حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ فضائل و مناقب | Hazrat Usman Ghani Ka Waqia In Urdu
تحریر۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی
نہالیہ جامع مسجد دکھن نارائن پور کولکاتا۔136
رابطہ نمبر۔900712416
عزیزان ملت اسلامیہ! الحمدللہ مذہب اسلام میں چند نفوس قدسیہ ایسے بھی ہیں جنھیں بارگاہِ خداوندی اور دربار مصطفوی میں خصوصی مقام حاصل ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام عظمت وشان والے ہیں، مگر ان میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک الگ ہی فضیلت واہمیت اور مقام حاصل ہے۔ ان کی زندگی کے چند پہلوؤں کو ذکر کیا جاتا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
خاندانی پس منظر: Hazrat Usman Ghani Ki Halat Zindagi
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نامی اسم گرامی عثمان بن عفان ہے اور آپ کے دادا کا نسب اس طرح ہے: ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی بنوامیہ۔ آپ کی والدہ کا نام اروی بنت کریز جن کی والدہ ام حکیم بنت عبدالمطلب تھیں، والد کی طرف سے آپ صلی اللہ وسلم کے چوتھے دادا حضرت عبدالمناف سے جا کر ملتے ہیں اور والدہ کی طرف سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی پھوپھی کے فرزند ہیں ۔
آپ اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی بڑے مالدار ، با اثر، سخی اور تجارت پیشہ ور تھے۔آپ واقعہ فیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے ۔آپ کا لقب ذوالنورین ہے جس کی دو وجہیں لکھی گئی ہیں۔
1. حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے عقد میں آئیں۔ جس کی ترجمانی الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہومبارک تجھ کو ذوالنورین جوڑا نور کا
2. دوسری وجہ یہ لکھی گئی ہے کہ آپ از حد سخی تھے اور آپ کی دوسخاوتیں تھیں، ایک اسلام قبول کرنے سے پہلے کی اور دوسری اسلام قبول کرنے کے بعد کی اور ان دونوں سخاوتوں کی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا تھا۔
پاک دامنی اور خوف خدا: Hazrat Usman Ghani Story In Urdu
آپ زمانہ جاہلیت کی بری عادت سے منزہ اور مبرہ تھے۔آپ فطری طورپرانتہائی پاکدامن ، پارسا اور عفیف تھے آپ کو جھوٹ سے ازحد نفرت تھی ۔ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ نے نہ تو کبھی شراب پی تھی اور نہ ہی چوری، بدکاری اور بے حیائی کے کاموں کا کبھی ارتکاب نہ کیا تھا۔ جب کہ عرب ان چیزوں کے رسیا تھے۔ آپ نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہدایت پر اسلام قبول کیا اور آپ ان انتالیس اشخاص میں سے ایک ہیں جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور ان کے بعد فاروق اعظم نے ایمان قبول کر کے چالیس کے عدد کو مکمل کردیا ۔ آپ خشیت الہی سے اکثر آبدیدہ رہتے تھے ۔ قبرستان سے گزرتے ہی آپ پر گریہ و زاری طاری ہو جاتی تھی اور آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی، جب لوگ اس قدر خوف زدہ ہونے کی وجہ دریافت کرتے تو فرماتے: "حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے اگر اس مرحلہ میں کامیابی ہو جائے گی تو باقی منازل میں بھی کامرانی نصیب ہو گی اگر اس میں مشکل پیش آئی تو باقی تمام مراحل بھی کٹھن ہوجائیں گے"۔
سخاوت کی وجہ سے مال میں کثرت:
حضرت محبوب الٰہی رحمت اللہ تعالی علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جس قدر مال تھا اتنا صحابہ کرام میں سے کسی کے پاس بھی نہ تھا۔ آپ بہت زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حدیث شریف میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مال کی کثرت سے تنگ آگیا ہوں آپ دعا فرمائیں اس میں کمی ہوجائے کیونکہ اس کی کثرت کی وجہ سے اطاعت خداوندی میں خلل واقع ہو رہا ہے ۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا کر نے کا ارادہ فر مایا ہی تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہو گیے اور اللہ تعالی کا فرمان سنایا کہ حضرت عثمان کے مال میں کمی کی دعا نہ فرمائیں کیوں کہ وہ ہماری راہ میں مال خرچ کرتا ہے اور ہم اس کے مال میں اضافہ کر دیتے ہیں ۔ حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کو حضور علیہ السلام کے ساتھ اتنی محبت اور الفت تھی کہ آپ کے اشارہ لابرو پر اپنا مال قربان فرما دیتے تھے۔
Hazrat Usman Ghani Essay In Urdu
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت۔
ایک دفعہ آپ نےحضور علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے نہایت ہی شفقت فرماتے ہوئے دعوت قبول فرمالی اور ان کے گھر تشریف لائے ۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے میزبانی کے فرائض ادا کرنے کی غرض سے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی آمد کی خوشی میں سترہ غلام آزاد کرتا ہوں کیونکہ میرے گھر اور مسجد کے درمیان سترہ قدم کا فاصلہ ہے اور میں ہر ہر قدم کے بدلے ایک ایک غلام آزاد کرتا ہوں۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی حیا:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ مبارکہ میں آرام فرما تھے اور آپ کی رانوں یا پنڈلیوں سے (قمیص مبارک ) ہٹی ہوئی تھی تو اسی اثنا میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ دروازے پر حاضر ہوئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو انھیں اجازت دے دی گئی اور آپ اسی حالت میں لیٹے رہے اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے اور انھوں نے بھی اجازت طلب کی جو انھیں دے دی گئی اور آپ اسی حالت میں رہے ان کی کوئی پرواہ نہ کی اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو انہیں بھی اجازت دے دی گئی اور اپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے بھی درست کر لیے تو جب وہ تشریف لے گئے تو میں نے عرض کی اے اللہ تعالی کے رسول (آپ کی بھی عجیب شان ہے ) ابوبکر داخل ہوئے تو آپ نے ان کے لئے کوئی اہتمام نہ فرمایا اور نہ ہی ان کی پرواہ کی پھر عمر آۓ ان کے لئے بھی نہ تو آپ نے حرکت کی اور نہ ہی ان کی کوئی پرواہ کی مگر جب عثمان آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گیے اور اپنے کپڑے درست فرما لیا۔ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا " کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں"۔ (مشكٰوة)
1. حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ غسل خانے کے اندر بھی کپڑا باندھ کر غسل فرماتے تھے۔
2.حضرت ابو نعیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت عثمان میری امت میں سب سے زیادہ باحیا اورسب سے زیادہ معزز ہیں۔
3. حضور صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ اس امت میں اس کے نبی کے بعد عثمان رضی اللہ تعالی سب سے زیادہ با حیا ہیں۔
4. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں حیا کے اعتبار سے عثمان سب سے زیادہ سچا ہے۔
شان عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بزبان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:
"حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ،ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم احد پہاڑ پر چڑھے ۔پہاڑ کانپ اٹھا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا :" اے احد ٹھرجا تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں "۔(بخاری شریف)
Hazrat Usman Ghani Ki Shahadat In Urdu
اس حدیث پاک میں دو شہیدوں سے مراد حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہما ہیں، جن کی شہادت کی خبر اللہ کے محبوب صلی اللہ نے پہلے ہی دے دی تھی۔
جنت کی بشارت:
"حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ شریف کے باغوں میں سے ایک باغ میں تھا۔ کہ ایک شخص آیا اور اس نے دروازہ کھولنے کو کہا حضور صلی اللہ وسلم نے فرمایا دروازہ کھول دو اور آ نے والے کو جنت کی خوشخبری سنا دو ۔ وہ ابو بکر تھے میں نے انھیں رسول کے ارشاد سے آگاہ کیا ( انہیں جنت کی خوشخبری سنائی ) انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔ پھر ایک اور آدمی آیا اس نے بھی دروازہ کھولنے کو کہا نبی پاک صلی اللہ وسلم نے فرمایا ان کے لئے دروازہ کھول دو اور انھیں جنت کی بشارت سناو ۔ دروازہ کھولا تو حضرت عمر ( سامنے موجود ) تھے ۔ میں نے انھیں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی خوشخبری سنائی ۔ انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھلوایا سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے لئے بھی دروازہ کھول دو اور انھیں ایک مصیبت پر (صبر کرنے کی وجہ سے) جنت کی بشارت دو ۔ میں نے دروازہ کھولا تو حضرت عثمان( سامنے موجود) تھے میں نے انھیں فرمان رسالت کے مطابق خوش خبریں دیں ۔ انھوں نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور کہا اللہ ہی مددگار ہے۔"
آپ کی شہادت:
ابن سبا یہودی کی سازش سے باغیوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا ۔ آخرکار جمعہ کا دن تھا ۔باغیوں نے آپ کے مکان کو گھیرے میں لے رکھا تھا ، دیواریں پھاند کر گھر میں داخل ہوگئے ۔آپ حالت روزہ میں تھے اور قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے۔ باغیوں سے آپ نے فرمایا :" تم سخت غلطی کر رہے ہو اگر تم نے مجھے شہید کردیا تو مسلمانوں میں تفرقہ پڑجائےگا ۔" آپ کے فرمان عالیہ کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور انھوں نے آپ پر کاری وار کرکے 35ہجری 18ذی الحجہ کی تاریخ میں آپ کو شہید کردیا۔( بعض کتابوں میں ایام تشریق میں شہادت ہونے کی بات کہی گئی ہے ) قرآن مقدس کی تلاوت کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا،اور آپ کے خون کے قطرے قرآن کریم کی آیت " فَسَيَكۡفِیۡكُمُ اللّٰهُ وهُوَالسَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمۡ "پر گرے ۔ اِنّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیۡهِ رَاجِعُوۡنَ۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرتِ طیبہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بروز قیامت ہمارے حق میں ان کی شفاعت نصیب فرمائے۔آمین
0 تبصرے