جو بھی پیش آئے جدائی میں الم سہنا ہے - درد بھری غزل
غزل
جو بھی پیش آئے جدائی میں الم سہنا ہے
کبھی سہنا ہے زیادہ کبھی کم سہنا ہے
کبھی سہنا ہے زیادہ کبھی کم سہنا ہے
تم سے الفت ہے اگر اتنا تو غم سہنا ہے
تم نے کرنا ہے ستم ہم نے ستم سہنا ہے
جو بھی ہو جائے وہ منظور ہے مجھ کو جانم
جھوٹ کہتی نہیں میں تیری قسم سہنا ہے
گرچہ آسان نہیں رنج کا سہنا لیکن
یہ جو تقدیر میں لکھا ہے صنم سہنا ہے
زہر کی طرح جدائی ہے یہ سب کہتے ہیں
مجھ کو اے جان جدائی کا یہ سُم سہنا ہے
رتجگے جیسے بھی آ جائیں مجھے سارے قبول
میری آنکھوں نے ترے ہجر کا نم سہنا ہے
چاند پر پاؤں رکھو تاروں پہ چل کر آؤ
تری فرحتؔ نے ترا دل پہ قدم سہنا ہے
فرزانہ فرحت
لندن
Tanhai Ka Gham Urdu shayari
بلکل تازہ کلام
فرزانہ فرحت لندن
خواب و خیال کا کوئی انبار مجھ میں تھا
کیسا اُداس اک دلِ بیمار مجھ میں تھا
فرزانہ فرحت لندن
خواب و خیال کا کوئی انبار مجھ میں تھا
کیسا اُداس اک دلِ بیمار مجھ میں تھا
عشقِ خدا تھا اور تھا عشقِ رسول بھی
یعنی وہ ایک منبعِ انوار مجھ میں تھا
یوں ڈوبتی رہیں مری چاہت کی کشتیاں
رنج و الم کا درد کا منجدھار مجھ میں تھا
لکھتی رہی تھی میں جسے شعروں میں ڈھال کر
وہ جذبہ ء جنوں تھا جو بیدار مجھ میں تھا
یہ کہہ گیا ہے مجھ سے محبت کا ایک خواب
میں سو رہا تھا اور کوئی بیدار مجھ میں تھا
شکوہ بھی کرنے دیتا نہ تھا مجھ کو جو ترا
فرحتؔ یہ کون تیرا طرفدار مجھ میں تھا
فرزانہ فرحت
لندن
Farzana Farhat
London, UK
0 تبصرے