Ticker

6/recent/ticker-posts

حیات قطب الہند حضرت منورویؒ | Hayat Qutb-ul-Hind Hazrat Munawwar

حیات قطب الہند حضرت منورویؒ

مولانا اختر امام عادل قاسمی، فقہ وفتاویٰ اور تاریخ وتحقیق کے حوالہ سے ہندوستان کا ایک بڑا نام ہے، اہل علم ان کی فقہی بصیرت اور تاریخ وتحقیق کے میدان میں ان کی حکمرانی کے قائل ہیں، اس حوالہ سے ان کی کتابیں حیات ابو المحاسن ؒ ، حقوق انسانی کا اسلامی تصور، فقیہ عصر میر کارواں، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اپنے فقہی نظریات وخدمات کے آئینے میں ، منصب صحابہ، تذکرہ حضرت آہ مظفر پوری، تذکرہ ابو المحاسن ، موجودہ عہد زوال میں مسلمانوں کے لیے اسلامی ہدایات، غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کے مسائل ، مقام محمود، امتیازات سیرت طیبہ ، قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز خاص طور سے قابل ذکر ہیں، مولانا کی ایک اور کتاب قطب الہند حضرت منوری ؒ ، ابھی حال ہی طبع ہو کر آئی ہے ، یہ دو جلدوں میں دس سوپچاس صفحات پر مشتمل ہے ۔ دائرۃ المعارف الربانیہ جامعہ ربانی منورا شریف سے چھپی ، یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کے سر ورق پر تعارف کراتے ہوئے اسے ’’قطب الہند حضرت مولانا الحاج حکیم سید احمد حسن منوروی کی مکمل سوانح حیات اور مختلف سلاسل تصوف کی تاریخ وخصوصیات، وابستہ شخصیات اور مسائل ومصطلحات پر ایک جامع تحقیقی ودستاویزی مرقع ‘‘ قرار دیا گیا ہے، بات صحیح ہے، یہ کتاب معلومات کا خزینہ اور تحقیق کا بحر مواج ہے۔ اس میں جدید اصول تحقیق کی پوری رعایت کی گئی ہے ، لیکن غیر ضروری ابواب اور مطبوعہ کتابوں کو اس کتاب کا حصہ بنا کر خواہ مخواہ بوجھل کیا گیا ہے، مطبوعہ کتابوں سلاسل تصوف اور مندرجات حواشی کو الگ رکھا جاتا تو اس کتاب کی جامعیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، خوگر حمد کا یہ گلہ صاحب کتاب سے اس لیے ہے کہ جب ہم کسی کتاب میں ہر طرح کی معلومات جمع کرنے پرآتے ہیں تو کتاب ضخیم ہو جاتی ہے ، لیکن موضوع پر قارئین کی گرفت کمزور ہوجاتی ہے اور مرکزی موضوع جس پر اصلا پوری توجہ مبذول رہنی چاہیے، ذہن سے نکل جاتا ہے۔ اسی لیے اہل علم کے یہاں یہ طریقہ مفقود ہے ، یوں بھی ضخیم کتاب پڑھنے کے لیے لوگوں کے پاس نہ تو وقت ہے اور نہ ہی قوت خرید ، اس لیے جن موضوعات کا تعلق جزوی ہو ، اسے کتاب کا جز بنا نا مفید نہیں ہوتا، اسے الگ سے کتابی شکل دینا زیادہ اہم ہے، تاکہ جب قاری اسے پڑھے تو پوری توجہ موضوع پر ہی مرکوز رہے۔ مولانا محترم نے معلومات کے جمع کرنے اور انسائیکلو پیڈیا بنانے کا سلسلہ تذکرہ حضرت مولانا عبد الشکور آہ سے شروع کیا تھا، حیات ابو المحاسن میں اسے باقی رکھا اور حیات قطب الہند میں یہ پورے عروج پر ہے ۔

 مولانا سے دوسرا شکوہ یہ بھی ہے کہ وہ جس محنت سے کتاب لکھتے ہیں، مطالعہ میں راتوں کی نیند حرام کرتے ہیں، اتنی نگرانی کمپوزنگ اور طباعت کی نہیں کرتے، اس لیے وہ ظاہری طور پر آنکھوں کو سرور نہیں بخشتیں، سادگی کا بھی اپنا ایک حسن ہوتا ہے، لیکن اس حسن کو نگاہوں میں بسانے کے لیے خوش سلیقگی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سیٹنگ پر مزید توجہ کی ضرورت تھی ، کاغذ بھی ہلکا دیا گیا ہے، اتنی اہم کتاب کی طباعت اچھے کاغذ پر ہونی چاہیے تھی ، کتاب کے سر ورق اور اندر میں جو پتہ دیا گیا ہے وہ بھی ناقص ہے، منوروا شریف ابھی اس قدر شہرت پذیر نہیں ہوا ہے کہ بغیر ضلع کے ذکر کے بھی لوگوں کا ذہن وہاں تک منتقل ہو سکے۔

کتاب کا آغاز حضرت امیر شریعت سابع مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒکے ایک خط سے ہوتا ہے، پھر مولانا کے والد بزرگوار مولانا سید محفوظ الرحمن قادری چشتی نقشبندی کے کلمات بابرکات ہیں، تین تقریظ علی الترتیب مولانا سید ارشد مدنی ، مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی مہتمم دار العلوم دیو بند، مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی مہتمم دار العلوم ندوۃ العلمائ، لکھنؤ ، تعارفی تحریف مولانا مفتی عتیق احمد بستوی قاسمی دا رالعلوم ندوۃ العلماء اور حضرت مولانا سید محمد رابع الحسنی ندوی کے مقدمہ کو جگہ دی گئی ہے، یہ سلسلہ صفحہ ۵۵؍ تک پھیلا ہوا ہے، اس کے بعد بہار کی خانقاہوں اور سمستی پور کی تاریخ کے ساتھ وہاں کے چند مشاہیر کے تذکرے اور خدمات کو بھی قلم بند کیا گیا ہے، باب اول میں خاندانی پس منظر، گھریلو ماحول، باب دوم میں ولادت سے تعلیم وتربیت تک کے احوال ذکر کیے گئے ہیں، باب سوم اس کتاب کا سب سے طویل باب ہے، جس میں تعلیم روحانی وتزکیہ نفس کے ساتھ مختلف سلاسل اور اس سے متعلق شخصیات کا مفصل اور طویل تذکرہ کیا گیا ہے، مختلف سلاسل کو الگ کرنے کے لیے سلسلہ کا لفظ استعمال کیا گیا جو سلسلہ نہم پر جا کر ختم ہو تا ہے اور کتاب کے پانچ سو انچاس صفحات تک پھیلا ہوا ہے ۔ باب چہارم: نکاح ، ازواج واولاد، باب پنجم : سفر حرمین شریفین، باب ششم: علمی مقام اور خدمات، باب ہفتم خانقاہی زندگی ۔ باب ہشتم وفات حسرت آیات ، باب نہم آئینۂ حیات، باب دہم بعض اہم مسائل ومصطلحات تصوف ۔ باب یازدہم خلفاء ومجازین ۔ باب دوازدہم تالیفات وتصنیفات پر جا کر یہ کتاب پایہ تکمیل تک پہونچتی ہے۔ حواشی میں مندرج شخصیات نے بھی اچھی خاصی جگہ لے لی ہے، تحقیقی انداز کی وجہ سے ان کی تفصیل لکھی گئی ہے، لیکن مختصر لکھ کر بھی کام چلایا جا سکتا تھا۔

 اکابر علماء میں مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ نے اس کتاب کو پورے خطے اور عہد کی تاریخ اور قیمتی شاہکار قرار دیا ہے۔ مولانا مفتی ابو القاسم صاحب کی نظر میں معتبر ، مستند اور بیش قیمت مرقع ہے، مولانا سعید الرحمن اعظمی کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ کتاب مکمل سوانح اور سلاسل تصوف کا جامع مرقع ہے،مولانا مفتی عتیق احمد بستوی نے اسے ایک شخصیت کی سوانح کے بجائے ایک انسائیکلو پیڈیا لکھا ہے ، مرشد امت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ نے مقدمہ میں لکھا ہے ۔

’’انہوں (مولانا اختر امام عادل) نے بڑی تحقیق، جستجو ، لگن اور جذبہ وفکر کے ساتھ اس کام کو انجام دینے کی فکر وکوشش کی، جس میں حضرت کے احوال وتذکرے کے ساتھ ان سے متعلق سلاسل وشخصیات کا اچھا تعارف بھی آگیا ہے۔ آخر میں حضرت کے خلفاء ومجازین کے احوال کا بھی ذکر ہے، اور شخصیات ومقامات پر اہم حواشی بھی، جس سے کتاب ساڑھے دس سو (۱۰۵۰) صفحات پر مشتمل ایک انسائیکلو پیڈیا بن گئی ہے‘‘۔

نصاب شہادت اسلام میں دو پر ہی مکمل ہوجاتا ہے، یہاں تو نصف درجن یعنی تین نصاب شہادت اکابر علم وفضل اور آسمان علم وادب کے آفتاب وماہتاب کی مطبوعہ شکل میں موجود ہے، ایسے میں اس حقیر کی تعریف وتوصیف کا حاصل ہی کیا نکلے گا ، اتنی بات ضرور ہے کہ مصنف کی تحقیق کی داد نہ دینا بے داد کے زمرے میں آئے گا، کتاب کے مندرجات کو پرکھنے کے لیے جس پایے کے علم کی ضرورت ہے،اس سے یہ ظلوم وجہول خالی ہے۔
 دونوں جلدوں کی قیمت تیرہ سو روپے ہے، قوت خرید ہو تو مفتی ظفیر الدین اکیڈمی جامعہ ربانی منوروا شریف ڈاکخانہ سوہما وایا بتھان ضلع سمستی پور سے حاصل کر سکتے ہیں، قیمت میں کمی بھی ہو سکتی ہے اور مصنف مہربان ہو تو مفت ملنے کے امکان سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے