Ticker

6/recent/ticker-posts

انشائیہ مرحوم کی یاد میں کا خلاصہ اور سوالات وجوابات

انشائیہ مرحوم کی یاد میں کا خلاصہ اور سوالات وجوابات

آج کی تحریر میں ہم انشائیہ مرحوم کی یاد میں کا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ انشائیہ این سی ای آر ٹی کی بارہویں جماعت NCERT Class 12 Urdu میں شامل ہے اس لیے اس کا مطالعہ کرنا ہم سب کے لیے بے حد ضروری ہے۔ انشائیہ مرحوم کی یاد میں سے این سی ای ار ٹی کے امتحان میں اکثر سوالات پوچھے جاتے ہیں اس لیے اس تحریر میں ہم انشائیہ مرحوم کی یاد میں کا خلاصہ اور سوالات و جوابات بھی پیش کریں گے۔

انشائیہ مرحوم کی یاد میں خیابانِ اردو برائے بارہویں جماعت باب نمبر ٤ انشائیہ میں شامل ہے۔ اس کے مصنف کا نام پطرس بخاری ہے۔

انشائیہ مرحوم کی یاد میں کا خلاصہ

”انشائیہ مرحوم کی یاد میں“ مولانا پطرس بخاری کا ایک مزاحیہ مضمون ہے۔ اس انشائیہ کے پس پردہ طنز و ظرافت کا عنصر موجود ہے۔ پطرس اداری لکھتے ہیں کہ میں اور مرزا صاحب بہت پرانے دوست ہیں۔ ایک دن برآمدے میں دونوں دوست بیٹھے تھے دونوں اپنے اپنے خیالوں میں محو تھے۔ مرزا خدا جانے کیا سوچ رہے تھے مگر میں زمانے کی ناسازگاری پر غور و فکر کر رہا تھا۔ اسی دوران میں نے ایک موٹر کار خریدنے کا اظہار کر دیا۔ اس بات پر مرزا صاحب کہنے لگے، اس کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑے گی جو آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لئے میری ایک تجویز ہے کہ آپ میری بائسیکل ہی لے لو جو میں آپ کو مفت میں دے دوں گا لیکن میں نے مفت لینے سے انکار کر دیا۔ آخرکار چالیس روپے مٹھی میں بند کر کے مرزا کے جیب میں ڈال دیے اور مرزا کو صبح تک سائیکل لازمی روانہ کرنے کو کہہ آیا تھا۔

رات کو بستر پر لیٹے ہوئے بائیسکل پر سیر کرنے کے لئے بہت کچھ سوچتا رہا اور کشمیر کی سیر کرنے کا خیال کر رہا تھا۔ صبح سویرے نوکر نے سائیکل آنے کی اطلاع دی۔ میں خوشی خوشی اسے دیکھنے کے لئے باہر آیا تو یہ ہی نہ سمجھ پایا کہ یہ ہے کیا۔ نوکر کے بتانے پر معلوم ہوا کہ یہ وہی سائیکل ہے جو مرزا صاحب نے بھجوائی ہے۔ نوکر کو اس کی صفائی اور اس کے پرزوں میں تیل دینے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ صفائی کے بعد بھی یہ میلا لگتا ہے اور اس کے تیل دینے کے تمام سوراخ بھی بند ہیں۔

آخر کار جب بائیسکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہو رہا ہو۔ زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی۔ میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا، زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی جس سے وہ تن جاتی اور چڑ چڑ بولنے لگتی۔ پھر ڈھیلی ہو جاتی۔

پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا بھی تھا۔ یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا، دوسرا دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑتا جاتا تھا، اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کے گزر گیا ہو۔ سائیکل میں سے طرح طرح کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ کیونکہ جو سائیکل مرزا نے مجھے دیا تھا وہ بہت پرانی تھی۔ اس لئے میرے لئے تکلیف دہ ثابت ہوا۔

آس پاس کے جتنے بھی لوگ تھے وہ سر اٹها کر میری طرف دیکھتے تھے جب سائیکل اترائی پر ذرا تیز ہوا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے فضا میں بھونچال سا آ گیا ہو۔ مکینک کو دکھایا بے سود بیچنے کی کوشش کی تو الٹا اپنا مزاق بنوایا۔ آخرکار جب اس سائیکل نے سب کے سامنے بیچ سڑک کے پٹخ ڈالا تو لوگوں کی ریمارکس کی پروا نہ کرتے ہوئے بائیسکل کو دریا میں ڈال دیا اس کے بعد مرزا کے گھر جا کر وہ سارے اوزار مرزا کو واپس کیے جو وہ مجھے مفت عنایت کر چکے تھے اور گھر جا کر علم کیمیا کی کتاب کا مطالعہ کرنے لگا۔

انشائیہ مرحوم کی یاد میں سوالات وجوابات


سوال نمبر ١

انشائیہ مرحوم کی یاد میں، اس سبق میں مرحوم کسے کہا گیا ہے؟

جواب : اس سبق میں مرحوم سائیکل کو کہا گیا ہے۔

سوال نمبر ٢

موٹر کو دیکھ کر مصنف کوکیا خیال آیا اور وہ کیا سوچنے لگا؟

جواب : موٹر کو دیکھ کر مصنف کو زمانے کی ناسازگاری کا خیال ستانے لگتا ہے اور وہ کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتے ہیں کہ جس سے تمام لوگوں میں دولت برابر تقسیم کی جا سکے۔

سوال نمبر ٣

مصنف نے سائیکل کو دریا میں کیوں پھینک دیا؟

جواب : سائیکل کی وجہ سے مصنف کو بہت شرمندگی کا سامنا ہوا۔ سائیکل نےسرکس کے سائیکل کا روپ اختیار کر لیا تھا۔ کیونکہ اس کے پہیے الگ ہو گئے تھے جس کی وجہ سے مصنف زمین پر گر پڑا اسی وجہ سے مصنف نے سائیکل کو دریا میں پھینک دیا۔

سوال نمبر ٤

گھر پہنچ کر مصنف نے کس کتاب کا مطالعہ کیا اور کیوں؟

جواب : گھر پہنچ کر مصنف نے علم کیمیا کی اس کتاب کا مطالعہ کیا جو انھوں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی۔ تا کہ کوئی ایسا بمب بنایا جا سکے جس سے سب پر برابر دھول پڑے۔

اور پڑھیں 👇

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے