گاندھی میدان پٹنہ اور پہاڑی میدان رانچی کے احتجاجی جلسوں کے تناظر میں
آفتاب ندوی دھنباد
ناظم جامعہ ام سلمہ دھنباد جھارکھنڈ
امارت شرعیہ وقف قانون کے سلسلہ میں جو بھی کر رہی ہے بورڈ کی ہدایت کے مطابق کر رہی ہے ، ویسے امارت یاکسی بھی تنظیم اور ادارہ کو اپنے طور پر بھی کرنے کی پوری آزادی ہے ، امارت نے وقف ترمیمی بل کے تئیں مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے اور اس بل سے واقف کرانے کا کام بورڈ سے پہلے شروع کیا ، سب جانتےہیں کو وقف ترمیمی بل اب قانون بن چکا ہے ، مسلمان چاہے جتنا احتجاج کرلیں ، اس حکومت کا مسلمانوں کے سلسلہ میں جو رویہ ہے اسکی روشنی میں یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہیکہ یہ قانون واپس نہیں ہوگا ، عدالت کو اختیار ہے بہت کچھ کرنے کا لیکن کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ عدالت کیا فیصلہ دے گی ، اس سے پہلے طلاق کے خلاف مسلمانوں نے آواز بلند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، کروڑوں کی تعداد میں دستخط جمع کئے گئے ، خود وقف ترمیمی بل کے خلاف بھی احتجاج اور ڈائیلاگ میں مسلمانوں کی طرف سے کوئی کمی نہیں ہوئی ، اپوزیشن نے بھی پورا ساتھ دیا ،البتہ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے والے نتیش اور نائیذو نے دھوکہ دیا ، ایک بات واضح اور طے ہے کہ چونکہ معاملہ مسلمانوں کا ہے حکومت احتجاج وغیرہ سے متأثر ہونے والی نہیں ہے ، بلکہ خود احتجاج سے بھی یہ حکومت فائدہ اٹھا لیتی ہے ، کسی بھی معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں حکومت اور گودی میڈیا کو بڑی مہارت حاصل ہے ، اب جبکہ وقف قانون بن چکا ہے بلکہ اس پر عمل در آمد بھی شروع ہوگیا ہے یا ہونے والا ہے ، ایسی صورت میں احتجاجی پروگراموں میں ملت کو لگانا ، اوروقت اور پیسہ خرچ کروانے کا کیا جواز ہے ، یہ قائدین ملت ہی بتائیں گے -
اترا کھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ اور پرسنل لا بورڈ۔
°°°°°°°°°
کون نہیں جانتا ہیکہ اترا کھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ نافذ ہوچکا ہے ، بورڈ کا خاص مقصد مسلم پرسنل لا کا تحفظ ہے ، اس ریاست میں مسلمانوں پر یونیفارم سول کوڈ کے نام پر ھندو قانون نافذ کردیا گیا ہے ، وقف سے یہ زیادہ خطرنا ک ہے ، اور وقف قانون سے پہلے یہ نافذ کیا گیا ہے ، مسلم پرسنل لا در حقیقت اللہ کا قانون جو قرآن و حدیث میں واضح انداز میں بتائے گئے ہیں ، وہ کسی مفتی کا فتوٰی یاکسی فقہی مکتبۂ فکر کے قیاسی مسائل و احکام نہیں ہیں ،جیسے نکاح ، طلاق ، وراثت ، و قف بھی اسی میں آتا ہے ، اب اترا کھنڈ کے مسلمانوں کو شادی بیاہ ، طلاق ، وراثت اور وقف وغیر ہ کے معاملات انہی قوانین کے مطابق طے کرنے ہونگے ، بورڈ اس سلسلہ میں کیا کر رہا ہے ، کیا عام مسلمانوں کو اسکی سنگینی کی خبر ہے ، کیا بورڈ نے ملت کو خبردار اور بیدار کرنے کوئی مہم چلا ئی ، اور دلچسپ بات یہ ہیکہ آدی واسیوں کو اس یونیفارم سے باہر رکھا گیا ہے۔
مساجد و مدارس کا انہدام -- جس وقت اویسی سمیت گیارہ مسلمان یہ بتانے کیلیے مسلم اور عرب ملکوں میں گھوم رہے تھے کہ ملک میں مسلمان بہت اچھی حالت میں ہیں ، سیکڑوں کی تعداد میں مدرسے اور مسجدیں شھید کردی گئیں، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ، بورڈ نے اس کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا ، ایسا لگتا ہیکہ بورڈ کو بھی اپنی کارکردگی دکھانے کیلے وقف ایک اچھا ایشو مل گیا ہے ، اس سے بھی اہم ایشو ز کو نظرکرکے آج بھی وقف کے نام سے پروگرام منعقد کئے جارہے ہیں۔
رانچی کا وقف بچاؤ اجلاس -- ابھی بورڈ بائیس جون کو پہاڑی میدان رانچی میں وقف بچاؤ کانفرنس کا انعقاد کر رہا ہے ، رانچی میں وقف قانون بننے سے پہلے دو انتہائی کامیاب کانفرنسیں ہو چکی ہیں ، ایک توخود بورڈ نے رانچی حج ہاؤس میں کیا جبکہ دوسرا اربا رانچی میں رانچی میدانتا ہاسپٹل کے مالکان جناب منظور انصاری اور سعید انصاری اینڈ برادرس کی کوششوں سے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کی سرپرستی میں منعقد ہوا ، دونوں اجلاس کامیاب ہوئے اور دونوں اجلاس کے منتظمین اور مہمانوں نے جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین سے ملاقات کی ، سورین جی نے مسلمانوں کے موقف کی مکمل تائید کی اور یقین دہانی کرائی کہ ہماری حکومت جھارکھنڈ میں اسے نافذ نہیں ہونے دیگی۔
گاندھی میدان کا اجلاس -- یہاں سوال پیدا ہوتا ہیکہ پھر کیا مسلمانوں کو چپ بیٹھ جانا چاھئے ؟ نہیں ، اس قانون کے خلاف مسلمانوں کا موقف ، انکی ناراضگی اور اس قانون کی خامیوں اور دستور میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہونے کا علم غیروں کو بھی ہو چکا ہے ، مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی کاروائیوں اور قوانین کو روکنے کیلیے سیاست اور حکومت کی تبدیلی کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے ، سیکولر پارٹیوں کو جتانے کیلیے حکمت عملی طے کرکے محنت کرنی پڑےگی ، چاہے طریقۂ کار کوئی بھی اختیار کیا جائے ، بہار میں ابھی مسلمانوں کے ووٹ کو تقسیم سے بچاکر سیکو لر پارٹیوں کو جتانے کی بھر پور کوشش ہونی چاہیے ، امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل صاحب یہی کر رہے ہیں ، گاندھی میدان کے پروگرام کا یہی مقصد ہے
وقف قانون اور نتیش کمار
°°°°°°°°°°°
دنیا جانتی ہیکہ نائیڈو اور نتیش کی حمایت کے بغیر وقف قانون نہیں بن سکتا تھا ، اور خود بورڈ باربار نتیش جی سے ملکر درخواست کر چکا تھا , دھمکی بھی دی تھی کہ اگر اس بل کی حمایت کی تو مسلمانوں کے ووٹ آپکو نہیں ملیں گے لیکن جو بقلم خود امیر بن کر زندہ باد کے نعرے لگوا رہے ہیں ، گلے میں گیندے کا مالا ڈال کر مسلمانوں میں انتشار پھیلا رہے ہیں ، یہ اور انکی ٹیم اشفاق کریم صاحب ، مولانا ابو طالب رحمانی ، چترا جھارکھنڈ کے مولانا نذر توحید صاحب ، رانچی کے ڈاکٹر مجید عالم صاحب وغیرہ نے ابھی گزشتہ رمضان میں نتیش کی مدد سے بل دل کے ساتھ امارت پر قبضہ کی کوشش کی ، پھلواری کے جسور وغیور مسلمانوں نے انہیں کھدیڑ دیا اور یہ اپنے پلان میں ناکام ہوگئے ، لیکن لیٹر ہیڈ اور مہر بنواکر مولانا انیس الرحمان صاحب نے اعلان کردیا کہ میں امیر ہوں ، لوگوں نے کہا حضور امیر کا عزل ونصب تو منتخب ارباب حل وعقد ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے ، حضور نے کہا یہ بھی ہوجائیگا، اور گزشتہ بائیس مئ کو پٹنہ کے حج ہاؤس میں ایک آدھ ہزار لوگوں کو جمع کرلیا اور دنیا کو بتانے کی کوشش کی کہ یہ ارباب حل عقد ہیں ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ امیر شریعت ایک منتخب امیر ہیں ، صدر بورڈ فقیہ العصرمولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ سمیت سیکڑوں علماء اہل افتاء و قضاء انتخابی عمل میں شریک رہے ، بیعت کی ، مولانا انیس الرحمان صاحب قاسمی اور مولانا نذر توحید صاحب بھی ان میں تھے ، کیا عالم کیلیے صرف یہی کافی ہیکہ اسکی پاس کسی مدرسہ کی کاغذی سند ہو ، علم ، تقوی ، خوف خدا ، امانت و دیانت کی ضرورت نہیں؟ ، قرآن میں علماء اور عام مسلمانوں میں مابہ الامتیاز خدا ترسی کو قرار دیا گیاہے ، جن لوگوں نے غنڈہ کردی سے امارت شرعیہ کے ہیڈ آفس پر قبضہ کی کوشش کی ، جنہوں نے تمام اخلاقی شرعی و قانونی ضابطوں اور اقدار کی دھجیاں اڑائیں ، انکا زور زبردستی سے امیر بن جانے کا دعویٰ اور کچھ علماء کی طرف سے ایسے لوگوں کا ساتھ دینا بیحد افسوسناک ہے ، اور جسکو چار صوبوں کے لوگوں نے جن میں علماء ، دانشور ، قاضی اور مفتی ہر طرح کے لوگ تھے ، امارت کے طے شدہ انتخابی ضابطوں کے مطابق امیر بنایا گیا ، لیکن اسے آپ امیر نہ مانیں !!!، کون نہیں جانتا ہیکہ نتیش کو ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وقف ترمیمی بل کی حمایت کرے ، مولانا انیس الرحمان صاحب قاسمی اور اشفاق کریم وغیرہ سے ڈیل کے بعد ہی نتیش نے تائید کی ،نتیش نے امارت پر قبضہ کی کوشش میں پورا تعاون کیا ، بورڈنے بھی نےنتیش کی افطار پارٹی کا بائیکاٹ کیا تھا ،مولانا انیس الرحمان صاحب نے اپنے ایک آدمی مفتی سہیل صاحب قاسمی کو نتیش جی کی افطار پارٹی میں بھیجا ، اور کچھ ہی روز پہلے نتیش جی مولانا انیس الرحمان صاحب کو ایک بڑی قیمتی زمین دے چکے تھے ، اب مولنا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی فرماتے ہیں وقف کو سیاسی نہیں بنا نا ہے ، یعنی نتیش جو بی جے پی کے بڑے سہیوگی ہیں کے خلاف کچھ نہیں بولنا ہے ، مسلمانوں سے سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دینے کیلیے نہیں کہنا ہے ، نہ اسکا تذکرہ کرنا ہیکہ نتیش جی ہی کی وجہ وقف قانون پاس ہوا ، مولانا انیس الرحمان صاحب اور انکے پورے گروہ نے نتیش جی کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا ہے ، کہ بھی نہیں سکتے ، قابل ذکر بات یہ ہیکہ یہ سارے لوگ بورڈ میں ہیں اور صدر بورڈ کے قریبی ہیں ، کوئ اگر یہ سوچتا ہیکہ نتیش جی سے جو معاملہ ہوا ہےاس اعلان سے کہ وقف کو ہم سیاسی نہیں بنائیں گے اس ڈیل پر یہ عمل درآمدتو نہیں ہے ؟ اور اسی ذیل کی وجہ سے اس گروہ کی طرف سے نتیش کی مخالفت نہیں ہورہی ہے تو کیا اس سوچ کو بے بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے ؟ ، وہ معاملہ یہ ہیکہ امارت پر ہم قبضہ دلوائیں گے اورآپ لوگ الیکشن میں مسلمانوں کا ووٹ دلوائیں گے۔
بورڈ اور اویسی
ابھی مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کا کوئی پروگرم اویسی کے بغیر نہیں ہورہا تھا ، بلکہ بورڈ کے احتجاجی پروگراموں میں اویسی ہی سب نمایاں چہر ہ تھے ، اسکے بعد حکومت کی طرف سے اویسی صاحب دورہ پر نکل گئے ، اس سے پہلے بورڈ میں کبھی کسی سیاسی ممبر کو آگے نہیں بڑھا یا گیا ، پہلے بھی ایک دو سیاسی لوگ بورڈ کے رکن رہے ہیں ، کئ تو سینٹر میں کابینہ درجہ کے و زیر بھی تھے ، کوئی اگر یہ سوچے کہ اویسی صاحب بالواسطہ بورڈ کی نمائندگی کر رہے ہیں تو کیا سرے سے اسے خارج کیا جاسکتا ہے ؟
ایک اور سوال : رانچی یا دوسرے جگہوں پر ابھی وقف قانون پر جو پرو گرام ہورہے وہ ہونے چاھیے یا نہیں ، اس سوال کو نظر انداز کرتے ہیں ، بورڈ یہ سمجھتا ہیکہ یہ مفید ہے ، ٹھیک ہے ، لیکن جھارکھنڈ میں ایسا کیوں ہیکہ پروگرام کیلیے انہیں افراد کو ذمہ داری دی جاتی ہے جو مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کر رہے ہیں ، جنہوں نے حکومت کی مدد سے رمضان میں غنڈہ گردی کے ذریعہ امارت پر قبضہ کی کوشش کی ، جنہوں نے بڑے بڑے گھپلے کئے ہیں ، پہلے پروگرام کے کنوینر کو چھوڑتے ہیں کہ معاملہ گزر چکا ہے ، آنے والے بائیس جون کے پروگرام کا ڈاکٹر مجید عالم صاحب کو کنوینر نامزد کیا گیا ہے ، ڈاکٹر صاحب مولانا انیس الرحمان صاحب قاسمی کے بڑے مددگار بھی ہیں اور انکے رشتہ دار بھی ، اپنے ضعف پیری کے باوجود رمضان میں امارت پر قبضہ کیلیے پھلواری پہنچے تھے ، رانچی کے لوگ واقف ہیں کہ ملت اور امارت کی رنگ روڈ پر ایک بڑی زمین تھی ، مافیا لوگ اس پر کچھ کرنے نہیں دے رہے تھے ، یہاں ڈاکٹر صاحب کی بھی دس ایکڑ زمین تھی ، ڈاکٹر صاحب نے ڈیل کرکے امارت اور ملت کو شہر سے باھر بدلے میں زمیں دلوادی اور ڈاکٹر صاحب کو اپنی اس دس ایکڑ زمین پر قبضہ مل گیا ، مولانا انیس الرحمان صاحب اور بعض دوسرے لوگوں کو بھی اس ڈیل سے مالی فائدہ پہنچا ، مولانا انیس الرحمان صاحب قاسمی جب بھی رانچی آتے تھے امارت رانچی میں قیام کرتے تھے لیکن جب اس ڈیل کا پیسہ وصول کرنا ہوا ہوا تو رانچی کے ایک ہوٹل میں قیام کیا ، ا یک صاحب ہیں جمشید پور کے ریاض شریف صاحب جو افتراق و انتشار پھیلانے کے ہر کوشش میں پیش پیش رہتے ہیں ،مولانا نذر توحید صاحب کم از کم جھارکھنڈ کے مسلمان خوب جانتے اور سمجھتے ہیں ، معلوم نہیں کیوں بورڈ کی طرف سے ایسے لوگوں کو جھارکھنڈ کے مسلمانوں پر باربار مسلط کیا جارہا ہے بورڈ کو رانچی کے اہم اور معزز لوگوں کی طرف سے لکھا بھی گیا تھا کہ ان ناپسندیدہ لوگوں کو ہر گز کنوینر نہ بنایا جایے۔
اسکے باوجود انہی لوگوں کو پروگرام کا ذمہ دار بنانا ناقابل فہم ہے ، بورڈ کی طرف سے اس طرح انہیں آگے بڑھانے اور عزت افزائی سے کیا یہ میسیج نہیں جارہا ہیکہ بورڈ کی قیادت کی طرف سے ان لوگوں کی حرکتوں کو ہری جھنڈی ملی ہوئی ہے ، بورڈ کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہیکہ ملت کے تمام مکاتب فکر ، تمام تنظیموں ، تحریکوں اور تمام مسالک کو روز اول سے ساتھ لیکر چل رہا ہے ، بورڈ شعوری یا غیر شعوری طورپر جھارکھنڈ میں بطور خاص اس طرح کا رویہ اپنائے ہویے ہیکہ اتحاد کے بجائے انتشار و افتراق کو غذا مل رہی ہے ، اسکی وجہ سے لوگوں میں بورڈ سے بھی بدگمانی پھیل رہی ہے ، ، بورڈ کی موجودہ قیادت کو بورڈ کے روشن ضمیر بانیان اور سابق صدور و عہدیداران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ہر عمل سے ، ہر اقدام سے ملت میں افتراق و انتشار کے بجائے اتحاد و اتفاق کا پیغام دینا چاھئیے کہ بورڈ کا بقاء و استحکام اور اسکی طاقت و قوت اسی میں مضمر ہے ۔
0 تبصرے