Ticker

6/recent/ticker-posts

سانحہ فلسطین اور ہمارا رد عمل

سانحہ فلسطین اور ہمارا رد عمل


ﺟﺲ ﺯﻣﯿﮟ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ کھلا ﻣﯿﺮﮮ ﻟﮩﻮ ﮐﺎ ﭘﺮﭼﻢ
ﻟﮩﻠﮩﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮨﺎﮞ ____ ﺍﺭﺽ ﻓﻠﺴﻄﯿﮟ ﮐﺎ ﻋَﻠَﻢ
ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻋﺪﺍ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ____ ﺍﯾﮏ ﻓﻠﺴﻄﯿﮟ ﺑﺮﺑﺎﺩ
ﻣﯿﺮﮮ ﺯﺧﻤﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺌﮯ, ﮐﺘﻨﮯ ﻓﻠﺴﻄﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ
ﻓﯿﺾ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﯿﺾ !

سب سے پہلے ایک مستند روایت ملاحظہ کریں تاکہ اہل فلسطین کے جنگی محاذ پر ڈٹے رہنے کی روحانی وجہ معلوم ہو جائے اور قارئین اس مضمون کو پڑھ کر صحیح تجزیہ کر سکیں۔



سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اس معاملے کی ابتدا نبوت و رحمت سے ہوئی ہے، اس کے بعد خلافت و رحمت ہو گی اور پھر بادشاہت اور رحمت۔ بعد ازاں گدھوں کا ایک دوسرے کو کاٹنے کی طرح لوگ اس پر ٹوٹ پڑیں گے، تم جہاد کو لازم پکڑنا، بہترین جہاد، رباط (سرحد پر مقیم رہنا) ہے اور (شام کے ساحلی شہر) عسقلان کا رباط سب سے افضل ہے۔“
( سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی)

14جنوری 2025 کو لگ بھگ 1 سال،3 مہینے اور 7 دنوں یعنی 15 مہینوں کے بعد یعنی 467 دنوں کے بعد فلسطین- اسرائیل کے بیچ جنگ بندی Ceasefire کا اعلان ہوا۔ لاکھوں معصوموں کی قربانی کام آئی، اور ثابت ہوا کہ " اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد"۔ پوری دنیا جس اسرائیل کو جھکا نہیں سکی اس کو بظاہر کمزور حماس نے سمجھوتا کرنے پر مجبور کر دیا، اس لئے کہ اہل حق کے ساتھ کائنات کا رب تھا۔ جاتے ہوئے یہ سانحہ رہتی دنیا تک کے تمام مسلمانوں کو یہ سبق یاد دلا گیا کہ جنگ ہمیشہ صرف اللہ کے بھروسے ہی جیتی جاتی ہے۔جو اللہ سے ڈرتے ہیں ان سے بڑی بڑی حکومتیں ڈرتی ہیں اور بالآخر حق کی جیت ہوتی ہے۔ اے اہل فلسطین تمہیں دشمنوں کے ظلم سے نجات مبارک ہو۔فلسطین زندہ باد ....!!!

مضمون کے آخر میں "جنگی واقعات کے سلسلہ" کے تحت مختصر اہم واقعات درج کیے گئے ہیں۔ اس ایک سال کے دوران دنیا نے حق اور باطل طاقتوں کے بیچ جو جنگی کشمکش دیکھی، ماضی قریب میں نہیں دیکھی ہوگی۔ ظاہری طور پر باطل کامیاب نظر آتا ہے لیکن آزمائشوں کے بعد ان شاءاللہ حق غالب ہوتا اور باطل مغلوب۔ حق آیا ہی ہے غالب ہونے کے لئے۔

7 اکتوبر 2023 کو اکیسویں صدی میں بدر ثانی کا آغاز ہوا۔ بدر اول دراصل باطل نظام پر نظام حق کے نفاذ کا اعلان تھا جس کے نتیجے میں آج پوری دنیا میں امت حق باقی ہے۔ ان دنوں خطہ فلسطین میں کربلا کا منظر ایک بار پھر سے سامنے آیا ہے۔ ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ اور دوسری طرف بظاہر دنیا کا سب سے چھوٹا گروہ حماس۔ دنیا نے دیکھا کہ بدر اول کی طرح اب بھی اللہ تعالیٰ کی مدد آئی اور ان شاءاللہ جنگ بدر کی ہی طرح مجاہدین کی فتح بھی ہوئی۔فروری ماہ میں رمضان کی آمد کے پہلے حق پر ڈٹے رہنے کا اعلان بغیر اللہ کی مشیت کے ممکن نہیں ہے۔ بہت تیزی سے ہم ایک بڑی جنگ (ملحمتہ الکبریٰ) کی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے بیچاری عوام بے خبر اور خواص لاپروا ہیں ،الا ماشاءاللہ۔

حقیقت میں یہ جنگ شیطانی طاقتوں کے ذریعہ ایک بہادر قوم کی نسل کشی تھی۔ایسا لگتا ہے کہ عنقریب دجال کی فوج سے لڑنے والی مستقبل کی فوج کا پوری منصوبہ بندی کے ساتھ بچپن میں ہی قتل عام کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف مومنوں کی مٹھی بھر تعداد تو دوسری طرف دنیا بھر کی بڑی اور بے رحم طاقتیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد مسلمانوں کو عالمی سطح پر پہلی بار ایک ایسی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس میں مضبوط دشمن کے سامنے کمزور مسلم مجاہدین اللہ کے بھروسے ڈٹ گئے اور دنیا پکار اٹھی کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ اللہ نے چاہا تو یہ جنگ پوری دنیا کا نقشہ بدل دے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کوئی بہت بڑا فیصلہ لینے والا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی خطہ بدلاؤ سے نہیں بچے گا۔

سورہ بقرہ آیت 214 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

" کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تمہیں وہ (حالات) پیش نہیں آئے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور ہلا دیے گئے یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھی پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب ہوگی! سنو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے"۔

بیشک ایسے حالات میں ہی اللہ کی مدد اترتی ہے۔دین اور دینی شعار کی حفاظت کے لئے ایسی ہی قربانیاں درکار ہوتی ہیں اور یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ بے شک جنت تلوار کے سائے تلے ہے۔دور نبوی کے بعد ارض فلسطین میں شہید ہونے کا شوق و صبر شاید دنیا نے بیک وقت پہلی بار محسوس کیا ہوگا۔

اس جنگ میں فلسطینی مجاہدین اور عوام کے ایمان نے صحابہ کرام کے ایمان کو ایک بار پھر تازہ کردیا اور فتنوں کے دور میں بھی آئندہ نسلوں کے لئے ایک نمونہ پیش کردیا۔ ایک طرف ان کا ایمان اور جوش شہادت اور دوسری طرف دنیا بھر کے مسلمانوں کا ایمان،کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا ہے ۔بیشتر مسلم ممالک نے دشمنوں کی خاموش حمایت کرکے ایمان فروشی کا ثبوت دیا ہے وہیں واحد نوزائیدہ ملک جنوبی افریقہ نے اقوام متحدہ میں قتل عام کے خلاف آواز بلند کیا۔ طرہ یہ کہ اسی دوران مملکت سعودیہ نے اپنے ہمنوا خبیثوں کی ضیافت کے لئے شراب کی دوکانیں کھول دی۔ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا کی ایمانی حرارت کا مرکز حرمین نہ ہوکر ارض فلسطین ہو گیا ہے۔60 سے زائد مسلم ممالک آپسی اختلافات اور دنیاوی مفادات کی وجہ سے اتحاد قائم نہ کرسکے تو یقیناً کفر کے خیمے میں اتحاد ہوگیا اور دنیا میں فساد پھیل گیا۔

اسی کوتاہی کی طرف قرآن کے سورہ انفال آیت 73 میں اللہ تعالیٰ نے ناکامی کی وجہ اور اس کی وعید کو اس طرح بیان کیا ہے۔

ترجمہ: " اور جو لوگ کافر ہیں وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم یوں نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ پھیلے گا اور بڑا فساد ہوگا"۔

اِلَّا تَفْعَلُوْهُ: یعنی اگر تم آپس میں محبت، حمایت اور نصرت نہیں کرو گے اور کفار سے ترک موالات نہیں کرو گے، یعنی ان کے ساتھ باہمی محبت، تعاون اور ایک دوسرے کا وارث بننا نہیں چھوڑو گے اور قطع تعلق نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا، نہ کافر مسلمان کا وارث بنتا ہے۔‘‘
[ بخاری، الفرائض، باب لا یرث المسلم الکافر..: ۶۷۶۴۔ مسلم : ۱۶۱۴

پچھلی کئی صدیوں میں مومن جانوں کی ایسی بے حرمتی دنیا نے نہیں دیکھی ہوگی۔اپنے مردہ بچوں کے جسموں کے چیتھڑوں کو بیگ میں لہراتے ہوئے باپ کی کانپتی تصویر دنیا کی نظروں سے نہیں گزری ہوگی۔ قبروں کو مسمار کرتے ہوئے کسی کی نظروں نے نہیں دیکھا ہوگا۔ بچوں کا قتل کرتے ہوئے فرعون کو نہیں دیکھا ہوگا۔ڈاکٹر سمیت جان بچانے والوں کی پوری ٹیم کے پہاڑ جیسے حوصلے کو دنیا کی نظروں نے شاید پہلی بار دیکھا ہوگا۔جرمنی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مظلوموں پر ہو رہے ظلم کو دیکھ کر جرمنی کا ہٹلر بھی پانی بھر رہا ہوگا۔ ہر دن موت کی نئی شکل پھر بھی زبان پر " اللہ اکبر.." اور " انا للہ وانا الیہ راجعون" کا نعرہ بھی وللہ دنیا نے اب سے پہلے شاید ہی کبھی سنا ہوگا۔ ایک ہی خاندان کے درجنوں افراد کی شہادت پر اللہ تعالیٰ کا شکر،ایسی مثال بھی دنیا نے کبھی پیش نہیں کیا ہوگا۔ معصوم بچوں کو گھاس کھاتے ہوئے ہماری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔اپنے پیاروں کے جسم کے ٹکڑوں کو پلاسٹک کی تھیلی میں جمع کرکے دفن کرنا کبھی سنا نہیں گیا ہوگا۔ قرآن کی آیات کا حوالہ دے کر مردہ مسلم دنیا کو جھنجھوڑنے کی صدا بھی دنیا نے پہلے کبھی نہیں سنی ہوگی۔تقریباً ایک سال کی جنگ کے بعد شہیدوں کو قبرستان کی بجائے سڑک پر دفن کرنے کا واقعہ بھی پہلے کبھی نہیں گزرا ہوگا۔

اے اللہ..اگر تو ان بچوں کی شہادت سے راضی ہے تو ہم بھی تیری رضا پر راضی ہیں"رضائے الٰہی کی ایسی مثال بھی موجود دنیا نے نہیں دیکھی ہوگی۔شہید بچی کے ہاتھ میں بسکٹ دیتے ہوئے اس کا باپ کہتا ہے جا بیٹی جنت میں کھا لینا، آخرت کا ایسا یقین بھی دنیا نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا۔ ان شاءاللہ روز آخرت خاص طور پر شہید بچے دنیا بھر کی خاموش قیادتوں سے اپنا حق ضرور طلب کریں گے۔ حق کی صحافت کرنے والے جانباز صحافیوں کی قربانی بھی ان آنکھوں سے پہلے کبھی گزری نہیں ہوگی۔ اقوام متحدہ کی انسانی سلامتی ایجنسیوں کو خوراک پہنچانے سے روکا گیا۔ بہرحال اگر یہ ظلم کا عروج ہے تو اس کا زوال بھی آئے گا۔ ان شاءاللہ وہ تو محشر میں سرخرو ہونگے لیکن ہمارا ( بقیہ امت مسلمہ) کا کیا ہوگا...!..ان شاءاللہ معصوم بچوں کے خون کا ہر ایک قطرہ آخرت میں موتی کی طرح چمکے گا جبکہ خاموش امت مسلمہ کٹہرے میں ضرور کھڑی کی جائے گی۔ سوچنا ہوگا کہ جنگ کے اس دور میں ہم نے اپنا کیا رول ادا کیا...!!..اے اللہ ہمیں معاف کر دے،ہم فلسطین کے مظلوم بھائیوں کی کوئی مدد نہیں کرسکے۔سمجھ میں نہیں آتا ہزاروں کیلو میٹر دور بیٹھ کر دعا کے علاوہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ہمارے قائدین بھی خوف زدہ ہیں ان کو حوصلہ عطا فرما۔

اصل میں اس جنگ کا مقصد ایک طرف مسجد الاقصیٰ کی حفاظت اور دوسری طرف گریٹر اسرائیل کا قیام کرکے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا ہے تاکہ ان کے عقیدے کے مطابق دجال کی آمد کے لئے حالات تیار کیا جاسکے۔ اس جنگ کی بنیاد میں صدیوں پرانی مذہبی نظریات کا ٹکراؤ ہے۔ ایک طرف لڑتے ہوئے جنگجوؤں کی ایک چھوٹی سی تعداد باطل کے خلاف سینہ سپر ہے اور دوسری طرف دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی کے مضبوط ایمان والے بظاہر کمزور مسلمان۔ مگر دنیا بھر کے بیشتر مسلم ممالک کے رویے سے لگتا ہے ہم اسلام کی بنیادی تعلیم کو بھی بھلا بیٹھے ہیں کہ مومن آپس میں بھائی کی طرح ہیں۔خون کے رشتے سے بھی مضبوط ایمان کا رشتہ ہوتا ہے۔

شاید ہم وہ حدیث بھی بھول گئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ " باہمی محبت اور رحم وشفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں"۔(صحیح مسلم) اسی طرح کی کئی احادیث ہیں پھر بھی ہم حق کے سپورٹ میں مل کر کھڑے ہونے کی ہمت نہیں جٹا سکے۔ ہماری صبح و شام میں کوئی فرق نہیں آیا۔الا ماشاءاللہ

صرف ایک مخصوص گروہ کو چھوڑ کر لگ بھگ ساری دنیا بشمول مسلمانوں نے حق کی جنگ کو روکنے کی بات کی اس لئے کہ تمام مسلم حکمرانوں اور عوام کو جنگ کا ساتھ دینے میں اپنی دنیا لٹتی ہوئی نظر آرہی تھی۔60 سے زائد مسلم حکمرانوں کی بے حسی، بے توجہی، اور بزدلی نے دنیا بھر میں انہیں غیروں کے سامنے ذلیل تو کیا ہی ساتھ میں ان کی منافقت بھی منظر عام پر آگئی،واللہ اعلم۔ ہائے ہماری بزدلی کہ اتنے ممالک مل کر بھی روتے بلکتے اور زخمی بچوں کو ایک گلاس پانی بھی مہیا نہیں کرا سکے۔

حالانکہ قرآن کے سورہ نساء آیت 75 میں اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر بہت سخت لہجے میں بیان کرتا ہے " اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے"۔

اگر مسلم ممالک میں آج بھی اتحاد پیدا ہوجائے تو بڑی سے بڑی طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔

اگر خبروں کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غیر مسلم ممالک میں اسرائیل کے خلاف یا فلسطین کے سپورٹ میں زیادہ مظاہرہ ہوا ہے۔ برصغیر لگ بھگ اس سے خالی رہا۔ پہلی بار یہ احساس ہوا کہ پوری غیر اسلامی دنیا میں عوام کے اندر انسانی ہمدردی ابھی بھی زندہ ہے۔ جہاں ایک طرف شیطانیت کے سہارے ظالم حکومتوں کا انتقام ہے وہیں دوسری طرف انسانیت کی بنیاد پر دنیا بھر میں فلسطین کی حمایت میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ لیکن برصغیر میں اللہ تعالیٰ نے شاید ہم سے یہ توفیق بھی چھین لیا ہے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے حق میں کسی طرح کا کوئی مظاہرہ بھی کرسکیں۔

ہم تو اس دور میں بھی عرس و میلاد، جلسوں اور مشاعروں کا اہتمام کرتے رہے۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ نے ہم جیسے مسلمانوں کو کنارے تو نہیں کردیا ہے۔ خاموش امارات، بے زبان ادارے، بے حس امت اور علماء دانشوران کی ان کو خاموش تائید برصغیر میں بھی ایک خطرناک مستقبل کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ تو حکومتوں کا کام ہے عوام کیا کر سکتی ہے ..! ایسے لوگوں کو دنیا بھر میں درجنوں بڑے ممالک میں غیر مسلموں کے مظاہروں سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ یاد رکھنا چاہئے جب عوام بے حس ہو جاتی ہے تو حکومتیں آوارہ ہو جاتی ہیں۔جہاں کہیں بھی غیر مسلم ممالک میں لوگ سڑک پر آئے وہاں حکومتوں پر دباؤ پڑا اور کسی نے انہیں نہیں روکا۔ لیکن برصغیر اور عرب ممالک میں عوام کی بے حسی نے بزدلی کا ثبوت دیا ہے۔

عام مسلمانوں نے اسے صرف ایک جنگ ہی سمجھا جبکہ خواص نے اس پر کسی حد تک لکھا،پڑھا،سنا اور گفتگو بھی کی۔ بدر اول کی طرح اس جنگ کو بھی دنیا کچھ دنوں میں بھلا دے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ بھولنے والا نہیں ہے۔وہ ہماری کوتاہیوں کو یاد رکھے گا۔ اس کی سنت بدلتی نہیں ہے۔اس کی سنت یہی ہے کہ اللہ اپنے راستے میں جدوجہد کرنے والوں کی مدد ضرور کرتا ہے اور آخرت میں سرخرو بھی بناتا ہے ۔اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ منافقت اختیار کرنے والوں کو دنیا میں ذلیل کرتا ہے اور آخرت میں سخت پرسش بھی کرے گا۔

مومنوں کا ایک قلیل ایماندار گروہ بقیہ مسلمان دنیا سے مدد کی بھیک مانگ رہا تھا اور وہ حکمت کے تحت کمزور ایمان کی وجہ سے صرف اللہ سے ان کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے۔ وہاں کے بچے گہار لگاتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں سے کہہ رہے تھے کہ ہمارے شہیدوں کا جنازہ تم مت پڑھو بلکہ اپنا جنازہ پڑھ لو،اس لئے کہ تم زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ ہو چکے ہو اور ہم صرف ان کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے۔ بیشک دعا مومنوں کا ہتھیار ہے لیکن دوا کے بعد۔ کیا ہماری تاریخ ایسی ہی رہی ہے؟

بیشک اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت قیامت تک کرتا رہے گا۔ بیت المقدس کی وہ مقدس سرزمین جہاں تقریباً تمام انبیائے کرام کے مبارک قدم پڑے ہیں، کی حفاظت فلسطینی جانبازوں سے کر رہا ہے۔ کچھ لوگ تو اب تک یہی سمجھتے رہے ہیں کہ فلاں مسلک والے ہی حق پر ہیں اور قیامت کی صبح تک رہیں گے۔ اس جنگ نے اس بھرم کو توڑ کر یہ ثابت کر دیا کہ ایک گروہ حق کو باطل پر غالب کرنے کے لئے اپنے جان و مال کی قربانی دے کر قیامت تک لڑتا رہے گا۔ حق آیا ہی ہے غالب ہونے کے لئے۔

شاید صحیح مسلم کی یہ حدیث انہیں لوگوں کے لئے ہے ، "جابر بن عبداﷲ سے روایت ہے میں نے سنا رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم سے، آپ فرماتے تھے ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا حق پر لڑتا رہے گا قیامت تک"۔

آئیے مسلکی غلط فہمیوں سے باہر نکلنے اور فلسطین کے جانبازوں کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا " میری امت کا ایک گروہ لڑتا رہے گا دمشق کے دروازوں اور اس کے اطراف اور بیت المقدس کے دروازوں اور اس کے اطراف۔ ان کی مخالفت کرنے والا ان کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور وہ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔
( طبرانی،مجمع الذوائد اسناد صحیح )

اب آخر میں حق کی خاطر لڑنے والے گروہ کو تقویت پہنچانے والی ایک مستند حدیث بھی جان لیں تاکہ اس علاقے کی واضح نشاندہی ہو جائے جس کے باشندوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس معاملے کی ابتدا نبوت و رحمت سے ہوئی ہے، اس کے بعد خلافت و رحمت ہو گی اور پھر بادشاہت اور رحمت۔ بعد ازاں گدھوں کا ایک دوسرے کو کاٹنے کی طرح لوگ اس پر ٹوٹ پڑیں گے، تم جہاد کو لازم پکڑنا، بہترین جہاد، رباط (سرحد پر مقیم رہنا) ہے اور (شام کے ساحلی شہر) عسقلان کا رباط سب سے افضل ہے۔“
( سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی)

جنگی واقعات کا سلسلہ:

تقریباً 7 مہینے کی جنگ کے بعد 10 مئی 2024 تک اسرائیل کی رفع پر بمباری جاری تھی۔پوری دنیا یہاں تک کہ اسرائیل کے دوست ممالک بھی شیطن یاہو ( اسرائیلی وزیراعظم Netanyahu ) کے خلاف کھڑے ہو چکے ہیں پھر بھی اسرائیلی حکومت فلسطینی نسل کشی کا پکہ ارادہ لیے پھر سے بڑی جنگ کے لئے تیار ہے۔ دنیا بھر کے نام نہاد امن پسند ادارے اسرائیل کے خلاف ہو چکے ہیں پھر بھی شیطانی حکومت حماس کو مٹا دینے کے نام پر اپنی ضد پر ڈٹا ہوا ہے۔ پوری دنیا میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہروں نے پچھلے تمام مظاہروں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حماس حق پر ہے۔

5 جون 24 کو حماس کو تباہ کرنے کے لئے UN SCHOOL پر حملہ کیا جہاں لوگ اپنی جان بچانے کے لئے چھپے ہوئے تھے۔صیہونی طاقت مسیح دجال کی آمد کا ماحول بنا رہی جس کے لئے قتل عام کرکے پورے فلسطینی علاقے کو خالی کروا کر یہودی بستی بسانا چاہتی ہے۔ جولائی 24 کے پہلے ہفتہ میں دنیا نام نہاد جنگ بندی کے نام پر قطر میں لاحاصل محفلیں سجا رہی ہے۔ حماس اور اسرائیل کی شرطیں آپس میں ٹکرا رہی ہیں اور عوام کا قتل جاری ہے۔اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک جس کو پوری دنیا کے حکمران قابو نہیں کر پارہے ہیں۔ کسی بھی ملک کا اسرائیل پر کھل کر حملہ نہیں کرنا میری نظر میں اسرائیلی جارحیت کی خاموش تائید ہے۔ لگتا ہے کہ اب اس قتل پر شاید کہیں کوئی گفتگو بھی نہیں ہو رہی ہے ۔اب تو فلسطینی عوام پوری دنیا سے گہار لگاتے لگاتے موت کی نیند سو رہی ہے۔مسلم دنیا کو بے حس بنائے رکھنے کے لئے سرکاری سطح پر شہید فلسطینیوں کی تعداد 38 ہزار بتائی جارہی ہے جبکہ بین الاقوامی طبی جریدے " لانسیٹ " کے مطابق 14 جولائی 2024 تک 1,86,000 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ملبے میں دبے لوگ، طبی سہولیات کی کمی اور پھیلنے والی بیماریوں سے ہوئی اموات کی تعداد کا تخمینہ لگانا ابھی مشکل ہے جو لاکھوں میں ہو سکتی ہے۔حد تو یہ ہے کہ 17 جولائی 24 کو فلسطینیوں کے Hotmail,Skype ,voice chat جیسے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو بند کر دیا گیا تاکہ دنیا بھر کو لوگوں کو فلسطین سے الگ کردیا جائے۔ کوئی کسی کی خیریت بھی نہ جان سکے۔

جولائی کے آخری ہفتہ میں لبنان پر حملہ کرکے جنگ کا دائرہ بڑھا دیا گیا تاکہ دنیا فلسطینی نسل کشی کو بھلا دے اور اسرائیل کی ہار پر پردہ بھی پڑ جائے۔ ممکن ہے جنگ کا دائرہ اب بڑھتا ہوا ملحمتہ الکبریٰ کی طرف چل پڑے اور پھر دنیا کو ایک عالمی جنگ سے گزرنا پڑے۔31 جولائی 24 کو حماس کے بڑے لیڈر اسماعیل ہنیہ Ismail Hanya کو تہران میں شہید کردیا گیا اور پوری دنیا بشمول بزدل مسلم ممالک ابھی تک اسرائیل کو دھمکیاں ہی دے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نئے ایرانی صدر کے استقبالیہ کے موقع پر اسماعیل ہنیہ کے گیسٹ ہاؤس میں موساد کے ذریعہ AI guided بارود نصب ہونا،باہر سے میزائل کا حملہ، سیکیورٹی کے نام پر صرف ایک باڈی گارڈ کا رکھنا وغیرہ ایران کی نیک نیتی پر سوال ضرور اٹھاتا ہے۔ Ismail Hanya کی شہادت کے بعد یحییٰ سنوار Yahya Sinwar حماس کے نئے رہنما بنائے گئے جن کا عزم اور موقف زیادہ مضبوط دکھائی دیتا ہے۔

22 اگست 24 کو امریکی نمائندہ Antony Bilinkan جنگ بندی کی کوشش میں اسرائیل پہنچے۔ Netanyahu اور Hamas کی شرطوں میں ٹکراؤ ابھی جاری ہے۔ اس طرح اسرائیل نے فلسطین میں اپنی شکست کو دیکھتے ہوئے جنگ کا رخ Lebanon کی طرف موڑ دیا ہے۔ Hizbullah بھی اسرائیل سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہے۔ قطر کے امیر کی جنگ بندی کی کوششیں بھی اب تک بیکار ثابت ہوئی ہیں۔ تقریباً تمام عرب دنیا تو یہودیوں کی روٹی پر پل رہے ہیں لہٰذا ان مسلم ممالک سے کوئی امید بھی نہیں ہے۔ 25 اگست 24 سے حزب اللہ اور اسرائیل کے بیچ دو طرفہ جنگ نے شدت اختیار کر لی ہے۔حزب اللہ نے اپنے کمانڈر فواد شکر کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے اسرائیل پر پہلی بار سینکڑوں میزائل داغے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی فوجی اڈوں اور موساد کے ہیڈ کوارٹر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل نے اپنے یہاں پریس پر پابندی عائد کر دی ہے۔

ادھر 27 اگست 24 کو فرانس کے ربی Haim Korsia نے اسرائیل کو فلسطینی قتل عام کی حوصلہ افزائی Finish the job کہہ کر کیا ہے، وہیں دوسری طرف اسرائیلی وزیر Ben-Gvir نے بیت المقدس کے حدود میں Synagogue یہودی مندر بنانے کا اعلان کرتے ہوئے مسلم دنیا کو للکارا ہے۔2 ستمبر کو اسرائیل میں یہودیوں نے صہیونی Zionist Netanyahu کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا پھر بھی قتل عام جاری ہے۔ WHO کی مانگ پر 3 ستمبر 24 کو جنگ کے دوران پیدا ہوئے بچوں کو مشکوک Polio Vaccine پلانے کے نام پر عارضی بمباری رکی ہوئی ہے۔14 ستمبر کو دیر سے ہی سہی پہلی بار SAUDI ARAB اور UAE نے کھل کر بیان دیا ہے کہ جب تک آزاد فلسطین کا قیام نہیں ہوگا، اسرائیل سے ان کے تعلقات دوبارہ قائم نہیں ہوسکتے ہیں۔

17 اور 18 ستمبر کو لبنان میں شیطانی طاقتوں نے PAGER BOMB,WALKIE TALKI BOMB اور SOLAR PANEL کے ہزاروں دھماکوں کے ساتھ جنگ دوسرا دور شروع ہو گیا ہے۔اسرائیل نے یہ بھی ثابت کردیا کہ سائنس اصل میں انسانوں کے لئے BOON نہیں بلکہ CURSE بن چکا ہے۔ان حملوں کا بدلہ لینے کے لئے حزب اللہ نے 20 ستمبر کو اسرائیل کے شہر حیفہ سمیت کئی شہروں پر سینکڑوں راکٹ داغے جس سے بھاری تباہی ہوئی۔23 ستمبر کو اسرائیل نے بھی پلٹ کر راکٹ داغے جس میں لگ بھگ ایک دن میں 500 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ رملہ میں الجزیرہ چینل کے دفتر کو 45 دنوں کے لئے بند کروا دیا گیا ہے۔ 27 ستمبر کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اقوام متحدہ میں بظاہر یہ کہنے گیا کہ ہم حزب اللہ سے کچھ دنوں کے لئے جنگ روکنا چاہتے ہیں۔ شاید اسی مغالطہ میں لبنان کے فوجیوں میں لاپروائی پھیلی اور کہا جاتا ہے کہ اسی کا فائدہ اٹھا کر نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی آفس سے ہی حملہ کرنے کا حکم دیا ۔

یوٹیوب چینل Media Star World پر لبنان سے جنید احمد نے انٹرویو میں بتایا کہ کئی ٹن بم مسلسل 4 گھنٹے تک گرائے گئے جس سے چھ بڑی عمارتیں تباہ ہوگئیں۔ 28 ستمبر 2024 کو حزب اللہ کے کمانڈر حسن نصر اللہ کو دشمنوں کی فوج نے شہید کردیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 30 ستمبر کو ایران نے لگ بھگ 200 Hypersonic Missile اسرائیل پر داغ کر اس قتل کا بدلا لیا۔16 اکتوبر 2024 کو یحییٰ سنوار کو بھی شہید کر دیا گیا۔19 اکتوبر کی صبح حزب اللہ نے تیل ابیب میں نیتن یاہو کے گھر پر ڈرون سے حملہ کیا لیکن نیتن یاہو وہاں موجود نہیں رہنے کی وجہ سے بچ گیا۔اکتوبر کے آخری ہفتہ میں ایران پر بھی براہ راست حملہ کیا گیا جس کا کچھ حد تک ایران نے بھی جواب دیا۔حالانکہ اس میں کئی شیعہ عوام و خواص شہید ہوئے ہیں لیکن حسن نصراللہ اور یحییٰ سنوار کے ٹھکانے کی خبر دشمن کو کیسے ہوئی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

لگ بھگ دو مہینے کے بعد 26 نومبر 24 کو امریکی کوششوں کے بعد صبح 4 بجے سے حزب اللہ اور اسرائیل کے بیچ صلح کے دستاویز کے مطابق آئندہ 60 دنوں کے لئے جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔دو ماہ کی جنگ کے بعد ہی حزب اللہ جنگ بندی پر کیوں راضی ہو گیا اس پر ایرانی حکومت بھی سوال کے گھیرے میں آگئی ہے۔ حزب اللہ کا کوئی سرکاری بیان نہیں آیا۔لبنان کی طرف لوٹتے ہوئے اکثر حزب اللہ کے حاملین نے حزب اللہ کے پرچم کے ساتھ جس انداز میں خوشیوں کا اظہار کیا اس سے جنگ بندی پر حزب اللہ کا دستخط کرنا سوال کے دائرے میں آگیا..! حماس کا اس پر کوئی بیان نہیں آیا ہے۔ سوشل نیٹ ورک پر کئی طرح کی باتیں گردش کرنے لگیں۔کیا ایرانی دھمکی کے بعد اسرائیل ڈر کر بھاگ گیا ؟ کیا حزب اللہ پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر کوئی نئی حکمت عملی تیار کرے گا۔اگلے ہی دن یہ واضح ہوگیا کہ یہ سمجھوتا دراصل لبنان کے وزیراعظم کے ساتھ ہوا تھا جو امریکہ کا غلام ہے نہ کہ حزب اللہ کے ساتھ۔

28 نومبر 2024 کو نیتن یاہو نے غزہ میں اپنی ہار پر پردہ ڈالتے ہوئے سیریا یعنی شام میں شیعہ سنی اختلافات کو ایک بار پھر بھڑکا دیا ہے۔ شام میں بشار الااسد اور باغی گروپ کے بیچ خانہ جنگی شروع ہو گئی ہے۔ اس خانہ جنگی میں روس اور امریکہ آمنے سامنے آگئے ہیں اور باغی گروپ کے ساتھ ترکی کی بھی شمولیت ہے۔ 7 دسمبر 24 کو شام میں اسد کا تختہ پلٹ ہوگیا اور دمشق پر ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں امریکہ نواز باغیوں کا قبضہ ہو گیا۔ بشار الااسد دمشق سے روس بھاگ گیا ہے۔26 دسمبر 24 کو اسرائیل نے یمن پر باضابطہ حملہ کرکے جنگ کا ایک اور مورچہ کھولتے ہوئے کہا کہ ابھی تو یہ شروعات ہے۔9 جنوری 2025 کو امریکہ اور انگلینڈ نے مل کر یمن پر بڑا حملہ کیا جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ میں اور زیادہ سختی کی دھمکیاں دی ہے۔ادھر 13 جنوری کو قطر کی نمائندگی میں حماس اور اسرائیل کے بیچ یرغمالیوں کی آزادی اور جنگ بندی کو لے کر ایک سمجھوتا ہوا جس میں خاص طور پر ایک اسرائیلی کو آزاد کرنے کے بدلے 33 فلسطینیوں کو آزاد کرنے کی شرط قابل ذکر ہے۔ کہا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سختی کی وجہ سے 14 جنوری 2025 کو Ceasefire کا اعلان ہوگیا۔ غزہ کے شہریوں نے خوشیاں منائی اور کہا ہم جیت گئے اسرائیل ہار گیا۔ اسرائیل ہمیں نہیں توڑ سکا، ہم پھر سے شاندار غزہ کی تعمیر کریں گے۔19 جنوری اتوار سے سمجھوتا لاگو ہوا۔ صبح لگ بھگ 9 بجے خوشیاں مناتے فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے تبھی ایک گاڑی پر فائرنگ ہوئی اور 7 فلسطینی شہید ہوگئے۔ کہاں گیا کہ یہودی یرغمالیوں کی لسٹ نہیں دی گئی ہے۔ کچھ گھنٹوں کے بعد تین یہودی خواتین کی لسٹ دی گئی تب مکمل طور پر جنگ بندی ہوئی۔ فلسطینیوں نے جمع ہوکر اپنا قومی ترانہ گایا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان فلسطین کا لوگوں کو ان کے گھروں میں پھر سے آباد کردے اور تمام شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین!

اب تو دنیا کے ساتھ ساتھ Wikipedia نے بھی GHAZA GENOCIDE کو مان کر اپنے رکارڑ میں درج کر لیا ہے۔ Genocide کی تاریخ مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام کو ہمیں بار بار یاد دلاتی ریے گی۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھا جائے گا کہ کون ظالم تھا اور کون مخلص۔

ایران میں صیہونی ایجنٹ کی مخبری سے امت کے جید مجاہدین کے قتل سے بہت بڑا نقصان ہوا۔ ایرانی حکومت کی بے بسی، بزدلی اور شاید منافقت بھی ثابت اور بے نقاب ہوگئی ۔ ایران صرف دھمکیاں دے کر رہ گیا۔شاید ان مجاہدین کو سنی اور شیعہ دونوں دنیا نے ناپسند کیا اور مجاہدین ان کی منافقت کے شکار ہو گئے۔ مسلمانوں کے داخلی اختلافات اور منافقت سے بظاہر دشمن طاقتیں کامیاب ہوئیں۔ سنی دنیا عالمی تعلقات کو برقرار رکھنے کے نام پر آنکھ بند کرکے تماشہ دیکھتی رہی جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان پر مہر لگ گئی جو اس طرح ہے۔

ترجمہ :- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں «وہن» ڈال دے گا“ تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! «وہن» کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَلَاحِمِ/حدیث: 4297]

پتہ نہیں اللہ تعالیٰ پوری دنیا کے حکمران اور عوام سے کتنی سختی سے پیش آئے گا ؟ آخر وہ کون سی طاقت ہے جو اہل فلسطین کی تباہی کے درپے ہے؟ ۔ اب تک کے جنگی حالات بتاتے ہیں کہ GREATER ISRAEL کا قیام، تابوت سکینہ کی تلاش ،TEMPLE OF SOLOMON کی تعمیر پھر DAJJAL کی حکومت کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ کہیں یہ Netanyahu دجال کا ایجنٹ تو نہیں ہے جو فلسطینیوں کو موت بانٹ رہا ہے ؟ بیشک یہ شیطانی نظام حکومت ہے جو اسلام کے چراغ کو مٹانا چاہتا ہے۔ ان شاءاللہ اس کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے وہ اس کی حفاظت کرے گا۔

کوئی بھی معرکہ ہمیں بزدلی کا سبق نہیں دیتا ہے بلکہ حق کے لئے دی گئی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس جنگ نے بھی ہمیں کئی سبق یاد دلایا۔

(1) پہلا سبق دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی کو مہلت دیتا ہے تو کسی کو آزماتا ہے۔دشمنوں کو مہلت دے کر آگاہ کرتا ہے تو مومنوں کو آزمائش کے ذریعہ خوشخبری دیتا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ صحابہ کرام اور فاتحین اسلام نے حق کی خاطر اپنا سب کچھ لٹایا ہے ۔ہماری طرح دنیا سمیٹنے میں زندگی نہیں گزاری۔ دنیا حیران ہے کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جس کے بھروسے اور لاکھوں جانوں کی ہلاکت کے باوجود اتنے لمبے عرصے تک مجاہدین لڑتے رہے۔

(2) دوسرا ظاہری سبق یہ ملتا ہے کہ حق کی جنگ ہمیشہ اللہ کے بھروسے ہی لڑی اور جیتی جاسکتی ہے جبکہ باطل اسلحہ کے بھروسہ پر رہ کر دونوں جہاں میں ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔ حالانکہ مقابلہ کرنے کے لئے ان اسلحوں کو بھی تیار رکھنا ہوگا جن سے دشمن کو شکست دیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے آج کی جدید دنیا میں کچھ مومن گروہ کامیابی کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں۔ دشمن اکثر خوف کے ذریعہ اہل حق کو پسپا کرنا چاہتا ہے لیکن حق پرست اللہ کے بھروسے دشمن سے لوہا لینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔

(3) تیسرا سبق یہ ملتا ہے کہ دشمن کا خوف دل سے نکال کر مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ اس کا بھرم ٹوٹ جائے جیسا کہ اسرائیل کا خوف چکنا چور ہوگیا، جو کئی سالوں سے دنیا پر طاری تھا۔

(4) چوتھا سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر سانحہ کے بعد مومنوں کے لئے خیر کا پہلو نکالتا ہے۔ اس جنگ میں غیر مسلم دنیا نے مومنین کی توکل الی اللہ اور جواں مردی دیکھ کر اندازے کے مطابق لاکھوں غیر مسلم ایمان سے سرفراز ہوئے۔ لوگ قرآن اور اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔

(5) پانچواں سبق یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی صف میں سے منافقین کو بھی بے نقاب کرتا ہے جیسا کہ مسلم حکمرانوں کی منافقت کو جگ ظاہر کردیا۔

ممکن ہے عوام غفلت میں اس قضیہ کو صرف ایک جنگ ہی سمجھ رہی ہو لیکن احادیث کی روشنی میں خواص کی یہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اپنے محاسبہ کی دعوت دیں اور مسلمانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلائیں۔ ممکن ہے لاکھوں مظلوموں کا قتل عام تاریخ کے رخ کو موڑ دے ۔اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے وہ ضرور انصاف کرے گا۔اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی بھی سخت آزمائش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد آنے میں دیر ہوئی ہے اس کی کئی مثالیں اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں۔ہمیں ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ بازاروں میں ہوں اور قیامت آجائے۔ دجال ظاہر ہو جائے اور ہم اس کے ہم نوا بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو حق کی خاطر جان و مال لٹانے کے لئے ہر وقت تیار رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
سرفراز عالم
عالم گنج پٹنہ
رابطہ 8825189373
sarfarazalam1965@gmail.com ای میل

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے