Ticker

6/recent/ticker-posts

پودا جو میں نے لگایا

پودا جو میں نے لگایا


مجیب الرحمٰن کو ان کی پہلی کاوش " کہانیوں کا گلدستہ" کی اشاعت پر مسرت بھرا پیغام

نعیم الدین قاسمی۔ استاد جامعہ عربیہ دارالاسلام گریڈیہ۔ جھارکھنڈ

کاشتکار زمین میں تخم ڈالتا ہے، جب صحت مند پودا تیار دیکھتا ہے، تو امید بندھ جاتی ہے کہ پودا اگر کسی آفت کا شکار نہ ہوا تو آگے چل کر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلے گا اور اس میں کثرت سے ٹہنیاں، پتے، پھول اور پھل آئیں گے، پھولوں کیلئے شہد کی مکھیاں اور پھلوں کیلئے نہ صرف چرندے پرندے بلکہ حضرت انسان اس پر لپکیں گے، اور اس کے ایک ایک پھل چن کر اپنی زندگی کا لطف اٹھائیں گے، اس لئے ایسے پودے کی حفاظت کسی اکلوتے بچے سے کم نہیں ہوتی ہے، اور جب وہ اپنی دیرینہ محنت کا پھل اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی ہے۔

یہی کچھ صورت مولانا مجیب الرحمٰن ندوی سلمہ پر فٹ بیٹھتی ہے، بچپن میں نانا جان( مولانا قاری زین العابدین صاحب مفتاحی زید مجدہ) نے جامعہ عربیہ دارالاسلام کرمئ میں داخلہ دلایا، اور مسلسل سرپرستی فرمائ، لمحہ بھر کیلئے بھی شفقت سے غافل نہ رہے، نانی جان (مظلوم النساء اطال اللہ عمرہا) کی نیک دعائیں اور خصوصی توجہات پیہم شامل رہیں، نورانی قاعدہ سے تعلیم کا آغاز ہوا اور بڑی تیزی سے درجہ حفظ کو چھو لیا، اور دو سال کی قلیل مدت میں حفظ قرآن کی تکمیل کرلی، آں عزیز کے استاد( مولانا قاری محمد حنیف صاحب قاسمی مد ظلہ) کا بیان ہے کہ ایسا باذوق بچہ نایاب نہیں مگر کمیاب ضرور ہے، خود راقم الحروف نے بارہا اس طالب علم کو یکسو مزاج، اپنے ساتھیوں سے دور مگر کتابوں سے قریب پایا، طبیعت میں بھولا پن اس قدر کہ نہ گھر سے کوئی مطلب نہ نانی گھر آنا جانا، جب کبھی نانی جان نے یاد کیا چھٹی لیکر چل دئے، اور ضروری خورد و نوش لیکر مدرسہ کی طرف رواں دواں، بس پڑھنے لکھنے کا ایک خاص ذوق تھا جس نے سب کچھ تج رکھا تھا، بقدر الکد تکتسب المعالی، من طلب العلی سہر اللیالی۔

یہاں کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملک کے چھوٹے بڑے مدارس کا رخ کیا اور ہوتے ہواتے ایشیاء کے عظیم درسگاہ علم و ادب دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اور وہاں کے چیدہ و چنیدہ اساتذہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کرکے خوب کسب فیض کیا، جن کا اندازہ آں عزیز کی درسی صلاحیتوں، بیانات، اور مختلف مضامین پر مشتمل تحریروں سے ہوتا ہے۔

حال ہی میں آں عزیز کی ایک تازہ تصنیف " کہانیوں کا گلدستہ" نظر سے گزری جو غالباً ان کی پہلی تصنیف ہے، کتاب کیا ہی خوب ہے، انداز بیاں شائستہ اسلوب نرالا مگر عام فہم، مستند واقعات و قصص کو موقع بموقع ذکر کرکے ان سے مفید نتائج نکال کر بچے بچیوں کی کردار سازی کی بھر پور کوشش اور برے اخلاق سے دور اور اچھے اخلاق سے قریب کی سعی پیہم کی گئی ہے، کتاب پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی نو آموز کی نہیں بلکہ کسی کہنہ مشق ادیب کی تصنیف ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ اتنا عظیم الشان کام وہی انجام دے سکتا ہے جن کی حقائق و واقعات پر گہری نظر ہو، اور کتاب کی طرح بچوں کے نفسیات کو بھی پڑھا ہو۔

اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مفید بنائے، اور آں عزیز کے قلم کو مضبوط کرے، اور علمی دنیا کا بہترین شہسوار بنائے۔
ایں دعا از من و جملہ، جہاں آمین بار۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے