Ticker

6/recent/ticker-posts

کلی سوچ کے مالک مولانا سید نظام الدین (1927-2015)

کلی سوچ کے مالک مولانا سید نظام الدین (1927-2015)


قسط نمبر (1)

°°°°°°°°°°°°°°
از----آفتاب عالم ندوی

ناظم جامعہ ام سلمہ دھنباد جھارکھنڈ

امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ کے سابق ناظم و امیر شریعت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق سکریٹری جنرل مولانا سید نظام الدین رح کی شخصیت جن گوناں گوں و متنوع محاسن و مکارم اوراعلی اقدار و خصوصیات کی سنگم تھی کسی ایک شخص میں انکا اجتماع ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، خاندانی پس منظر کی اگر بات کیجائے تو آل رسول سے ہونے کے ساتھ اس میں علم دین اور دینی وملی خدمت کا تسلسل نظر آتا ہے، جد امجد سید صادق علی مغلیہ دور کے عہد زوال میں پرگنہ کوٹھی کندہ کے قاضی تھے، اس پرگنہ کا دائرہ چترا، گیا، ہزاری باغ، اور پلاموں وغیرہ تک پھیلا ہوا تھا جبکہ دادا قاضی شرف الدین بانئی ندوۃ العلماء مولانا سید محمد علی مونگیری کے دست گرفتہ اور والد ماجد قاضی سید حسین علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد رشید تھے، بچپن ہی میں والدین کے سایہ سے محرومی، معاشی تنگی، گھر کے دینی و علمی ماحول اور خدا ترس دادا کی تربیت کی وجہ سے قناعت،‌صبر , تحمل، جفاکشی، خود اعتمادی،حمیت و غیرت،سخت حالات سے نبرد آزمائی اور ضرورت مندوں، بیکسوں اور مجبوروں کی اعانت و ہمدردی سرشت میں داخل ہوگئ، کہا جاسکتا ہیکہ آگے چلکر اس پاک طینت بندہ کے ذریعہ قوم و ملت کیلئے جو عظیم کام انجام پانا تھا قدرت حالات کی بھٹی میں اسے تپا کر اسکیلئے تیار‌کر رہی تھی، کسی بھی تنظیم کسی بھی تحریک، کسی بھی دارالعلوم اور کسی بھی ادارہ کیلئے ایسے لوگ قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جو کسی تحریک و تنظیم کیلئے اپنے جسم وجان اور اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ اپنے کو وقف کردیں، بسا اوقات ایسے لوگ تن تنہا پورے ادارے اور پوری تنظیم کا واحد سہارا ہوتے ہیں، دنیا کی کسی بھی تنظیم و تحریک اور کسی بھی عوامی ادارہ کی تاریخ خصوصا ابتدائی عہد اور اسکی مشکل گھڑیوں کے احوال پر نظر ڈالیں تو کچھ مرد قلندر ایسے ضرور ملیں گے جو ہر طرح کے سود وزیاں اور نفع وضرر سے بے پرواہ ہوکر ادارہ کے اہداف و مقاصد کی تکمیل کیلئے وہ جیتے اور مرتے ہیں، فکر و عمل، سونا جاگنا،ذاتی جاہ و شرف، خاندانی حیثیت و مرتبہ، گفتار و کردار، تحریر و تقریر سب کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ انکے ادارے اور تنظیم کو ترقی ملے، آگے بڑھے، پھولے پھلے، اداروں کی تاریخ مرتب کرنے والے کبھی کبھی ان رجال کار کو وہ اہمیت نہیں دیتے ہیں جسکے وہ مستحق ہوتے ہیں، علی گڈھ تحریک کے روح رواں اس میں شک نہیں کہ سر سید احمد خان رح(1817-1898) تھے لیکن جن رفقاء نے انکی زندگی میں انکا بھر پور ساتھ دیا اور انکے بعد اس تحریک کو سینچا، آگے بڑھا یا دنیا کبھی انہیں فراموش نہیں کرسکتی , نواب محسن الملک، نواب وقار الملک , حالی، شبلی، ڈپٹی نذیر احمد دہلوی،مولوی چراغ علی، مولوی ذکاء اللہ، عماد الملک، دوسرے دور میں مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی، صاحبزادہ آفتاب احمد خان وغیرہ، سرسید کا نام آتے ہی ان حضرات کا نام بھی ذہن میں ضرور آتا ہے، مولانا قاسم نانوتوی رح( 1833-1880) اور دارلعلوم کاجب بھی ذکر ہوگا مولانا ذوالفقار علی دیوبندی، مولانا فضل الرحمان عثمانی، مولانا رشید احمد گنگوہی، حاجی عابد، مولانا رفیع الدین، مولوی محمد محمود، بعد کے ادوار میں حافظ محمد احمد، قاری محمد طیب، علامہ کشمیری،علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا حسین احمد مدنی کا تذکرہ نا گزیر ہے،ندوۃ العلماء اور مولانا سید محمد علی مونگیری (1846-1927)کی جب بھی بات ہوگی علامہ شبلی، شاہ سلیمان پھلواروی، مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی، منشی اطہر علی کاکوروی مولانا سید عبد الحی حسنی، مولانا خلیل الرّحمن بن مولانا احمد علی سہارنپوری، مولانا عبد الحق حقانی، اور بعد کے ادوار میں علامہ سید سلیمان ندوی مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مولانا معین اللہ ندوی، مولانا محب اللہ لاری اور مولانا سید محمد رابع حسنی کا تذکرہ کرنا ہی پڑے گا،،

امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ بر صغیر کی ایک ایسی منفرد تنظیم ہے جسکے تذکرہ کے بغیر ھندو پاک کی اسلامی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہوسکتی،امارت شرعیہ اسلامی وشرعی بنیادوں پر قائم ایسی تنظیم کا نام ہے جو کلمہ کی بنیاد پر اتحاد واتفاق کا داعی اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں اور اقتدار حاصل نہ ہو مسلمانوں کو ایک امیر کے ماتحت شرعی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتی ہے، جس عظیم شخصیت نے قرآن وحدیث کے عمیق مطالعہ سے یہ انقلابی تصور پیش کیا دنیا اسے مولانا ابو المحاسن محمد سجاد(1881-1940) کے نام سے جانتی ہے، مولانا نے قرآن وحدیث کے مضبوط دلائل سے علماء، فقہاء، خانقاہوں کے صوفیاء، دار الافتاء کے مفتیان اور میدان سیاست کے شہسواروں کو امارت شرعیہ کا قائل کیا اور 1921میں یہ قائم ہوگئ،اللہ نے قاضی سید احمد حسین، مولانا قاسم فرد سی سملوی، مولانا نورالدین بہاری،محمد شفیع تمنائی،بیرسٹر محمد یونس، شیخ عدالت حسین چمپارنی، مولانا عبد الصمد رحمانی، مولانا سید عثمان غنی جیسے اہل علم اور محنتی و جفاکش رفقاء و کارکنان عطاء کئے، اس وقت کے بڑے بڑے مشائخ اور ہر مکتبۂ فکر کے جبل علم کی بھرپور تائیدو حمایت ملی، مولانا سید محمد علی مونگیری، شاہ بدرالدین مجیبی، شاہ محی الدین قادری، مولانا آزاد، سید سلیمان ندوی، مفتی کفایت اللہ، مناظر احسن گیلانی، مولانا حسین احمد مدنی نے تصور امارت کی مکمل تائید کی، مولانا شاہ منت اللہ رحمانی (1913-1991)نے 1957میں چوتھے امیر شریعت کی حیثیت سے امارت شرعیہ کی ذمہ داری سنبھالی، اس تنظیم کیلئے مولانا رحمانی کی امارت کو بجا طور پر نشأۃ ثانیہ کہا جاسکتا ہے، مولانا رحمانی برابر ذی استعداد اور کام کے لوگوں کی تلاش میں رہتے تھے، جامعہ رحمانی میں جس طرح کے اساتذہ ایک زمانے میں جمع ہوگئے تھے ملک کے کسی دارالعلوم میں انکی نظیر نہیں ملتی، امارت شرعیہ کیلیے دو لوگ انہیں ایسے مل گئے جنہوں نے انہیں امارت کی طرف سے بے فکر کردیا، امارت کیلیے انہیں دو پنکھ قرار دیا جاسکتا ہے، قاضی مجاھد الاسلام قاسمی اور مولانا سید نظام الدین،،

ندوہ میں چوبیس سالہ زمانۂ قیام (1981-2004) کے دوران ملک کے تمام اہل علم اور ملی قائدین کی زیارت، انکی تقریر اورباتیں سننے کا باربار موقع ملا، محدث کبیر مولانا حبیب الرحمان اعظمی، مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا صبغۃ اللہ بخاری، قاری صدیق احمد باندوی، شاہ ابرار الحق،مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی، مولانا سعید احمد اکبرآبادی، مولانا منظور نعمانی، شاہ عون احمد قادری،قاضی سجاد، قاضی اطہر مبارکپوری، حکیم زماں حسینی، قاضی مجاھد الاسلام قاسمی، مولانا سید نظام الدین، سید صباح الدین عبد الرحمن، ان میں سے اکثر بزرگ ندوہ کی شوری یا بورڈ کی میٹنگ کیلئے ندوہ تشریف لاتے یا کسی دوسرے پروگرام میں شرکت کیلئے یا حضرت مولانا علی میاں ندوی سے ملاقات کی غرض سے وہ ندوہ آتے، فراغت کے فورا بعد ندوہ میں میری تقرری ہوگئ، اس کے بعد ان حضرات کی خدمت میں حاضری مزید آسان ہوگئ، ان بزرگوں کو مختلف روپ میں دیکھا , آپس کی بے تکلف بات چیت و ہنسی مذاق کی حالت میں بھی دیکھا، بابری مسجد یا کسی اور قضیہ پر سنجیدہ تبادلۂ خیال کرتے ہوئے بھی انہیں پایا، مہمان خانے میں ایک مرتبہ مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کو دیکھا کہ مولانا نظام الدین صاحب کا یہ کہکر تعارف کرا رہے ہیں کہ یہ امارت شرعیہ کے وزیر اعظم ہیں، یہ بڑا معنی خیز جملہ ہے، شائد یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ امارت کو ا صل میں یہی چلاتے ہیں، یہ اعتراف امیر شریعت رابع کی بھی عظمت کی دلیل ہے، اپنے ماتحت والوں کی تعریف اور انکی کارکردگی کا اس انداز سے بر ملا اعتراف آسان نہیں ہوتا ہے، ناظم امارت کی امیر شریعت کی زبانی بلند لفظوں میں تعریف سے دل میں ناظم امارت کیلئے عقیدت پیدا ہوگئ، اسکے بعد معلوم نہیں کتنی مرتبہ ملاقات ہوئی، ندوہ میں، پھلواری میں، پرسنل لا بورڈ کے پروگراموں میں، نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا کی عظمت دل میں بڑھتی چلی گئ۔

راقم الحروف نے 1996میں جامعہ ام سلمہ کی بنیاد رکھی، مولانا کو ہم نے اسکے بارے میں بتایا تو خوشی کا اظہارکیا اور ام سلمہ کیلئے حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے تزکیہ کو دیکھکر اپنے ہاتھ سے قلم برداشتہ تصدیق نامہ تحریر کرکے عنایت کیا، پاکیزہ خط، زبان سلیس و رواں، اس وقت پہلی مرتبہ اندازہ ہواکہ مولانا کا قلم بھی شاداب و شگفتہ ہے،مولانا ان لوگوں میں نہیں تھے جو صلاحیتوں و کمالات کی موقع و بے موقع تشہیر کریں، ابتو لوگ باقاعدہ اپنی بزرگی کی مارکیٹنگ کیلیے تنخواہ پر لوگوں کو رکھتے ہیں، کسی شہر میں جانے سے پہلے انکے یہ ایجنٹ پہنچ جاتے ہیں، اسلیے بار بار ملنے کے باوجود بہت دنوں تک معلوم نہیں ہوسکا کہ مولانا سخن فہم ہی نہیں سخن سنج بھی ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے جب‌ خبر نامہ کا اجراء کیا تو اسکی‌ادارت کی ذمہ داری خود مولانا نے سنبھالی، مولانا قادر الکلام شا عر بھی تھے، عالمی رابطۂ ادب اسلامی کے لکھنؤ آفس نے انکے کلام کا مجموعہ شائع کیا جسکی تدوین و ترتیب کا کام امارت شرعیہ کے المعھد الاسلامی کے سکریٹری مولانا عبد الباسط صاحب ندوی نے انجام دیا، مولانا کی شخصیت ہشت پہل ہیرے کی مانند تھی، علوم شرعیہ کی تحصیل کیلیے باکمال اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا، ذہن اخاذ تھا،فکر سلیم تھی، طبیعت موزوں تھی، رگوں میں ہاشمی خون تھا، تحریک شہیدین، مولانا مونگیری، محدث کشمیری اور خاندان کے بزرگوں کے فیضان نظر نے شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا، امارت شرعیہ سے پہلے تعلیم و تعلم کے اشتغال نے قرآن وحدیث، فقہ اور اصول میں گہرائی وگیرائی اورنتائج اخذ کرنے کا سلیقہ پیدا جبکہ انتظام و انصرام کی ذمہ داریاں سنبھال کر ہر طبقہ کے لوگوں کو ڈیل کرنے اور انکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا ہنر سیکھا، ایک چوتھائی صدی تک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری رہے، عملا صدر سے بھی زیادہ سکریٹری پر ذمہ داریاں ہوتی ہیں، بورڈ مسلمانوں کا ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں آپکو بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، بوہرے، اثنا عشری، خانقاہوں کے مشایخ، مدارس کے نظماء ومہتممین سبھی ملینگے، متنوع افکار ورجحانات کے افراد کو ساتھ لیکر چلنا کتنا کٹھن کام ہے بتانے کی ضرورت نہیں، مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور مولانا منت اللہ رحمانی معاصر تھے، ندوہ میں ساتھ تعلیم حاصل کی تھی، دونوں میں ذہنی وفکری ہم آہنگی تھی، کبھی ان میں کسی بھی معاملہ میں اختلاف سننے کو نہیں ملا، مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کی وفات کے بعد اتفاق رایے سے مولانا سید نظام الدین کو بورڈ کا سکریٹری جنرل منتخب کیا گیا، صدر بورڈ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے انکےتدین وتقوی، فہم و فراست اور فکری سلامتی و ذہنی قربت کو دیکھنے کے بعد ہی انکا انتخاب کیا ہوگا، مولانا نصف صدی سے زائد عرصہ تک امارت کے ذمہ دار اعلی رہے، بقول امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ صاحب رحمانی مولانا امارت کے وزیر اعظم تھے، مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کی قیادت و سر پرستی اور قاضی مجاھد الاسلام صاحب قاسمی کی رفاقت میں مولانا سید نظام الدین صاحب نے امارت شرعیہ کی بے مثال خدمت کی،‌ اس اقانیم ثلاثہ کے عہد میں امارت نے مادی اعتبار سے بھی اور معنوی اعتبار سے بھی بے انتہا ترقی کی، حضرت سید کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے، وہ دین اور ملت کو سب سے اوپر رکھتے تھے، ملی مفاد‌کے سامنے رشتہ اور تعلقات کی پرواہ نہیں کرتے تھے، امارت کے سابق ناظم صاحب نے ناظم رہتے ہوئے بہار حج کمیٹی کا جب چیر مین کا عہدہ قبول کرنا چاہا تو مولانا نے اسکی سخت مخالفت کی، انکا کہنا تھا کہ یا تو ناظم رہیں یا چیر مین، مولانا کا ایک غیر معمولی وصف انکا کلی سوچ کا ہونا تھا، کسی بھی معاملہ پر جب غور کرتے تو معاملہ کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے، کسی معمولی گوشہ کو بھی نظر انداز نہ کرتے، یہ وصف انکے ہر عمل، ہر گفتگو اور ہر تقریر و تحریر میں دیکھا جاسکتا ہے، میرے سامنے انکا ایک خط ہے جو انہوں نے امارت کے معاون ناظم مولانا سہیل ندوی مرحوم کو لکھا تھا جس وقت وہ سفر حج میں جارہے تھے، اس خط سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہیکہ معاملہ کوئی بھی ہو تا مولانا کی ہر پہلو پر نظر ہوتی, اسی کو ہم نے کلی سوچ کا نام دیا ہے، دوسری بات یہ کہ انکے دل میں ہر انسان کا احترام تھا، مولانا سہیل مرحوم ہر اعتبار سے مولانا سے چھوٹے تھے، لیکن دیکھئے کتنے اہتمام سے ضروری امور کی طرف توجہ دلائی ہے، اور پھر کتنے اہتمام سے اپنے لیے اپنی اولاد کیلئے دعاء کیلئے کہا ہے، یہ خط انکے تعلق مع اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و تعلق پربھی روشنی ڈالتا ہے، مبارکباد پیش کرنے، حج و زیارت اور طواف و عمرہ کی قبولیت اور خیریت سے واپسی کی دعاء اور بہت ساری قیمتی نصیحتوں کے بعد لکھتے ہیں، شروع میں خطاب آپ سے ہے، لیکن آگے تحریر جذباتی ہوجاتی ہے، خط طویل ہے، یہاں صرف ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے، لکھتے ہیں :،،،،میرے لئے آپ مغفرت اور ایمان پر خاتمہ کی دعاء کرنا،،، جبتک زندگی ہے اللہ تعالی امراض جسمانی و روحانی سے پوری حفاظت فرمائے، اخلاص وللہیت کے ساتھ خدمت دین کی توفیق، قلبی سکون و ذہنی اطمینان اور رزق حلال کیلئے دعاء کرنا، فقر فاقہ، افلاس اور قرض سے حفاظت کی دعاء کرنا، جب وقت آجائے تو اللہ ایمان پر خاتمہ کرے اور میرے گناہوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے، قیامت کے دن حساب آسان کرے،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت، آپکا قرب اور آپکے حوض کوثر پر حاضری نصیب ہو،،اسکے بعد ایک ایک کا نام لیکر دعاء کیلیے لکھ رہے ہیں،شموں، حسان، حامد کی صحت کیلئے، عبد الواحد کیلئے کہ اللہ تعالی قرآن کو اسکے سینہ میں محفوظ کرے،، تلاوت میں شغف پیدا فرمادے، دین کا فہم عطاء کرے اور عالم باعمل بنادے، بڑی صاحبزادی اور سلمی کیلئے، شیما اور مسرت کیلئے اللہ اچھا جوڑا نصیب کرے، امارت شرعیہ کی ترقی اور استحکام کیلئے، فتنوں سے حفاظت کیلئے، ہم لوگوں پر اس ادارے کا بڑا حق ہے، ہم سب کی عزت اس ادارے کی برکت سے ہے، کارکنان امارت کیلئے،انکے اصلاح حال کیلئے،‌انکی دنیا و اخرت کیلئے، انکی صحت، عزت و خوشحالی، جسمانی تکلیف، روحانی امراض اور مالی تنگی سے حفاظت کیلئے دعاء فرمادیں،، آخری سطر :ایک بات آخر میں اور لکھدوں کہ آپ ہمارے ساتھ رہتے ہیں اس دوران میں نے کبھی کوئی ناگوار بات کی جو بات آپکو ناپسند رہی یا میر ا کوئی معاملہ اور عمل جس سے آپ کو تکلیف ہوئی ضرور معاف کردینگے،، نظام الدین،،،

1997کی بات ہے، میں ندوہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا، اس وقت کے صدر بورڈ حضرۃ الاستاذ مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی اور مولانا سید نظام الدین صاحب جو بورڈ کے جنرل سیکریٹری تھے نے چاہا کہ بورڈ کے ہیڈ آفس دہلی میں کوئی موزوں و قابل اعتماد رہے، صدر بورڈ کی رائے ہوئی کہ میں وہاں کیلئے مناسب رہونگا، مولانا نے حکم نہیں دیا، لیکن مولانا کی خواہش تھی کہ میں دہلی چلا جاؤں، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ندوہ سے تمہارا تعلق برقرار رہے گا، جنرل سکریٹری کو صدر بورڈ نے یہ اطلاع دیدی، اس موقع پر سکریٹری جنرل نے اس سلسلہ میں صدر بورڈ کو خط بھیجا، خط چونکہ میرے متعلق تھا اسلئے صدر محترم نے یہ خط مجھے دیدیا جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے، خط میں متعلقہ تما م امور کا ذکر ہے، تنخواہ، اور کھانے کے سلسلہ میں بتایا ہیکہ ملازم بنا دےگا لیکن سامان دینا ہوگا،‌اور مہمانوں کی ضیافت کا نظم آفس کی طرف سے ہوگا اور اخیر میں ہیکہ اگر،،، تیار ہوں تو پہلے پھلواری شریف آجائیں، میرے ساتھ کچھ دن رہیں، جیسا کو عرض کیا گیا مولانا کلی سوچ کے مالک تھے،

مولانا جہاں ایک خدا ترس، متدین، ذی استعداد قرآن و حدیث اور فقہ و تفسیر پر وسیع و عمیق نظر رکھنے والے عالم دین تھے وہیں معاملہ فہم، زیرک، صاحب تدبیر،جری و بیباک اور ہمدرد قائد و رہبر بھی تھے، اگر کسی قائد کا دل ان خوبیوں کے ساتھ صدق وامانت اور تدین و اخلاص جیسے اوصاف سے بھی مجلی ومصفی ہو تو ایسا قائد یقینا بہت عظیم ہوگا، اس پر توفیق الہی سایہ فگن ہوگی، اسکے برعکس تمام خوبیاں ہوں،‌ تمام اوصاف جمیلہ سے کوئی متصف ہو لیکن خلوص،‌خو ف خدا اور فکر آخرت سے محروم ہو تو ایسے قائد و رہبر سے قوم وملت کو فائدہ پہنچنے کے بعد نقصان ہی پہنچتا ہے، تباہی و بربادی قوم کا مقدر بن جاتی ہے، خطابت میں گہن گرج بھی ہو، بیان میں ادبی چاشنی بھی ہو، ایثار وقربانی کا بلند بانگ دعوی بھی ہو، اور شرر توحید اور عشق محمد کی چنگاری کے بجائے فقر و غنا کو مدار قوت و طاقت سمجھے، دل میں خوف خدا نہ ہو اور مقصود خوشنودئ رب نہ ہو تو ایسا رہبر کچھ بھی کرسکتا ہے، معاشرہ کو بانٹ سکتا ہے،مسجد کو بیچ سکتا ہے، قوم کا سودا کرسکتا ہے، دنیا طلبی و جاہ پرستی سے ھماری خود ی مر گئی، ان امراض نے طائر لاہوتی کے پر بے جان کر دئیے، بوئے اسد اللہی ہم سے رخصت ہوگئ، مولانا سید نظام الدین صحیح معنوں میں نامور اسلاف کے سچے جانشین اور انکی سیرت وکردار کے امین تھے، بانئی امارت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد اور شاہ منت اللہ رحمانی کی طرح انہوں نے بھی ملت کے مفاد کیلئے جب بھی ضرورت پڑی اہل اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، ایک طویل زمانہ تک دوروں میں مسجدوں کی چٹائیوں کو بچھونا اور بیل گاڑیوں کو سواری بنانے والےہمارے یہ بزرگ نہ اہل اقتدار سے کبھی مرعوب ہوئے، نہ کبھی احساس کمتری کا شکار ہوئے، نہ کبھی سرکاری و غیر سرکاری عہدوں کو نگاہ غلط انداز سے دیکھا، مولانا نے جس راستہ کو چنا تھا اسکے درست ہونے کا یقین محکم، عمل پیہم اور ملک و قوم سے محبت و خیر خواہی انکے فکرو عمل کے روشن باب تھے، مولانا کی دینی وملی خدمات و کارناموں اور انکی ذاتی زندگی کے محاسن و کمالات کے تذکرہ کیلئے ضخیم سوا نح کی ضرورت ہے،‌ ایک مختصر مضمون میں جلی عناوین ہی لکھے جاسکتے ہیں،
ع

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

از _ آفتاب عالم ندوی دھنباد جھارکھنڈ
7004464267,, 8002300339


کلی سوچ کے مالک مولانا سید نظام الدین (1927-2015)


آخری قسط


°°°°°°
از-------آفتاب عالم ندوی

ناظم جامعہ ام سلمہ دھنباد جھارکھنڈ


راقم الحروف نے 1996میں جامعہ ام سلمہ کی بنیاد رکھی، مولانا کو ہم نے اسکے بارے میں بتایا تو خوشی کا اظہارکیا اور ام سلمہ کیلئے حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے تزکیہ کو دیکھکر اپنے ہاتھ سے قلم برداشتہ تصدیق نامہ تحریر کرکے عنایت کیا، پاکیزہ خط، زبان سلیس و رواں، اس وقت پہلی مرتبہ اندازہ ہواکہ مولانا کا قلم بھی شاداب و شگفتہ ہے،مولانا ان لوگوں میں نہیں تھے جو صلاحیتوں و کمالات کی موقع و بے موقع تشہیر کریں، ابتو لوگ باقاعدہ اپنی بزرگی کی مارکیٹنگ کیلیے تنخواہ پر لوگوں کو رکھتے ہیں، کسی شہر میں جانے سے پہلے انکے یہ ایجنٹ پہنچ جاتے ہیں، اسلیے بار بار ملنے کے باوجود بہت دنوں تک معلوم نہیں ہوسکا کہ مولانا سخن فہم ہی نہیں سخن سنج بھی ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے جب‌ خبر نامہ کا اجراء کیا تو اسکی‌ادارت کی ذمہ داری خود مولانا نے سنبھالی، مولانا قادر الکلام شا عر بھی تھے، عالمی رابطۂ ادب اسلامی کے لکھنؤ آفس نے انکے کلام کا مجموعہ شائع کیا جسکی تدوین و ترتیب کا کام امارت شرعیہ کے المعھد الاسلامی کے سکریٹری مولانا عبد الباسط صاحب ندوی نے انجام دیا، مولانا کی شخصیت ہشت پہل ہیرے کی مانند تھی، علوم شرعیہ کی تحصیل کیلیے باکمال اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا، ذہن اخاذ تھا،فکر سلیم تھی، طبیعت موزوں تھی، رگوں میں ہاشمی خون تھا، تحریک شہیدین، مولانا مونگیری، محدث کشمیری اور خاندان کے بزرگوں کے فیضان نظر نے شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا، امارت شرعیہ سے پہلے تعلیم و تعلم کے اشتغال نے قرآن وحدیث، فقہ اور اصول میں گہرائی وگیرائی اورنتائج اخذ کرنے کا سلیقہ پیدا جبکہ انتظام و انصرام کی ذمہ داریاں سنبھال کر ہر طبقہ کے لوگوں کو ڈیل کرنے اور انکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا ہنر سیکھا، ایک چوتھائی صدی تک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری رہے، عملا صدر سے بھی زیادہ سکریٹری پر ذمہ داریاں ہوتی ہیں، بورڈ مسلمانوں کا ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں آپکو بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، بوہرے، اثنا عشری، خانقاہوں کے مشایخ، مدارس کے نظماء ومہتممین سبھی ملینگے، متنوع افکار ورجحانات کے افراد کو ساتھ لیکر چلنا کتنا کٹھن کام ہے بتانے کی ضرورت نہیں، مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور مولانا منت اللہ رحمانی معاصر تھے، ندوہ میں ساتھ تعلیم حاصل کی تھی، دونوں میں ذہنی وفکری ہم آہنگی تھی، کبھی ان میں کسی بھی معاملہ میں اختلاف سننے کو نہیں ملا، مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کی وفات کے بعد اتفاق رایے سے مولانا سید نظام الدین کو بورڈ کا سکریٹری جنرل منتخب کیا گیا، صدر بورڈ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے انکےتدین وتقوی، فہم و فراست اور فکری سلامتی و ذہنی قربت کو دیکھنے کے بعد ہی انکا انتخاب کیا ہوگا، مولانا نصف صدی سے زائد عرصہ تک امارت کے ذمہ دار اعلی رہے، بقول امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ صاحب رحمانی مولانا امارت کے وزیر اعظم تھے، مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کی قیادت و سر پرستی اور قاضی مجاھد الاسلام صاحب قاسمی کی رفاقت میں مولانا سید نظام الدین صاحب نے امارت شرعیہ کی بے مثال خدمت کی،‌ اس اقانیم ثلاثہ کے عہد میں امارت نے مادی اعتبار سے بھی اور معنوی اعتبار سے بھی بے انتہا ترقی کی، حضرت سید کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے، وہ دین اور ملت کو سب سے اوپر رکھتے تھے، ملی مفاد‌کے سامنے رشتہ اور تعلقات کی پرواہ نہیں کرتے تھے، امارت کے سابق ناظم صاحب نے ناظم رہتے ہوئے بہار حج کمیٹی کا جب چیر مین کا عہدہ قبول کرنا چاہا تو مولانا نے اسکی سخت مخالفت کی، انکا کہنا تھا کہ یا تو ناظم رہیں یا چیر مین، مولانا کا ایک غیر معمولی وصف انکا کلی سوچ کا ہونا تھا، کسی بھی معاملہ پر جب غور کرتے تو معاملہ کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے، کسی معمولی گوشہ کو بھی نظر انداز نہ کرتے، یہ وصف انکے ہر عمل، ہر گفتگو اور ہر تقریر و تحریر میں دیکھا جاسکتا ہے، میرے سامنے انکا ایک خط ہے جو انہوں نے امارت کے معاون ناظم مولانا سہیل ندوی مرحوم کو لکھا تھا جس وقت وہ سفر حج میں جارہے تھے، اس خط سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہیکہ معاملہ کوئی بھی ہو تا مولانا کی ہر پہلو پر نظر ہوتی, اسی کو ہم نے کلی سوچ کا نام دیا ہے، دوسری بات یہ کہ انکے دل میں ہر انسان کا احترام تھا، مولانا سہیل مرحوم ہر اعتبار سے مولانا سے چھوٹے تھے، لیکن دیکھئے کتنے اہتمام سے ضروری امور کی طرف توجہ دلائی ہے، اور پھر کتنے اہتمام سے اپنے لیے اپنی اولاد کیلئے دعاء کیلئے کہا ہے، یہ خط انکے تعلق مع اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و تعلق پربھی روشنی ڈالتا ہے، مبارکباد پیش کرنے، حج و زیارت اور طواف و عمرہ کی قبولیت اور خیریت سے واپسی کی دعاء اور بہت ساری قیمتی نصیحتوں کے بعد لکھتے ہیں، شروع میں خطاب آپ سے ہے، لیکن آگے تحریر جذباتی ہوجاتی ہے، خط طویل ہے، یہاں صرف ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے، لکھتے ہیں :،،،،میرے لئے آپ مغفرت اور ایمان پر خاتمہ کی دعاء کرنا،،، جبتک زندگی ہے اللہ تعالی امراض جسمانی و روحانی سے پوری حفاظت فرمائے، اخلاص وللہیت کے ساتھ خدمت دین کی توفیق، قلبی سکون و ذہنی اطمینان اور رزق حلال کیلئے دعاء کرنا، فقر فاقہ، افلاس اور قرض سے حفاظت کی دعاء کرنا، جب وقت آجائے تو اللہ ایمان پر خاتمہ کرے اور میرے گناہوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے، قیامت کے دن حساب آسان کرے،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت، آپکا قرب اور آپکے حوض کوثر پر حاضری نصیب ہو،،اسکے بعد ایک ایک کا نام لیکر دعاء کیلیے لکھ رہے ہیں،شموں، حسان، حامد کی صحت کیلئے، عبد الواحد کیلئے کہ اللہ تعالی قرآن کو اسکے سینہ میں محفوظ کرے،، تلاوت میں شغف پیدا فرمادے، دین کا فہم عطاء کرے اور عالم باعمل بنادے، بڑی صاحبزادی اور سلمی کیلئے، شیما اور مسرت کیلئے اللہ اچھا جوڑا نصیب کرے، امارت شرعیہ کی ترقی اور استحکام کیلئے، فتنوں سے حفاظت کیلئے، ہم لوگوں پر اس ادارے کا بڑا حق ہے، ہم سب کی عزت اس ادارے کی برکت سے ہے، کارکنان امارت کیلئے،انکے اصلاح حال کیلئے،‌انکی دنیا و اخرت کیلئے، انکی صحت، عزت و خوشحالی، جسمانی تکلیف، روحانی امراض اور مالی تنگی سے حفاظت کیلئے دعاء فرمادیں،، آخری سطر :ایک بات آخر میں اور لکھدوں کہ آپ ہمارے ساتھ رہتے ہیں اس دوران میں نے کبھی کوئی ناگوار بات کی جو بات آپکو ناپسند رہی یا میر ا کوئی معاملہ اور عمل جس سے آپ کو تکلیف ہوئی ضرور معاف کردینگے،، نظام الدین،،،

1997کی بات ہے، میں ندوہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا، اس وقت کے صدر بورڈ حضرۃ الاستاذ مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی اور مولانا سید نظام الدین صاحب جو بورڈ کے جنرل سیکریٹری تھے نے چاہا کہ بورڈ کے ہیڈ آفس دہلی میں کوئی موزوں و قابل اعتماد رہے، صدر بورڈ کی رائے ہوئی کہ میں وہاں کیلئے مناسب رہونگا، مولانا نے حکم نہیں دیا، لیکن مولانا کی خواہش تھی کہ میں دہلی چلا جاؤں، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ندوہ سے تمہارا تعلق برقرار رہے گا، جنرل سکریٹری کو صدر بورڈ نے یہ اطلاع دیدی، اس موقع پر سکریٹری جنرل نے اس سلسلہ میں صدر بورڈ کو خط بھیجا، خط چونکہ میرے متعلق تھا اسلئے صدر محترم نے یہ خط مجھے دیدیا جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے، خط میں متعلقہ تما م امور کا ذکر ہے، تنخواہ، اور کھانے کے سلسلہ میں بتایا ہیکہ ملازم بنا دےگا لیکن سامان دینا ہوگا،‌اور مہمانوں کی ضیافت کا نظم آفس کی طرف سے ہوگا اور اخیر میں ہیکہ اگر،،، تیار ہوں تو پہلے پھلواری شریف آجائیں، میرے ساتھ کچھ دن رہیں، جیسا کو عرض کیا گیا مولانا کلی سوچ کے مالک تھے،

مولانا جہاں ایک خدا ترس، متدین، ذی استعداد قرآن و حدیث اور فقہ و تفسیر پر وسیع و عمیق نظر رکھنے والے عالم دین تھے وہیں معاملہ فہم، زیرک، صاحب تدبیر،جری و بیباک اور ہمدرد قائد و رہبر بھی تھے، اگر کسی قائد کا دل ان خوبیوں کے ساتھ صدق وامانت اور تدین و اخلاص جیسے اوصاف سے بھی مجلی ومصفی ہو تو ایسا قائد یقینا بہت عظیم ہوگا، اس پر توفیق الہی سایہ فگن ہوگی، اسکے برعکس تمام خوبیاں ہوں،‌ تمام اوصاف جمیلہ سے کوئی متصف ہو لیکن خلوص،‌خو ف خدا اور فکر آخرت سے محروم ہو تو ایسے قائد و رہبر سے قوم وملت کو فائدہ پہنچنے کے بعد نقصان ہی پہنچتا ہے، تباہی و بربادی قوم کا مقدر بن جاتی ہے، خطابت میں گہن گرج بھی ہو، بیان میں ادبی چاشنی بھی ہو، ایثار وقربانی کا بلند بانگ دعوی بھی ہو، اور شرر توحید اور عشق محمد کی چنگاری کے بجائے فقر و غنا کو مدار قوت و طاقت سمجھے، دل میں خوف خدا نہ ہو اور مقصود خوشنودئ رب نہ ہو تو ایسا رہبر کچھ بھی کرسکتا ہے، معاشرہ کو بانٹ سکتا ہے،مسجد کو بیچ سکتا ہے، قوم کا سودا کرسکتا ہے، دنیا طلبی و جاہ پرستی سے ھماری خود ی مر گئی، ان امراض نے طائر لاہوتی کے پر بے جان کر دئیے، بوئے اسد اللہی ہم سے رخصت ہوگئ، مولانا سید نظام الدین صحیح معنوں میں نامور اسلاف کے سچے جانشین اور انکی سیرت وکردار کے امین تھے، بانئی امارت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد اور شاہ منت اللہ رحمانی کی طرح انہوں نے بھی ملت کے مفاد کیلئے جب بھی ضرورت پڑی اہل اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، ایک طویل زمانہ تک دوروں میں مسجدوں کی چٹائیوں کو بچھونا اور بیل گاڑیوں کو سواری بنانے والےہمارے یہ بزرگ نہ اہل اقتدار سے کبھی مرعوب ہوئے، نہ کبھی احساس کمتری کا شکار ہوئے، نہ کبھی سرکاری و غیر سرکاری عہدوں کو نگاہ غلط انداز سے دیکھا، مولانا نے جس راستہ کو چنا تھا اسکے درست ہونے کا یقین محکم، عمل پیہم اور ملک و قوم سے محبت و خیر خواہی انکے فکرو عمل کے روشن باب تھے، مولانا کی دینی وملی خدمات و کارناموں اور انکی ذاتی زندگی کے محاسن و کمالات کے تذکرہ کیلئے ضخیم سوا نح کی ضرورت ہے،‌ ایک مختصر مضمون میں جلی عناوین ہی لکھے جاسکتے ہیں،
ع

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

از _ آفتاب عالم ندوی دھنباد جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے