مولانا سید جعفر مسعود حسنی رح اور ان کا خاندانی پس منظر
( 13ستمبر1960)۔۔ ۔ ( 15جنوری 2025)
آفتاب عالم ندوی
ناظم جامعہ ام سلمہ دھنباد جھارکھنڈ
کل 16/جنوری بروز جمعرات ظہر کے بعد تقریبا سو ا دوبجے جب رائے بریلی شہر سے متصل ضیاء العلوم میدان پور سے پہلے جعفر بھائی کے امرود کے باغ کے پاس میری گاڑی پہنچی تو دیکھا کچھ لوگ کاروں اور موٹر سائیکلوں سے میدان پور کی طرف سے آرہے ہیں، راستہ ہی میں خبر مل چکی تھی کہ جنازہ کی نماز ہوگئ، حالانکہ اعلان میں نماز جنازہ کا وقت دوبجے کا دیا گیا تھا، لگتا ہے کسی نے ظہر کے بعد کی تعیین دوبجے سے کردی، گاڑی ضیاء العلوم سے آگے نہیں بڑھ سکی، واپس آنے والوں کی بھی بھیڑ تھی اور ہر طرف چھوٹی بڑی گاڑیاں کھڑی تھیں، ضیاء العلوم کی درس گاہ کا وسیع میدان گاڑیوں سے بھر ہوا تھا، اسکے سامنے روڈ کی دوسری جانب کھیتوں میں بھی گاڑیاں تھیں، واپس آرہے لوگوں میں تعلق اور جان پہچان والے بھی بہت تھے۔
سلام مصافحہ اور معانقہ کرتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے، تکیہ کے مہمان خانے سے آگے مسجد کی جانب سر ہی سر نظر آرہے تھے، اس بھیڑ میں سیکڑوں کی تعداد میں جاننے والوں سے ملاقات ہوئی، کئ کلاس فیلو بھی ایک زمانے کے بعد ملے، ازدحام کی وجہ سے پہلے مسجد جانے ہی میں عافیت سمجھی گئ، مسجد میں ہزاروں لوگ بیٹھے لیٹے انتظار کر رہے تھے کہ بھیڑ کم ہوجائے تو اچانک دنیائے فانی سے منہ موڑ لینے والے کو خاک کی چند مٹھی ڈال کر رحمان و غفار کے سپرد کردیں، سئ ندی کے پہلو میں واقع اس مسجد کو دیکھتے ہی ذہن صدیوں پیچھے چلا گیا، یہ تو وہی جگہ ہے جسےایک بزرگ شاہ عبد الشکور نے شاہ علم اللہ کیلئے تجویز کی تھی۔
شاہ علم اللہ کے شیخ و مرشد مولانا سید آدم بنوری خلیفہ مجدد سید احمد سر ھندی کے حجاز ہجرت کرجانے کی وجہ سے انہوں نے بھی ہندوستان چھوڑکر حجاز میں اقامت کی نیت کر لی تھی، لیکن شاہ عبد الشکور کے اصرار اوراپنے شیخ و مرشد کے اشارہ کی وجہ سے اس ویرانے پرانہوں نے طرح اقامت ڈال دی , علاقہ کے زمین دار نے اس بڑے قطعۂ اراضی کو شیخ علم اللہ کے نام کردیا، یہ بات ہے گیارہویں صدی ہجری اور عہد عالمگیری کی، شاہ علم اللہ کے جد امجد سید قطب الدین جو محمد ذوالنفس الزکیہ کی اولاد و احفاد میں تھے ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں ایک بڑی جماعت کے ساتھ ھندوستان آئے اور قنوج، مانک پور اور کڑا الہ اباد کو فتح کرکے دلی کی اسلامی حکومت میں شامل کردیا، یہ زمانہ ہے سلطان شمس الد ین التمش کا، سید قطب الدین دلی میں شیخ الاسلام کے منصب پر ایک مدت تک فائز رہے، یہ خاندان ایک صدی تک کڑا میں دعوت و ارشاد و تعلیم و اصلاح کی خدمت انجام دیتا رہا۔
خاندان کے ایک بزرگ سید قطب الدین ثانی کڑا سے جائس اور پھر انکی اولاد و احفاد میں سے قاضی محمود جائس سے نصیرآباد منتقل ہوگئے اور قاضی سید احمد نصیرآباد سے رائے بریلی منتقل ہوگئے، انہی کی تیسری نسل میں شاہ علم اللہ ہیں، شاہ علم اللہ کی پیدائش گیارہویں صدی ہجری میں ہوئی، شاہ علم اللہ مجدد الف ثانی کے خلیفۂ اعظم سید آدم بنوری کے خلیفۂ اجل تھے، خلافت و نیابت کی سند و نشانی کے طور پر سید بنوری نے انہیں اپنی عمامہ اور مجدد احمدسر ھندی کی دستار عطاء کی تھی۔
شاہ علم اللہ نے حج سے واپس آکر سئی ندی سے متصل دائیں جانب کعبہ کے نقشہ پر مسجد تعمیر کی، اسکی بنیادوں میں آب زمزم ڈالا، اللہ نے آپکی اولادواحفاد کو علم اور دین کی دولت سے خوب نوازا، سید ایت اللہ، سید ھدی، سید محمد، سید ضیاء، سید صابر، سید ابو سعید شاگر د و خلیفہ شاہ ولی اللہ نانا سید احمد شہید، آپ شاہ ولی اللہ کے مقرب و مخصوص تلامذہ میں تھے، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے خطوط جو انکے نام ہیں اس پر شاہد ہیں، سید نعمان شاگرد شاہ ولی اللہ چچا سید احمد شہید، سید اسحاق شاگرد شاہ عبد القادر و شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، شہید بالاکوٹ سید احمد، حکیم فخرالدین خیالی، حکیم عبد الحی حسنی، مولانا علی میاں ندوی، مولانا ثانی، محمد الحسنی، مولانا محمد رابع اور مولانا واضح رشید ندوی اسی سلسلۃ الذہب کی کڑیاں اور اسی شجرۂ طوبی کی شاخیں ہیں، اس خانوادہ میں ہر دور میں اتنی کثرت سے علماء، مشائخ، مصلحین، مجاھدین اور اصحاب دعوت وارشاد ہوئے ہیں کہ صرف ان سب کا نام بھی تحریر کرنا دشوار ہے۔
سئ ندی کی لہریں اور آب رواں سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید اور مولانا عبد الحی بڈھانوی جیسے علماء ا ور مجاھدین کی ترک تازیوں کی گواہ ہے، اسی ندی کو پار کرکے سفر حج کیلیے بڑا قافلہ روانہ ہوا تھا، یہیں مجاھدین جہاد کیٹریننگ حاصل کرتے تھے، یہیں قال اللہ و قال الرسول کی بھی صدائیں بلند ہوتی تھیں اور رات کے سناٹے میں زمزمۂ تسبیج و تمجید سے پورا خطہ نورانی و عرفانی ہوجاتا، وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل اور خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات، تخیل و تصور سے باھر نکلا تو دیکھا ابھی بھی مسجد بھری ہوئی ہے اور تدفین کیلیے دور تک ایک سے زائد لائنوں میں لوگ کھڑے ہیں اور دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے ہیں، ازدحام دیکھ کر مسجد سے جنوب مشرق میں واقع اس چھوٹے سے احاطہ کی طرف رخ کیاجس میں شاہ علم اللہ اور دوسرے بزرگوں کے ساتھ مولانا علی میاں ندوی کی بھی قبر ہے، کسی بھی قبر پر کوئی کتبہ بھی نہیں ہے، احاطہ کی دیوار پر بھی کچھ لکھا ہوا نہیں ہے، نہ اندر نہ باھر، سلام و دعاء کے بعد مسجد کے باہری حصہ میں بیٹھ گیا جہاں ندوہ کے کچھ ساتھی اور بہت سے تعلق والے بیٹھے بھیڑ کے چھٹنے کا انتظار کر رہے تھے، عصر کا وقت قریب ہورہا تھا، حالانکہ دوبجے سے پہلے جنازہ کی نماز ہوگئ تھی، مٹی دینے والوں کی ابھی بھی بھیڑ تھی، یہ سوچکر کہ عصر سے پہلے فارغ ہوجائیں کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کے دائیں بازو کا رخ کیا، جہاں مولانا جعفر مسعود شھید کو لوگ سپرد خاک کر رہے تھے، ایک کیو میں ہم کھڑے ہوگئے، دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے تھے، مرقد کے سامنے پہنچے تو دیکھا مولانا بلال صاحب کرسی پر بیٹے ہویے ہیں، چہرہ غم سے نڈھال لیکن صبر وتحمل کا پیکر بنے ہوئے، میری باری آئی اور لرزتے ہاتھوں سے منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری پڑھکر تین مٹھی مٹی ڈال دی، سن اکاسی میں ندوہ کے درجۂ سوم عربی میں میرا داخلہ ہوا، اس وقت جعفر بھائی اوپر کلاس میں تھے، ساتھیوں میں ڈاکٹر اکرم صاحب ندوی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، آفتاب صاحب اعظمی، وزیر اعظمی، ضیاء الدین اعظمی، مرحوم حشمت اللہ ندوی، صابر حسین پرنوی جیسے ذی استعداد لوگ انکے ساتھی تھے۔
کرکٹ کے ساتھیوں میں نیچے کلاس کے بھی کئ لوگ تھے، ادب میں اختصاص کی تکمیل کے بعد بھی جب وہ عالیہ عرفانیہ میں استاد ہوگئے تھے میرا کوئی خاص تعلق ان سے نہیں تھا، بس کرکٹ کھیلتے ہوئے انہیں ضرور دیکھتا تھا، ان سے تعلق اس وقت ہوا جب نوے کے بعد الرائد میں انکے والد ماجد حضرۃ الاستاذ مولانا واضح رشید صاحب ندوی کے معاون کے طور پر میرا تقرر ہوا، اسکے بعد بھی بہت بے تکلفی نہیں ہوئی، جعفر بھائی مجھ سے پانچ سال سینیر تھے، عالیہ عرفانیہ سے ندوہ آکر امتحان دینے والے کئ طلبہ کو چوری کرتے ہوئے ایک سال میں نے پکڑ لیا، قاری مشتاق صاحب تک یہ خبر پہنچی، لوگوں سے وہاں انہوں نے پوچھا، یہ آفتاب کون ہے، جعفر بھائی بہت دنوں تک جب بھی ملتے کہتے قاری صاحب آپکو ڈھونڈرہے ہیں، اس علاقہ میں جائیے گا نہیں، میں سمجھتا تھا کہ جعفر بھائ کی کتابی صلاحیت بہت اچھی نہیں ہوگی، ایک مرتبہ جب وہ عرفانیہ میں پڑھا رہے تھے امتحان کے زمانے میں ندوہ کی مسجد میں دیکھا ایک طالبعلم کو بیضاوی پڑھا رہے ہیں، اسکی عبارت حل کر وارہے ہیں اور مضمون کی بھی خوب تشریح کر رہے ہیں، اس دن ہم نے جانا کہ صرف عربی ادب ہی میں نہیں جعفر بھائی کو مشکل درسی کتابوں کی تدریس و تفہیم پر بھی عبور حاصل ہے۔
صرف انکی اردو اور عربی ہی اچھی نہیں تھی بلکہ فکر بھی بلند تھی، مولانا علی میاں، مولانا محمد رابع صاحب اور والد محترم مولانا واضح رشید صاحب سے استفادہ و اکتساب کا انہیں کافی موقع ملا تھا، شرافت، تدین، تواضع اوررذالت سے اجتناب یہ وہ خوبیاں ہیں جو خانوادہ کے ہر چھوٹے بڑے میں ملینگی، تکیہ کی اب و ہوا میں یہ خوبیاں رچی ہوئی ہیں، اہل علم و عرفان ہی نہیں مجھ جیسا گنہگار بھی اسے محسوس کرتا ہے، وفات سے پہلے صرف انکے بعض قریبی لوگ ہی جانتے تھے کہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ ضرورت مندوں پر خرچ کرتے ہیں، جس دن یہ حادثۂ جانکاہ پیش آیا معلوم ہوا اس دن بھی اسی طرح کے کسی کار خیر کیلیے شہر گئے تھے، تقریبا دوسال پہلے چاٹگام کی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں انہیں بھی شریک ہونا تھا، لیکن کسی وجہ سے انہوں نے معذرت کی تو منتظمین نے چاہا کہ نمائندگی کیلیے انکے صاحبزادے خلیل حسنی شریک ہوجائیں، جعفر بھائی نے مجھے فون کیا کہ آپ جارہے ہیں اور ڈاکٹر اکرم صاحب بھی لند ن سے پروگرام میں آرہے ہیں اسلئے ہم خلیل کو بھیج رہے ہیں، کلکتہ سے بنگلہ دیش اور وہاں سے کلکتہ تک کا ہم لوگوں نے ساتھ سفر کیا، چاٹگام میں منتظمین نے رہائش کیلیے تمام مہمانوں کا انتظام ایک ہی ہوٹل میں کیا تھا، ندوہ میں ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جعفر بھائی نے ملک و بیرون خاصے سفر کئے، تقریر بھی بہت اچھی کرنے لگے تھے، پوری دنیا سے لوگوں نے مولانا بلال صاحب، صاحبزادگان اور خاندان کے دوسرے افراد سے تعزیت کی، مغفرت اور رفع درجات کیلئے دعائیں کیں، اور انشاءاللہ شھید کا انہیں درجہ ملا ہوگا، جانا تو سب کو ہے، لیکن جانے والوں میں خوش نصیب وہ ہوتا ہے جو قلب سلیم اور قلب منیب کے ساتھ جائے، رحمہ اللہ رحمۃ و اسعۃ و ادخلہ فسیح جناتہ و الھم ذویہ الصبر و السلوان۔
0 تبصرے