مجھے نئی نسل کی فکر ہے...!!
انسانوں کے برے اعمال اور دشمن کی سازشوں کی وجہ کر حالات ہردن بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بیشتر انسانی آبادی اب " اَسفَلَ سٰفلین" کی مثال بنتی جارہی یے۔تعلیم بغیر تربیت کے، دولت بغیر برکت کے، عبادت بغیر تقوٰی کے، رشتہ بغیر محبت کے اور انسان بغیر انسانیت کے اس دور کا خاصہ بن چکے ہیں، الا ماشاءاللہ۔ان حالات میں بھی ہم صرف اپنی خواہش نفس کی فکر میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ نئی نسل کی تربیت اب زمانے کے حوالے چھوڑ دیا گیا ہے۔ والدین اپنی جھوٹی انا کو اولاد پر تھوپنا چاہتے ہیں تو نوجوان اپنے بڑوں کو دقیانوسی کہہ کر درکنار کر چکے ہیں۔ الغرض لگتا ہے کہ نئی نسل کی فکر کرنے کی اب قطعی ضرورت نہ رہی۔
اس دور میں بغیر تربیت کے تعلیم کا چلن عام ہے، اسی لیے نئی نسل کی پرورش کرنا اب سب سے مشکل کام بن چکا ہے۔ وقت کے ساتھ ہم نئی نسل کی اخروی کامیابی کے تعلق سے انتہائی غیر حساس ثابت ہوئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پچھلی کچھ دہائیوں میں اکثر والدین صرف اپنی اولاد کی نہیں بلکہ قرب و جوار میں نوجوان نسل کی بھی فکر کرتے تھے۔ نئی نسل کی تربیت ایک سماجی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی۔ وقت نے ایسا کروٹ بدلا کہ لوگ اب سمٹ کر اپنے گھروں میں صرف اپنی اولاد کی ترقی کے لئے سوچنے پر ہی اکتفا کرنے لگے ہیں۔ دنیا کی بھاگ دوڑ نے انسانی رشتوں کو اتنا کمزور کردیا ہے کہ ہر شخص دوسرے کو ٹھوکر مار کر آگے نکل جانا چاہتا ہے۔ اس بھاگ دوڑ میں تربیت بہت پیچھے چھوٹ چکی ہے۔ اب تو تربیت کے فن سے بیشتر والدین بھی عاری ہو چکے ہیں۔ اکثر والدین اپنی اولاد کی پرورش بھی صحیح نہج پر نہیں کر پا رہے ہیں۔ نتیجتاً اکثر و بیشتر گارجین کو صحیح اور غلط میں فرق کرنے کا بھی شعور نہیں ہے۔ فکر صرف اتنی ہے کہ میری اولاد کو زندگی کی ساری سہولیات میسر آجائے۔ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی دھن نے والدین کو بھی دولت کا دیوانہ بنا دیا ہے۔ حتیٰ کہ والدین کی مالدار اولاد ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ لگتا ہے اب لوگوں کا سماج سے سروکار نہ کے برابر بچا ہے۔الا ماشاءاللہ
نسل سے زمانہ چلتا ہے۔ نئی نسل کی ترقی یا تنزلی میں قوموں کا عروج و زوال چھپا ہوا ہے۔نسلوں کے اچھے یا برے اعمال پر سماج کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔تربیت یافتہ نسلوں کی بقا پر ہی دین کی اشاعت ممکن ہے۔نسلیں برباد ہوئیں تو قوموں کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ ہماری نسل جیسے جیسے دین سے دور ہوگی ویسے ویسے ہم قیامت کے قریب ہوتے جائیں گے۔ حالانکہ فطری طور ہر موجودہ نسل آئندہ نسل کی فکر کرتی ہے۔جہاں ایک طرف نسلوں سے زمان و مکان کا وجود ہے تو دوسری طرف خاندانوں کی زندگی بھی قائم و دائم رہتی ہیں۔ہر شخص اپنی نسل کی بقا کے لئے تمام دنیاوی وسائل کا انتظام کرتا ہے۔انسانی آبادی میں جہاں کچھ لوگ اپنی اچھی کارکردگی کے ذریعہ اپنے خاندان کا چراغ روشن رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہیں کئی لوگ اپنی لاپرواہی کی وجہ سے اپنی نسل کو برباد کر دیتے ہیں۔شاید جدید دور کی حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی دنیا بنانے میں حد درجہ حساس ہیں لیکن ان کی آخرت سنوارنے کے تعلق سے اتنا ہی لاپروا ثابت ہوئے ہیں۔اللہ ہمیں اس کی سمجھ دے۔ دینی شعور کی کمی کے نتیجے میں نئی نسل میں اضطراب، ڈپریشن، اور تنہا پسندی کے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے دباؤ، مستقبل کی غیر یقینی، اور موازنہ (comparison culture) اس کی بڑی وجوہات ہیں۔Burst of Informations کی وجہ سے صحیح صورتحال اور مواقع کا پتہ لگانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔
آئیے اب ایک سرسری جائزہ لیں کہ ہم اپنی نسل کے لئے کتنے فکر مند ہیں اور آنے والے زمانے میں ان کے سامنے کون کون سے بڑے چیلنجز درپیش ہوں گے۔ روحانی ترقی کے لئے دین کی سمجھ اور جسمانی ترقی کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان آج بھی بنیادی ضرورت ہے۔روح کی مضبوطی پر ہی جسم و ذہن کی طاقت کا دارومدار ہوتا ہے۔دین کی سمجھ بنانے کے لئے لولھی لنگڑی تعلیم اور دنیا کی ترقی کے لئے مضبوط و توانا تعلیم حاصل کرنا اب ہماری فطرت بن گئی ہے۔ہم نے دین کی سمجھ بنانے کی ذمہ داری مدارس پر چھوڑ رکھا ہے اور دنیا کی عیش و عشرت حاصل کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھ بیٹھے ہیں۔دین کو سمجھنے کے لئے مطالعہ اہل مدرسہ کریں، باقی لوگوں کو تو دنیاوی آسائشوں کا چیمپین بننا ہے۔ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا علم سیکھنے والا کم سے کم میں اپنی زندگی گزارے اور بقیہ لوگ دنیا کے بادشاہ بننے میں لگے رہیں۔نام نہاد دینی و دنیاوی تعلیم کا فرق ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے بڑھتی جارہی ہے۔
دین کی بقا کے لئے کتنی اور کیسی محنت کرنی ہے یہ بھی ہم سب کو معلوم ہے صرف اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔چونکہ دینی شعور کی کمی کا اثر روز مرہ کی زندگی میں براہ راست انسانی جان پر دکھائی نہیں پڑتا ہے لہٰذا اکثر لوگ شیطانی شکنجے میں پھنس کر اپنے دین کا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔دینی سمجھ ہر انسان کی ذاتی سمجھ اور گھریلو ماحول پر بہت حد تک منحصر کرتا ہے۔اس سلسلے میں مجھے یہاں اس سے زیادہ گفتگو نہیں کرنی ہے لیکن یہ بات طئے ہے کہ دین کی سمجھ سے ہی دین و دنیا میں کامیابی ممکن ہے۔رہی دنیاوی زندگی کے سامان حاصل کرنا تو وہ بھی آنے والے دنوں میں کتنا مشکل ہونے والا ہے اس پر مزید غور کیا جائے گا۔ موجودہ دور میں اَدھیڑ عمر کے لوگوں نے شاید پچھلے دور کے تربیت یافتہ والدین کو دیکھا اور آج کے غیر تربیت یافتہ نوجوانوں کو بھی دیکھ رہے ہیں۔شاید اسی لئے اچھے اور برے کی تمیز کچھ حد تک ابھی باقی ہے۔نئی نسل کی دولت کمانے اور دنیاوی آسائشوں سے محبت نے دینی رجحان کو بہت کمزور کیا ہے۔ ان کے سامنے آج اور آئندہ کے طاغوتی اور دجالی نظام میں خود کو بچا کر رکھنا ایک بڑا چیلینج بن چکا ہے۔
میری نظر میں نئی نسل کے سامنے خصوصی طور پر تین چیلنجز ہیں جو پہلے بھی تھے، آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ (1) تعلیم (2) روزگار (3) کردار۔ ان تین چیزوں پر ہی نوجوان نسل کے دین و دنیا کا انحصار ہے۔اب ہم تینوں چیلنجز جو اب مسائل بن چکے ہیں، الگ الگ غور کریں گے۔
(1)۔ تعلیم :- مادیت کے اس دور میں ایسی تعلیم حاصل کرنا جس کے ذریعہ بہتر اور اطمینان بخش زندگی گزاری جا سکے، ایک بڑا چیلینج بن چکا ہے۔اس ماحول میں باشعور والدین کو ایسے تعلیمی اداروں کا چناؤ کرنا چاہیے جہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی نظام ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تربیت کے بغیر تعلیم حاصل کرکے نوجوان ایک پڑھا لکھا جانور بن کر رہ جائے۔ دولت تو خوب کمائے مگر اسے خرچ کرنے کا شعور نہ ہو۔ آج کے ماحول میں جبکہ صرف دنیا کو ترجیح دینے کا مزاج ہو، ایسا نہ ہو کہ تمام اخلاقی اور مذہبی قدروں کو درکنار کرکے نوجوان صرف دولت کمانے کی مشین بن جائے۔ہندوستان کے موجودہ ناقص تعلیمی نظام میں صرف کتابی صلاحیتیں بڑھ رہی ہے جس سے روزگار ملنے میں زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تعلیم بغیر تربیت کے ایک ایسے سماج کو فروغ دیتا ہے جس میں باشعور انسان کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے۔ایسا نہ ہو کہ نوجوان نسل تربیت کے بغیر علم حاصل کرکے سب کچھ بن جائے مگر " اچھا انسان " نہ بن پائے۔
علامہ محمد اقبال نے اپنی مشہور غزل
"بال جبرئیل" میں لکھا ہے۔
" یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی؟"
جدید تعلیم کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رسمی تعلیم (کالج) صرف ڈگریاں دیتی ہے، لیکن انسانوں کو اخلاقیات، جذبہٴ ایثار اور حقیقی علم سے محروم کر دیتی ہے۔ اقبال کے نزدیک تعلیم کا مقصد صرف روزگار کمانا نہیں، بلکہ انسانیت کی بلندی ہے۔ علامہ اقبال کا تصورِ تعلیم ،جب عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایسا انسان وجود میں آتا ہے جس کا نام اقبال کے اپنے الفاظ میں '' مردِ مومن ''ہے
( 2 ) روزگار :- مہنگائی اور بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے دور میں حلال روزی کمانا ایک بہت بڑا چیلینج ہے۔اس پر سے ایسا روزگار یا نوکری حاصل کرنا جس میں سکون اور اطمینان بھی میسر ہو زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ سائنس کے اس دور میں جہاں مواقع کی کمی ہوتی جارہی ہے، ایک مستحکم روزگار کا ذریعہ تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔سنجیدہ نوجوان کے سامنے یہ ایک مشکل کام ہے کہ Artificial Intelligent ( مصنوعی ذہانت ) کے دور میں ویسی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے جس سے مقابلہ جاتی امتحان سے گزر کر حلال روزی تلاش کیا جا سکے۔ اچھے روزگار کی تلاش میں بیشتر نوجوان گھر سے دور غیر ملک چلے جاتے ہیں جس کے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گھر سے دور رہ کر ذہنی دباؤ کے شکار نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بیوی بچوں کو چھوڑ کر ملک سے باہر جانے کی مجبوری سے خاندانی زندگی تباہ ہو رہی ہے۔پردیس جاکر زیادہ کمانے کی چاہت جائز ضرور ہے لیکن آخر کار اس کے برے اثرات زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔لہٰذا بہت سوچ سمجھ محتاط قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
( 3 ) کردار :- کردار کشی کے دور میں کردار سازی سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ آج موبائل کی شکل میں ہر ہاتھ میں کردار کشی کا ایٹم بم موجود ہے۔ چاروں طرف غیر اخلاقی تعلیم اور غیر مہذب روزگار کے یلغار میں اپنا تشخص بچا کر رکھنا اس دور کا سب سے بڑا چیلینج بن گیا ہے۔عالمگیریت اور مغربی ثقافت کے اثرات کی وجہ سے نئی نسل اپنی ثقافتی اور مذہبی شناخت کے درمیان توازن قائم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ دولت کی ریل پیل میں اخلاقی گراوٹ اور کردار کی کمزوری نوجوان نسل کے مستقبل کو مایوس کر رہی ہے۔لہٰذا سنجیدہ والدین کو تعلیم سے زیادہ تربیت پر دھیان دینا ہوگا۔ ایسے ماحول میں سماج کے ذمہ دار شخصیات کو آگے آکر مثبت اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ممکنہ تاریک مستقبل کو تابناک بنایا جاسکے۔
نئی نسل کے پاس بے پناہ صلاحیتیں ہیں، پھر بھی موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے رہنمائی اور تعاون کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کے چیلنجز کو سمجھنے اور ان کا حل نکالنے کے لیے معاشرے کے تمام طبقوں (حکومت، والدین، تعلیمی ادارے، اور خود نوجوان) کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اگر ان چیلنجز کا مناسب حل نہیں نکالا گیا تو یہ نہ صرف ان کی ذاتی ترقی بلکہ قومی ترقی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کے ساتھ کھل کر بات کرنے، ان کے خدشات کو سننے اور مثبت رہنمائی کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ان کے لئے ہم بڑوں کو رول ماڈل بننا ہوگا۔ نئی نسل وہی کرتی ہے جو وہ اپنے بڑوں میں دیکھتی ہے۔ اگر ہم خود اچھے اقدار پر عمل کریں گے، تو وہ بھی متاثر ہوں گے۔ نوجوانوں کو صرف روایتی تعلیم ہی نہیں، بلکہ تخلیقی صلاحیتیں، تنقیدی سوچ اور جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ فتنے کے اس دور میں ان صلاحیتوں کی ضرورت کی اشد ضرورت ہے۔ نئی نسل کو امید اور حوصلہ کے ذریعہ مثبت تبدیلی کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ملک و ملت کے نوجوانوں کو ایک ایسا دیندار سماج بنانے کی توفیق عطا فرمائے جس میں باہمی خیرخواہی اور اخلاقی ہمدردی کا ماحول پروان چڑھے۔
سرفراز عالم
عالم گنج ،پٹنہ
رابطہ: 8825189373
sarfarazalam1965@gmai
0 تبصرے