Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو شاعری، اردو غزل – کس کو غزلیں سنا رہے ہو میاں : احمد وقاص کاشی

اردو شاعری، اردو غزل – مجھ کو مجھ سے ملا رہے ہو میاں، کونسا گل کھلا رہے ہو میاں

تازہ غزل
مجھ کو مجھ سے ملا رہے ہو میاں
کونسا گل کھلا رہے ہو میاں

خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
آنکھ میں کیوں سلا رہے ہو میاں

وہ چھلاوا ہے اور کچھ بھی نہیں
جس کو اپنا بنا رہے ہو میاں

وہ تو محفل سے غیر حاضر ہے
کس کو غزلیں سنا رہے ہو میاں

وہ ٹھکانہ بدل چکا اپنا
کیوں کبوتر اڑا رہے ہو میاں

ہجر اور وصل ایک ساتھ رہیں ؟
تم کنارے ملا رہے ہو میاں

عشق بے جان ہو چکا ہے تو کیوں
کھوٹا سکہ چلا رہے ہو میاں

قفل دل پر لگا ہوا ہے مرے
کس لیے آپ آ رہے ہو میاں

میرا دل رونے والا ہے کاشی
اور تم مسکرا رہے ہو میاں
احمد وقاص کاشی

اردو شاعری، اردو غزل – میں بیچنے لگا ہوں کہانی خرید لو

میں بیچنے لگا ہوں کہانی خرید لو
شہرِ خیال و خواب کی رانی خرید لو

مقتل سے آنے والے پرندوں نے یہ کہا
آلِ نبی کے واسطے پانی خرید لو

پھر کائناتِ عشق بھی مل جائے گی حضور
پہلے تو آپ عشق کے معنی خرید لو

یہ بیجتا ہے لفظ کو ممبر پہ بیٹھ کر
ذاکر سے آپ شعلہ بیانی خرید لو

قیمت گری ہوئی ہے محبت کی ان دنوں
میں کہہ رہا ہوں آپ سے جانی خرید لو

دل کی دکان آج کھلی ہے نصیب سے
یادیں یہاں سے کوئی پرانی خرید لو

ارزاں ہے بے وفائی یہاں پر میرے حضور
اس شہرِ بے وفا کی نشانی خرید لو

کاشی چلا ہے آنکھ سے خوابوں کا کارواں
ایسا کرو یہ نقل مکانی خرید لو
احمد وقاص کاشی

تازہ غزل احباب کے نام

گر تری دینیات ہے دنیا
پھر سمجھنے کی بات ہے دنیا
۔۔۔۔۔۔۔
تم خدا کو تلاش کر لینا
عالم ِ ممکنات ہے دنیا
۔۔۔۔
دن سمجھتے رہے جہاں والے
پر حقیقت میں رات ہے دنیا
۔۔۔۔
آسماں کو برا یہ کہتی ہے
کس قدر واہیات ہے دنیا
۔۔۔۔۔۔
میں نے سوچا ہے اس کے بارے میں
صرف کہنے کی بات ہے دنیا
۔۔۔۔۔۔
اس کا تم اعتبار مت کرنا
جانِ من بے ثبات ہے دنیا
۔۔۔۔۔۔
ہے سہارا جو آسمانوں کا
وہ مسیحا کا ہاتھ ہے دنیا
۔۔۔۔۔
کل کسی اور کا اثاثہ تھی
آج کاشی کے ساتھ ہے دنیا
احمد وقاص کاشی


Urdu Ghazal

جا چکا ہے یا وہ قطار میں ہے
ان دنوں کونسے دیار میں ہے

کرب سے چیختی ہوئی دنیا
آجکل میرے اختیار میں ہے

کچھ نہیں کاروبارِ دنیا میں
فائدہ غم کے کاروبار میں ہے

در فلک کا ہے بند مدت سے
آدمی کس کے انتظار میں ہے

تیری تصویر بن نہیں سکتی
کینوس اب تلک غبار میں ہے

آپ فریاد لے کے جاؤ نا
آسماں اب بھی انتظار میں ہے

کان پتھر کے ہو بھی سکتے ہیں
کرب اتنا مری پکار میں ہے

ہاتھ میں ہاتھ لے کے چلتی ہے
ہاتھ جس کا ہماری ہار میں ہے

خواب دیکھوں میں کس طرح کاشی
نیند بھی خوف کے حصار میں ہے
احمد وقاص کاشی

Urdu Prem

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے