بھوک سے بلبلاتے بچے
مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ
یہ بھی انسانی بستی ہے، اور انسان ہی رہتے ہیں، بچے بھی ہیں، جوان، بوڑھے بھی ہیں۔ انسانوں کی طرح ان کے بھی ہاتھ پاؤں، دل جگر، خون، بھوک پیاس اور ضروریاتِ زندگی ہیں۔ انہیں بھی سر چھپانے کے لیے چھت اور ستر ڈھکنے کے لیے کپڑے کی ضرورت ہے، لیکن وہ انسان ایسے ہیں کہ پیدائش ہی بموں اور توپوں کے بیچ ہوتی ہے۔ بچے ہتھیاروں سے کھیل کر پروان چڑھتے ہیں، دشمنوں کے سائے میں بوڑھے ہوتے ہیں۔ ان کی شادیاں بھی گولیوں کی گڑگڑاہٹ میں ہوتی ہیں، اور منظر میں لاشیں ہوتی ہیں۔ دنیا نے کبھی ان کو انسانوں کی طرح نہیں سمجھا، درندوں سے بھی بڑھ کر سلوک کیا، اور دنیا کا کھلونا اس بستی کی لاشیں ہیں۔ خون کی پیاسی دنیا وہیں سے سیراب ہوتی ہے، آدم خور ان کی لاشوں سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں، دشمن اپنے ہتھیار وہیں سے آزماتے ہیں۔ دنیا کی ہولی دیوالی کا رنگ اسی بستی کے خون سے ہوتا ہے۔
اس بستی کے لوگ اپنے اعزّا و اقارب کو ہر بار آخری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بیٹا اپنی ماں کی گود میں ہوتا ہے تو ایک خواب کی طرح ہوتا ہے، نہ جانے کب خواب ٹوٹ جائے۔ شوہر اپنی بیوی کی باہوں میں سوکھی ٹہنی کی طرح ہوتا ہے، نہ جانے کب درخت سے الگ ہو جائے۔ بھائی بہن کا رشتہ بھی کھردرے کاغذ کی طرح ہوتا ہے، جس کے ذرات بہت جلد فضا میں بکھر جاتے ہیں۔
وہاں سانسیں اٹکتی ہوئی چلتی ہیں، ہر قدم موت کے سینے میں ہوتا ہے، ہر صبح بلکہ ہر لمحہ نئی زندگی ہوتی ہے، ہر شام موت کی شام ہوتی ہے۔
یہ سب منظر دنیا کے سامنے ہے، انسانیت نواز تنظیموں کے سامنے ہے، غم خوار لیڈران کے سامنے ہے، اور ستاون ہم مشرب و ہم مسلک ملکوں کے سامنے ہے۔ لیکن جب ضمیر میں گندگی ہو، ذہن و جسم غلام ہو، تو پھر طاقتیں شمع بن جاتی ہیں اور کچھ دیر کی روشنی کے بعد پگھل کر ختم ہو جاتی ہیں۔
اس وقت کا منظرنامہ سامنے ہے: بوڑھے اپنے سہاروں کو پکار رہے ہیں، بہنیں بھائیوں کو پکار رہی ہیں، بچے ماؤں کو پکار رہے ہیں، لیکن ہر ایک کی آواز صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے۔ تاریخ میں شعبِ ابی طالب پڑھا تھا، آج دیکھنے کو مل رہا ہے۔ تاریخ میں بھوک سے مرتے پڑھا تھا، آج دیکھ لیا۔ بھوک سے جسم کا ڈھانچہ بنتے پڑھا تھا، آج دیکھ لیا۔ یہ بھی پڑھا تھا کہ لوگ اس منظر کو دیکھ کر اپنا جگر ٹھنڈا کرتے تھے، آج دیکھ لیا۔ یہ واقعہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا، ابھی اس کے ستم کی لمبی قطاریں استقبال کے لیے کھڑی ہیں، اور دنیا کی بے حسی بھی گلدستہ لیے راہیں تک رہی ہے۔
بھوک سے بچوں کا تڑپنا جب یاد آتا ہے اور ان کے جسم کا سکڑنا جب نظروں کے سامنے گھومتا ہے تو کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ انسان اپنے بچوں کی ذرا سی پریشانی پر بے چین ہو جاتا ہے، تڑپنے لگتا ہے، ادھر ادھر بھاگنے لگتا ہے، ہاتھ پاؤں، اعضا و جوارح پھولنے لگتے ہیں۔ آہ! یہ کیسا منظر ہے کہ ان معصوموں کے لیے تڑپنے والا کوئی نہیں، ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں، بے چین دل کو قرار دینے والا کوئی نہیں، ایک گھونٹ پانی دینے والا کوئی نہیں، آخری سانس تک وہ صرف موت کا چہرہ دیکھتا ہے اور اسی کی آغوش میں سما جاتا ہے۔
دنیا میں اتنے باپ ہیں، کسی کو ترس نہیں آتا، کسی کو رحم نہیں آتا، کسی کی پیشانی پر شکن نہیں آتی۔ باپ کا دل تو ایسا نہیں ہوتا۔ اپنے بچوں کی خاطر جان دینے والے، بے سہارا معصوموں کے لیے اتنے سخت دل کیوں ہیں؟ اپنے بچوں کو لگژری گاڑی میں گھماتے وقت ان بچوں کا تڑپنا یاد نہیں آتا؟ طرح طرح کے لباس اور کھلونے خریدتے وقت ان معصوموں کی بے بسی یاد نہیں آتی؟ عمدہ قسم کے کھانے کھلاتے وقت ان بچوں کی بھوک یاد نہیں آتی؟ اپنے بچوں کو پیار کرتے وقت ان بے یار و مددگار بچوں کا بلکنا، بلبلانا یاد نہیں آتا؟ اگر خیال تک بھی نہیں آتا ہے، تو پھر انسان، انسان نہیں رہا بلکہ وہ کسی اور مخلوق کی صف میں کھڑا ہے۔
پیارے شہید! ننھے شہید! ہمیں معاف کرنا، اس لیے کہ انسانیت ختم ہو گئی ہے، بے حسی چھا گئی ہے۔ قیامت کے دن کس منہ سے سامنا کریں گے، اس کا تصور آتے ہی لرزہ طاری ہو جاتا ہے، ہاتھ کانپنے لگتے ہیں اور قلم رک جاتا ہے۔
جنت کی نعمتوں سے خوب سیراب ہو رہے ہوں گے، اور تمام آسائشوں میں ہوں گے، انسانوں نے بھلا کب کس کا درد جانا ہے ، یہاں سب اپنے مفاد کیلئے جیتے ہیں اور مرتے ہیں ، آپ سب اپنے اصلی ٹھکانے پر پہنچ گئے ہیں ، بس ہمیں معاف کرنا ۔
0 تبصرے