Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت نبوی انسانیت کے لیے مشعل راہ

سیرت نبوی انسانیت کے لیے مشعل راہ


مجاہد عالم ندوی


از قلم : مجاہد عالم ندوی
صدر مدرس : مدرسہ مریم لتعلیم البنات تین کھمبا بیلا ارریہ بہار
رابطہ : 8429816993

انسانی دنیا میں ویسے تو لاکھوں کروڑوں اربوں کھربوں انسان پیدا ہوئے اور گزر گئے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جو اپنے علم وفن میں نمایاں کارنامے انجام دیئے اور تاریخ انہی لوگوں سے بنتی ہیں اور صدیوں تک اُن کے نام و کارنامے یاد کیے جاتے رہتے ہیں تو اِس طرح وہ حضرات لوگوں کے دلوں میں زندہ و باقی رہتے ہیں اور لوگ انہی کارآمد شخصیات کے نام و کارناموں کو اپنے سینوں میں بھی محفوظ رکھتے ہیں اور اپنی زندگی کے لیے ایک نمونہ و آئیڈیل بنا کر اُن کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایسی ہزاروں لاکھوں شخصیات دنیائے انسانیت کی تاریخ میں گزری ہیں کہ جن کی زندگی کے آئینہ میں بعد کے لوگ اپنے آپ کو سنوارنے و بنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اُس علم وفن میں اپنے لیے ایک آئیڈیل و نمونہ تسلیم کرتے ہیں کہ جن میں شاہانِ عالم، فاتحینِ عالم، سپہ سالاران، حکماء، اطباء، فلاسفر، شعراء، امراء، قانون ساز، سائنٹس و انجینئرس وغیرہ ہیں، لیکن ان میں سے کسی کی عملی زندگی ان کے متعلقہ علم وفن کے علاوہ دنیا کی پیدائش کا مقصد، انسانی فلاح و بہبود کس میں ہے، حسنِ معاشرت و حسنِ اخلاق مرنے کے بعد کیا ہوگا وغیرہ میں سے کسی کا درس، ان کی زندگیوں میں سے کسی کی حیات میں نہیں ملتا کہ جن کو لائقِ تقلید و نمونہ بنائیں ہاں! شاہانِ عالم و فاتحینِ ممالک اپنی بادشاہت و کامیابی کے خوب جلوے دکھائے، پر شکوہ محلات و دربار سجائے اور اپنی بادشاہت و وجاہت کے دنیا پر خوب رعب و دبدبے جمائے، لیکن انسانوں کو اوہام پرستی و خیالاتِ فاسدہ کی قید و بند سے نہ چھڑا سکے اور نہ ان کو روحانی بیماری و ناامیدی کے دلدل سے نکال کر روحانی صحت و امید کی صاف ستھری زمین پر لاکھڑا کر سکے، اسی طرح فوج کے سپہ سالاران، ملکوں و خزانوں اور انسانی جسموں کو تو فتح کرنے کے خوب کارنامے انجام دیئے اور رہتی دنیا تک تاریخِ انسانی میں اپنا نام سنہری حرفوں سے لکھوا لیے، لیکن روح کے سکون و اخلاقی اقدار کو فتح کرنے کے کارنامے انجام نہ دے سکے، اسی طرح اطباء، حکماء و فلاسفر بھی اِس دنیا میں گزرے ہیں جو اپنے فن و فلسفہ اخلاق سے تو مرتے ہوئے کو بچالیے اور اپنی کمالِ عقلی سے نظامِ عالم کے نقشے کو بدل دیئے اور عجائباتِ عالم کے حیرت انگیز کارنامے، نظیریں وپیشین گوئیاں دنیا کے سامنے پیش کئے اور علمِ اخلاق کے وہ فلسفیانہ اسرار و رموز دنیائے انسانیت کے سامنے رکھ دیئے کہ دنیا اُن کو سن کر حیران و ششدر رہ گئی، لیکن وہ اپنے علمِ طب و فلسفہ سے روحانی بیماریوں کی دواؤں کے نسخے ترتیب نہ دے سکے اور نہ عملی مثال و نمونہ پیش کرسکے، جس کی وجہ سے فلاسفہ کے وہ اخلاقی نظریات اور ان کے اسرار و رموز، نظریات وگفت و شنید ہی کی حد تک رہ گئے، اُس سے آگے بڑھ نہ سکے اس لیے کہ اُن میں سے کسی نے اُن نظریات کی ترجمانی کرنے والی کوئی عملی شخصیت بطورِ نمونہ عام انسانوں کے سامنے پیش نہیں کی کہ جس کو دیکھ کر لوگ فلسفیانہ اخلاقی اقدار اپنا سکیں، اس لیے کہ انسانی زندگی میں اخلاقی اقدار صرف کانوں سے سن سن کر منتقل نہیں ہوتے، بلکہ کانوں سے سننے کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے کسی کو اُس پر عمل کرتا دیکھ دیکھ کر منتقل ہوتے ہیں، جس طرح اِن اطباء، حکماء اور فلاسفر کی زندگیاں انسانی فلاح و بہبود کا کوئی عملی نمونہ پیش نہ کرسکیں اس طرح شعراء و امراء، اور قانون ساز کی زندگیاں بھی فلاحِ دارین کا کوئی نمونہ پیش نہ کرسکیں، جہاں تک شعراء کا تعلق ہے گو وہ خیالی دنیا کے شہنشاہ ضرور ہیں جو زمین و آسمانوں کے خلاؤں کو ملانے پر قدرت رکھتے ہیں، بلکہ خیالی دنیا میں تو ناممکن کو بھی ممکن بنا دیتے ہیں، لیکن عملی زندگی میں پوری انسانیت کو سامنے رکھ کر کوئی کامیاب و کامران زندگی پیش نہ کرسکے کہ جس پر چل کر ایک عام آدمی دارین کی کامیاب زندگی کو پالے۔

اِسی طرح ایک طرف امراء اور دولت مندوں کی داستانیں ہیں جو ہم کو مال و دولت کمانے کے راز ہائے سربستہ تو بتاتی ہیں لیکن اُس صحیح زندگی کے گر کا پتہ نہیں بتا سکتیں جو دارین کی کامیاب زندگی کی ضامن ہو اور دوسری طرف قانون سازوں کے قانون اور اُن کی عملی زندگیاں ہیں یہ بھی انسانی فلاح و کامیابی کی ضمانت نہیں دیتیں اس لیے کہ جو قانون وضع کیے گئے ہیں وہ صرف اِس دنیا کی حیات ہی کی حد تک محدود ہیں وہ بھی ناقص جو آئے دن بدلتے رہتے ہیں، بلکہ وہ قوانین تو حکمران کی خوشنودی حاصل کرنے اور حکومت کی بقا و استحکام کے لیے وضع کیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر حکمران اپنے دورِ حکومت میں اپنی مرضی و پسند کے قوانین وضع کرواتا ہے اور سابقہ حکمرانوں کے قوانین کو حرفِ غلط کی طرح کاٹ دیتا ہے آج بھی اِس مہذب دور میں بھی یہی صورتِ حال قائم ہے کہ آئے دن آئین ساز کمیٹی قوانین بناتی ہیں جو اپنے ہر اجلاس میں آج جو بناتی ہیں کل اس کو ختم کر دیتی ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ حاکم کے حکومت کے دن کسی طرح بڑھائے جائیں اور اس کو مستحکم کیا جائے اور اس طرح اپنی روزی روٹی پکی ہوتی رہے۔

اسی طرح سائنسدان و انجینئرس اپنی تاریخی زندگی سے تو ستاروں و سیاروں سے لیے ذرات تک کی تحقیقات انسانیت کے سامنے رکھ دیئے اور اس کائنات کے پوشیدہ خزانوں کو کھول کر دکھاتے رہے اور انجینئرس اپنے فن کا جادو جگائے اور ایسی عالی شان فلک بوس عمارتیں اور محلات تعمیر کیے اور ان میں وہ کُن فَیَکُوْنِ شان والے آلات استعمال کیے کہ جن کو استعمال کرنے والے شخص میں بھی خدائی کے جلوہ کا احساس ہو، لیکن ان کے یہ کارنامے حقیقی خدا و جنت کی خدائی کا احساس نہ دلا سکے۔

اِن میں سے ہر ایک کی عملی زندگی اُن کے اپنے علم و فن کی حد تک تو لائقِ تقلید ہو سکتی ہے، لیکن اِن میں سے کسی کی عملی زندگی نہ اچھائیوں کے اقدار بتا سکی اور نہ برائیوں کے حدود و سرحدیں قائم کرسکی، نہ انسانیت کو اوہام پرستی و خیالاتِ فاسدہ کے دلدل سے نکال سکی اور نہ برادرانہ باہمی تعلقات کی گھتی سلجھا سکی کہ جس سے انسان کی معاشرت درست ہو اور وہ روحانی مایوسیوں و ناامیدیوں کا علاج کر سکے اور دلوں کی ناپاکی و زنگ کو دور کر سکے اور نہ اچھے اخلاق و اعمال کی کوئی عملی تصویر پیش کرسکے کہ جس سے نسلِ انسانی سے روحانی و اُخروی مشکلات دُور ہوں اور دلوں کی بستی میں امن و امان قائم ہو، بادشاہوں نے تو ظاھری ملک کے نظم و نسق کو تو درست کرلیا، لیکن روحوں کی مملکت اور دلوں کی دنیا کا نظم و نسق درست نہ کرسکے یہ کام اِن حضرات سے اس لیے بھی نہ ہوسکا کہ یہ اِن کا موضوع نہ تھا اور نہ وہ لوگ یہ کام کرسکتے تھے، اس لیے کہ اس کام کے لیے اللّٰہ تعالٰی نے پہلے ہی سے جماعتِ انبیاء علیہم السلام کا انتخاب فرما لیا تھا۔

الغرض دنیائے انسانیت کی تاریخ میں کتنی ہی نامور شخصیات ایسی گزری ہیں جو اپنے علم و عقل کے زور سے اپنے اپنے زمانہ میں علم و فن کے امام و شہنشاہ کہلائے اُن تمام کی قدرِ مشترک کوششوں و کاوشوں ہی سے انسان بتدریج اِس مادی دنیا کے خواص جان کر دیگر مخلوقات کے بالمقابل عمدہ معاشرت، صحیح تمدن، اعلٰی مقاصد کی تکمیل اور ساری مخلوقات پر اپنے وجود کو برتر و بالا ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا، اِس لیے ہم اُن تمام اہلِ علم و فن کے ممنون و مشکور ہیں کہ جنھوں نے اپنی انتھک کوششوں و جدوجہد سے انسان کی اِس دنیاوی زندگی کی کٹھن، دشوار گزار، پر پیج و سنگ ریز راہ کو انتہائی سہل و آرام دہ بنا دیا جس کے نتیجہ میں آج ایک عام آدمی قابلِ فخر زندگی گزار رہا ہے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے