جذبے پر شاعری حق گوئی پر اشعار جینے کا حوصلہ اردو شاعری
پندرہ برس قبل کہی گئی ایک نظم آپ کی نذر
کہاں تک
چل پائیں گے باطل نظریات کہاں تکپوشیدہ رہے گی بھلا حق بات کہاں تک
حق چھین کے لینے کا کرو حوصلہ پیدا
لے کر پھرو گے کاسہء خیرات کہاں تک
مردانگی تو یہ ہے کہ حالات بدل دو
بن کر رہیں گے بندہء حالات کہاں تک
ہو کوششِ پیہم بھی پےِ صبحِ درخشاں
اس طرح غم ورنجِ سیہ رات کہاں تک
ہے شرط،کہ بیدار رہے ذوقِ تجسس
مخفی رہے گا چشمہء ظلمات کہاں تک
ہمت جٹا کے راہِ عمل میں تو چلے آئیں
پہلے ہی سے ناکامی کے خدشات کہاں تک
ادراکِ مسائل کے بنا حل نہ ملے گا
سمجھاتے رہیں ایک ہی یہ بات کہاں تک
ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلتے کیوں ہو؟
بے غیرتی کی زیست یہ، ہیہات کہاں تک
اے ہم نفسو!طرزِ حیات آج تو بدلو!
پابندیِ فرسودہ روایات کہاں تک
کرنا بھی تو ہے انفس وآفاق کی تسخیر
یوں ہی رہیں گے صیدِ طلسمات کہاں تک
ہشیار!خبردار!کہ یہ وقتِ عمل ہے
مُردوں کی طرح سوؤگے دن رات کہاں تک
کب تک یوں ہی ہوتے رہیں گے مفت میں رسوا
سہتے رہیں گے مکر کے صدمات کہاں تک
اے برٹش وامریکہ کے نادان مریدو!
یہ نذرو نیازِ ہبل ولات کہاں تک
خوشنودیِ امریکہ ویورپ کے لیے تم
بدلو گے مدارس کے نصابات کہاں تک
کیا تم نے سنیں کابل وبغداد کی آہیں؟
یوں غرقِ مے ومحفلِ نغمات کہاں تک
کب تک یوں فلسطین میں بہتا رہے گا خون؟
تشنہ رہے گی خواہشِ عرفاتؔ کہاں تک
جغرافیہ کی قبر سے باہر نکل آؤ!
گرویدگیِ پوچ مفادات کہاں تک
تعمیرِ ملل ہوتی ہے تعلیم وہنر سے
یہ خواہشِ تعمیرِ محلات کہاں تک
قائم رہے گا امتِ مسلم پہ خدایا!
یہ سلسلہء محنت وآفات کہاں تک
اشعار کی صورت میں زباں پر ہوئے جاری
دل میں دبے رہتے مرے جذبات کہاں تک
ڈاکٹر مقبول احمد مقبول
اودگیر،مہارشٹرا( بھارت)
0 تبصرے