Ticker

6/recent/ticker-posts

دہلی کالج کی ادبی خدمات | دہلی کالج کے قیام کا مقصد | دلّی کالج کا پس منظر

دہلی کالج کی ادبی خدمات | دہلی کالج کے قیام کا مقصد | دلّی کالج کا پس منظر

دہلی کالج نےاردو زبان کی ترقی اور فروغ دینے میں نا کابلِ فراموش خدمات انجام دیے ہیں۔ اردو زبان کی ترقی اور فروغ دینے اور اس کو ایک علمی حیثیت عطا کرنے کے سلسلے میں 19 ویں صدی میں جن اداروں نے اہم علمی وادبی خدمات انجام دیں ان میں کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج اور دہلی کے دلّی کالج کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ان دونوں علمی اداروں کے قیام کا مقصد صرف علم وادب کا فروغ ہی نہیں تھا بلکہ در پردہ سیاسی عوامل تھے یعنی دوسرے لفظوں میں یہ دونوں ادارے اس لئے قائم کئے گئے تھے کہ ہندوستان میں انگریزی راج کو فروغ و استحکام عطا کیا جاۓ۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان سیاسی نو آبادیاتی مقاصد کے باوجود ان دونوں اداروں نے اردو زبان اور علم و ادب کی بڑی گراں مایہ خدمات انجام دیں اور اردو کو فرضی کہانیوں اور داستانوں کی طلسمی فضا سے نکال کر اسے علم و حکمت کی نئی دنیا سے روشناس کیا۔

دلّی کالج اورفورٹ ولیم کالج کے مقاصد صاف جداگانہ تھے

دلّی کالج اورفورٹ ولیم کالج کے مقاصد صاف جداگانہ تھے۔ فورٹ ولیم کالج اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ اس وقت کی انگریزی حکومت اور دیگر طبقے سے تعلق رکھنے والے انگریزوں مثلا تاجروں ، دانشوروں وغیرہ کو ہندوستانی طرز معاشرت اور ہندوستانی زبانوں سے واقف کرایاجاۓ۔ اس کالج میں انگریزوں کوار دواور دیگر ہندوستانی زبانیں پڑھائی جاتی تھیں اور انھیں ہندوستانی سماجی قدروں کے بارے میں بتایا جاتا تھا۔ جبکہ اس کے بر عکس دلی کالج میں ہندوستانیوں کو جدید نوع کی تعلیم دی جاتی تھی اور انھیں جدید رجحانات سے واقف کرایا جاتا تھا۔ اس طرح دونوں کالجوں کے دائرہ کار مختلف تھے۔ فورٹ ولیم کالج میں کہانیوں ، تاریخی و مذہبی کتابوں کے ترجمے ہوتے تھے جبکہ دلی کالج میں ریاضی ، سائنس، علم نجوم ، منطق اور فلسفے سے متعلق کتابوں کے ترجمے کئے جاتے تھے اور اس مقصد کے لئے ور ناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی (Vernacular Translation Society) قائم کی گئی تھی جو کہ دلی کالج کے ماتحت ہی تھی۔

دہلی کالج کا قیام کب ہوا، دہلی کالج کے قیام کا مقصد کیا تھا

دلی کالج کا قیام فورٹ ولیم کالج کے قیام سے ۲۵ سال بعد ۱۸۲۵ء میں عمل میں آیا۔ اس کالج میں تعلیم کا ذریعہ صرف اردو تھی۔ شروع میں اس کی بڑی مخالفت ہوئی لیکن رفتہ رفتہ یہ کالج اردو دانوں کے درمیان مقبول ہوتا چلا گیا اور اس کے ساتھ تعاون کرنے والوں کی ایک کثیر جماعت تیار ہو گئی۔ کالج کے طلبا سے فیس نہیں لی جاتی تھی بلکہ باصلاحیت طلبا کو وضائف سے بھی نوازا جاتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں جدید علوم پر اردو میں کتابیں دستیاب نہیں تھیں اس لئے کتاب کی کمی کو اساتذہ کرام اپنے لکچروں سے پورا کرتے تھے۔

دہلی کالج کی ادبی خدمات اور ورناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی

ورناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام سو سے زیادہ کتابیں تیار ہوئیں جو قانون، سیاست ، ریاضی ، سائنس ، علم ہیئت اور تاریخ کے موضوعات پر تحریر کی گئی تھیں۔ علم قانون کی کتابیں، تاریخ ہند، تاریخ اسلام، تاریخ ایران، تاریخ روم، تاریخ خاندان مغلیہ اور تاریخ کشمیر آج بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف ادبی موضوعات پر بھی بہت ساری کتابیں شائع ہوئیں۔ سوسائٹی کے زیر اہتمام جو کتابیں شائع کی گئیں ان کے موضوعات مختلف رنگوں کے تھے جس کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصے میں بے شمار موضوعات پر اردو زبان میں کتابوں کا ایک بڑاذ خیرہ جمع ہو گیا۔

دلی کالج کی حیثیت علم اور فکر و نظر کا مرکز

دراصل دلی کالج کی حیثیت صرف ایک تعلیم گاہ ہی کی نہیں تھی بلکہ یہ ادارہ علم اور فکر و نظر کا مرکز بھی بن گیا۔ جہاں سے متعدد صوتے پھوٹے اور جنھوں نے ہندوستان کی ادبی ، سیاسی ، سماجی اور اقتصادی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بر پا کر دیا۔ اس کے علاوہ دلی کالج نے شخصیت سازی بھی کی اور ہندوستان کی جدید تہذیب کا نقیب بھی بن گیا۔ اس کالج کے ابتدائی طلبا و اساتذہ میں نذیر احمد دہلوی، محمد حسین آزاد، میر ناصر علی، پنڈت موتی لال دہلوی، ماسٹر رام چندر ، مولوی ذکاءاللہ ، مولوی کریم الدین کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ماسٹر رام چندر نے اسی کالج میں سائنس کے استاد بھی مقرر ہوۓ۔ ریاضی پر کئی کتابیں ان کی تصنیف میں شامل ہیں اور بہت سی کتابوں کا انھوں نے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ اس کالج کے دیگر مشہور شخصیتوں میں ڈپٹی نذیر احمد نے اردو میں ناول نگاری کی بنیاد ڈالی۔ جبکہ محمد حسین آزاد مورخ اور نقاد کی حیثیت سے مشہور ہوۓ۔ مولوی ذکاءاللہ کی دو تصانیف تاریخ ہندوستان اور آئین قیصری بہت مشہور ہوئیں۔

دلّی کالج کے رسائل اور جرائد اور کتابین

دلّی کالج نے مختلف رسائل کی اشاعت کے ذریعہ لوگوں میں اخبار بینی کا ذوق پیدا کیا۔ قرآن السعد فوائد الناظرین، خیر خواہ ہند اور محب ہند نے اردو صحافت اور مضمون نگاری کو فروغ دیا اور لوگوں کے اندر ادبی ذوق پیدا کیا۔ یہ مضامین ہند وستانی عوام کی سیاسی تربیت اور واقفیت کا سبب بھی بنے۔

دلی کالج کی عمر بھی مختصر رہی

فورٹ ولیم کالج کی طرح دلی کالج کی عمر بھی مختصر رہی۔۱۸۵۷ء کے واقعات کا دلی کالج پر براہ راست اثر پڑا۔انتہاں پسندوں کے ایک گروپ نے اس کو نذر آتش کر دیا۔ اس کا کتب خانہ لوٹ لیا اور اس میں آگ لگادی۔ اس طرح لگ بھگ پچاس سال تک علم وادب کی خدمت کرنے والا یہ ادارہ ہمیشہ کے لئے ناپید ہو گیا۔ اگرچہ اس کالج کے منتشر شیر ازے کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی مگر لوگ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ دلی کالج صرف ایک تعلیم گاہ ہی نہیں تھی بلکہ اردو زبان وادب اور علوم جدیدہ کی ترقی کی ایک تحریک بھی تھی۔ خود بابائے اردو ڈاکٹر عبد الحق ان الفاظ میں اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
delhi-college-ki-adbi-khidmat-dehli-college-ke-qayam-ka-maqsad

” ہم اپنی زبان کو اس وقت جس ترقی یافتہ صورت
میں دیکھتے ہیں ، اس پر بلا واسطہ یا بالواسطہ اس تحریک کا اثر ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے