بیان بازی مسئلہ کا حل نہیں
مجیب الرحمٰن
قسط نمبر (1)
منظم دنیا میں چرندوں سے لیکر درندوں تک، حیوانوں سے لیکر انسانوں تک حتی کہ مصنوعاتی چیزیں بھی کسی انجمن، کسی رہبر کے محتاج ہوتے ہیں، اس کے بغیر نظام کی سالمیت برقرار نہیں رہ سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اپنے کسی برگزیدہ بندے کو بحیثیت رہبر و رہنما مبعوث کیا انہیں کی سرپرستی و سربراہی میں قومی حیات منظم و مرتب انداز میں منزلیں طے کرتی، لیڈری اور سربراہی و سرپرستی کا تصور کسی انسان نے نہیں دیا بلکہ خود خالق کائنات نے اس نظام کو چلایا، فرشتوں کی جماعت کا سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام کو منتخب کیا، نبیوں کی جماعت کا سردار محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا، آسمانی کتابوں میں قرآن پاک لیڈر ہے، مہینوں میں رمضان المبارک کا مہینہ سردار ہے، دنوں میں جمعہ کا دن سردار ہے، جانوروں میں شیر کو راجا سمجھا جاتا ہے، پھلوں میں آم کی حیثیت بادشاہ کی ہے۔
انسانوں میں غور کریں تو ہر گاؤں سماج میں ایک مکھیا اس سے اوپر ضلع کا سردار، اس سے اوپر صوبہ کا اور پھر ملک کا، علاؤہ ازیں ہر دھرم و مذہب کا الگ رہنما، یوں کہ لیجئے سیاسی رہنما الگ، مذہبی رہنما الگ، لیکن دعویٰ میں فرق نہیں ہوتا، دونوں کا نعرہ ایک ہی ہوتا ہے، سیاسی رہنما فلاح و بہبود کے حسین گلدستے دکھاتا ہے جب کہ مذہبی رہنما مذہب کی بقا اور اس کے تحفظ کا علم لیئے گلی گلی کوچہ کوچہ میں پھرتا ہے، جلسے جلوس کرتا ہے، عوام کی بھیڑ اکھٹی کرتا ہے اور چیخ و پکار کے ساتھ جلسہ ختم ہو جاتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ جس قوم کا رہنما جتنا زیرک اور دور بیں ہوتا ہے وہ قوم اتنا ہی ترقی پزیر اور معزز ہوتی ہے، اس قوم کی الگ پہچان ہوتی ہے، حکومتی سطح پر اس کا الگ مقام ہوتا ہے۔ اپنی ہر شرط اور بات منوانے کا وہ قوم ہنر رکھتی ہے، اس کا رہنما اپنی قوم کی فکر میں گھلا جاتا ہے اور ایک ثمر آور پیڑ کی شکل میں اس کی شاخیں مضبوط و مستحکم اور پھیلی ہوئی ہوتی ہیں، اس کے برعکس اس قوم کا رہنما جو عیش کوشی اور آرام طلبی میں وقت گزار دیتا ہے، عہدوں کے پجاری ہوتا ہے، جاہ و منصب کا دلدادہ ہوتا ہے اس کی حیثیت بے وقعت و معنی ہوتی ہے، اس کی باتیں بے اثر، اس کی شخصیت مشکوک اور زمانہ میں معتوب ہو جاتی ہیں۔
تاریخ اسلام پر اگر نظر ڈالیں تو عہد اموی سے عباسی تک وہاں سے سلجوقی اور پھر خلافت عثمانیہ تک کی تاریخ بڑی عبرت اور حیرت انگیز رہی ہے، سلجوقیوں کا عروج و زوال پڑھنے کے لائق ہے، ہندوستان میں مغلیہ سلطنت ایک بہترین مثال ہے، اندلس کا خاتمہ، بغداد کی تباہی، منگولوں اور بازنطینیوں کی بربریت مسلمانوں کیلئے بہترین مثال ہے، تاریخ کا قاری ان حقائق کو پڑھے گا تو حقیقت جگ ظاہر ہو جائے گی اور مسلمانوں کا عروج و زوال اس کے ذہن کے نہا خانے سے باہر آکر ایک دنیا پیدا کرنے کی تمنا جاگ اٹھے گی۔ ہر زوال کے پیچھے حکمرانوں کا اہم رول رہا۔
0 تبصرے