Ticker

6/recent/ticker-posts

بڑھتے مشاعرے، گھٹتا اردو رسمِ خط

بڑھتے مشاعرے، گھٹتا اردو رسمِ خط


ماری بے حسی کا سب سے خاموش المیہ

abu shahma ansari


تحریر۔ابوشحمہ انصاری
سعادت گنج،بارہ بنکی

اردو زبان ہمیشہ سے تہذیب، شائستگی، فکر اور جذبات کی زبان رہی ہے۔ اس کا حسن صرف لفظوں میں نہیں، بلکہ اس کے رسمِ خط میں بھی پنہاں ہے۔ اردو کا ہر حرف اپنا رنگ، اپنی خوشبو اور اپنا مزاج رکھتا ہے۔ مگر آج کے دور میں ایک عجیب تضاد سامنے آ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف مشاعروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، بڑے بڑے اسٹیج سج رہے ہیں، ترنم کی گونج ہر شہر میں سنائی دے رہی ہے، شاعری کا شوق رکھنے والوں کی بھیڑ ہر طرف موجود ہے، وہیں دوسری طرف اردو رسمِ خط روز بہ روز کم زور ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے زبان کا اصل بدن کم زور ہو رہا ہے اور ہم صرف اس کی آواز کو زندہ رکھنے پر اکتفا کر رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال صرف افسوس ناک نہیں بلکہ لمحۂ فکریہ ہے۔

مشاعروں کا بڑھنا اپنی جگہ مثبت علامت ہے۔ یہ محفلیں صدیوں سے ہماری تہذیب کا حصہ رہی ہیں۔ جذبات کے اظہار، سماجی شعور اور فکری بلندی کا ذریعہ رہی ہیں۔ لیکن مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب یہ مشاعرے صرف تفریح تک محدود ہو جائیں، جب قافیہ و ردیف تو قائم رہیں مگر زبان کی بنیادیں کم زور پڑ جائیں۔ آج اکثر نوجوان شاعر مشاعروں میں داد ضرور سمیٹ لیتے ہیں، مگر ان میں سے ایک بڑی تعداد اردو رسمِ خط سے ناواقف ہے۔ وہ محبت، زندگی، خواب، سفر جیسے بنیادی الفاظ تک رومن میں لکھتے نظر آتے ہیں۔ "محبت" جب اردو میں لکھی جاتی ہے تو اس کا حسن کچھ اور ہوتا ہے، مگر "mohabbat" بن جائے تو گویا لفظ کا لباس اتر جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ رومن میں لکھنے کا رحجان اب فیشن بنتا جا رہا ہے، اور فیشن جب زبان پر حکم چلائے تو زوال یقینی ہو جاتا ہے۔


اس زوال کی ذمہ داری صرف نوجوان نسل پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ معاشرے میں جو بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اس کی ابتدا ہمیشہ گھر سے ہوتی ہے۔ آج ہمیں لگتا ہے کہ بچوں سے زیادہ والدین کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بچے وہی سیکھتے ہیں جو گھر میں دیکھا جاتا ہے۔ جب والدین خود اردو لکھنا چھوڑ دیں، جب انہیں اپنے ہی نام کا درست رسمِ خط معلوم نہ ہو، جب وہ سوشل میڈیا پر رومن اردو کو ثوابِ جاریہ سمجھ کر استعمال کرنے لگیں، پھر اگلی نسل سے امید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ والدین اگر کتاب کے بجائے صرف موبائل کو ہتھیار سمجھیں، اگر وہ زبان کے حسن کو اہمیت نہ دیں، اگر وہ اپنے بچوں کو کہانیوں، شاعری، ادب سے جوڑنے کے بجائے شارٹ ویڈیوز سے جوڑ دیں تو لکھی ہوئی زبان کا گرنا لازمی ہے۔ یہ حقیقت تلخ ضرور ہے مگر اسے مانے بغیر راہِ اصلاح ممکن نہیں ہے۔

آج کی نسل نہ پڑھنا چاہتی ہے اور نہ لکھنا، لیکن اس کا اصل سبب تربیت کی کم زوری ہے۔ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچے اسکول میں سب سیکھ لیں گے۔ مگر اصل تربیت کبھی اداروں میں نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ گھروں میں جنم لیتی ہے۔ بچے جب اپنے والدین کو اردو اخبار پڑھتے، کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھے دیکھیں گے تو ان میں بھی زبان سے محبت پیدا ہوگی۔ لیکن اگر والدین خود موبائل کی زبان پر چلنے لگیں تو بچے حرفوں کے بجائے صرف اموجیز میں بات کرنا سیکھیں گے۔ پھر رفتہ رفتہ ایسا وقت آئے گا جب زبان کا جسم مر چکا ہوگا اور صرف آواز باقی رہ جائے گی۔ ایسی زبان زندہ نہیں رہتی، وہ صرف سانس لیتی رہتی ہے۔


ایک اور پہلو بھی انتہائی اہم ہے۔ آج کے والدین اپنی ذمے داریوں سے زیادہ اپنی آسانیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ بچوں سے کہتے ہیں کہ "اردو مشکل ہے"، "اس میں لکھنا سمجھنا وقت لیتا ہے"، "رومن میں لکھو، سب کو سمجھ آ جائے گا"۔ یہ جملے صرف جملے نہیں بلکہ زبان کے جنازے میں پڑنے والی پہلی مٹھیِ مٹی ہیں۔ بچہ جب یہی سنتا ہے کہ اس کی زبان مشکل ہے، تو وہ اس سے دور ہو جاتا ہے۔ کسی بھی زبان کی حفاظت تب ہی ممکن ہوتی ہے جب اس کے بولنے والے اسے عزت دیں، اس کے حرف کو مشکل نہیں، قیمتی سمجھیں۔

سچ یہ ہے کہ مشاعرے بڑھ رہے ہیں، مگر زبان گھٹ رہی ہے۔ اسٹیج پر واہ واہ ہو رہی ہے، مگر گھروں میں الفاظ مر رہے ہیں۔ شاعر بڑھ رہے ہیں مگر قاری کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری نسل ترنم تو سن سکتی ہے مگر لفظوں کو پڑھنے کا حوصلہ کھو چکی ہے۔ زبان کا سفر صرف مشاعروں سے زندہ نہیں رہتا، وہ گھروں، اسکولوں، گلیوں، کتابوں اور والدین کے رویّوں سے زندہ رہتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مشاعروں کی روشنی زبان کے رسمِ خط کو بھی منور کرے تو ہمیں اپنی بنیادوں کو ازسرنو مضبوط کرنا ہوگا۔


اس کے لیے سب سے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے۔ بچوں سے زیادہ والدین کو شعور دینے کی ضرورت ہے کہ زبان وراثت ہوتی ہے، اور وراثت کو بچانا فرض ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کو موبائل سے نہیں، کتاب سے جوڑنا ہوگا۔ انہیں چاہیے کہ وہ روزانہ کم از کم چند منٹ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اردو میں گفتگو کریں، انہیں کہانی سنائیں، اُن سے چھوٹے چھوٹے جملے لکھوائیں، انہیں سکھائیں کہ لفظوں کا حسن ان کے رسمِ خط میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اگر والدین اپنی تربیت میں یہ معمول شامل کر لیں تو اگلی نسل خودبخود زبان کی محافظ بن جائے گی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ زبان صرف قواعد کا نام نہیں، یہ تہذیب، کردار، شناخت اور شعور کا مجموعہ ہے۔ جو قوم اپنی زبان کا احترام چھوڑ دیتی ہے، وہ دھیرے دھیرے اپنی شناخت کھو دیتی ہے۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ زبان کو صرف محبت سے نہیں، محنت سے بھی بچایا جاتا ہے۔ محفلیں، تقریبات، مشاعرے، ترنم سب اپنی جگہ ضروری ہیں، مگر اصل رسائی تب ہوتی ہے جب رسمِ خط دل اور ذہن دونوں کو روشن کرے۔ اگر ہم نے اسی بے حسی، اسی غفلت اور اسی دکھاوے کو جاری رہنے دیا تو آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ وہ ہم سے پوچھے گی کہ تم نے زبان ہمیں کیسی حالت میں دی؟ کیا تم نے صرف تالیوں کے زور پر تہذیب کو زندہ سمجھ لیا؟


وقت آ گیا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اس خطرے کو محسوس کریں۔ اردو کے مشاعروں کی چمک اچھی ہے، مگر زبان کی بنیادیں اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔ اگر ہم نے اپنے گھروں میں، اپنی تربیت میں، اپنے روزمرّہ طرزِ عمل میں زبان کو اہمیت نہ دی تو رسمِ خط تاریخ کا حصہ بن جائے گا اور آواز بازار کا حصہ۔ یہ فیصلہ ہمیں آج کرنا ہے کہ ہم اپنی زبان کو بازار کا حصہ بنانا چاہتے ہیں یا تہذیب کا۔

یہ لمحہ واقعی لمحۂ فکریہ ہے۔ اور اگر ہم آج بھی نہ جاگے تو کل کی نسل کو یہ تک معلوم نہیں ہوگا کہ "محبت" کی اصل شکل کیا تھی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے