صوفیہ قریشی – تنقید کی زد میں
مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ
دنیا کے مختلف شعبوں میں اگر مردوں نے اپنی کارکردگی سے تاریخ رقم کی ہے تو خواتین نے بھی اپنی محنت، بہادری اور ذہانت سے ان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ چاہے تعلیمی میدان ہو یا سیاسی، سماجی خدمات ہوں یا اقتصادی ترقی، قومی دفاع ہو یا عسکری خدمات – ہر جگہ خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا جادو بکھیرا ہے۔ ان باہمت خواتین میں ایک نام کرنل صوفیہ قریشی کا بھی ہے، جنہوں نے اپنی بے مثال بہادری اور صلاحیت سے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔
کرنل صوفیہ قریشی ایک ایسی باہمت اور قابل فخر خاتون ہیں جنہوں نے ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیے۔ حالیہ واقعات نے ان کی دلیری اور حب الوطنی کو سب پر آشکار کر دیا، جب انہوں نے بے مثال قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور دشمن کے ہر وار کا منہ توڑ جواب دیا۔ وہ ان اولین خواتین میں سے ہیں جنہیں ہندوستانی فوج میں قیادت کا موقع ملا – ایک ایسی کامیابی جو خود ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے بہادر لوگوں کو بھی بعض اوقات بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں کچھ غیر ذمہ دارانہ آوازیں بلند ہوئیں جنہوں نے نہ صرف صوفیہ قریشی کی خدمات کی توہین کی بلکہ قوم کے اجتماعی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ بیانات نہ صرف غیر ذمہ دارانہ تھے بلکہ نفرت انگیزی کو بڑھاوا دینے والے بھی تھے۔
ہندو مسلم کا معاملہ ہمیشہ حساس رہا ہے۔ کچھ عناصر ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ معاشرے میں تفریق پیدا کی جائے۔ مسلمانوں نے ملک کی آزادی اور دفاع کے لیے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں، مگر پھر بھی بعض لوگ انہیں دہشت گرد یا دیش دروہی کہنے سے باز نہیں آتے۔ ایسے لوگ خود ملک کے حقیقی محافظوں کی توہین کرتے ہیں اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
صوفیہ قریشی جیسی بہادر خواتین ان سب الزامات کا عملی جواب ہیں۔ وہ اس جگہ پر خدمات انجام دے رہی ہیں جہاں ہر لمحہ جان کا خطرہ ہوتا ہے، اور ملک کی حفاظت کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار رہتی ہیں۔ ایسی خواتین کو سلام پیش کرنا چاہیے نہ کہ ان پر بے جا الزامات لگائے جائیں۔
آخر میں سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایسی بہادر خواتین کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں، وہ آج بھی عہدوں پر کیوں فائز ہیں؟ کیا اس ملک میں عورتوں کا احترام اور بہادری کی قدر نہیں ہے؟ کیا دیش کے لیے جان دینے والوں کی قربانیاں یوں ہی فراموش ہوتی رہیں گی؟ اگر ہم نے اس روش کو نہ بدلا تو یہ ملک کبھی بھی حقیقی معنوں میں مضبوط اور متحد نہیں ہو سکتا۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے ہیروز کی عزت کریں، ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں اور ہر اس آواز کے خلاف کھڑے ہوں جو ملک کی یکجہتی کو نقصان پہنچاتی ہے۔
0 تبصرے