ڈپٹی نذیر احمد کے حالات زندگی | ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبتہ النصوح کا تنقیدی جائزہ
ڈپٹی نذیر احمد کی پیدائش 1836 میں ضلع بجنور کے ایک گاؤں ریہرمیں ہوئی۔ ان کے والد مولوی سعادت علی خان ایک معلم تھے۔ لہذا نذیر احمد کو ان کے والد نے گھر پر عربی فارسی کی ابتدائی تعلیم دی۔ ابھی ان کی عمر نو سال کی تھی کہ ان کے والد انہیں دلی لے آۓ اور مسجد اور نگ آبادی کے مولوی عبدالحق کے حوالے کر گئے تاکہ وہ ان کو پڑھائیں اور عالم بنائیں۔ڈپٹی نذیر احمد نے 1845 میں دلی کالج میں داخلہ لیا تھا۔اِس کالج میں وہ 1854 تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے یہاں رہتے ہوئے فلسفہ، عربی اور ریاضی کی تعلیم لی۔تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد نذیر احمد نے اپنی ملازمت کا آغاز ایک مدرس کی حیثیت سے کیا۔ مگر خداداد صلاحیتوں اور کوششوں کی وجہ سے وہ جلد ہی ترقی کر کے ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے۔
ڈپٹی نذیر احمد کا تعارف | نذیر احمد کی ولادت کب اور کہاں ہوئی
ڈپٹی نذیر احمد نے انگریزی میں بھی کافی مہارت پیدا کر لی تھی جس کی وجہ سے انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ اُردو میں تعزیرات ہند کے نام سے کیا۔ اس کے صلے میں برطانیہ حکومت نے ان کو کو ڈپٹی کلکٹر مقرر کیا۔ ان کی خدمات کے صلے میں برطانوی حکومت نے 1897 میں شمس العلما کا خطاب دیا۔ 3 مئی 1913 میں ان کا انتقال ہو گیا۔
ڈپٹی نذیر احمد نے کا تعلیمی سلسلہ
ڈپٹی نذیر احمد نے مذہب، علم ریاضی، اخلاق، منطق، تفسیر قرآن، قواعد و قانون، فلسفہ سب پر قلم اٹھایا مگر ان کا سب سے قابل قدر کارنامہ ناول نگاری ہے۔ وہ اردو کے پہلے ناول نگار تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان کے ناول مراة العروس، بنات النعش، توبتہ النصوح، فسانہ مبتلا،ابن الوقت، ایامی اور رویائے صادقہ کو اردو ناول کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ تاہم ان میں توبتہ النصوح کو ان کے سبھی ناولوں پر ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ اس میں ناول کے فنی لوازمات پر دوسرے ناول کے مقابلے زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد نے ایسے دور میں آنکھ کھولی جب قوم میں اخلاقی پستی، جہالت اور غفلت پائی جاتی تھی۔ نئی روشنی سے وہ مرعوب تھی۔ مذہب اور علم کی جانب سے بے راہ روی اختیار کر لی تھی۔ نذیر احمد نے ان حالات کا جائزہ لیا اور تمثیلی کردار وضع کئے اور سماجی و علمی پستی کو دور کرنے کے لئے ناول کی تخلیق کی۔ توبتہ النصوح بھی ایک مذہبی تمثیل ہے جو مسلمانوں کی بگڑتی دینی حالت کی اصلاح کے لئے تخلیق کی گئی ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کا ناول توبتہ النصوح کا تنقیدی جائزہ
توبتہ النصوح میں ڈپٹی نذیر احمد نے مذہبی اور گھریلو تعلیم و تربیت کو موضوع بنایا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ گھروں میں تعلیم کی طرف سے لاپرواہی ہونے کی وجہ سے مسلمان بچے اپنی ذہنی قوت ضائع کرتے ہیں اور مذہبی اور روحانی ترقی۔ سے دور ہوتے ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد کا ناول توبتہ النصوح کے کردارتنقیدی جائزہ
یوں تو اس ناول میں کئی کردار ہیں لیکن نصوح اور اس کا بیٹا کلیم اور کلیم کا دوست مرزا ظاہر دار بیگ اہم کردار ہیں۔ انہیں کرداروں کے ارد گرد ناول کا تانا بانا بنایا گیا ہے۔ ناول میں نصوح آزاد طبعیت اور بے پروا فرد ہے اپنے گھر اور بیوی بچوں یا امور خانہ داری سے کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے۔ شہر میں یک بیک ہیضہ کی وبا پھیل جاتی ہے۔ نصوح کے گھر میں پے در پے موت کا سلسلہ جاری ہے۔ اتفاق سے نصوح بھی ہیضے کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسے خواب آور دوا دیتا ہے۔ نیند آنے پر وہ ایک طویل خواب دیکھتا ہے جس میں دوزخ و قیامت کے احوال سب کچھ بعینہ نظر آتے ہیں۔ خواب سے جاگنے پر وہ ہراساں پریشان اور خائف ہو جاتا ہے۔
ناول توبتہ النصوح کا خلاصہ
نصوح کو اس خواب کے بعد اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ سارے خاندان کی اصلاح کا خیال پیدا ہوا۔ شروع میں اسے طرح طرح کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن چونکہ نصوح اصلاح پر ایمان رکھتا تھا اور خود کو حق بجانب سمجھتا تھا اس لیے وہ ساری مشکلات پر غالب آتا ہے۔ کلیم کے د دوست مرزا ظاہر دار بیگ کی رفاقت اور اور اس کا سلوک ایک بڑا ہی دلچسپ اور عبرت آموز واقعہ ہے۔ اس ناول کے کرداروں میں کلیم اور ظاہر دار بیگ لافانی ہے۔
توبتہ النصوح ناول کے فنی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا
بلاشبہ توبتہ النصوح ناول کے فنی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا ہے۔ لیکن اس ناول کا ادبی مرتبہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ڈپٹی نذیر احمد نے اردو ادب میں داستانوں کے مافوق الفطری کرداروں کے بجائے ایسے کرداروں کو پیش کیا جن کے عادات و اطوار اور ان کی زندگی کے مسائل عام انسانوں کی طرح ہیں۔ ان کے بولنے کا لہجہ اور ایک دوسرے سے معاملات اور ان پر اظہار خیال بالکل عام انسانوں کی طرح ہیں۔ اتنا ہی نہیں پریشانیوں میں گھرنا اور اور ان پر قابو پانے کے لئے ہر کردار کا جد وجہد کرنا اس ناول کے واقعہ کو دلچسپ بناتا ہے۔
چونکہ یہ ناول ایسے دور کی پیداوار ہے جب مسلمان سماجی، سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے نہایت کمزور ہو گئے تھے نتیجتاً ان کے اندر کھوکھلا ظاہر داری کا مزاج ان کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکا تھا۔ پرانی قدر یں ٹوٹ رہی تھیں اور مغربی قدر یں حاوی ہوتی جا رہی تھیں۔ کلیم اور مرزا ظاہر دار بیگ کا کردار اس حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے اور اس نسبت سے ناول کے کرداروں میں کلیم اور ظاہر دار بیگ لافانی کردار ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد کا ناول توبتہ النصوح کے زبان و بیان کاتنقیدی جائزہ
زبان و بیان پر ڈپٹی نذیر احمد کو کمال حاصل تھا۔ لہذا ناول کے واقعات کے تناظر میں کرداروں کی گفتگو فطری معلوم ہوتی ہے۔ البتہ کہیں کہیں پر ناصحانہ مکالمہ کی وجہ سے بعض واقعات ذہن پر گراں گزرتے ہیں۔ چونکہ اس ناول کی تخلیق کا مقصد اصلاحی ہے اور چونکہ اردو ادب میں ناول کا کوئی تصور نہیں تھا۔ لہذا توبتہ النصوح کی فنی کمزوریوں کو اس بنا پر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے