Ticker

6/recent/ticker-posts

انجم مانپوری کی انشائیہ نگاری کی خصوصیات | انجم مانپوری کے حالاتِ زندگی

انجم مانپوری کی انشائیہ نگاری کی خصوصیات | انجم مانپوری کے حالاتِ زندگی

انجم مانپوری کا نام انشائیہ نگاری میں چمکتے ہوئے ستارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ان کے لکھے ہوئے انشائیے اور مضمون مختلف انورسیٹیوں کے سلیبس میں شامل کیے گئے ہیں لہٰذا انجم مانپوری کے حالاتِ زندگی اور انجم مانپوری کی انشائیہ نگاری کا مطالعہ کرنا بےحد ضروری ہو جاتا ہے۔ اس پوسٹ میں انجم مانپوری کے حالات زندگی اور ان کے انشائیہ نگاری کے فن سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔

انجم مانپوری کے حالاتِ زندگی

ادبی دنیا میں بہت سے فنکار ایسے ہوتے ہیں جو اپنی فنی و ذہنی صلاحیت کی بدولت انتہائی شہرت حاصل کر لیتے ہیں ان کے فن میں ایسے مخصوص تجربات داخل ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اور ان کے فن ہمیشہ یاد کیے جاتے ہیں۔ کسی فنکار کے فنی خصوصیات کو پرکھنے اور سمجھنے کے لئے ان کے احوالِ زندگی کو بھی سمجھنا لازمی ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعے فنکار کے گرد و نواح کے تہذیبی معاشی و معاشرتی اور سماجی زندگی کا حال ٹھیک ٹھیک معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اور ان تمام چیزوں کا حال معلوم کرنا اس لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ ایک فنکار کی زندگی پہ جو کچھ بھی گزرتا ہے اس کا سیدھا اثر اس کے فن پر بھی پڑتا ہے۔

آج ہم ایک ایسے فن کار کی بات کرنے جا رہے ہیں جو غمگین ماحول میں بھی مسکراہٹ بکھیرنے کا فن جانتے ہیں۔ اس فنکار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ نہایت مشکل اور پیچیدہ مسئلوں کا حل بھی ہنسی مذاق کے لہجے میں پیش کر دیتے ہیں۔ طنز و مزاح کے آسمان پر چمکتے ہوئے اس تارے کو دنیا انجم مانپوری کے نام سے جانتی ہے۔

انجم مانپوری کا پورا نام کیا تھا

ان کا پورا نام نورمحمد انجم مانپوری ہے۔ انشائیہ نگاری کے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں میں ایک اہم نام نور محمد انجم مانپوری کا بھی ہے ان کی پیدائش بہار کے گیا ضلع کے ایک گاؤں مان پور میں 1881 میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہی لی اس وقت ان کے استاد عبدالغفار صاحب تھے جن سے انہوں نے اردو فارسی اور عربی کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا احمد حسن امروہوی اور مولانا محمودالحسن سہوانی کی نگاہ داشت میں شاہی مدرسہ مراد آباد میں بھی تعلیم حاصل کی تعلیم کے اگلے مراحل کو پورا کرنے کی غرض سے انجم مانپوری نے ندوۃ العلماء لکھنؤ کا رخ کیا۔

انجم مانپوری کے تعلیمی سفر

انجم مانپوری کے تعلیمی سفر میں ندوۃ العلماء لکھنؤ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ندوۃ العلماء لکھنؤ میں دوران تعلیم سید سلیمان ندوی انجم مانپوری کے ہم سبق تھے۔ اسی زمانہ میں ان کی ملاقات خواجہ عبدالرؤف عشرت لکھنوی سے بھی ہوئی اور ان سے بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم پوری کرنے کے بعد انجم صاحب گیا واپس آ گئے۔ اس وقت ان کے گھر والے مان پور چھوڑ کر پھلگو ندی کے کنارے موریا گھاٹ پر رہنے لگے تھے۔ ان کے بڑے بھائی نے ننھے میاں کی حویلی کو خرید لیا اور وہ بھی ساتھ رہنے لگے۔

انجمن مانپوری کی شادی کب ہوئی

1905 میں انجمن مانپوری کی شادی ہوئی دو لڑکے اور تین لڑکیاں ہوئیں جن میں دو لڑکے بچپن ہی میں انتقال کر گئے تعلیم مکمل کرنے اور شادی ہونے کے بعد انہیں روزگار کی تلاش میں ہاتھ پیر مارنی پڑی۔ ان کے والد تجارت کرتے تھے اور اپنے زمانے کے نامی تاجروں میں شمار کیے جاتے تھے لہذا انہوں نے بھی تجارت کو ہی اپنا ذریعہ معاش بنانے کی سوچیں لیکن تجارت میں ان کا دل نہ لگا اور وہ کلکتہ کے سفر پر نکل پڑے کلکتہ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد واپس گھر آکر بھائیوں کے تجارتی کاموں میں مدد کرنی شروع کر دی اور ساتھ میں شاعری اور نثر نگاری بھی جاری رہی ان سب کے باوجود ان کے اندر کے فنکار انہیں دن رات بے قرار کئے ہوئے تھا سب کچھ اچھا چل رہا تھا لیکن ان کی منزل کہیں اور تھی منزل کی پکار نے انہیں چین سے رہنے نہ دیا اور 1918 میں گیا کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے اسی زمانہ میں لاہور سے نکلنے والا مشہور اخبار ’’ زمیندار‘‘ کے مالک ظفر علی خاں نے انجم مان پوری کو اپنے اخبار کا نائب مدیر مقرر کیا۔ اس ادبی دنیا میں انجم مانپوری کو بہت راحت محسوس ہوئی۔ اخبار کے مالک ظفر علی خاں بھی ادبی دنیا میں اپنا نام رکھتے تھے اور طنز و مزاح کے میدان کے اچھے کھلاڑی تھے لہذا ان کی قربت نے بھی انجم مانپوری کی انشائیہ نگاری میں نکھار پیدا کیا۔

انجم مانپوری نے گیا سے 1920 میں ایک مذہبی رسالہ نکالا جس کا نام ’’رہنما‘‘ رکھا۔ انجم مانپوری صاحب کا خاندانی ذریعہ معاش تجارت تھا۔ اس کی وجہ سے ان کی شہرت دور دور تک تھی اس شہرت کی وجہ سے ہی ایک ٹھیکہ کمپنی ’’ انجم اینڈ کمپنی ‘‘ اور ’’ انجم ہارڈ ویئر شوپ‘‘ شروع کی مگر انجم صاحب کو ابتدا سے ہی ان کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن اس تجارت کی وجہ سے ان کے پاس اچھی خاصی زمین جائیداد ہو گئی تھی جس کی وجہ سے انہیں بہت دنوں تک بے کار کی مقدمہ بازی میں پریشان ہونا پڑا۔

انجم مانپوری کی ملنسار طبعیت

انجم مانپوری ہر کسی سے مل جل کر رہنے والے تھے ان کی اسی ملنسار طبعیت کی وجہ سے وہ کئی دفعہ میونسپل کمشنر کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ چند دنوں تک گیا ضلع بورڈ کے ممبر بھی رہے۔

انجم مانپوری بچپن ہی سے غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہیں قدرت نے شگفتہ مزاجی اور حاضر جوابی بخشی تھی۔ اپنی خصوصیات کی وجہ سے ان کی شخصیت بے حد ممتاز تھی۔ ان خصوصیات کی وجہ سے محفلوں میں انہیں بڑے احترام کے ساتھ بلایا جاتا تھا۔ جہاں یہ اپنے طنز و مزاح سے محفل لوٹ لیتے تھے۔ ان کے بنگلے پر اکثر ہی ادبی سرگرمیاں ہوتی رہتی تھیں۔ ان سرگرمیوں میں امداد امام اثر، علامہ فضل حق آزاد، عشرت گیاوی، عرشی گیاوی، اور شفق عماد پوری جیسے لوگ شریک ہوتے تھے۔

1931 میں انجم مانپوری نے گیا سے ادبی رسالہ ’’ندیم‘‘ جاری کیا۔ 1938 تک انجم صاحب خود اس کی ادارت کو انجام دیتے رہے ان شہرت و مقبولیت اور ادبی زندگی میں کامیابیوں کے ضمن میں رسالہ ’’ ندیم‘‘ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ 1938 کے بعد ’’ندیم‘‘ کی ادارت ریاست علی ندوی، حسن امام وارثی اور محی الدین ندوی نے کیے۔

انجم مانپوری کے دور میں یہ رسالہ کافی مقبولیت حاصل کر چکا تھا اس نے ادبی دنیا میں کئی کارہائے نمایاں انجام دیے۔ 1932 سے1935 کہ درمیان میں انجم مانپوری نے رسالہ ’’ندیم‘‘ کا بہار نمبر نکالا۔ جس میں بہار کی تاریخی، علمی، تہذیبی اور ادبی عظمتوں کے ساتھ نئے ادیبوں شعرا کو بھی شامل کیا تاکہ نئی نسلوں کو بھی ادبی دنیا میں پہچان مل سکے۔ ان دونوں نمبروں کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس کی بدولت ادبی حلقوں میں دبستان بہار کے گذشتہ اور موجودہ ادب کے معیار قائم ہو سکے۔ ’’ ادبی نقوش‘‘ کے انجم مانپوری نمبر مرتب سید احمد قادری صفحہ 81 پر جناب قیوم خضر صاحب فرماتے ہیں :
’’ان دو نمبروں کے اجراء کے بعد اردو دنیا نہ صرف بہار کی گزشتہ اور موجودہ ادبی کارگزاریوں سے متعارف ہوئی بلکہ بہار اسکول کی علمی و ادبی عظمتوں کا اقرار اور اعتراف کرنے پر مجبور ہوئی‘‘۔

انجم مانپوری کے طنزیہ مزاحیہ مضامین

انجم مانپوری نے اپنے زیادہ تر طنزیہ مزاحیہ مضامین ’’ندیم‘‘ میں ہی شائع کئے اور 1931 میں جب ’’ میر کلو کی گواہی‘‘ شائع ہوا تو لوگوں نے انجم صاحب کی ظرافت نگاری کا لوہا مان لیا ادبی دنیا میں ہر طرف ان کی ظرافت نگاری کے چرچے شروع ہو گئے۔ ’’ میر کلو کی گواہی‘‘ میں انہوں نے ایسی فنکاری دکھائی کہ کوئی بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس مضمون کے ذریعے انہوں نے طنز و مزاح کی دنیا میں دھاک جما لی۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں ایسا فنکارانہ انداز اختیار کیا اور اپنے فن سے ایسی منظر کشی کی کہ مضمون پڑھتے وقت سارے کردار قاری کی آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے اور بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خاص اسلوب کے ذریعے اپنے فن میں ڈرامائی شان پیدا کر دی ہے۔ ان کی تحریروں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا فلم دیکھ رہے ہوں۔

انجم مانپوری کی ظرافت نگاری

یہ انجم مانپوری کی ظرافت نگاری کا کمال ہے کہ انہوں نے مکالمہ کے ذریعے غائب کو حاضر بنا دیا ہے انہوں نے اپنے کمال سے ظرافت نگاری کے فن کو انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے سماج میں پھیلی بے اعتدالی، بے راہ روی، ناہمواری اور غلط پالیسیوں کو جب کبھی اپنے طنز و مزاح کا نشانہ بنایا اور اپنے قلم سے اس کی تصویر بنائی تو ہر کسی نے اس تصویر میں اپنی صورت دیکھی، ہر کسی نے محسوس کیا کہ اس تحریر میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ کسی نہ کسی طرح سے ان کی زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی ظرافت نگاری کی خوبی انہیں ہردل عزیز بنا دیتی ہے انجم مانپوری کی شاہکار تخلیق ’’میر کلو کی گواہی‘‘ سے اقتباس دیکھیے :

میر کلو کی گواہی

وکیل : میر صاحب یہ تو بتلائیے کہ احسان علی خاں مرحوم مرے کس بیماری سے؟
میر صاحب : ( رونی صورت بنا کر) ہائے رونا تو اسی کا ہے کہ ان کے علاج میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا گیا حکیم، وید، ڈاکٹر، سب کا علاج کیا گیا مگر کسی کو اصل مرض کا پتہ نہیں لگا کوئی کچھ کہتا تھا کوئی کچھ ’’ چوں قضا آئد طبیب ابلہ شود‘‘

کرائے کی ٹمٹم : انجم مانپوری

اپنے ایک دوسرے انشائیہ جس کا عنوان ہے ’’ کرائے کی ٹمٹم‘‘ اس میں انجم مانپوری نے منظر کو اس طرح پیش کیا ہے کہ ٹمٹم والے کس طرح مسافروں کو پکڑتے ہیں اور ان میں کس طرح سے مسافروں کو اپنی ٹمٹم پر بٹھانے کی جدوجہد ہوتی ہے۔ اقتباس حاضر ہے :
’’ مجھ پر نظر پڑتے ہی سب یکہ بان بیک وقت پروانہ وار ٹوٹ پڑے اس طرف آئے سرکار! یہ ٹمٹم حاضر ہے ادھر تشریف لائیے! حضور آپ کے لیے یہ ٹمٹم موجود ہے پنچھم دروازہ چلیے گاجناب! چوک جائیےگا جناب؟ اس پر آئیے اسٹیشن چلیے گا میاں صاحب؟ فورا پہنچاتے ہیں غرض جس کو دیکھیے مجھے حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہے کوئی اسباب اپنی ٹمٹم پر رکھوانے کی کوشش کر رہا ہے کوئی میرا بازو تھامے اپنی طرف کھینچے لیے جا رہا ہے۔ اپنی یہ عزت افزائی اور قدردانی دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا واقعی آدمی کی قدر اپنے شہر سے باہر ہی ہوتی ہے۔یکہ بانوں کے اس اظہارے عقیدت سے میں اس قدر متاثر ہوا کہ کسی کی دل شکنی کی میری ہمت نہ پڑی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا اسباب دوسری ٹمٹم پر اور میں بذاتِ خود دوسری ٹمٹمم پر‘‘

اس اقتباس میں انجم مانپوری نے ایسا لب و لہجہ استعمال کیا ہے جو اپنی مثال آپ ہے ہر جملہ اپنی جگہ چست اور روانی ایسی کہ بے دھڑک پڑھتے جائیے اور مسکراتے جائے لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ انجم مانپوری نے یہ واقعہ صرف ہنسی مذاق کے لیے نہیں پیش کیا ہے بلکہ ان کا مقصد کچھ اور ہے اور وہ اس مقصد میں پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔

انجم مانپوری کی انشائیہ نگاری کی خصوصیات

انجم مانپوری نے اپنی ظرافت نگاری میں جو بھی واقعات پیش کیے ہیں، وہ پوری طرح فرضی نہیں ہیں بلکہ یہ سارے واقعات انہوں نے اپنی ذاتی مشاہدات اور تجربات سے اخذ کیے ہیں۔ دراصل انہوں نے اپنی ذاتی مشاہدات اور تجربات سے اخذ کیے ہوئے واقعات کو اپنے خاص ظرافت کے رنگ میں ڈبو کر پیش کیا ہے جس سے اس میں ایک خاص قسم کی دلکشی اور رعنائی پیدا ہوگئی جس سے قاری محظوظ ہوتا ہے۔ اگر ان کا شاہکار انشائیہ ’’کرائے کی ٹم ٹم‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تھوڑی بھی ملاوٹ نہیں ہے جو کچھ ہے اصل واقعہ ہے۔

 مانپوری کی انشائیہ نگاری

انجم مانپوری کی انشائیہ نگاری میں جن چیزوں سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے وہ ہیں، بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور شگفتہ بیانی۔ انجم صاحب کی ان خوبیوں نے ان کے فن میں چمک اور نکھار پیدا کیے۔ آئیے انشائیہ ’’ میری عید‘‘ کا ایک منظر دیکھتے ہیں :

انشائیہ ’’ میری عید‘‘

’’ دعا سے فرصت پاتے ہی بے تکلف دوستوں کے علاوہ بہت سے جانے پہچانے آدمیوں نے پاس آکر بتانا شروع کیا کہ اتنے چھوٹے سے بچے کو لا کر تم نے کیا حماقت کی۔ میں نے کہا خود بچہ ہی جب حماقت کا نتیجہ ہو تو ایک حماقت کے گزرنے کے بعد اب جتنی حماقتیں نہ سرزد ہوں کم ہیں‘‘

اس واقعہ کے ذریعے انجم مانپوری کچھ لوگوں کی حماقتوں پر طنز و مزاح کے نشتر چلائے ہیں کچھ لوگوں کو اپنی اولاد سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ وہ ایک پل بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑتے لیکن یہ محبت دوسروں کے لئے دقّت اور پریشانیوں کی وجہ بھی بن جاتی ہے ایک صاحب اپنے چھوٹے سے بچے کو ساتھ لیے عید گاہ میں داخل ہوتے ہیں اور نماز کے وقت بچہ زور زور سے رونے لگتا ہے ایک آدمی کی حماقت کی وجہ سے عید گاہ میں موجود تمام لوگ پریشان ہو جاتے ہیں لوگوں کی اس حماقت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے انجم صاحب نے اس واقعہ کو پیش کیا ہے لیکن یہاں بھی ان کا فنکارانہ انداز تحریر جھلکتا ہے اور مقصد پوشیدہ رہتا ہے یہ انشائیہ کی خوبی ہے کہ مقصد سیدھے طور پر سامنے نہ آئے بلکہ وہ فن کے لباس میں پوشیدہ رہے۔

اردو ادب کے مزاحیہ کرداروں میں رتن ناتھ سرشار کا میاں خوجی، منشی سجاد حسین کا حاجی بغلول، اور امتیاز علی تاج کا چچا چھکن خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن ان سب سے کہیں آگے انجم مانپوری کا شاہکار انشائیہ ’’میر کلو کی گواہی‘‘ کا مرکزی کردار ’’ میر کلو‘‘ ہے۔

میر کلو کی گواہی کی خصوصیات

میر کلو کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرنے میں دیگر مزاحیہ کرداروں سے بہت آگے ہے میر کلو کے کردار کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر افصح ظفر، کلام انجم مانپوری، مرتب معین شاہد صفحہ نمبر ۱۸ پر یوں قمطراز ہیں:
’’ اردو میں یوں تو طنزیہ اور مزاحیہ کردار کئی ایک ایسے ہیں جنہوں نے خوب نام کمایا۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کردار اکثر و بیشتر مانگے کا اجالا ہیں جیسے سرشار کا خوجی اور آزاد، منشی سجاد حسین کا حاجی بغلول، ایم اسلم کا مرزا جی، امتیاز علی تاج کا چچا چھکن، شوکت تھانوی کا قاضی جی اور عظیم بیگ چغتائی کا مزا جنگی۔ یہ سارے کردار ناپ تول کر تراشے گئے ہیں۔ ان کرداروں کی نشونما میں ان کے خالق نے گرچہ پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کرداروں کو دیکھ اور سمجھ کر یہ کھٹک ضرور ہوتی ہے کہ یہ کردار کسی نہ کسی طرح ماضی کے یوروپی ادب کے مختلف کرداروں سے متاثر ہو کر تخلیق کیے گئے ہیں۔

اردو کے مزاحیہ ادب میں صرف انجم مانپوری کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ ان کے پاس ’میر کلو‘ کی شکل میں ایک ایسا کردار ہے جس کی تخلیق سرتاسر ہندوستان کی آب و ہوا میں ہوتی ہے۔‘‘

انشائیہ نگار معاشرے میں رائج بےاعتدالیوں، نا ہمباریوں اور کجرویوں سے اثر قبول کرتا ہے۔ یہ ناہمباریاں، بے اعتدالیاں اور کجرویاں سیاسی، مذہبی، تہذیبی، معاشرتی یا ازدواجی کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ ایک انشائیہ نگار ان تمام گندگیوں کو اپنے طنز و مزاح کے جاروب سے صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس انشائیہ نگاری کو کچھ لوگ محض ہنسی مذاق سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں اس کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے جناب فرمان فتح پوری صاحب یوں رقمطراز ہیں:
’’ سماجی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو طنز و مزاح کا ہدف بنانا ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہدف بنانے والے کی نظر میں یہ چیزیں ناپسندیدہ ہیں ان سے اسے تکلیف پہنچتی ہے وہ انہیں دیکھ دیکھ کر کڑھتا ہے اور ان سے نفرت کرتا ہے اور جو لوگ ناہمباریوں اور ناانصافیوں کا شکار ہیں ان سے ہمدردی رکھتا ہے ان کے دکھ کا مداوا کرنا چاہتا ہے لیکن جب عملا ایسا نہیں کر پاتا تو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کبھی ان چیزوں کا مذاق اڑاتا ہے کبھی ہجو ملیح کا نشانہ بناتا ہے اور کبھی طنز و مزاح کے نشتر توڑتا ہے کہ اس کی نگاہ میں سماجی ناہمواریوں سے نبٹنے کی یہ بھی ایک کارگر سورت ہے اس صورت گیری کی بنیاد اگر غم و غصہ یا حقارت اور نفرت پر ہوتی تو وہ ریختی ہجو نگاری و فحش کا روپ دھار لیتی ہے اور اگر اس کی بنیاد ہمدردی و غمخواری اور چارہ گری وہ دمسازی پر ہوئی تو وہ انشائیہ اور معیاری ادب کا جز بن کر معاشرے کے حق میں مستقل وسیلہ اصلاح و تعمیر بن جاتی ہے‘‘۔

انجم مانپوری نے اپنی ظرافت نگاری سے اردو ادب میں بہار کا نام بلند کیا ہے۔ ظرافت ان کے روح میں رچی بسی تھی۔ ظرافت کے حقیقی لوازمات سب سے زیادہ انجم مانپوری کے ہی ملتے ہیں۔ شگفتہ مزاجی اور حاضر جوابی میں ان کا جواب نہیں یہ اپنے فن کی مثال آپ ہیں ان کا تخیل تخلیقی صلاحیتوں سے لبریز تھا۔ ان کے طنز و مزاح میں ایک خاص طرح کی نرمی ہمدردی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں کہنا انجم مانپوری صاحب کی خاص پہچان ہے۔ ان کے فن میں گہرائی بھی ہے اور وسعت بھی۔ انہوں نے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں داخل غلط کاریوں کو اپنے فن کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ لہذا جب تک ہماری زندگیوں سے یہ غلط کاریاں، بے اعتدالیاں،اور ناہمواریاں دور نہیں ہو جاتی تب تک انجم مانپوری زندگی، سماج اور ادب کے لیے لئے اہم ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے