Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ جنم دن ملیالم کہانی کا خگاصہ اور سوالات و جوابات

افسانہ جنم دن ملیالم کہانی کا خگاصہ اور سوالات و جوابات


آج کی تحریر میں ہم جنم دن ملیالم کہانی کا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ افسانہ این سی ای آر ٹی کی بارہویں جماعت NCERT Class 12 Urdu میں شامل ہے اس لیے اس کا مطالعہ کرنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ جنم دن ملیالم کہانی سے این سی ای ار ٹی کے امتحان میں اکثر سوالات پوچھے جاتے ہیں اس لیے اس تحریر میں ہم جنم دن ملیالم کہانی کے سوالات و جوابات بھی پیش کریں گے۔

جنم دن ملیالم کہانی کے مصنف کا نام ویکوم محمد بشیر ہے۔ اس کہانی کے مترجم کا نام ضیاء الرحمٰن صدیقی ہے۔ یہ ایک ملیالم کہانی ہے جسے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

افسانہ جنم دن کا خلاصہ

افسانہ جنم دن کی کہانی میں ایک ہی مرکزی کردار ہے، جس کے ارد گرد یہ کہانی گھومتی رہتی ہے۔ اس کہانی کا ہیرو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ افسانہ خود کلامی کی شکل میں تحریر گیا ہے۔ اس کا کردار ایک مصنف ہے جو ایک کرائے کے انتہائی چھوٹے کمرے میں رہ رہا ہے، اور اس کا مالک مکان اس کو سخت نا پسند کرتا ہے کیوں کہ وہ ہمیشہ کرایہ ادا کرنے میں دیر کرتا ہے۔


مصنف اپنے جنم دن والے دن صبح ہی صبح تیار ہو کر اس امید میں بیٹھ جاتا ہے کہ آج کا دن اس کا اچھا گزرے گا۔ وہ مفلسی کے مرحلے سے گزر رہا ہے لیکن اپنے جنم دن والے دن وہ کسی سے قرض لے کر اپنا آنے والا تمام سال برباد نہیں کر نا چاہتا ہے۔ دن بھر اسے چائے کی شدید طلب رہتی ہے لیکن اس کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں تھے کہ وہ اپنی ضرورت کو پورا کر سکے۔

جب ایک دوست کی طرف سے اسے دوپہر کے کھانے کی دعوت ملتی ہے، تب وہ خوشی خوشی وہاں پہنچتا ہے تو وہاں پر دوست کو نہ پا کر اسے شدید افسوس ہوتا ہے اور اپنی بھوک کے ساتھ اپنے گرتے پڑتے وجود کو لے کر وہ اپنے کرائے کے کمرے تک واپس پہنچتا ہے۔ تمام دن گزر جانے کے بعد بھی وہ بھوک سے نڈھال ہوتا ہے۔ سی آئی ڈی کی بھی اس پر کڑی نظر ہے کیونکہ یہ وہ دور ہے جب ہر جانب انقلاب کی گونج کی اور اس وقت میں تمام مصنفین پر کڑی نظر ہے کہ ان کے قلم سے کوئی ایسی تحریر نہ نکلے جو انقلاب کا باعث بنے یا حکومت کی کرسی کو ہلانے کا سبب بنے۔ ایسی ہی ایک کارروائی سے فارغ ہونے کے بعد جب یہ مصنف اپنے گھر پر آتا ہے تو اس کی خیر ہوتی حالت کو دیکھ کر ایک ملازم لڑکا اس کو دو آنے ادھار دیتا ہے۔ جس میں سے ایک آنے میں چائے، دوسا اور بیڑی لینے کے بعد باقی کا ایک آنہ یہ مصنف انقلاب کے لئے بھوک ہڑتال کرنے والے غریب لوگوں تک رسائی کے لئے دوست کو دے دیتا ہے۔


رات کو پڑوسی میتھیو کے کچن سے آنے والے کھانے کی مہک مصنف کی بھوک کی شدت کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ جنم دن کے روز وہ کسی سے مانگنا نہیں چاہتا تو مجبوراً وہ اس کے باورچی خانے سے کھانا چرا کر کھا لیتا ہے۔ چوری کا کھانا کھانے کے بعد وہ اس خوف میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی چوری پکڑے جانے پر وہ سب کی نظروں میں گر جائے گا لیکن اس کی چوری کا کسی کو پتا نہیں چلتا اور اس کا بھرم رہ جاتا ہے۔

افسانہ جنم دن ملیالم کہانی کے سوالات و جوابات


سوال نمبر ١

اس افسانے کا عنوان ”جنم دن“ کیوں رکھا گیا ہے؟ وضاحت کیجئے؟

جواب : افسانے کا عنوان جنم دن اس کہانی میں موجود کردار کی مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ وہ دن اس کا جنم دن ہوتا ہے اور اس کی غربت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اس کے پاس کھانے یا چائے پینے تک کے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ اور وہ یہ سوچ کر کسی سے قرض نہیں لینا چاہتا کہ آج اس کا جنم دن ہے تو اگر وہ آج ایسے عمل سے باز رہے تو آنے والے وقت میں یہ اس کے لیے اچھا ہو گا لیکن اس کے جنم دن کے روز ہی اس کی بے بسی اس کو چوری کی نوبت تک لے جاتی ہے۔

سوال نمبر ٢

افسانہ نگار کے جنم دن کے واقعات میں کس واقعے نے آپ کو بے حد متاثر کیا اور کیوں؟

جواب : افسانہ نگار کے جس واقعے نے مجھے متاثر کیا وہ یہ کہ جب وہ اخبار ایڈیٹر مسٹر پی کی دوکان پر جاتا ہے اور جس انداز میں چائے کی شدید طلب پر بھی وہ مسٹر پی کی چائے کی پیشکش کو ٹھکراتا ہے۔ وہ انداز قابل تحسین ہے۔ مجھے اس واقعے نے اس لیے متاثر کیا کہ اس میں اس مصنف کی ازلی خوداری کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے اور وہ اپنی کمزوری کو اپنی خوداری پر غالب نہیں آنے دیتا۔

سوال نمبر ٤

افسانے کے مرکزی کردار کی معاشی تنگدستی کا حال اپنے لفظوں میں لکھیے؟

جواب : افسانے کے مرکزی کردار کی معاشی تنگدستی کا یہ حال ہے کہ وہ ایک کرائے کے سٹور میں رہ رہا ہے جہاں اس کے بستر اور آرام دہ کرسی،میز کے بعد محض سانس لینے کی جگہ بچتی ہے۔ اس کا یہ کمرہ کسی بھی قسم کی روشنی سے عاری ہے کیوں کہ اس کے پاس کھانے کو پیسے موجود نہیں تو چراغ کا تیل کہاں سے لے۔بھوک کا یہ عالم ہے کہ وہ چائے کا ایک کپ بھی خرید کے پینے سے قاصر ہے۔ بھوک کی شدت سے اس کی حالت نڈھال ہوتی ہے اور اسے چوری کر کے یا قرض لے کر پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے