Ticker

6/recent/ticker-posts

انشائیہ چار پائی کے حوالے سے رشید احمد صدیقی کی انشائیہ نگاری کا جائزہ

انشائیہ چار پائی کے حوالے سے رشید احمد صدیقی کی انشائیہ نگاری کا جائزہ


انشائیہ نگاری : اردو نثر میں طنز و مزاح کی روایت مکاتیب غالب سے شروع ہوتی ہے۔ مگر جن ادیبوں نے اس صنف کو شائستہ، محترم اور مقبول بنایا ان میں پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی کے نام سرفہرست ہیں۔ رشید احمد نے طنز کو اتنا شگفتہ، عالمانہ اور بلند کر دکھایا کہ ان کا کوئی ثانی نہیں۔

رشید احمد صدیقی 24 دسمبر 1892 کو اتر پردیش کے علاقے جونپور قصبہ مڑیاہو میں پیدا ہوۓ۔ انہوں نے فارسی و عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں جونپور کے ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ پھر اعلی تعلیم کے لئے 1915 میں علی گڑھ چلے آئے۔ جہاں سے فارسی میں ایم اے کیا۔ 1921 میں اردو کے لیکچرار مقرر ہوئے اور 1943 میں صدر شعبہ اردو کے لیکچرار ہو گئے۔ رشید احمد صدیقی کی زندگی کا زیادہ تر وقت علی گڑھ میں گزرا۔ جس کی وجہ سے ان کی تحریروں میں علی گڑھ کا عکس صاف نظر آتا ہے۔

انشائیہ چار پائی

انشائیہ چار پائی، ہم نفسان رفته، گنج ہائے گراں مایہ، خنداں، مضامیں رشید، نقش ہاۓ رنگ رنگ، طنزیات و مضحکات وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔

" چار پائی" ان کا ایک مشہور انشائیہ ہے۔ اس میں انہوں نے مقامی اور ملک کے دیگر مسائل کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ بظاہر چار پائی پر کسی کی توجہ نہیں جاتی ہے لیکن رشید احمد صدیقی نے اپنے زور قلم سے اس کی ضرورت اور افادیت کو اتنے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے کہ چار پائی کی اہمیت مسلم ہو جاتی ہے۔ لکھتے ہیں۔

" چار پائی اور مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔۔۔ ہم کو چار پائی پر اتنا ہی اعتماد ہے جتنا برطانیہ کو آئی سی ایس پر، شاعر کو قافیہ پر یا طالب علم کو غل غپاڑے پر۔۔۔۔ چار پائی ہماری کھٹی میں پڑی ہوئی ہے، ہم اسی پر دوا کھاتے ہیں، دعا اور بھیک مانگتے ہیں۔۔۔۔۔ چار پائی ہندوستانیوں کی آخری جائے پناہ۔ فتح ہو کہ شکست، وہ رخ کرے گا ہمیشہ چار پائی کی طرف۔ "

کہنے کی ضرورت نہیں رشید احمد صدیقی نے لفظی بازیگری سے ہماری ناہمواریوں پر مزاح کے پیرائے میں کتنا گہرا طنز کیا ہے۔ یہاں ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح چار پائی ہماری روزمرہ زندگی کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح بعض مسائل یابعض بے جا عادات و اطوار ایسے ہیں جو ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ استعاروں، علامتوں اور مبہم اشاروں سے وہ اپنی تحریر کو اور خوبصورت بنا دیتے ہیں۔

چارپائی میں انہوں نے شعر وادب، سیاست، تاریخ اور دیگر علوم و فنون کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اتنے موضوعات کا احاطہ کر کے ایک مضمون میں پیش کرنا ایک غیر معمولی وصف ہے۔ اور یہ سارا کمال ان کے سلیقہ بیان میں ہے۔ 

رشید احمد صدیقی کے یہاں جو خاص بات ہے وہ ان کا علمی اسلوب بیان ہے۔ ان میں مقامیت ہے۔ پھر قول محال کے استعمال نے ان کے طنز و مزاح میں ایک آفاقیت پیدا کر دی ہے۔ رشید احمد صدیقی کے طنز میں تلخی کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے فقروں میں بڑی بڑی باتیں کہہ دینے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کے فن میں عامیانہ پن نہیں بلکہ گہرائی اور گیرائی کا بول بالا ہے۔ لہذا خیال کی بلندی اور الفاظ کی ترتیب کی وجہ سے ان کی عبارت عام فہم نہیں ہوتی، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ عربی و فارسی کے مشکل الفاظ سے نقش و نگار حاصل کر کے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انشائیہ چار پائی کے حوالے سے رشید احمد صدیقی کی انشائیہ نگاری کا جائزہ

رشید احمد صدیقی کا فن طنز و مزاح اور انشائیہ چار پائی


رشید احمد صدیقی کا فن طنز و مزاح کا حقیقی فن ہے جس میں کھلکھلا کر ہننے اور قہقہے برسانے کی بجاۓ تبسم زیر لبی اور خندہ گل کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے چار پائی اردو کی عظیم نثری تخلیق ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے