہی پڑ تا ہے۔ جیسے کبھی کوئی مہمان آ گیا تو اس کی خاطر داری کرنے کے لئے ادھار پر سامان لے لیا، کسی کی بیماری یا پھر کھیتی کا خرچ وغیرہ۔

گودان ناول کا خلاصہ ہوری رام کا پریوار

ہوری رام کے دو بیٹیاں ہیں۔ ایک کا نام سونا اور دوسری کا نام روپا ہے۔ ایک بھوک اور افلاس کا مارا بیٹا گوبرہے۔ کل ملا کر تین بچے ہیں۔ ویسے تو گوبر دھن ایک نہایت جفاکش لڑکا ہے لیکن اس کی حالت دن بدن بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے اور بھی زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ ہوری کی بیوی اور گوبر کی ماں دھنیا گوبر کو طرح کمزور دیکھ کر بیچین رہتی ہے لیکن کیا ہوسکتا ہے سب کچھ زمیندار صاحب کے ہاتھ میں ہے یا بھگوان ہی مالک ہے۔ ہوری کو اپنے بیٹے گوبر کی محرومیوں کا پُورا خیال ہوتا ہے لیکن قرضوں کے بوجھ تلے دب جانے کی وجہ سے وہ بہت مجبور ہوتا ہے۔

گودان ناول کا خلاصہ : پریم چند

ہوری کی ایک دیرینہ خواہش ہے کہ اس کی اپنی ایک گاے ہو جس کے دیدار وہ روز صبح شام کرے اور ساتھ دودھ مکھن ملائی، گھی وغیرہ سے بھی فیض یاب ہو، لیکن اس مہنگائی کے دور میں 80 روپے سے کم میں بھولا ایک بھی گائے نہیں دیتا، ہوری ہر دم گاے کے خواب دیکھتا ہے۔ ایک دن بھولا ہوری کے سامنے اپنی مجبوری ظاہر کرتا ہے کہ اس کے بچے تو شادی شدہ ہو گئے ہیں بس ایک بیٹی بیٹھی ہے اس کی شادی کے بعد کوئی بھی اس کا خیال نہیں رکھے گا اس لیے وہ چاہتا ہے کہ اپنے لیے ایک پتنی کا انتظام پہلے ہی سے کر لے۔ ہوری فوراً اپنی ایک رشتے دار کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ ہے اگر بات چل پڑی تو شادی ہو جائے گی۔ بھولا کو کیا چاہیے ہوتا ہے اس عمر میں کون اسے اپنی لڑکی دے گا یہی سوچ کر وہ ہوری کی چاپلوسی کرنے لگتا ہے، اور کہتا ہے کہ اسکی یہ نئی گائے لے جائے جب چاہے پیسے دے دے، ہوری کو کیا چاہیے لیکن وہ جلدی نہیں مچاتا ، اور گائے کو کل سویرے کے لیے چھوڑ دیتا ہے، گوبر کے ساتھ جا کر وہ بھولا کے گھر بھوسہ دے آتا ہے، مگر گائے پھر بھی نہیں لاتا کہ بھولا یہ سمجھ لے کہ وہ لالچ کر رہا ہے۔

دوسری جانب بھولا کی بیٹی جھنیا کی منگنی ٹوٹ چکی ہے، کوئی اور رشتہ نہیں آرہا ہوتا ہے کہ گوبر کو دیکھ کر وہ ایک جال بن لیتی ہے۔ وہ گھر گھر جا کر دودھ بیچنے والی گوالن ہے ہر قسم کے مردوں سے پالا پڑا چکا ہوتا ہے،گوبر کو وہ پہلی ہی نظر میں تاک لیتی ہے کہ وہ ایک بھولا بھالا لڑکا ہے جو بس شادی کرنا چاہتا ہے، وہ اسی چیز کو مہرہ بنا کر گوبر کو پھنسا لیتی ہے۔

رائے صاحب گاؤں کے مکھیا ہیں، وہ ایک خوبصورت انسان ہیں لیکن دوسرے مکھیا کی طرح کے انسان نہیں ، انہوں نے کسانوں کے ساتھ نرمی بھی اس لیے برت رکھی ہے کہ الیکشن کے دنوں میں اس نرمی کا سود سمیت فائیدہ اٹھا سکیں، ان کے امیر دوستوں اونکار ناتھ، بی مہتا، خیام بہاری، مسٹر اینڈ مسز کھنا، مس مالتی میں غریب کو ریلیف دینے پر باتیں تو بہت ہوتیں ہیں مگر عمل کوئی نہیں کرنا چاہتا۔

رائے صاحب کے دوست بھی رائے صاحب جیسے ہی ہیں، وہ بھی امیر مگر دل کے کنجوس ہیں۔ رائے صاحب کی طرح انہیں بھی صرف باتیں کرنے کا شوق ہے اور غریب لوگوں کی غربت کو کم کرنے کے طرح طرح کے طریقے ان کے پاس موجود ہیں لیکن کوئی بھی آگے بڑھ کر عملی کام نہیں کرنا چاہتا۔ اڈیٹر صاحب اپنے اخبار میں شعلہ فشانی سے اتنا زیادہ غریبوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ شاید وہ غریبوں کے بہت بڑے ہمنوا ہیں لیکن وہ صرف اپنے دل کی جلن کو کم کرتے ہیں جو کہ انہیں امیر لوگوں کو دیکھ کر ہوئی جاتی ہے۔ وہ اور ان کا اخبار اچھی آمدنی نہیں دے رہے، جبکہ ان کے ساتھی زیادہ سے زیادہ رقم کمانے میں مصروف ہیں لیکن ان سے یہ نہیں ہو رہا ہوتا۔ وہ امیروں کی محفلوں میں بیٹھ کر ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں، غریبوں کی غربت کا رونا بھی اس لیے روتے ہیں کہ امیروں کو نیچا دکھائیں۔

مہتا فلسفے کے پروفیسر ہیں اور تمام زندگی آزادانہ طور پر گزارنا چاہتے ہیں، نہ انہوں نے خود شادی کی نہ کسی اور کو کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔مرزا صاحب ایک نام کے مسلمان ہیں جو کہ غریبوں کے ہمدرد ہیں مگر تب تک جب تک یہ ہمدردی ان کی جیب پر اثر انداز نہ ہو۔ جیسے ہی جیب پر کچھ دباؤ پڑتا ہے انہیں غریبوں میں سو سو عیب دکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

مالتی ولایت سے پڑھی لکھی ڈاکٹر ہیں۔ بہت سے وزراء سے تعلقات ہیں مگر کسی ایک وزیر سے شادی کا نہیں سوچتی کہ یہ وزراء خالی خولی شخصیات ہیں، وہ کسی آئیڈیل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ رائے صاحب کی تقریب میں شامل تمام مردوں کو اپنی جانب سے الو بنا رکھا ہے مگر تمام مرد بھی انہیں کھلونے سے زیادہ نہیں مانتے۔ مسٹر کھنا مالتی کے پیچھے پاگل ہیں لیکن نام کے ، مالتی کے وزراء دوستوں سے تعلقات بنانے کے لیے مالتی کے آگے پیچھے گھومتے ہیں، یہ سب مفاد کے لیے متحد ہیں بس غریب پر ترس تبھی آتا جب یا تو کام ہو یا کو چیز ان کے کام کی نہ رہے اور اٹھا کر غریب کی جھولی میں ڈال دی۔

ہوری کی گائے پر سبھی کی نظر تھی کہ پانچ سیر دودھ دیتی مکھن ملائی گائے سب کو بھاتی تھی، سب سے زیادہ نظر ٹھاکر صاحب کی تھی، ہوری کو ادھار دیتے وقت بھی کہا کہ ادھار مجھے مت دو 50 روپے میں گائے دے دو، مگر ہوری نے ایسا نہ کیا، شام میں کوئی گائے کو زہر دے گیا اور گائے تڑپ تڑپ کر مر گئی، سب کا شک ہوری کے بھائی ہیرا پر تھا کہ ہوری کی بیوی دھنیا کی لڑائی ہوئی تھی اس کی، اور اس واقعے کے بعد سے وہ گھر سے غائب تھے، تھانے سے دراوغہ صاحب آئے ہیرا کے گھر کی تلاشی لینے کے لیے مگر ہوری ڈٹ گیا کہ اپنے بھائی کی عزت نہیں جانے دے گا اس کی اس کمزوری کا فائدہ داروغہ اور دیگر اراکین اٹھانا چاہتے تھے۔ ہوری کو تاعمر قرض میں جکڑنے کے لیے ادھار دیا گیا مگر یہاں بھی دھنیا آڑے آگئی اور روپے چھین کر سب گاؤں والوں کو دکھا کر بولی ویسے تو کوئی پھوٹی کوٹی نہیں دیتا آج کیسے تیس روپے بطور رشوت کے دے دیے، داروغہ اور دیگر اراکین کے منہ پر دھنیا نے خوب کالک ملی، وہ چلے گئے بات ہوئے عرصہ بیت گیا مگر ہیرا واپس نہ آیا۔

ہوری کے بیٹے گوبر کی بے راہروی ایک دن برا نتیجہ لائی اور جھنیا حمل لے کر ان کے گھر آ پہنچی، گوبر خود گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا اور پیچھے جھنیا اس کے ماتا پتا کے کرموں پر پڑی تھی، سارے گھر کا کام کرتی اور رات کو بیٹھ کر الگ روتی، بھولا اور اس کے بھائی ہوری کے خون کے پیاسے ہو گئے ثھے، برادری نے فیصلہ کیا کہ اس بار کی تمام فصل جو ہوری کی ہوئی ضبط کر لی جائے اور 100 روپے لگان لگایا جائے، یہ سب اس کی اوقات سے باہر تھا مگر گاؤں چھوڑ کر وہ جاتا کہاں ؟؟ سب جرمانہ ادا کیا اب گھر میں فاقے پڑنے لگے جھنیا نے بیٹا جنم دیا۔

جس رات گوبر جھنیا کو چھوڑ کر بھاگا تھا اسی رات اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ کسی بھی طرح اتنی دولت بنا لائے گا کہ ماتا پتا اور پتنی عیش کی زندگی گزاریں گی، اس ارادے سے بھوکوں مرتے وہ لکھنؤ پہنچا، وہاں پر مرزا صاحب نے پندرہ روپے پر گھر کا ملازم رکھ لیا۔

ہوری کے گھر میں اناج کچھ بھی نہ بچا تھا۔ روپا رو رو کے کھانے کو مانگتی، بچہ بھی بلکتا رہتا، تبھی ہیرا کی بیوی پنیا نے دو من اناج لا کے ان کے گھر ڈالا اور کہا کہ یہ اناج بھی تو ہوری کی محنت سے میری زمین میں اگا ورنہ ہیرا تو کب کا گیا اب تک نہ لوٹا۔

بھولا نے ہوری کو گائے کے پیسے چکانے کو بولا تو اس نے کہا گھر کی تلاشی لے لو کچھ نہیں ہے بھولا نے کہا کہ جھنیا کو گھر سے نکال باہر کر تو پیسے نہیں لوں گا اس جھنیا نے میری عزت خاک میں ملائی میں اس کو خاک میں ملا دینا چاہتا ہوں، لیکن ہوری نہ مانا تو بھولا نے ہوری کا آخری سہارا بیل کھول لیے اور چلا گیا۔

مالتی نے ایک ادارا کھول رکھا ہے جس میں حقوق نسواں کا پرچار کیا جاتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ خواتین کی آزادی کے لیے کام کررہی تھی، اس کی ساتھی اسی کے جیسی امیر کبیر پڑھی لکھی خواتین تھیں۔ مالتی کے والد کمیشن پر کام کر کے کمائی کرتے تھے، راجے مہاراجوں کی ملاقاتیں، شادیاں، تقاریب کو منعقد کراتے وہ بھی زبانی کلامی، اور بیسوں ہزار روپیہ پاتے، تین بیٹیاں تھیں جن میں مالتی سب سے بڑی تھی، لیکن سبھی تعلیم لے رہیں تھیں، اچانک کثرت سے شراب پینے کی وجہ سے فالج ہوا تو ان کی چرب زبانی سے کمائی کرنے کی ذمے داری مالتی پر آ پڑی وہ اب رؤسا، امراء کی محفلوں میں وہی کام کرتی ہے جو اس کا باپ کرتا تھا، نہ چاہتے ہوئے بھی مالتی مہتا صاحب کو پسند کرتی ہے اور مہتا مسز کھنا جیسی خواتین کو جو اپنے پتی کی رضامندی کے لیے کچھ بھی کر لیتی ہیں۔

بیلوں کے جاتے ہی ہوری اب کھیتی نہیں کر سکتا، برہمن چچے کی بدولت کھیتی کی مگر وہ بھی فصل کے آدھے حقدار ٹھہرے۔ ادھر فصل بکی ادھر سارے پیسے قرض دینے والوں نے وصول کر لیے ، ہوری پھر خالی ہاتھ گھر آ بیٹھا۔ برہمن چچا کا اوباش بیٹا ہوری کی بہو پر ڈورے ڈال رہا ہے اور کسی طرح اپنے ساتھ بھگا لے جانے پر آمادہ کرتا ہے مگر وہ ابھی ہاتھ نہیں آتی، لیکن ہوری کے گھر بھوکوں مرتے تھک چکی ہے۔

اس سے پہلے کہ جھنیا ماتا دین کے ساتھ پٹتی ایک دن گوبر گھر آگیا، روز کے ایک دو روپے کی کمائی سے اور شہر کی دنیا داری سے وہ کافی کندن ہو چکا تھا۔ ایمان دار اور محنتی ہونے کے سبب لکھنؤ میں اپنا نام بنا چکا تھا، سال کے بعد گھر پہنچا تو گھر والے بھوکوں مر رہے تھے، ان کا پیٹ بھرا،سیاست سے بھولا کو مزید بھولا بناکر بیل لے آیا، گاؤں کی موٹی آسامیوں جن کی طرف سے ان پر سود بڑھا تھا وہ آر پار کیا، مگر جلد باب کی بزدلی دیکھ کر سوچا کہ یہ تو روز ہی ادھار لے گا، اور ان موٹی آسامیوں سے ڈرتا رہے گا تو کیوں نہ سب کچھ چھوڑ کر جھنیا کو لیکر چلا جائے، ماتا پتا سے لڑ کر پتنی اور پنو کو لیکر پھر سے شہر کا رخ کیا۔

رائے صاحب دوبار الیکشن ہار چکے تھے، اس بار ان کا حصہ لینے کا ارادہ نہ تھا کہ مخالف نے چیلنج دے دیا تو اٹھ کھڑے ہوئے، بیٹی جوان تھی اس کی سگائی ایک رنڈوا رئیس سے کر دی جو جی بھر کا عیاش تھا، مگر طاقت اور دولت بڑھانے کے واسطے سگائی کر دی، لیکن پیسا نہ تھا کہ رخصت کرتے بیٹی کو۔ پتنی کے سالے عیش میں پڑ کر ہوش کھو بیٹھے تو جائیداد ہتھیانے کے لیے 50 ہزار کا کیس عدالت میں کر رکھا تھا، بیک وقت بہت سے جھمیلوں میں پھنسے تھے، مسٹر کھنا، شیام ٹنخا ، ایڈیٹر صاحب سبھی دغا دے چکے تھے۔

ہوری پر قرض ویسے کا ویسا ہی تھا مگر سونا سترہ کی ہوگئی تھی اس کی سگائی ہوئی پڑی تھی مگر پیسہ ہاتھ میں نہ تھا کہ دہیج بنا سکے، دلاری کریانے والی سے مانگا وہ وعدہ کر کے مکر گئی، باقی سب سے گوبر بدتمیزی کرکے گیا تھا وہ ہوری کو منہ نہ لگاتے، ایسے میں تپشوری کی داشتہ نہری نے سو روپے ادھار دیے بنا سود کے، وہ نئی نئی عزت پانے کے چکروں میں تھی کہ ہر طرف اس کا نام ہو، تپشوری کی لاڈلی کیا ہوئی تھی سارا گاؤں عزت سے بات کرتا کہ جس کو لگان معاف کرانا ہوتا نہری کی چاپلوسی کرتا، کسی کو قرض چاہیے ہوتا تو بھی اس چرنوں میں جا پڑتا، اس عزت نے اسے مزید عزت کا بھوکا بنایا اور اس نے غریب کسان کی بیٹی کی شادی کے لیے سو روپے دیے چاروں طرف واہ واہ مچ گئی۔

مسٹر کھنا یوں تو بہت زیادہ غریب پرست بنتے تھے، جیسے ہی ان کی مل کے مزدوروں نے روپے بڑھانے کے لیے ہڑتال کی انہیں پولیس کا سہارا لے کر خوب پٹوایا، اکثر ہی دم توڑ گئے، کچھ ہی دنوں بعد ان کی مل میں آگ لگ گئی اور وہ دیوالیہ ہوگئے۔

گوبر جب جھنیا کو لیکر لکھنؤ شہر پہنچا معلوم ہوا کہ مرزا صاحب نے وہ جگہ جہاں وہ چائے بیچتا تھا کسی اور کو دان کر دی ہے، اب اس کے پاس رہنے کو ٹھکانہ نہیں تھا، جھنیا کو جو خواب دکھا کر لایا تھا سبھی زمین بوس ہوئے، اب جو چار آنے کی مزدوری کرتا سب نشے جوے میں اڑاتا۔ بچہ بیوی دونوں بھوکوں مرنے لگے جلد ہی چنو مر گیا، جھنیا کو دوسرا بچہ تھا مگر گوبر کو کوئی ہوش نہ تھا کہ جھنیا کو خوراک کی ضرورت ہے، ایسے میں پوری ایک رات درد زہ سے تڑپنے کے بعد ہمسائی چوہیا نے آکر بچہ پیدا کیا، تبھی گوبر مل کے مزدوروں کے ساتھ مار کھا کر آیا اور چارپائی سے لگ گیا۔ اس کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں، اب کمانے کو خود جھنیا نکل پڑی، چھے آنے روز کے نے اس کو اعتماد عطاء کیا۔

گوبر کے لیے جینا مشکل ہو گیا تھا کہ مالتی نے ایک دن اس کو اپنا مالی رکھ لیا مگر مالتی کا باغیچہ کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ سارا دن کام کر کر کے وہ سوکھ جاتا مگر مالتی کا ممنون رہتا کہ مالتی نے اس کے بیٹے کا علاج کیا۔ ساری ساری رات جاگ کر اس نے منگل کی خدمت کی اس کو چیچک نکل آئی تھی۔ نہ دن کو چین نہ رات کو آرام ، مالتی جھنیا اور گوبر دونوں کو گھر لے آئی اس کے بنگلے کے آرام دہ کمرے میں بجلی کے پنکھے تلے وہ سکھ سے رہ رہے تھے۔

ہوری کے سر پر قرضے کا بوجھ اتنا بڑھا کہ اب روپا کی شادی کرنے کے لیے زمین بیچنی پڑ رہی تھی، مگر زمین بیچنے کی بجائے وہ دوسرے گاؤں کے ادھیڑ عمر شخص کو روپا ہی بیچ دی کہ اس کی عمر بھی تھی شادی کی، روپا کو بیچتے ہی ہوری کے آنکھوں آگے روپا کی تصویر رہتی، روپا اسے بڑی پیاری تھی مگر غربت نے اسے بے غیرت بنا دیا۔ وہ یہ غم زیادہ دیر نہ سہہ سکا اور ایک دن مزدوری کرتے ہوئے اس کی جان چلی گئی۔ہوری کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے پنڈت گائے کا دان یعنی "گؤدان” کرنے کے لیے کہتا ہے۔اب جو شخص زندگی بھر اپنے دروازے پر گائے باندھی ہوئی دیکھنے کا خواہش مند تھا اور یہ ارمان دل میں لیے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا اس کی گھر والی سے کہا جاتا ہے کہ وہ گؤدان کرے، بھلا وہ کیسے کر سکتی ہے؟۔

اس ناول میں ڈیڑھ ڈیڑھ صفحے جتنے مکالمے ہیں، شروع میں کہانی کو جتنا پھیلایا گیا آخر میں اتنا ہی سمیٹ کر بند کر دیا گیا، ایسا لگتا ہے کہ مصنف کے دماغ میں ایک سے زیادہ اختتام تھے مگر اس نے ٹریجڈک اختتام کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے