وعدہ کر کے صنم نہ آتے ہو غزل پریم ناتھ بسملؔ جھوٹے وعدے، وعدہ توڑنے پر شاعری
غزل
وعدہ کر کے صنم نہ آتے ہو
اس قدر کیوں ہمیں ستاتے ہو
وعدہ کر کے صنم نہ آتے ہو
اس قدر کیوں ہمیں ستاتے ہو
غیر کے ساتھ ساتھ جاتے ہو
ہم عدو ہیں کہ آزماتے ہو
میرے رونے پہ مسکراتے ہو
دل میں اک آگ سی لگا تے ہو
عشق جب ہو گیا مجھے تم سے
بات کیا ہے کہ دور جاتے ہو
سوچتا ہوں میں ہر گھڑی تم کو
خواب میں تم ہی روز آتے ہو
جانے کیسا کیا سحر تم نے
رات دن تم ہی یاد آتے ہو
میں تڑپتا ہوں دید کا تشنہ
تم رقیبوں کو مے پلاتے ہو
دشنہ، دشنام اور ملامت سے
دشمنی خوب تم نبھاتے ہو
جو سمجھتے نہیں زباں دل کی
ان سے کیا حالِ دل سناتے ہو
اک ستمگر کے سامنے بسملؔ
اشک بے کار تم بہاتے ہو
0 تبصرے