Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت رسول (ص) میں اپنوں، کمزوروں اور ماتحتوں کے حقوق

سیرت رسول (ص) میں اپنوں، کمزوروں اور ماتحتوں کے حقوق

(3)

ع — کوئی آیا نہ مگر رحمت عالم بن کر

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ، نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ

دنیا میں جس مذہب نے اپنوں، غیروں، کمزوروں، ضعیفوں اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ سب سے زیادہ حسن سلوک کا حکم دیا، وہ مذہب اسلام ہے۔ یہ مذہب تو قیدیوں، جاسوسوں اور مخالفوں تک کو بھی عزت و احترام سے نوازتا ہے۔ غلاموں اور خادموں کو بھی عزت دینے، پیار کرنے اور ان کے ساتھ بھر پور رعایت کی تعلیم دیتا ہے، اسلام کا بین الاقوامی خارجہ پالیسی اور سفارتی ڈپلومیسی پوری دنیا کے لئے ایک آئیڈیل اور نمونہ ہے۔ کاش ہم لوگ عالمی سطح پر اس کو پھیلانے اور لوگوں تک اس کو پہنچانے کی کوشش کئے ہوتے۔

ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ جو یمامہ کے گورنر اور سردار تھے، اسلام لانے سے پہلے وہ اسلام اور مسلمانوں کے کٹر دشمن تھے، لیکن جب وہ ایک موقع پر مسلمانوں کے قبضہ اور پکڑ میں آگئے اور ان کو صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم نے مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا اور ان پر آپ کی نظر پڑی، تو آپ نے گرہ ڈھیلی کرنے اور رسی کو ہلکا باندھنے کا حکم فرمایا اور ان کے خورد و نوش کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انتظام فرمایا۔ ثمامہ بن اثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کو دیکھ کر نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے، اور اس سے پہلے وہ اسلام کے کٹر دشمن تھے، اب وہ اسلام کے سب سے بڑے حامی، موئید اور حمایتی بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کیساتھ ہمیشہ اچھا برتاؤ کیا اور اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا، ان کو قید میں رکھا جائے، لیکن ان کیساتھ غیر انسانی سلوک نہ کیا جائے، بنو قریضہ کے قیدیوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، انہیں خوش اسلوبی اور حسن سلوک سے قید کرو، انہیں آرام کا موقع دو، کھلاؤ، پلاؤاور فرمایا تلوار اور اس دن کی گرمی دونوں کو یکجا مت کرو۔ جن دنوں بنو قریظہ کے قیدیوں کو قید کیا گیا تھا وہ گرمی کے ایام تھے، تپش زیادہ تھی، اس لیے آپ نے دھوپ سے بچنے اور قیلولہ کرنے کے لئے موقع فراہم کرنے کی تاکید کی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں قیدیوں کے متعلق بھی پوری تعلیم ہے، ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جانا جیسا کہ آج دنیا کر رہی ہے بالکل روا نہیں ہے۔ اور نہ ہی غیر انسانی سلوک یعنی ان کا مثلہ کرنا درست ہے۔ تاریخ طبری میں ہے، ، اسیران بدر میں ایک شخص سہیل بن عمرو تھا، جو نہایت فصیح اللسان تھا اور عام مجموں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول! اس کے دو نیچے کے دانت اکھڑوا دیجئے کہ پھر اچھا نہ بول سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں اس کے عضو بگاڑوں گا تو گو نبی ہوں لیکن خدا اس کی جزا میں میرے اعضاء بھی بگاڑ دے گا۔ (سیرت النبی از علامہ شبلی نعمانی 1/ 193)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں توہین آمیز کلمات کہنا یقینا بڑا جرم ہے، لیکن اس کے باوجود آپ نے ان کے دانت اکھاڑنے کی رائے قبول نہیں کی، اس لیے کہ یہ عمل غیر انسانی اور رحم و کرم کے خلاف ہے۔

اسلام نے نہ صرف غلاموں کے ساتھ نرمی برتنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی، بلکہ ان کو آزاد کرانے کی ایسی ترغیب دی، کہ آج دنیا سے غلام اور غلامی کا خاتمہ ہوگیا۔

اسلام سے پہلے غلاموں اور خادموں کے ساتھ جو سلوک اور رویہ تھا وہ نہایت ہی شرمناک اور ظالمانہ تھا، اس معاشرہ میں غلاموں کو جانور سے بھی زیادہ حقیراور بدتر سمجھا جاتا تھا اور عزت کے ساتھ جینے کا انہیں کوئی حق حاصل نہ تھا، ان کی عزت نفس کو بالکل کچل دیا گیا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں دنیا کے تمام طبقات کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی، وہیں آپ نے غلاموں خادموں اور قیدیوں کے ساتھ خاص طور پر رعایت برتنے کی تاکید کی اور ان کو ان کا جائز حق دلایا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کے پاس کوئی غلام ہو تو اس کو چاہیے جو خود کھائے وہی اس کو کہلائے، اور جو خود پہنے وہی اس کو پہنائے۔ (متفق علیہ)

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ۰۰ جان لو ابو مسعود ! میں نے غصہ کی وجہ سے آواز پر توجہ نہیں دی، لیکن جب وہ آواز مجھ سے قریب ہوئی تو میں آواز پہچان گیا۔ وہ آواز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔ اور آپ فرما رہے تھے: جان لو اے ابو مسعود ! میں نے آپ کو دیکھتے ہی کوڑا زمین پر پھینک دیا۔ آپ نے فرمایا :

اعلم یا ابا مسعود ! ان اللہ تبارک و تعالٰی اقدر علیک منک ھذا الغلام

جان لو اے ابو مسعود ! اللہ تعالی تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا کہ تم اس غلام پر قادر ہو۔

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج کے بعد میں کبھی بھی غلام کو نہیں ماروں گا۔ بلکہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ابو مسعود نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! یہ اب اللہ کے لئے آزاد ہے۔ آپ نے فرمایا اگر ایسا نہیں کرتے تو تم کو آگ چھو لیتی ( مسلم )

ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی غلام کو مارا تو اس کا کفارہ اس کی آزادی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کمزوروں ضعیفوں اور ماتحتوں کی مدد کی، غلاموں کو آزاد کیا۔ خادموں سے انصاف کیا۔ اور ان کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑا۔

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا موقع ملا لیکن خدا کی قسم نہ کبھی آپ نے مجھ سے یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا، اور نہ کبھی میرے کسی کام کے نہیں کرنے پر یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا ؟

بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا کہ آپ کا حال یہ تھا کہ آپ اپنے خادموں سے پوچھا کرتے تھے الک حاجة ؟ کیا تم کو کوئی ضرورت تو نہیں؟
 
آج ضرورت ہے کہ اسلام کی ان پاکیزہ تعلیمات کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیارے اسوے کو اپنایا جائے اس کو پھیلایا جائے۔ اس سے لوگوں کو واقف کرایا جائے۔ فرد کی سطح پر اور حکومت کی سطح پر اور سفارتی تعلقات کی سطح پر اس کو برتا جائے۔ آج دنیا کو اسی تعلیم کی ضرورت ہے جس تعلیم کو آپ نے پوری دنیا میں عام کیا تھا اور جس اخلاق اور اقدار کو پھیلانے کے لئے آپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ خاص طور پر اسلامی ممالک کو خارجہ پالیسی میں دور نبوی اور دور خلفائے راشدین کے نمونے اور مثالوں کو اپنے لئے نمونہ بنانا چاہئے۔

ناشر / مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 6393915491

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے