ہماری شادی، ہمارا آئینہ
اللہ نے بےشک مرد اور عورت کو رشتہ ازدواج میں باندھا۔ انسانی نسل چل پڑی۔ یہی رشتہ سب سے پہلے وجود میں آیا۔افزائش نسل کے لئے نکاح کو آسان بنایا گیا۔لیکن آج کی امت سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ کچھ حد تک نکاح تو ہم نے آج بھی آسان رکھا ہےلیکن شادی کی محفل کو اتنا مشکل کر دیا کہ جو کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔نکاح مسنونہ ہی تو ہے جو شاید اللہ قبول کر لے ورنہ بچا کیا شادی میں سوائے نفس پروری کے۔ النکاح من سنتی کے کلمات کے ذریعہ اللہ نے تو امت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسل کو بچا لیا۔باقی کا حساب تو وہ انشاءاللہ زبردست طریقے سے لے گا۔ لڑکی ہے تو Fix deposit لڑکا ہے تو سارا خرچ لڑکی کے باپ سے لینا ہی ہے۔ کسی نہ کسی شکل میں غیر اسلامی دہیج کی موٹی رقم وصولنے کا رواج بھی جاری رکھنا ہے،الا ماشاءاللہ۔ گھر میں شادی کے قبل کی ہندوستانی رسمیں، معاذ اللہ۔مرد حضرات تو گھروں کے اندر کی خرافات کو روکنے میں ناکام ہو ہی چکے ہیں۔عورتوں، بچوں اور رشتہ داروں کی پسند نے تو مردوں کا بیڑا ہی غرق کر دیا ہے۔
گھر سے باہر نکل کر شادی ہی ایک ایسی تقریب ہے جس میں ہماری امت کی پوری قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ان دنوں شادی کی تقریب ایک ایسی جگہ ہو گئی ہے جہاں عورتیں بے حجاب نظر آتی ہے، جہاں مرد و خواتین بڑی بے شرمی کے ساتھ ایک دوسرے کی آنکھوں کا نشانہ بنتی ہیں، جہاں جوان لڑکے لڑکیوں کو بھی طرح طرح کے فیشن ڈریس کو دکھانے کا موقع ملتا ہے،جہاں فوٹو اور ویڈیو کی بوچھار ہوتی رہتی ہے، جہاں دلہن کی سجاوٹ Beauty parlour میں کراکر نمائش کے لئے لایا جاتا ہے، جہاں گھر کی عورتوں کو بھی سج سنور کر آنے کا خوبصورت موقع ملتا ہے۔اب تو شادی کا ویڈیو بنا کر Social site پر ڈالنے میں بھی کسی کی پیشانی پر شکن تک نہیں پڑتا ہے۔اب تو شادی کی تقریب کا اندرونی منظر ٹیلیویژن کے ذریعہ مردوں کی محفل تک پہنچایا جاتا ہے۔اب تو اولاد اپنے والدین کی Marriage Anniversary منا کر اپنی جنت کما رہے ہیں۔ Social media پر لوگ اب اپنی بیویوں کی نمائش کرنا اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔واہ رے گھروں کے وہ نام نہاد مذہبی اور دین دار مرد حضرات جن کو اللہ نے قوام بنا کر بھیجا ہے۔وہ بھی خوب مزے لے رہے ہیں۔
شادی کے کارڈ پر بھی ایک نظر۔اسے دعوت نامہ نہ کہہ کر نمائش نامہ کہا جائے تو بہتر ہے۔ بے جا خرچ تو ایک طرف، اتنا بھی شعور نہیں کہ کارڈ پر درج عربی کلمات کی حفاظت کب تک ہو سکے گی اور کون کرے گا۔ کارڈ کے ذریعہ ہی لوگوں پر اپنا روب ودبدبہ شروع۔کارڈ گویا ہونے والی شادی کی خرافات پہلے ہی بتا دیتا ہے۔شادی کارڈ اب سوشل اسٹیٹس کی پہچان بن گیا ہے۔
چلئے مسجد میں نکاح کا منظر دیکھیں۔مسجد میں نکاح کرنے کا تو چلن ہو گیا ہے۔دل مطمئن دکھائی دیتا ہے کہ چلو کم از کم مسجد میں نکاح کرکے اللہ اور اس کے رسول کو تو خوش کردیا۔ غیروں کی نقل میں برات بھی لائیں گے اور مسجد میں نکاح بھی کریں گے۔مسجد سے سیدھے میرج ہال یا شاندار ہوٹل۔ سوچا اللہ بھی خوش اور نفس بھی خوش۔ایک مسجد میں نکاح کی تقریب میں شرکت کیا تو پتہ چلا کہ برات بھی آئی، مسجد میں نکاح بھی ہوا، مسجد میں ہی سہرا بھی پڑھا گیا اور انعام کے طور پر رقم بھی وصول کیا گیا۔ داد و تحسین بھی ملی.. مسجد میں موبائل سے تصویر اور ویڈیو بنانا تو اب مقبول ہو چکا ہے۔ بس ایسے موقع پر مسجد میں تالیوں کی گڑگڑاہٹ کا انتظار ہے۔ لگتا ہے کہ اللہ نے امت مسلمہ کے سوچنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے۔ایک نکاح کے خطبہ میں سنا کہ رسول اللہ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ممکن حد تک سترہ پیوند والی چادر اوڑھائ تھی۔ لیکن خطیب نے یہ نہیں بتایا کہ اب امت کیا کرے۔کم از کم کتنے پیوند والا کپڑا اپنی بیٹیوں کو دے۔شاید انہوں نے اس لئے نہیں بتایا کہ انہیں معلوم ہے کہ اب والدین نے اپنی بیٹیوں کو سترہ رنگوں کا سترہ قیمتی جوڑا دینا شروع کر دیا ہے۔نکاح کے بعد لوگوں نے بتایا کہ امام صاحب کا مکان دیکھئے گا تو دنگ رہ جائیے گا۔سترہ پیوند کی چادر تو دور کی بات ہے۔لہٰذا خطیب نکاح سے گزارش ہے وہ ایسی گفتگو نہ کریں جس کاتال میل وہ حالات حاضرہ سے نہ کر سکیں اور جو ان کی خود کی زندگی میں بھی دکھائی نہ دے.
اب چلئے میرج ہال کی طرف۔ سجاوٹ ایسی کہ دلہن بھی شرما جائے۔کھانا ایسا کہ مغلیہ باورچی خانہ بھی پھیکا پڑجائے۔دس سال پہلے جب میں ایک شادی میں کھانے کے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں بیٹھا تھا۔ لوگ کھانا شروع کر چکے تھے بولے جناب آپ کیوں بیٹھے ہیں۔میں بولا، بلایا تو تھا کھانا کھلانے یہاں تو چکھتے چکھتے کھانے کا وقت ہی گزر جائے گا۔ آج تو لوگوں نے اپنے پیٹ کو Mixer اور Grinder سمجھ لیا ہے۔ کھانے کےایک ہی پلیٹ میں ٹھنڈا گرم، کھٹا میٹھا، چکن مٹن، روٹی چاول۔ کر لیا کھانا مٹھی میں.. شوگر اور ہارٹ کی بیماری تو پھر بھی کم ہے۔حد تو یہ ہے کہ اب نام نہاد بفے سسٹم کے تحت لائن لگ کر قیدیوں کی طرح کھانا لینا اور پھر کم و بیشتر کھڑے ہو ڈکار جانا امت کی فطرت خاصا بنتی جا رہی ہے۔اب بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ نکاح سے پہلےکھانا کھانے کو عقلمندی سمجھا جاتا ہے۔ایک وقت تھا جب نکاح کو ایک سماجی ذمہ داری سمجھا جاتا تھا۔بغیر نکاح ہوئے کھانا کھانے کے بارے میں سوچنا بھی غیر اخلاقی سمجھا جاتا تھا۔بے لذت برات آنے سے لے کر رخصتی تک ویڈیو گرافی کے دوران عورتیں اور لڑکیاں کیمرا کے سامنے اپنی شوٹنگ کراتی رہتی ہیں۔مغربی کلچر اور غیر مسلم کی نقل میں اب برات میں مسلمان عورتوں کا ڈانس بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ شاید وہ دن دور نہیں ہے کہ انہیں وجوہات سے سڑکوں پر زنا عام ہو جائے۔
اس طرح جانچ پڑتال کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ ہماری شادیاں دراصل ہماری پوری ذات کا سچا آئینہ ہے۔ہم امت کے افراد جب تک گھروں میں رہ کر اپنی غلط روش پر رہتے ہیں تو لوگوں سے چھپے ہوئے رہتے ہیں۔باہر آکر شادیوں کا منظر ہماری حقیقت کھول دیتی ہیں۔ ہمارے ایمان کی حرارت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ہمارے مکرو فریب پر سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔ہمارے اعمال ہمیں منھ چڑاتے ہیں۔ ہمارا نفس تندرست و توانا بن جاتا ہے۔ اب بھی وقت ہے ہم مکر کی زندگی سے باہر نکلیں۔ دولت کی نمائش سے بچیں۔اپنی نئی نسل کو بچائیں ورنہ اس دجالی دور میں شیطان جہنم تک پہنچانے کے لئے تیار کھڑا ہے۔ آخر میں سماج کے خوشحال لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ شادیات میں اپنی دولت کی نمائش کرنے سے پرہیز کریں۔ انہیں شاید اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اس کا برا اثر اوسط درجے کے لوگوں پر بہت برا پڑرہا ہے۔ یہ لوگ بھی قرض لے کر اپنی اس بے لذت خواہش کو پورا کرنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ نتیجتاً انہیں کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کچھ لوگ تو واقعی حالات سے مجبور ہو کر ایسا کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگ اپنے اندر کی خواہشات کو مجبوری کا نام دے دیتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ باشعور حضرات ایسے بھی ہیں جو شادی کی فضول خرچی سے رقم بچا کر لوگوں کو حج اور عمرہ کروا رہے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین۔ہر انسان اپنے اعمال کا مکلف ہے۔ ہمیں بھی اپنے معاملات پر نظر رکھنی چاہئے تاکہ آخرت میں رسوائی نہ ہو۔اللہ سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو شادی کی فضولیات اور خرافات سے بچنے کی توفیق دے۔ہو سکتا ہے کہ میری یہ بات لوگوں کو معمولی اور بکواس لگے لیکن جان رکھئے ہو سکتا ہے کہ انہیں چھوٹی چھوٹی غیر معمولی غلطیوں کی سزا اللہ تعالٰی بڑے بڑے نقصان کی شکل میں ہمیں دے رہا ہواور ہم خواب خرگوش میں ہوں اور جہنم کی طرف دھکیلے جا رہے ہوں۔ہو سکتا ہے کچھ پڑھے لکھے لوگ شادی کی ان تمام خرافات کو مارڈن سوچ کی چادر سے ڈھانک کر اسے وقت کا تقاضہ قرار دیں۔ ایسے لوگوں کو اپنی غلطیوں کا احساس شاید اس وقت ہوگا جب بڑھاپے میں ان کی اولاد انھیں ٹھوکر مار چکی ہو گی اور وہ بستر مرگ پر پڑے اپنے آپ کو کوس رہے ہوں گے۔مجھے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ اکثر لوگوں پر اس گفتگو کا کوئی اثر نہیں ہوگا لیکن اتنا امید ضرور ہے کہ جو بھی ایسی غلطی کر چکے ہیں یا کرنے والے ہیں ان کا نفس لوامہ ضرور ملامت کرے گااور آئندہ محتاط رہنے پر مجبور کرے گا، ان شاءاللہ....وما الینا الا البلاغ.
نوٹ :: اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لئے میری کتاب " معاش اور رشتہ ازدواج " کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے جس کا اجراء 2 اکتوبر 2018 کو ہوا تھا۔ خواہش مند حضرات اس نمبر پر رجوع کر سکتے ہیں.. سرفراز عالم، عالم گنج، پٹنہ.... رابطہ 8825189373
0 تبصرے