Ticker

6/recent/ticker-posts

قربانی کو لیکر ہنگامہ آرائی کیوں؟ کیا کہتی ہے ہندو مذہبی کتابیں

قربانی کو لیکر ہنگامہ آرائی کیوں؟ کیا کہتی ہے ہندو مذہبی کتابیں


مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ

مسلمانوں کا مذہبی تہوار عید و قرباں کی آمد آمد ہے، مسلمان خوشی خوشی تیاریوں میں جٹے ہوئے ہیں، ہر طرف چہل پہل ہے، ایک دوسرے سے مل کر جائزہ لے رہے ہیں، قربانی کے جانوروں کی خریداری اس کی دیکھ ریکھ میں مصروف ہیں، ایک عظیم عبادت کو ادا کرنے کیلئے سب کوشاں ہیں، ہر مسلمان چاہ رہا ہے کہ قربانی میں کسی طرح کی دشواری نہ ہو اور دو پیغمبر حضرت ابرہیم علیہ السلام و حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد کو صحیح ڈھنگ سے تازہ کریں اس کی فکر میں لگے ہوئے ہیں، تو وہیں دوسری طرف قربانی کو لیکر ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے، کچھ متشدد اور اپنے دھرم سے جاہل یہ کہ رہے ہیں کہ قربانی میں بے قصور جانوروں کو کاٹنا کہاں تک جائز ہے، مسلمان گوکشی کرتے ہیں، بے گناہ جانوروں کی ہتھیا کرتے ہیں، یہ سب آتنگ ہے، اس طرح کی آوازیں چاروں طرف سے بلند ہو رہی ہیں، اور ہر سال بقرعید کے موقع پر یہ ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے، کتنے معصوم اور بے گناہوں کو مار دیا جاتا ہے، گوکشی کے جھوٹے الزام لگا بھیڑ بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑتی ہے اور بے چارہ کی جان چلی جاتی ہے۔


حالانکہ قربانی فقط ایک مذہبی تہوار ہے جو کہ اللہ کا حکم ہے اور انسان دنیا میں رہ کر بھی اللہ کا حکم نہ مانے تو پھر اس کو زندہ رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔

قارئین باتمکین!

آئے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ قربانی کے سلسلہ میں ہندو مذہبی کتابیں کیا کہتی ہیں۔۔۔۔۔


رگ وید


>ل "یَتھاپُوروشتھم یَگنم تتھاویرَ دَھت پرَوَکت"
ترجمہ: جیسے قدیم زمانے میں یگیہ (قربانی) کیا گیا، ویسے ہی تم بھی کرو۔

تشریح:
یہ منتر "پُروش سُکت" کہلاتا ہے جس میں "پُروش" (ایک عظیم ہستی) کی قربانی کا ذکر ہے، جس سے دنیا کی تخلیق ہوئی۔ اس میں ایک واضح قربانی کا تصور پایا جاتا ہے۔
"پشو یگیہ کرتویہ:۔"
ترجمہ: جانوروں کی قربانی (پشو یگیہ) کی جانی چاہیے۔

تشریح:
یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ یگیہ میں بعض اوقات جانوروں کی قربانی بھی دی جاتی تھی، اور اسے دھارمک (مذہبی) عمل سمجھا جاتا تھا۔

3. مہا بھارت (Mahabharata)


اَنُشاسَن پرو، ادھیائے 88، شلوک 5:

> "اہِمسَا پرمو دھرم:، اہِمسَا پرمو تپ:۔"
(ترجمہ:) عدم تشدد سب سے بڑا دھرم ہے۔

لیکن:
اسی مہابھارت میں راجاؤں کی طرف سے اشومیدھ یگیہ (گھوڑے کی قربانی) کا بھی ذکر ہے، جیسے:

رام چندر جی نے اشومیدھ یگیہ کیا

یُدھِشٹِھر نے بھی اشومیدھ یگیہ کیا


اس سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی کا عمل مہابھارت کے دور میں ایک اہم مذہبی رسم تھی۔

4. رامائن (Ramayana)


> "راجا دشرتھ نے پُتر کامیشٹی یگیہ کیا"
ترجمہ: بیٹے کی خواہش میں راجا دشرتھ نے یگیہ کیا، جس میں قربانی شامل تھی۔

تشریح:
رامائن میں یگیہ کے ذریعہ فطری قوتوں کو خوش کرنے اور مرادیں پانے کا تصور واضح ہے۔

منو سمرتی (Manusmriti)


> "یگیارتھم پشو نبھن"
ترجمہ: یگیہ کے لیے جانوروں کی قربانی کی جا سکتی ہے۔

تشریح:
یہ عبارت قربانی کی مذہبی حیثیت کی تائید کرتی ہے، البتہ بعض دیگر جگہوں پر عدم تشدد کی تعلیم بھی ملتی ہے۔

خلاصہ:

ہندو مذہبی متون میں "یگیہ" یا "ہون" کے نام سے قربانی کا تصور موجود ہے۔ بعض متون میں پودوں، اناج، گھی، شہد وغیرہ کی قربانی جبکہ بعض میں جانوروں کی قربانی (پشو یگیہ) کی اجازت اور روایت ملتی ہے۔


یہ مختصر سا جائزہ یہاں پیش کیا گیا۔
اب جو اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں اور سناتنی کہلاتے ہیں ذرا یہ بتائیں کہ اگر آپ سناتن دھرم کے پیروکار ہیں تو پھر اپنے ہی دھرم کی کتابوں سے غداری کیوں ؟ یا آپ الگ دھرم کو مانتے ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں،یا پھر اپنے ہی مذہب کو اپنی جہالت سے بدنام کررہے ہیں۔

قربانی اگر صرف معصوم جانوروں کو ذبح کرنا ہے تو پھر جان کی حفاظت اسلام سے زیادہ کسی بھی دھرم میں نہیں ہے، جو اسلام یہ کہے کہ سمندر میں بھی اگر وضو کررہاہو تو سمندر کا پانی اتنا ہی استعمال کرو جتنے میں وضو ہو جائے، پانی میں اسراف نہیں ہے، ذرا غور فرمائیں پانی بھی احتیاط سے بہانے کا حکم جو دھرم دے وہ خون بہانے کی اجازت کیوں کر دے سکتا ہے۔

اور پھر یہ کہ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ ہر اس چیز کو قربان کردینے کا نام ہے جو چیزیں انسان کے اندر انسانیت کے خلاف ہو، اس تہوار کا مقصد صرف خدا ( ایشور) کو خوش کرنا ہوتا ہے۔

مسلمانوں کے اس مذہبی تہوار پر ہنگامہ کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں صحیح ہے یا غلط، یا اپنے ہی مذہب کے قاتل ہیں۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ملک ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے، جہاں ہر انسان کو اس کے حقوق دئے گئے ہیں، ہر ایک کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی کھلی آزادی دی گئی ہے، ملک قانون سے چلتا ہے اور جہاں قانون کی بالادستی ختم ہو جاتی ہے وہاں انتشار پھیلتا ہے، تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں اور سلسلہ دراز ہونے پر وہ ملک قتل و غارتگری کی آماجگاہ بن جاتا ہے، بہت سے ممالک لاقانونیت سے تباہ ہوگئے، ماضی کی تاریخ سامنے رکھ کر مستقبل کی فکر اچھا نتیجہ لیکر آتی ہے۔


ایسا نہیں ہے کہ ملک میں ہندوؤں کے یہاں جانور ذبح نہیں کئے جاتے ہیں، بلکہ ان کے تہوار کا نام ہی پوجا ہے۔۔۔ جیسے۔۔ کالی پوجا، درگا پوجا وغیرہ جسمیں نہ جانے لاکھوں کی تعداد میں جانور کاٹے جاتے ہیں، اس وقت کسی بھی مسلمان کی زبان پر کوئی حرف شکایت نہیں آتی، کیوں کہ اسلام نے دوسرے دھرموں کا احترام کرنا سکھایا ہے، اس کی تعلیم دی ہے، پھر برادران وطن کی طرف سے قربانی میں ہنگامہ کیوں ؟ قربانی کے نام پر لنگچنگ کے ذریعے مقتول پر سرکار کی خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

اللہ خیر کا معاملہ فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے