جنگ آزادی پر ایک طائرانہ نظر
قسط نمبر (١)
مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ،
7061674542
جو قوم اپنے ماضی سے کٹ جاتی ہے اس کا وجود بحیثیت ایک قوم کے صفہ ہستی سے مٹ جاتا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے تاریخ آزادی پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے تاکہ ماضی کی یادیں ذہن میں ثبت رہیں۔
15اگست 1947/ کے بعد ایک نئے ہندوستان نے جنم لیا جذبات کی رو تھم گئی اور اس کی جگہ سنجیدگی و متانت اور تدبر و فراست نے لے لی، ملک کی تعمیر نو کیلیے ہم نے بہت سے موقعوں پر تخریب کی حشر سامانیوں کو بھی اپنانے سے گریز نہیں کیا، کیوں کہ تخریب تعمیر کی پہلی منزل ہوتی ہے، لیکن اب جبکہ اپنے ملک اپنے وطن اپنی قوم کو بنانے کے اختیارات ہمارے ہاتھوں میں آگئے تو ہمارے سامنے تعمیر نو کے سوا اور کوئی پروگرام اور لائحہ عمل نہیں رہا لیکن ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ایک تلخ حقیقت جو تقسیم ملک کی شکل میں ہمارے سامنے آئ، اس نے بہت سے دل و دماغ میں رد عمل کا ایک ایسا جذبہ پیدا کردیا جس نے آخر میں منافرت، بدگمانی، اور تنگ نظری کو جنم دیا، چونکہ تقسیم کے اثرات انتہائی دلدوز اور روح فرسا ہونے کے ساتھ ساتھ دور رس اور دیر پا بھی ہوئے، اس لئے اس کی لپٹ میں ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ بھی آگئ، اور واقعات کو اس ڈھنگ سے پیش کیا جانے لگا کہ مسلمان جو ایک صدی سے جنگ آزادی کے میدان میں اگلی صفوں میں تھا، اس واقعات کو اسٹیج سے ہٹادیا گیا اور اس کے عظیم کارناموں پر یا تو دبیز پردہ ڈال دیا گیا یا ان کی جد وجہد کے واقعات و حقائق کو اس ڈھنگ سے پیش کیا گیا کہ ان کی اصل صورت مسخ ہوکر رہ گئ۔
ایک سرسری جائزہ۔۔۔۔۔۔
پورے انیسویں صدی میں جبکہ آزادی کا صرف ایک ہی راستہ تھا اور وہ تھا طاقت اور تشدد کا استعمال، خلفشار اور بدامنی پیدا کرنا،بغاوت کے جذبات کو ہوا دینا، اس پورے دور میں مسلمان تنہا برطانوی حکومت سے نبرد آزما رہا، انگریز اور انگریزی حکومت سے انتہا پسندانہ نفرت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے انگریزوں کے ہر ہر اقدام کی مخالفت کو اپنا مذہبی شعار بنایا، حد تو یہ ہے کہ بعض مسلم رہنماؤں نے انگریزوں کو کتے اور خنزیر کی طرح نجس اور ناپاک سمجھا، اور اگر سوئے قسمت انھیں کسی انگریز سے ہاتھ ملانا ہی پڑا تو وہ اپنے ہاتھ کو اس طرح الگ کئے رہتے جیسے کسی گندگی اور ناپاک چیز کو چھو دیا ہے، اور جب تک اسے دھو کر صاف نہ کرلیتے اس وقت تک اس سے کوی دوسرا کام نہیں کرتے۔
اس انتہا پسندانہ نفرت کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے انگریزی تعلیم کو حرام قرار دیکر پوری مسلمان قوم کو جدید تعلیم سے بے بہرہ کردیا اور آدھی صدی تک مسلمانوں پر انگریزی تعلیم کے دروازے پوری قوت سے بند رکھا اور پھر بھی جب کچھ لوگوں نے کسی طرح انگریزی تعلیم حاصل کر ہی لی تو خود انگریزی حکومت نے ان پر سرکاری نوکریوں کا دروازہ بند کرکے ان کے حوصلوں کو ایک دم پست کردیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس پورے دور میں برادران وطن کی دو نسلیں جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر حکومت کے کلیدی عہدوں پر قابض ہوچکی تھیں اور مسلمان قوم اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ان سے بچھڑ گئ۔
انگریزوں کی نگاہ میں ہندو طفل مکتب۔۔۔۔۔۔۔
بنگال سول سروس کے ایک افسر کی رپورٹ کے الفاظ ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ عزم تعلیم اور ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے مسلمان ہندوؤں سے کہیں زیادہ لائق فائق ہیں اور نسبتاً ہندو ان کے سامنے طفل مکتب معلوم ہوتے ہیں، علاوہ اس کے مسلمانوں میں انتظامی کاموں کی اہلیت زیادہ ہوتی ہے۔۔۔
امتیازی سلوک۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا امتیازی سلوک روا رکھا اس کی ایک جھلک سرولیم ہنٹر کے اس بیان سے ملتی ہے جو اس نے کلکتہ کے ایک فارسی اخبار مورخہ 14جولائ 1879ء۔۔ کے حوالے سے لکھا ہے۔۔۔۔۔۔ اس خبر کی کوی تردید نہیں کی گئی کہ سندر بن کے کمشنر نے گورنمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ جو ملازمتیں خالی ہوئ ہیں ان پر سوائے ہندوؤں کے کسی کا تقرر نہ کیا جائے مسلمان اب اس قدر گر گئے ہیں کہ اگر وہ سرکاری ملازمت پانے کی اہلیت بھی حاصل کرلیتے ہیں تب بھی انہیں سرکاری اعلانات کے ذریعہ خاص امتیاز کے ساتھ ممنوع کیا جاتا ہے، ان کی بیکسی کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتا اور اعلی حکام تو ان کے وجود کو تسلیم کرنا بھی اپنی کسر شان سمجھتے ہیں، حکام کے اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ کلکتہ میں مشکل سے کوی دفتر ایسا ہوگا جس میں بجز چپراسی یا چٹھی رساں یا دفتری کے مسلمان کو کوی نوکری مل سکے،۔۔۔۔
( مسلمانوں کے افلاس کا علاج۔ شائع کردہ آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس 1934 )
ظاہر ہے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود جس قوم نے اپنے مستقبل کو صرف اس لئے تباہ کیا کہ اسے ایک قوم کی غلامی منظور نہ تھی تحریک آزادی کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی قربانی ہے جس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا،
ہم نے تنہا ہی سفر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ آزادی کی یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ 1900ء تک جتنے مسلمان مجاہد آزادی پھانسی پر لٹکائے گئے یا کالے پانی کی کربناک زندگی گزاری یا عمر قید کی سزا بھگتی یا صفوں میں کھڑا کرکے گولی مار دی گئی یا بغاوت کے جرم میں شوٹ کیا گیا تحریک آزادی کے پورے دور میں دوسری قوم کی قربانیوں کی مجموعی تعداد بھی اس کے برابر نہیں ہوسکتی، بیسویں صدی کی ابتداء میں جب تقریر و تحریر کی وہ آزادی نہیں تھی جو بعد کے دور میں ہوئ، اس وقت سب سے پہلا احتجاجی جلسہ کلکتہ میں تقسیمِ بنگال کے خلاف ہوا اس کے سارے مقررین میں شاید کوئی بچا ہو جو پولیس کی سختیاں اور قید و بند کی صعوبتیں نہ جھیلنی پڑی پڑی ہوں۔
جنگ آزادی پر ایک طائرانہ نظر
قسط نمبر (٢)
مجیب الرحمٰن
7061674542
آزادی بذریعہ طاقت۔۔۔۔۔۔
1915 میں ریشمی رومال کی تحریک مسلمانوں کا ایک اور جرأت مندانہ اقدام تھا جو بغاوت کے فرد جرم تک جاتا ہے، مگر تحریک چلانے والے خوش قسمت تھے کہ کئ سو کی تعداد میں پولیس کی عبرتناک مظالم سہے، اور رہنماء قید و بند کی اذیتناک زندگی گزار کر چار پانچ سال بعد زندہ ہندوستان واپس آگئے۔
جلیانوالہ باغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1919 آزادی کی تاریخ میں یاد گار بن گیا کیونکہ جلیانوالہ باغ امرتسر کا واقعہ اسی سال ہوا، عوامی بیداری کا اس سے صحیح احساس پیدا ہوتا ہے آپ جلیانوالہ باغ میں شہید ہونے والوں کی فہرست پر نظر ڈالیں گے تو مسلمانوں کے ہر طبقہ کے لوگوں کو بڑی تعداد میں خون شہادت سے سرخرو پائیں گے۔
تحریک خلافت کا زمانہ۔۔۔۔۔۔۔
پھر اس کے بعد تحریک خلافت میں ترک موالات اور عدم تعاون کا جوش و خروش ابھرا تو مسلمان ہی قیادت کے فرائض انجام دیتا رہا، اور مسلسل قید و بند اور پولیس کی سختیاں برداشت کرتا رہا اس طرح 1925 تک آزادی کے میدان میں وہ قائدانہ رول ادا کرتا رہا، پھر 1927میں ہندوستان نے برطانوی حکومت کا چیلنج منظور کرکے ایک متفقہ دستور پیش کرنے کا تہیہ کیا مگر افسوس کہ متفقہ دستور کی کوشش نے ہندو مسلم اتحاد کے شیرازہ کو منتشر کردیا جبکہ تحریک خلافت نے مثالی کردار انجام دیا تھا، اگر چہ یہ بات تلخ ہے مگر صداقت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اس سلسلہ میں جن لوگوں نے مرکزی کردار ادا کیا انہوں نے صاف دلی سے اس اتحاد کو باقی رکھنے کی کوشش نہیں کی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہرو رپورٹ کو اگر مولانا شوکت علی مولانا احمد علی اور مسٹر جناح نے رد کیا تو خالص قوم پرور مسلمانوں کیلیے بھی یہ رپورٹ نا قابل قبول رھی جب کہ وہ کانگریس سے شانہ بشانہ مل کر کام کررہے تھے اور بعد میں وہ پوری زندگی کانگریس کے محاذ سے برطانوی حکومت کے خلاف جہاد کرتے رہے اس لئے مسلمانوں پر یہ الزام عائد نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے آزادی کی حقیقی لڑائی سے انحراف کیا۔
آخری منزل تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیسوی صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں کانگریس کی طرف سے ستیہ گرہ اور نان کوآپریشن کے پروگرام چلائے گئے اس سلسلہ میں بھی آپ دیکھیں گے کہ مسلمان قوم ان سارے پروگراموں میں برابر کے ساتھی کی طرح سرگرم کار رہی اور بہت سے پرجوش مسلمانوں نے گاندھی جی کی گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے بغاوت تک کردی اور پھانسی کے تختے پر چڑھا دئے گئے، 1937میں کانگریسی وزارت کے موقع پر ہندو مسلم خلیج اور بڑھ گئی لیکن اگست 1942 کی تحریک جو ایک طوفانی تحریک تھی جس میں لاتعداد ہندوستانی گرفتار ہوئے اور پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے، اس موقعہ پر بھی آپ دیکھیں گے کہ مسلمان نے قید و بند کی مصیبتیں ہی نہیں جھیلیں بلکہ شمع آزادی پر پروانہ وار نثار ہوگئے اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنی، 1942 کے بعد پانچ سال کا دور ایسا ہے جس نے ہندو مسلم خلیج کو ناقابل عبور حد تک وسیع کرکے مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں کی قدر و قیمت کو کم کردیا اور اس کی سیکنڑوں سال کی انتھک جد و جہد اور ایثار و قربانی بے وزن مانی جانے لگی مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ اس نے جنگ آزادی میں آگے بڑھایا ہوا قدم پیچھے ہٹایا ہو۔
دوسری جنگ عظیم کا سلسلہ جاری ہی نہیں تھا بلکہ لڑائی کی آگ اور تیزی سے بھڑک اٹھی تھی اور اس کی آنچ ہندوستان میں بھی محسوس کی جانے لگی تھی جاپانی قوم ہندوستان کے دروازہ پر دستک دے رہی تھی اس وقت سبھاش چندر بوس کی قیادت میں مسلمانوں کے ان گنت سپاہی اور فوجی افسران برطانوی حکومت کے خلاف نبرد آزمائی میں دوسرے برادران وطن سے آگے تھے اور 1946 میں آزاد ہند فوج کے گرفتار شدگان میں مسلمانوں ھی کی تعداد زیادہ تھی اگر حالات سازگار ہوتے تو انگریز انہیں پھانسی سے کم سزا نہیں دیتے اس کے علاوہ آزاد ہند فوج کے مورچہ سے برطانوی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے مسلمان فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا اسی 1946 میں بمبئی اور کراچی کے بحری بیڑوں نے بغاوت کا بگل بجایا اس بغاوت میں مسلمان فوجیوں نے مثالی کردار ادا کیا اور اس بغاوت کی حمایت میں شہریوں نے جو طوفان خیز مظاہرہ کیا اس میں بھی مسلمان شہیدوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے، اس طرح 1857 سے 14اگست 1947تک مسلمانوں نے تسلسل کے ساتھ اتنی قربانیاں دی ہیں کہ ان پر ہزار صفحات کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، اور جب بھی کوئی مؤرخ دیانتداری کے ساتھ ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ مرتب کریگا تو اس کیلیے ممکن نہیں ہے کہ مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں کو نظر انداز کرسکے۔
ختم شد
0 تبصرے