Ticker

6/recent/ticker-posts

تعلیمات نبویﷺ میں حکمت و نفسیات کی رعایت | سیرت نبوی اور تعلیمات رسول

تعلیمات نبویﷺ میں حکمت و نفسیات کی رعایت

(۱)
مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
سیرت نگاروں اور مفسرین و محدثین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت مبارکہ میں نفسیات کی رعایت، اس پہلو کو بہت کم نمایاں کیا ہے ۔ لیکن انہوں نے بعض ایسے پہلوؤں کی جانب اشارہ کیا ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات ارشاد فرمائی، اور جو عمل کیا اس کے پیچھے کیا نفسیات اورحکمت تھی،مخاطبین کے ذھن میں کیا خیالات و تصورات تھے جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی، نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ اور دعوت میں مخاطب کے ذہن ذوق و مزاج کو ذہن میں رکھنے کی خاطر کیا کیا چیزیں پیش نظر رکھیں ،کن باتوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال رکھا ۔ نفسیات سیرت پر آج بھی مستقل الگ سے کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گزری ہے ،البتہ نفسیات سیرت پر بعض لوگوں نے مضامین لکھے ہیں جو مختلف مجلوں اور سیرت نمبروں میں شامل ہوئے ہیں ۔ حال میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نفسیاتی پہلو پر پڑوس ملک کے ایک اسکالر نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے ۔

سیرت نبوی اور تعلیمات رسول

آج کے پیغام میں ہم سیرت نبوی اور تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حکمت و نفسیات کی رعایت اس پہلو پر گفتگو کریں اور نبوی واقعات سے حکمت و نفسیات کے پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کریں گے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت و تبلیغ میں لوگوں کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے تدریج کی حکمت اپناتے تھے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی ایک بنیادی خصوصیت ہے بخاری شریف کی روایت ہے بی بی اماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احکام دئے وہ تدریج کے ساتھ دئے اگر پہلے دن یہ کہا جاتا کہ فلاں کام نہ کرو اور فلاں فلاں کام بھی نہ کرو تو شاید لوگ اتنی آسانی سے تیار نہ ہوتے ۔ پرانی عادتوں اور رسوم و رواج کو اچانک تبدیل کردینا زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔ آہستہ آہستہ اور تدریج کے ساتھ آنے والی تبدیلی زیادہ دیر پا ہوتی ہے اور زیادہ گہری بھی ہوتی ہے ۔ یہ خود نفسیات کا ایک نکتہ ہے کہ لوگوں کے مزاج ،لوگوں کی عادات رسم و رواج اور خصائل کو اچانک تبدیل کرنا بڑا دشوار ہوتا ہے ۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ماضی سے یکدم اور قطعیت کے ساتھ قطع تعلق کر لیتے ہیں بیشتر لوگ ماضی سے اچانک لا تعلق نہیں ہوپاتے ۔

حضور کی سیرت | سیرت رسول اور ہمارا معاشرہ

بعض اوقات ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفین کی مخالفت اور ان کی شدت کم کرنے کے لئے ان کے مزاج اور نفسیات کا لحاظ رکھا اور ایسے اقدامات فرمائے کہ مخالفین کی شدت و مخالفت میں کمی آجائے ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کرلی اور اس کے بعد ابو سفیان کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں نہیں آئے۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا من دخل دار ابی سفیان فھو آمن جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا وہ بھی امن سے رہے گا ۔ یہ بھی ایک حکمت عملی تھی کہ مکہ کے سردار کے گھر کو امن کا گھر قرار دینے سے عام لوگ بہت گہرا اثر لیں گے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مسلمانوں اور دعوت اسلامی کے لئے ناگزیر تھا کہ ایسا کیا جائے اور کہا جائے۔

علم سیرت | سیرت النبی پر بیان

بعض اوقات ایسا ہوا کہ کسی اقدام یا فیصلہ سے خطرہ ہوتا تھا ، کہ اس کا رد عمل نامناسب یا غیر مفید ہوسکتا ہے ۔ اس کے لئے بڑے تحمل کے کے ساتھ لوگوں کے مزاج کے مطابق فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہے تھے تو آپ کا پروگرام مکہ مکرمہ کو پرامن طور پر قبضہ میں لینا تھا اور فوجی کارروائی کرنا مقصد نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ہدایت دی تھی کہ جب تک کفار مکہ کی طرف سے مزاحمت نہ ہو تلوار نہ اٹھائی جائے ۔ایک موقع پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے تلوار اٹھائی تو اس کے بارے میں آپ نے سخت برہمی اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ۔ جب مسلمان مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے اور قبضہ کا عمل مکمل نہیں ہوا تھا تو قبیلئہ خزرج کے سردار اور اسلامی فوج کے ایک اہم دستہ کے سربراہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے، جو قبیلہ انصار میں بہت محترم تھے اور بلند مقام کے حامل تھے وہ اتنے بڑے سردار تھے اور اتنے بڑے انسان تھے کہ انصار نے خلافت نبوت کے لئے ان کا نام پیش کیا تھا۔

سیرت النبی کی اہمیت قرآن کی روشنی میں

انہوں نے مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت کسی موقع پر زور بیان میں کہہ دیا کہ الیوم یوم الملحمة الیوم تستحل الحرمة ۔ یعنی آج کا دن جنگ کا دن ہے اور آج ساری حرمتیں ختم ہوجائیں گی اور ہر قسم کی حرمت کو حلال قرار دیا جائے گا ۔ اب خطرہ تھا کہ اگر اسلامی فوج کے لوگ اس جنگی جذبہ سے مکہ مکرمہ داخل ہوں اور ہتھیار استعمال کریں تو پتہ نہیں کہ کیا صورت حال پیدا ہو ۔ کسی نے آپ کو اطلاع دی کہ سعد بن عبادہ یہ کہہ رہے ہیں ۔ اب سعد بن عبادہ کو اس موقع پر کمان سے سبکدوش کرنا حکمت عملی کے خلاف تھا کیونکہ عین میدان جنگ میں کمان تبدیل کرنا مناسب نہیں تھا ۔ پھر سعد بن عبادہ جیسے بڑے آدمی کو جو مزاجا بھی بہت حساس تھے اور طبیعت کے ذرا تیز تھے حمیت و غیرت بھی کچھ زیادہ تھی ،ان کو ہٹانا مناسب نہیں تھا۔ لیکن ان کو ہٹائے بغیر چارہ بھی نہیں تھا ۔اس صورت حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا کہ سعد بن عبادہ سے علم لے کر ان کے بیٹے کے حق میں دے دو۔ظاہر ہے کوئی باپ اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانے پر کیسے ناراض ہو سکتا ہے۔ کوئی قبیلہ اس پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا، کہ ان کے سردار کے بیٹے ہی کے ہاتھ میں کمان دی گئی تھی ۔یہ ایک غیر معمولی لطیف اقدام تھا ،اس سے مقصد بھی حاصل ہوگیا اور کسی منفی رد عمل کے امکانات کا بھی خاتمہ ہوگیا ۔

سیرت النبی پر واقعہ، سیرت النبی عربی

سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح کے اور بھی کئی واقعات ہیں جس سے اس طرح کی رہنمائی ملتی ہے ۔
(مستفاد محاضرات سیرت ص: ۱۰۰/ ۱۰۱ از ڈاکٹر محمود احمد غازی )
حکمت وسلیقہ ایک عجیب عمل ہے اس سے مخاطب کے دل میں رغبت پیداہوتی ہے اور قبولیت کی فضا ساز گار ہوتی ہے ، نبی کریم ﷺ مخاطب کی نفسیات کاخاص خیال رکھتے تھے ۔ اور ہر ایک کی تربیت ان کے مزاج کوسامنے رکھ کر فرمایا کرتے تھے ، طبرانی کی روایت ہے کہ قریش کاایک نوجوان جوحیوانیت کے جذبات سے مغلوب تھا آں حضرت ؐ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے زنا کی اجازت مرحمت فرمادیجئے ۔ اس کا کہناتھا کہ حاضرین اس پر لپکے اور اس گستاخی پراس کو خوب ڈانٹا ڈپتا ، آپ ؐ نے یہ دیکھا تو فرمایا۔ اس سے تعرض نہ کرو، اس کو اپنے قریب بلاکر پوچھا :’’اتحبہ لأمّک ‘ ‘ کیاتم اسے اپنی ماں کے لئے پسند کروگے ؟ اس نے جواب دیا بخدا ایسانہیں ہوسکتا اس پر آپ ؐ نے فرمایا ، توکیا چاہوگے کہ تمہاری بیٹی کے ساتھ کوئی شخص یہ سلوک روا رکھے ؟ اس نے جواب دیا جی نہیں میں اسے ہرگزپسند نہیں کرتا۔ اس طرح آپ ؐ نے اس کے دیگر رشتے دا رخواتین کا ایک ایک کرکے ذکر کیا اور پوچھا کیاتم پسند کروگے کہ ان سے یہ معاملہ روا رکھاجائے ، تو اس نے ہرسوال کے جواب میں یہی رویہ اختیار کیااور کہاہرگز نہیں ۔ اس کے بعد آپؐ نے اس کی مغفرت کی دعا فرمادی ۔ روایت میں آتا ہے کہ تفہیم و تعلیم کے اس انداز سے یہ اس درجہ متأثر ہواکہ اس کے بعد یہ ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا اور پھرکبھی گناہ کی طرف ملتفت (متوجہ ) نہ ہوا ۔

ہرشخص کی ذہنی سطح اور مدارج عقلی میں اختلاف پایا جاتاہے ، آں حضرت ؐ کاقاعدہ تھا کہ آپ ؐ دعوت وتبلیغ اور وعظ وارشاد کے سلسلہ میں ہرشخص کی ذھنی سطح اور اس کے مدارج عقلی کاپورا خیال رکھتے تھے ،شہری لوگوں سے ان کے انداز و معیار کے مطابق گفتگو فرماتے تھے ، اور بدوی سے اس کی ذھنیت کے مطابق بات کرتے ، اس کی بہترین مثال حضرت ابو ھریرہؓ کی روایت میں ملے گی جس میں بنی فزارہ کے شخص کاذکر کیا گیاہے جو بدوی تھا، ان کا کہنا ہے کہ یہ شخص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہامیرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جو سیاہ رنگ کاہے ، میں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ کیونکہ ہم میاں بیوی میں کوئی سیاہ رنگ کانہیں ہے ، آں حضرت ؐ نے اس کی سمجھ اور پیشے کے مطابق جواب مرحمت فرمایا۔

اس سے پوچھا : ھل لک من ا بلٍ کیاتمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے کہا ’’جی ہاں ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’وہ کس رنگ کے ہیں؟‘‘ اس نے کہا’’سرخ رنگ کے ‘‘ آپ نے اس پر سوال کیاان میں کوئی اور ق یعنی خاکستر ی رنگ کا یاکم سیاہ رنگ کاکوئی اونٹ بھی ہے ؟ اسن نے کہا ،ہاں ،ہے آں حضرت ﷺ نے فرمایا اب تم ہی بتاؤ کہ سرخ رنگ کے اونٹوں میں یہ سیاہی کیسے آگئی ۔ اس شخص نے اس کے جواب میں کہا ممکن ہے اس کے نسب میں کوئی اونٹ خاکستری یا سیاہ رنگ کا ہو اور اس کی جھلک ہو جب بات یہاں تک پہونچی تو آپﷺ نے یہ کہہ کراس کے شبہے کو دور کردیا ۔ و ھذا عسی ان یکون نزعة عرق کہ یہاں بھی معاملہ ایسا ہوسکتا ہے کہ یہاں بھی نسب کر کرشمہ کار فرما ہو اور اس میں تمہاری بیوی کا کوئی قصور نہ ہو ۔

ناشر / مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی دگھی گڈا جھارکھنڈ


تعلیماتِ نبویﷺ میں حکمت و نفسیات کی رعایت

(۲)
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
نفسیات سیرت اور اجتماعیات سیرت کا، اگر نیک عمل کے لئے اور اصلاح کی نیت اور جذبہ سے صحیح طور پر مطالعہ کیا جائے اور اس کا صحیح تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو ہمارے بہت سے آپسی مسائل ۔ دوریاں اور کشاکش اور کشمکش حل ہوسکتے ہیں لیکن افسوس کہ نہ ہم قرآن مجید کو تدبر اور اصلاح کی نیت سے پڑھتے ہیں اور نہ ہی احادیث اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس ناحیہ سے مطالعہ کرتے ہیں ۔ ہم قرآن و حدیث کو صرف اپنے مستدل اور نظریہ کو مضبوط کرنے کے لئے پڑھتے ہیں ۔ پہلے سے ایک رائے اور نظریہ قائم کر لیتے ہیں اور پھر اس رائے اور نظریے کے دلائل ڈھونڈنے کے لئے قرآن و سنت کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم قرآن و سنت کا مطالعہ سلف کی تفسیر و تشریح کی روشنی میں کرتے اور پھر اس کی روشنی میں حالات کا تجزیہ کرتے اور امت کے لئے اس سے عطر کشید کرتے، اس کی خوشبو سے فضا اور ماحول کو معطر کردیتے اور پھر ایمان کی ایسی باد بہاری چلتی کہ انسانیت جھوم اٹھتی توحید کے نغمے ہر جگہ گنگنائے جاتے اور شریعت کے رنگ میں رنگ کر لوگ صبغة اللہ و من احسن من اللہ صبغة کی عملی تصویر بن جاتے ۔
نفسیات سیرت کے حوالے سے کل اس جانب اشارہ کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مزاج و مذاق اور ان کی ذھنیت اور نزاکت و نفسیات کا دعوت و تبلیغ میں کس قدر خیال رکھتے تھے اس سلسلے میں متعدد مثالیں اوپر کی تحریر میں آچکی ہیں نفسیات سیرت کے حوالےسے چند اور نمونے ہم اپنے قارئین کی پیش کرتے ہیں۔

انسان کی فطرت ہے کہ بعض اوقات کسی چیز کے ساتھ ان کی اتنی گہری وابستگی ہوجاتی ہے کہ اگر اس کو چھورنے پر تیار ہو تو تب بھی اس کا امکان اور خطرہ رہتا ہے کہ اس کو پورے طور پر نہ چھورا جاسکے۔ اس کےساتھ کچھ ایسی یادیں وابستہ ہوتی ہیں کہ یہ امکان اور خطرہ بدستور موجود ہوتا ہے کہ پھر وہ چیز لوگوں میں دوبارہ آجائے اور وہ اس کے دوبارہ عادی ہو جائیں۔ اس بارے میں عربوں کی شراب نوشی کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے جو ان میں عام تھی۔ نوے فیصد عرب اس کے عادی تھے اور اس پر فخر کرتے تھے اور اس کو سخاوت کی تمہید اور ذریعہ، سمجھتے تھے۔ عرب شاعری تو اس کے تذکرے سے بھری پڑی ہے اوراس کو عرب معیوب نہیں سمجھتے تھے جب اسلام نے شراب کو حرام قرار دیا تو اس میں تدریج کی حکمت اور اس انسانی نفسیات کا بھی خیال رکھا گیا۔ تدریجی مرحلہ کی رعایت کے ساتھ آپ سلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ایسی چیزوں کی بھی ممانعت فرمادی جو دراصل اسلام میں حرام نہیں تھیں ۔ لیکن اس کے ساتھ شراب و کباب اور جام و صبو ومینا کی یادیں، وابستہ تھیں۔ عرب میں شراب بنانے کے مختلف طریقے تھے۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ بڑا سا کدو لے کر اس کو خشک کر دیتے تھے۔ اس میں کھجور اور انگور کا رس لٹکا دیا جاتا تھا۔ وہ رات ہوا لگتے رہنے سے تھنڈا بھی ہوجاتا تھا خمیر بھی پیدا ہو جاتا تھا اور اس طرح شراب بھی بن جاتی۔ تھی۔ کدو شراب میں محفوظ رکھی جاتی تھی۔ حدیث میں اتا ہے بخاری اورمسلم دونوں میں یہ رویت ہے کہ ایک قبیلہ جو شراب نوشی میں بڑا نمایاں تھا۔ اسکو آپ نے بعض خاص ہدایات بھی دیں ۔ باقی کسی قبیلہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا۔ صرف خاص قبیلہ کے لیے فرمایا کہ تم کو فلان فلاں باتوں کا حکم دیتا ہوں۔ فلاح فلاں چیزوں سے روکتا اور منع کرتا ہوں، و انھاکم عن الحنتم ،و النقیر و المزفت و الدبا ء یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں ان چار قسم برتنوں سے منع فرمایا ۔ یہ چاروں برتن یا چیزیں وہی تھیں جو شراب بنانے میں کام آتی تھیں ۔ اس کے بعد جب شراب کی عادت ختم ہوگئی اور عرب سے یہ رواج مٹ گیا پھر اس کی ممانعت کی بھی ضرورت نہیں رہی اور یہ ممانعت ختم کردی گئی ۔

نفسیات کے ماہرین نے لکھا ہے کہ اصلاح کا ایک طریقہ تھوڑے وقفہ کے لئے بے توجھی بھی ہے ۔اگر کوئ شخص کوئی غلطی بار بار کر رہا ہے یا کوئی طالب علم سے بار بار غلطی سرزد ہو تو استاد و مربی اور ایک داعی کو چاہیے کہ کچھ دنوں کے لئے اس سے بے تعلقی بھی و بے توجھی کرے تاکہ ایسے شخص کو ماحول میں اجنبت کا احساس ہو اور بعید نہیں یہ قدم اس کی اصلاح کے لئے بڑا مفید اور موثر ثابت ہو جائے ۔ اس کی بنیاد اور اصل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتی ہے کہ حضرت کعب بن مالک و حضرت لبابہ اور مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ آپ نے یہی طریقہ اختیار فرمایا تھا خود بھی ان سے بظاہر بے توجھی کرتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی چند دنوں ان سے قطع تعلق کا حکم دیا ۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کے لئے ایک عبرت خیز واقعہ بن گئی بلکہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہ ایک زبردست تازیانہ ثابت ہوا ۔ در اصل مقاطعہ اور کسی انسان کو اس کے ماحول سے کاٹ دینا اصلاح کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہے ۔ تاہم اس کے لئے بہت احتیاط اور لوگوں کی نفسیات کے مطالعہ کی ضرورت ہے ۔ ہر ایک کے لئے ایسی تدبیر مناسب بھی نہیں ہے ۔

کبھی کبھی مصلحتا اگر سامنے والے کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہوجائے اور حاکم وقت اور خلیفۂ زمانہ کے سامنے آنے سے باکل ڈر رہا ہو اور اس پر شدید گھبراہٹ ہو تو ایسے مجرم کو کبھی بغیر سزا کے بھی نظر انداز کردینا چاہیے اور اس کی غلطی سے ناواقف اور انجان بن جانا چاہیے مدارس میں اساتذہ اور نگراں کو بھی اس اصول کو کبھی کبھی اپنانا چاہیے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نشہ کی حالت میں پکڑا گیا لوگوں نے اس کو پکڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لانے لگے ۔ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے مکان کے پاس لوگ پہنچے تو ان کا نشہ اتر گیا اور مارے شرم کے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے چمٹ گئے اور کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے لئے تیار نہیں ہوئے ۔ آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے ان کو کوئی سزا نہیں دی اور نہ خود اپنے سامنے بلایا ۔ یہ غلطی کو نظر انداز کرنے کی ایک مثال ہے ۔

انسان کے فطری مزاج کو بدلنا بہت دشوار ہوتا ہے بلکہ یہ ایک ناممکن سی بات ہے لیکن اس کے رخ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اگر کسی انسان کے بارے میں یہ محسوس کیا جائے کہ اس کے اندر اپنے حریف کو زیر کرنے کی خواہش ہر وقت انگڑائی لیتی ہے تو یہ نتیجہ نکالا جانا چاہیے کہ اس کے اندر مسابقت اور نمایاں رہنے کا جذبہ ہے ۔ عہدہ اور منصب دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور امت کے لئے اس سے کام لینے کی کوشش کی جانی چاہئے تاکہ اس کے نفس کی تسکین بھی ہوسکے ۔ اور اس کے خود کو نمایاں کرنے کا جذبہ ایک صحیح رخ اختیار کرلے ۔ اگر اس مزاج اور عادت کے لوگوں کو عہدہ اور منصب اور ذمہ داری دے کر ان کے رخ کو نہ پھیرا جائے تو ایسا شخص پورے ماحول کے لئے مضر ثابت ہوتا ہے ۔ اسی چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیارکم فی الجاہلیہ خیارکم فی الاسلام ( بخاری شریف کتاب التفسیر)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مزاج کی درشتی اسلام کے بعد بھی باقی رہی ،مگر پہلے اس کا استعمال اظہار شجاعت و مردانگی کے لئے تھا اور اب وہ فاروقیت کا نشان بن گئی رضی اللہ عنہ۔
ناشر / مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی دگھی گڈا جھارکھنڈ

تعلیمات نبویﷺ میں حکمت و نفسیات کی رعایت

= ۳ =
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تجزیاتی مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نئے نئے اسلام لانے والوں سے شروع شروع میں دین سے ان کی ناواقفیت کی وجہ سے حد درجہ نرمی،شفقت اور رعایت کا معاملہ کرتے تھے ،پہلے ہی دن سے بہت زیادہ احکام اور مسائل سے ان کو بوجھل نہیں کرتے تھے اور لاعلمی میں خلاف شرع کوئی بات ہوجاتی تو معافی اور درگزر کا معاملہ فرماتے تھے ۔

اصلاح و تربیت کے لئے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ داعی، استاد اور مربی مدعو اور طالب کو خود سے پہلے مانوس کرے کہ ان کو استاد اور داعی سے ایک روحانی محبت اور پاکیزہ وارفتگی پیدا ہوجائے ،ایک مخصوص مدت میں جب تک ان کو اپنے سے مانوس نہ کرلیا جائے ،ان پر سختی کرنا قبل از وقت ہوگا ۔ پیغمبر اسلام کی حیات طیبہ میں ہم کو یہ حکمت اور نفسیات واضح طور پر ملتی ہیں، مثلا ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی سخت مذمت فرمائی جو مسجد میں تھوکیں یا کسی گمشدہ چیز کا اعلان کریں، دوسری طرف ہمیں یہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ ایک دیہاتی اور بدوی صحابی نے جب مسجد نبوی میں پیشاب کرنا شروع کر دیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو مسجد سے نکالنا چاہا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا اور جب وہ پیشاب کرچکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانی سے دھلوایا اور نہایت نرمی سے ان کی فہمائش کی ،کہ مسجد صرف عبادت کی جگہ ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کے اس طرز عمل کا یہ فرق اس پر مبنی تھا ،یہ نو مسلم تھے ابھی اسلام سے کما حقہ مانوس نہیں تھے اور وہ تہدید ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے تھی جو پہلے سے اسلام قبول کرچکے تھے۔

دعوت و تبلیغ میں مخاطب کی نفسیات اور انسانی مزاج کا تقاضا یہ بھی کہ ان کو ان کی زبان اور لہجے میں براہ راست دعوت دی جائے، اور کلموا الناس علی قدر عقولھم کے ضابطہ کو سامنے رکھا جائے ، اس سے مخاطب کو بات سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور تسکین قلب کا بھی یہ ذریعہ ہوتا ہے بعض لوگوں اور قوموں کو اپنی زبان سے محبت تعصب کی حد تک ہوتی ہے وہاں یہ فارمولہ بہت مناسب ہوگا ۔ بنگالی لوگوں کے بارے میں خود ہمارے دوست نے بتایا کہ بنگالی لوگ زبان کے معاملہ میں بہت متحمس اور غیرت مند واقع ہوئے ہیں ۔ زبان کے معاملہ میں وہ اتنے متشدد ہیں کہ اگر کوئی مسلمان اردو بولنے والا ہے اور پڑوس میں کوئی ہندو بنگلہ زبان والا ہے تو اس کو اس ہندو بنگالی سے زیادہ انسیت رہتی ہے ۔ خدا کرے یہ معلومات غلط ہوں ۔ کسی دوسری زبان خواہ وہ علاقائی زبان ہی کیوں نہ ہو اس کا سیکھنا مقرر و داعی کے لئے اور اہل سیاست کے لئے مفید و موثر ہوتا ہے ،آج سے تقریبا چودہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے لوک سبھا الیکشن میں بلاری سیٹ (کرناٹک) سے سونیا گاندھی کے خلاف شسما سوراج مقابلہ میں کھڑی ہوئی تھی اور اس خاتون نے پندرہ دن کے اندر کنڑ زبان سیکھ کر اس کی زبان میں سبھا کو سنبھودت کیا تھا جس کا خوب چرچہ رہا یہ الگ بات ہے کہ وہ کانگریس کے قد آور اور چئیر پرسن لیڈر کے سامنے شکست کھا گئی ۔

جو مقرر اپنی تقریروں میں علاقائی اور ٹھیٹی زبان کا بھی سہارا لیتے ہیں عوام اس کی تقریر بہت شوق اور دلچسپی سے سنتی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کبھی کبھی قبائلی لہجہ کی رعایت کرتے ہوئے ان کے لہجہ میں گفتگو فرمایا کرتے تھے ۔ عرب میں ایک قبیلہ تھا جس کے لوگ لام کی آواز نہیں نکال پاتے تھے لام کی جگہ میم استعمال کرتے تھے ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قبیلہ کے لوگوں سے مخاطب ہوئے تو آپ نے ان کے لہجہ میں گفتگو کرتے ہوئے یہ جملہ بھی ادا کیا لیس من امبر امصیام فی امصفر جب کہ صحیح اور درست جملہ یہ ہے ۔ لیس من البر الصیام فی السفر۔۔۔۔

بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خدشہ ہوتا تھا کہ کسی صحابی یا کسی اور کے دل میں کسی طرف سے کسی بھی قسم کی کوئی بدگمانی پیدا نہ ہو ۔ اس سلسلہ میں ہم ایک مثال حدیث سے پیش کرتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں اعتکاف فرما تھے ۔ اعتکاف کے دوران ازواج سے تعلق یا میل جول اعتکاف کے مسائل اور قواعد کے خلاف ہے ۔ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا کسی غرض سے ۔ کھانا دینے یا کوئی کپڑا دینے کے لیے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد نبوی میں آئیں ۔ اب عشاء کے بعد رات کا وقت تھا ۔ جب وہ واپس جانے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازے میں کھڑے ہوگئے تاکہ وہ بے خوف جاسکیں اور تنہائی کی وجہ سے کوئی جھجھک محسوس نہ کریں ۔ ابھی وہ مسجد سے نکلی نہیں تھیں کہ دو انصاری صحابہ کرام مسجد کی گلی کے نکڑ سے گزر رہے تھے ۔ وہ حضور کو رات کے اندھیرے میں اس طرح دیکھ کر ٹھٹکے ۔ آپ نے ان دونوں کو آواز دی کہ ادھر آو ۔ وہ دونوں آگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انما ھی صفیة بنت حیی بنت اخطب یعنی یہ کوئی غیر خاتون نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہمارے دل میں کوئی بدگمانی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ الا ان الشیطان یجری من الانسان مجری الدم شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ۔ ہوسکتا ہے وہ تمہارے دل میں یہ بدگمانی ڈال کر کہ رات کے وقت یہ کون خاتون ہے جو اعتکاف کے موقع پر تنہا میرے پاس آئی ہے ۔ اس لئے میں نے یہ وضاحت ضروری سمجھی اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ انسانی نفس میں طرح طرح کی بدگمانیاں اور خیالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ان کو دور کرنا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔ انسان کو شک اور شبہ کی جگہ سے بچنا چاہیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ شک اور تمہت کی جگہ سے بچو اور چوکنا رہو ۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تعلیم دی اور پوری امت کو بھی یہ ہدایت دی کہ جب مریض کی عیادت کو جاؤ تو امید افزا اور شفا و تسلی کے کلمات کہو، ناامیدی ،گھبراہٹ اور جزع و فزع والے کلمات نہ کہو کہ مریض ناامیدی ،خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہوجائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت اور مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے تو علیک سلیک کے بعد سب سے پہلا دعایہ جملہ جو آپ کی زبان سے نکلتا وہ یہ ہوتا ، لا باس طہور ان شاءاللہ
گھبرانے کی کوئی بات نہیں،ان شاء اللہ شفاء ہوگی۔
اس سے مریض کو فورا تسلی ہو جاتی اور خوف و گھبراہٹ اور ناامیدی کی کیفیت ختم ہو جاتی ، اسی لیے اسلام طبیب اور تیماردار کو مکلف بناتا ہے کہ وہ مریض کے سامنے اس دعائیہ جملہ کو پڑھے اور مریض کو حوصلہ افزا کلمات کہے تاکہ نفسیاتی طور پر مریض کو پرامید رکھے ۔ طبی میدان میں نفسیاتی علاج بھی مریض کا ایک کارگر علاج ہے اور یہ بہت موثر علاج ہے ۔ اس کی بہت سی مثالیں اور نمونے طب کی کتابوں میں موجود ہیں ۔
ناشر/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، دگھی،گڈا، جھارکھنڈ

تعلیمات نبوی ﷺ میں حکمت و نفسیات کی رعایت

(۵)
محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
یہ حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات اور آپ کے اقوال و افعال ہمہ پہلو خیر و برکت کی حامل ہیں ،اسوئہ حسنہ میں جو رہنمائی موجود ہے،وہ انسانوں کو ان جملہ امراض اور بیماریوں سے نجات دلانے کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہیں ۔ انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو خوشگوار اور پر مسرت بنانے میں آپ کی سیرت ،آپ کا اسوہ ،آپ کا اخلاق و کردار اور آپ کی لائف بہترین نمونہ اور آئیڈیل ہے ۔

جسم و روح کی شفا بخشی کے لیے مفید کامیاب اور موثر طریقہ علاج ہے ،جسم کی صحت و توانائی ،روح کی بالیدگی اور پاکیزگی اور ذہن کی طہارت و لطافت ،ارادوں اور نیتوں کی اصلاح اور کردار کی عظمت و بلندی، اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لازمی ثمرات ہیں ،آپ کی تعلیمات اور ارشادات عالیہ پر عمل پیرا ہونے میں جسمانی ،روحانی فوائد کے علاؤہ نفسیاتی شفا بخشی کی تاثیر موجود ہے ۔ ماہرین نفسیات نے جو بھی نفسیاتی علاج کے طریقے اختیار کیے ہیں وہ تمام کے تمام بلکہ اس سے کہیں زیادہ رہنمائی فرمودات نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں ۔اگر ماہرین نفسیات سیرت النبی کا مطالعہ کریں تو انکو نفسیاتی علاج کے لیے وافر روشنی حاصل ہوسکتی ہے ، اوپر کی تحریروں میں ہم نے سیرت رسول سے نفسیات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلکیاں اور نمونے پیش کیے تھے ، یہاں چند اور نمونے آپ کے اقوال و افعال اور کردار و عمل کی روشنی میں پیش کرنے کی جسارت کریں گے ۔

انسان کی عادت اور فطرت ہے کہ جب وہ سماج میں کسی سے رنگ ،نسل، خاندان عہدہ ،منصب،حیثیت ،رتبہ اور مال و دولت میں پیچھے ہوتا ہے تو احساس کمتری اور کہتری کا شکار ہوجاتاہے، وہ اپنے کو حقیر ،معمولی اور بے حیثیت سمجھنے لگتا ہے ،بہت سے لوگ اس کڑھن میں ڈپریشن کے شکار ہوجاتے ہیں ۔۔ ایسے لوگ اندر ہی اندر محسوس کرتے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ میں تو محروم ہوں ، بد نصیب ہوں میں سماج میں سب سے پیچھے ہوں وغیرہ وغیرہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نفسیاتی مریضوں کا علاج اپنے حکیمانہ ارشاد سے فرمایا اور یہ باور کرایا کہ کسی گورے کو کسی کالے پر ،اور کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری ،بلندی اور تفوق حاصل نہیں ہے ، بڑائی ،فضیلت اور برتری کی بنیاد صرف اور صرف تقوی ہے ، تقوی ہی کے ذریعہ کوئی کسی پر فضیلت اور برتری حاصل کرسکتا ہے ۔۔۔حدیث ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں واضح کردیا کہ کوئ شخص احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو کہ وہ کسی سے کمتر ہے ،رنگ و نسل ،خاندان ،حسب و نسب اور قبیلہ و برادری کی وجہ سے کسی دوسرے پر تمیز نہیں رکھتا ،صرف برتری کا معیار کردار و تقویٰ ہے ، تقویٰ اور عمل صالح کے ذریعہ جو شخص جتنا چاہے اللہ سے قربت اور تقرب حاصل کرے اور اللہ کا محبوب بندہ بن جائے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احساس کمتری اور کہتری میں مبتلا لوگوں کا علاج کیا ان کو حوصلہ دیا اور اس مرض سے نکلنے کا راستہ بتایا۔
لیکن افسوس کہ امت کا ایک بڑا طبقہ اس مرض میں مبتلا اور اس بیماری کا شکار ہے ۔ بہت سے باصلاحیت اور انتہائی قابل اور لائق فائق افراد کو کہتے ہوئے سنا ، ارے ہم کیا کرسکتے ہیں ، ہماری یہ صلاحیت کس کام کی ، ہم کیا دین کی خدمت کرسکتے ہیں ، ہمارا نا تو خاندانی بائی گراؤند ہے اور نہ ہی ہم اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، ہماری قسمت میں تو ماتحتی لکھی ہے ہم کیا کردار نبھا سکتے ہیں ، یہ کام تو اعلی خاندان اور جن کا بائی گراؤند ہو وہ کرسکتے ہیں ۔۔ایسے ذہنی مریضوں کا علاج بھی وقت کی ضرورت ہے کہ ان مریضوں کا یہ مرض متعدی ہوتےجا رہا ہے ۔ جس سے دوسرے بھی بیمار ہورہے ہیں اور ان کے حوصلے پست ہورہے ہیں اور وہ بھی احساس کمتری اور کہتری کا شکار ہورہے ہیں ۔
ایسے مریضوں کو بتایا جائے کہ اسلام نے علو نسبی کی نفی یہ کہہ کر کردی کہ ، یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثی الخ
اے لوگو ۔ ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تہمارے درمیان خاندان اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو جان سکو ایک دوسرے سے تعارف ہو سکے ۔۔تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بلند اور رتبہ والا وہ ہے جو متقی یعنی اللہ سے ڈرنے والا، خوف خدا رکھنے والا،اور اس کا لحاظ کرنے والا ہے ۔ ۔۔سورہ حجرات
ماہرین تربیت نے اصلاح کا ایک طریقہ یہ بتایا ہے کہ جب کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو تو سب سے پہلے موعظت اور تذکیر سے کام لینا چاہیے اور انفرادی طور پر تنہائی میں محبت سے سمجھانا چاہیے،انفرادی نصیحت اکثر اوقات انسان پر اثر انداز ہوتی ہے، اسی لئے اسلام کی دعوت و اشاعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی دعوت کو زیادہ اہمیت دی اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی افرادی سازی کی خاموشی سے محنت کرتے رہے۔

نصح و موعظت سے کام نہ چلے تو اس کے بعد ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا جائے، اس لیے انبیاء کرام کو بشیر کیساتھ نذیر بھی بنایا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول درجہ میں بشارت سے کام لینے کا حکم دیا اور دوسرے درجہ میں ڈرانے کا، ہمیشہ نرم گفتگو بدطنیت لوگوں کو اور شوخ بنا دیتی ہے اور ان کے حوصلے کو بڑھاتی ہے۔

تاہم ڈانٹ ڈپٹ میں بھی دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ایک یہ کہ بددعا وغیرہ کے الفاظ نہ ہوں جس کی وجہ سے مخاطب داعی و مبلغ اور استاد و مدرس کو بدخواہ تصور کرنے لگے۔ حدیث میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ آپ کو بہت ہنسایا کرتے تھے، لوگ مزاحاً ان کو حمار یعنی گدھا کہا کرتے تھے، ان سے ایک بار شراب نوشی کی غلطی سرزد ہوگئی، لوگ ان کو شرم و عار دلانے لگے، اسی دوران ایک صاحب نے کہہ دیا کہ تم پر اللہ کی لعنت ہو اور کسی نے کہہ دیا خدا تم کو رسوا کرے، حضور ﷺ نے اس فقرہ کو پسند نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ایسی بات کہہ کر تم شیطان کی مدد نہ کرو، جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ خدا اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہے۔( بخاری شریف کتاب الحدود)

ڈانٹ ڈپٹ میں بھی مخاطب کے لیے درد مندی اور نصح و خیر خواہی کا جذبہ ہو، اسی لیے انبیاء کرام کو قرآن نے مخوف نہیں کہا بلکہ نذیر کہا، نذیر ایسے ڈرانے والے کو کہتے ہیں جو دوسرے کو بے عزت اور خوف زدہ کرنے کے لیے نہیں ڈرائے، بلکہ ترس اور درد کے ساتھ ڈرائے، جس میں شفقت اور ہمدردی کا جذبہ اور پہلو پنہاں ہو۔
اصلاح اور تربیت کا ایک طریقہ تھوڑے وقفہ کے لیے بے توجھی اور بے رخی و بے اعتنائی بھی ہے ، اگر طلبہ ایک ہی غلطی کو بار بار کرتے ہوں تو ایسے موقع پر مربی اور استاد کو چاہیے کہ اس کی طرف کچھ دنوں تک توجہ کرنا چھوڑ دے اور اس کے ہم جماعت طلبہ کو بھی کچھ دنوں کے لیے بے تعلق کردے تو اس طرح وہ اپنے ماحول میں بالکل اجنبی بن کر رہ جائے گا اور یہ قدم اس کی اصلاح کے لیے بڑا موثر ہوگا، سماجی بائیکاٹ کی بعض صورتیں بھی اپنانے کی اجازت اس شکل میں مل سکتی ہے، مجرم کو احساس دلانے کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہم کو اس کی اصل اور نظیر ملتی ہے کہ حضرت کعب بن مالک رض و حضرت لبابہ رض اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنھم ہیں کہ جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار فرمایا ہے اور خود بھی ان سے بظاہر بے توجھی کرتے اور صحابہ کرام کو بھی چند دنوں ان سے قطع تعلق کا حکم دیا۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ ان کے لیے ایک عبرت خیز واقعہ بن گئی بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی یہ ایک زبردست تازیانہ ثابت ہوا۔ در اصل مقاطعہ اور کسی انسان کو اس کے ماحول سے کاٹ دینا اصلاح کے لیے ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔ تاہم اس کے لیے مخاطب کی نفسیات کے مطالعہ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کام اور اقدام بہت نازک ہے ۔
ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی دگھی گڈا جھارکھنڈ۔

تعلیماتِ نبوی ﷺ میں حکمت و نفسیات کی رعایت | حضور اکرم کی نفسیات شناسی اور اس سے استفادہ

(۶)
محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ، نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ
حضور اکرم ﷺ کی نفسیات شناسی اور اس سے استفادہ کی درجنوں بلکہ سیکڑوں مثالیں احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں، ہم یہاں چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔
 حضور اکرم ﷺ نے طائف سے واپسی میں مقام جعرانہ میں مال غنیمت تقسیم فرمایا اس موقع پر قریش والوں کو تالیف قلب کے طور پر کچھ زیادہ حصہ ملا، قریش کو اسلام لائے ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے وہ اسلام کی پہلی جنگ میں شریک ہوئے تھے، آپ نے اس تقسیم میں جان بوجھ کر کچھ تاخیر کی، مقصد یہ تھا کہ ہوازن کا وفد تائب ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آجائے اور اس نے جو کچھ کھویا ہے، سب لے جائے۔ لیکن تاخیر کے باوجود جب آپ کے پاس کوئی نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی تقسیم شروع کردی تاکہ قبائل کے سردار اور مکہ کے اشراف جو بڑی حرص سے جھانک رہے تھے، ان کی زبان خاموش ہوجائے۔ مولفت قلوب کی قسمت نے سب سے پہلے یاوری کی اور انہیں بڑے بڑے حصے دئیے گئے۔ ابو سفیان بن حرب کو چالیس اوقیہ کچھ کم چھ کلو چاندی اور ایک سو اونٹ عطا کئے گئے۔ انہوں نے کہا، میرے بیٹے یزید؟ آپ نے اتنا ہی یزید کو بھی دیا۔ انہوں نے کہا اور میرا بیٹا معاویہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا ہی معاویہ رض کو بھی دیا۔ حکیم بن حزام کو ایک سو اونٹ دیے گئے، انہوں نے مزید سو اونٹوں کا سوال کیا، تو انہیں پھر سو اونٹ دئیے گئے۔ اسی طرح صفوان بن امیہ کو سو اونٹ پھر سو اونٹ اور پھرسو اونٹ، اسی طرح کچھ کم و بیش نئے ایمان والوں کو یہ غنیمت دی گئی۔ انصار کے نوجوانوں نے یہ دیکھا تو ان کو تھوڑا ملال ہوا اور آپس میں جو باتیں کیں اس کا ایک ٹکڑا روایتوں میں موجود ہے۔

یغفر اللہ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعطی قریشا و یدعنا و سیوفنا تقطر من دمائھم۔۔بخاری و مسلم۔
خدا تعالٰی حضور ﷺ کی مغفرت فرمائے وہ قریش والوں کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز فرما رہے ہیں، حالانکہ ان کا خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے۔
یہ بات حضورﷺ تک پہنچ گئی، فوج کا بدل ہونا، کسی بھی نظام حکومت کے لیے بڑا خطرناک ہوتا ہے اور پھر فوجی دماغ بھی کچھ خاص سانچوں میں ڈھلا ہوتا ہے، اگر فوج سے بددلی کو فورا دور اور رفع نہ کیا جائے تو اس کی وفا داری متاثر ہوسکتی ہے ، یہ انتہائی تشویشناک صورت حال اور تکلیف دہ و مشکل مرحلہ ہوتا ہے، فوجی قوانین بھی کچھ الگ ہوتے ہیں، مگر حضورﷺ نے نہ کورٹ مارشل کیا نہ کریک ڈاؤن کیا اور نہ ہی کسی پر فرد جرم عائد کیا، آپ نے انصار کے معزز افراد سے فرمایا کہ سارے انصار کو ایک خیمہ میں جمع کرو، کوئی دوسرا اس میں شریک نہ ہو کچھ مہاجر آئے تو آپ نے ان کو واپس کردیا، جب سارے لوگ جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو مختصر اور انتہائی جامع و پر اثر تقریر کی اور جس نے ماحول کو یکسر بدل دیا اور ساری بدگمانی ختم ہوگئی، اس تقریر کے اس اقتباس کو سنیئے تاریخ انسانی میں اس زیادہ موثر تقریر اور پر اثر خطاب کی کوئی مثال اور کوئی نمونہ موجود نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اما ترضون ان یذھب الناس بالاموال و ترجعون الی رحالکم برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
اے انصاریو! بتاو کیا تم کو اس پر خوشی نہیں ہوگی کہ لوگ دنیاوی مال و متاع لے کر گھروں کو جائیں اور تم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کو لے کر اپنے گھروں کو لوٹو۔۔ مشکوۃ۔

جی چاہ رہا ہے کہ پوری تقریر اور خطاب نقل کردوں، لیکن طوالت کے خوف سے صرف خطاب معجزہ کا ترجمہ پیش کررہا ہوں، لیکن ترجمہ میں اصل کی روح اور روانی نہیں آسکتی۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا۔۔۔
انصار کے لوگو! تمہاری یہ کیا چہ میگوئی ہے ،جو میرے علم میں آئی ہے؟ اور یہ کیا ناراضگی ہے جو جی ہی جی میں تم نے مجھ پر محسوس کی ہے؟ کیا ایسا نہیں کہ میں تمہارے پاس اس حالت میں آیا کہ تم لوگ گمراہ تھے، اللہ نے تمہیں ہدایت دی اور محتاج تھے اللہ نے تمہیں غنی بنا دیا۔ اور باہم دشمن تھے، اللہ نے تمہارے دل جوڑ دئے؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا بڑا فضل و کرم ہے۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا،، انصار کے لوگو! مجھے کیوں جواب نہیں دیتے؟ انصار نے عرض کیا یا رسول اللہ! بھلا ہم آپ کو کیا جواب دیں؟ اللہ اور اس کے رسول کا فضل و کرم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،، دیکھو! خدا کی قسم اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو۔ اور سچ ہی کہو گے اور تمہاری بات سچ ہی مانی جائے گی، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ کو جھٹلایا گیا تھا، ہم نے آپ کی تصدیق کی، آپ کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تھا، ہم نے آپ کی مدد کی، آپ کو دھتکارا گیا تھا ہم نے آپ کو ٹھکانہ دیا، آپ محتاج تھے، ہم نے آپ کی غمخواری و غمگساری کی۔
اے انصار کے لوگو! تم اپنے جی میں دنیا کی اس عارضی دولت کے لیے ناراض ہوگئے جس کے ذریعہ میں نے لوگوں کا دل جوڑا تھا تا کہ وہ مسلمان ہوجائیں اور تم کو تمہارے اسلام کے حوالے کر دیا تھا؟ اے انصار کے لوگو! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور تم رسول ﷺ کو اپنے گھروں میں لے کر واپس ہو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اگر سارے لوگ ایک راہ پر چلیں اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں بھی انصار کی ہی راہ چلوں گا۔ اے اللہ رحم فرما انصار پر اور ان کے بیٹوں پر اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں یعنی پوتوں پر۔

اس پر اثر اور معجزاتی نیز حکمت و نفسانیت کی رعایت سے بھرپور تقریر اور خطاب معجز نے انصار کی آنکھوں سے پردے اٹھا دئے لوگ جوش مسرت سے چیخ پڑے اور ہر طرف سے آواز آنے لگی یا رسول قد رضینا یا رسول اللہ قد رضینا۔ ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول ﷺ ہوں۔ (مستفاد الرحیق المختوم ۶۰۴)
آنحضرتﷺ انصار کی والہانہ محبت وفاداری اور جانثاری کے جذبات سے واقف تھے اور مخلصانہ عقیدت و محبت میں اپنے محبوب کے لیے انسان اپنی ساری کائنات تج کرسکتا ہے، حضور ﷺ کے ان دو بول اور جملے نے اسی جذبئہ محبت کو بیدار کر دیا، نتیجہ سامنے آگیا، یہاں حکمت و نفسیات،کے ساتھ ادب کی جلوہ گری نے بھی اپنا کام کیا اور یہ ایک ادیب کے کمال فن کا سب سے بڑا ثبوت اور کمال ہوتا ہے کہ وہ الفاظ سے سوئے جذبات کو بیدار کردے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوامع الکلم کی دولت سے خدا تعالٰی نے دنیا میں سب سے زیادہ مالا مال کیا تھا۔
نوٹ باقی کل کے پیغام میں۔۔۔۔۔ جاری۔۔۔۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے