جھارکھنڈ کی سیاست میں ہندو مسلم کا کنگ کوبرا
مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ
اس وقت جھارکھنڈ کا الیکشن سر پر ہے، پہلے مرحلہ کی ووٹنگ ہو چکی ہے، تمام پارٹیاں راگ الاپنے میں لگی ہوئی ہیں۔ طرح کے کے وعدوں کے گلدستے پیش کررہی ہیں، بڑے بڑے سپنے سجارہی ہیں۔ اور کسی بھی پارٹی کا یہی سب بڑا ہتھیار ہوتا ہے جس کو وہ استعمال کرکے عوام کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور اپنا ووٹ بینک حاصل کرتی ہیں۔
جھارکھنڈ جنگلات، صحرا و بیاباں فلک بوس پہاڑ اور اٹھکیلیاں کرتی ندیوں میں گھرا ہوا ہے اور اپنی خوبصورتی کی دہائی دیتا ہے۔ اس کھلی فضا میں یہاں کے باشندوں کا ذہن بلکل صاف اور شفاف ہوتا ہے، ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا ہوتا ہے حتی کہ محنت مزدوری میں بھی لگے بندھے ہیں یہاں بھائی چارگی کی وہ مثال ملتی ہے کہ شکل دیکھ کر یا پھر لباس دیکھ کر آپ نہیں پہچان سکتے کہ کس دھرم کا آدمی ہے تاآنکہ آپ نام نہ پوچھ لیں۔
لیکن سیاست بلکہ موجود سیاست خصوصاً برسر اقتدار پارٹی کے ذہن میں کوبرا پل رہا ہے یا یوں کہ لیجئے یہ افراد اسی کی نسل ہے۔ ملکی سطح پر جو زہر افشانی کرتی ہے اور نفرت واد کا جو زہر گھولتی ہے ملک کا ذمہ دار جس کی زبان بھی اس گھناؤنی سازش کا شکار ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے، اس کا نتیجہ سوائے خون خرابا، مذہبی تعصب اور پھر توہین مذہب، مساجد کی مسماری، سفر میں مابلگنچگ، گھر میں گھس کر آتنگی حملے، مدارس پر سروے، پرسنل لا میں رکاوٹ، وقف جائداد پر قبضہ اور اس سے بھی بھانک صورت حال کا سامنا ممکنہ طور پر ہوسکتا ہے۔ سیکولر کہے جانے والا یہ ملک نفرت کی بھٹی میں جل رہا ہے اور کھیون ہار تماشائی بنے ساحل پر کھڑے نظارہ کررہے ہیں۔
کنگ کوبرا نے اب اپنی زہر کی تھیلی جھارکھنڈ میں کھول دی ہے اور اپنی پھونکار سے ہندو مسلم کے زہر کو ہوا دے رہا ہے۔ گاؤں گاؤں، شہر شہر، گلی گلی میں سبھا کرکے مجع عام میں بٹوارے اور نفرت کا زہر پیوست کررہا ہے جس کا اثر ٹی وی چینلز کے ذریعہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ شاید کہ ملک کی برسر اقتدار پارٹی کے پاس کوئی مدعا نہیں ہے اس لیے وہ کبھی خارجہ پالیسی کا ذمہ دار راجیہ سرکار کو ٹھہراتی ہے اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کے جھارکھنڈ میں بس جانے کا دعویٰ کرتی ہے اور اسی جملہ پر عوام سے تالیاں پٹواتی ہیں۔ یہ عقل سے پرے بات ہے کہ جس کی ذمہ داری باڈر کی حفاظت ہے اسی کی فوج وہاں تعینات ہے وہ کیسے راجیہ سرکار کو یہ کہ سکتی ہے کہ باہری مسلمان یہاں آباد ہیں، اپنی ناکامی کا سہرا دوسروں کے سر پر باندھا کوئی ان سے سیکھے۔ سیکولر ملک کا کسی بھی وزیر کا یوں مسلم دشمنی کا اظہار کرنا تاریخ کا شاید پہلا باب ہے۔ جس کا یہ نعرہ کہ۔۔ بٹو گے تو کٹوگے۔۔ ایک رہوگے سیف رہو گے۔۔۔ اندازہ لگایا جا سکتا کہ ذہنیت کیا ہوگی۔
جھارکھنڈ کا ماحول اس زہر میں گھل گیا ہے، جس کی زندگی کا مشن ہی تھا محنت مزدوری کرنا اب وہ سادہ لوح بھی نفرت کی توا گرم کررہا ہے، میں نے خود کئ جاننے والے ہندو بھائیوں سے سنا کہ مسلمان۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کا کام ہی معاشرہ میں تفرقہ بازی، آپس میں پھوٹ ڈالنا اس سے خیر کی امید لگانا حماقت سے کم نہیں ہے۔ اسی پارٹی کا ایک وزیر کا بیان ہے کہ " ہماری حکومت آئے گی تو مسلمانوں کو آرکچھن نہیں دیں گے ان کا ریزو لیشن ختم کردیں گے" ہمیں یقیناً آپ کا آرکچھن نہیں چاہئے لیکن ہم اپنا حق وصولناجانتے ہیں۔ مسلمان کوئی بھکاری نہیں ہے جو کسی کے ٹکڑوں پر پلتا ہو یہ قوم خوددار ہے البتہ منافقت ہر جگہ پائی جاتی ہے۔
جھارکھنڈ کی فضا جو بدلی ہے اور نفرت کا جو ماحول بنا ہے وہ یقیناً زور پکڑے گا لیکن ایسے بھی کچھ سنجیدہ قسم کے لوگ ہیں جنہیں اس طرح کے بیانات سے چڑ ہے وہ یقیناً اس کنگ کوبرا کو پنپنے نہیں دیں گے لیکن جو اسفل طبقے کے لوگ ہیں وہ بھول نہیں پائیں گے کیونکہ وہ سادہ لوح تھے جس میں زہر پیوست کردیا گیا۔
ووٹ مانگنے کا اور بھی مدعا ہوسکتا تھا اگر زمینی سطح پر کام نہ بھی ہوا ہو تب بھی جھوٹ بول کر عوام کو دھوکہ دیا جاسکتا تھا لیکن اس کو بھی معلوم ہے کہ جھوٹ کا پردہ فاش ہوتے دیر نہیں لگتی اسی لئے انگریزوں کے اصول پر کار بند رہتے ہوئے۔۔ پھوٹ ڈالو حکومت کرو۔۔ کو اپنا نصب العین بنایا اور جھارکھنڈ جو کبھی اس طرح کے ماحول سے صاف ستھرا تھا اس کو گدلا کردیا گیا۔
ہمیں یقین ہے کہ اہل جھارکھنڈ اپنی سابقہ روش پر برقرار رہتے ہوئے آپسی منافرت کو ختم کریں گے، خلیج کو دور کریں گے، اسی امن و سکون کا مظاہرہ کریں گے جو جھارکھنڈ کے باشندوں کو زیب دیتا ہے۔ ہندو بھائیوں سے امید ہے کہ نفرت کے سودا گروں کو کھدیڑیں گے اور یہ جتلا بھی دیں گے کہ ہم صرف سنتے ہیں لیکن کرتے وہ ہیں جو جھارکھنڈ کیلئے مناسب ہو۔
0 تبصرے